دردِ دل کی تُو وہ دہائی دے

ایم اے راجا

محفلین
بہت دن بعد محفل میں آمد اور ساتھ ہی ایک غزل نما شے برائے تنقید و اصلاح حاضر۔

دردِ دل کی تُو وہ دہائی دے
آسماں تک صدا سنائی دے
ہو عطا آنکھ کو نظر ایسی
پار دیوار کے دکھائی دے
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
عرش تک بھی ہمیں رسائی دے
میں نے مانگا ہے بس سکونِ دل
کب کہا ہے کہ تُو خدائی دے
پتھروں کے بھی دل پگھل جائیں
مجھ کو ایسی غزل سرائی دے
بھول جاؤں تری محبت کو
رب نہ ایسی کبھی جدائی دے
اپنے در کا ہی رکھ مجھے مالک
یو ں نہ در در کی تُو گدائی دے
کرنا ہے کچھ، تو ایسا کر راجا
رہتی دنیا تلک دکھائی دے
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت دن بعد محفل میں آمد اور ساتھ ہی ایک غزل نما شے برائے تنقید و اصلاح حاضر۔

دردِ دل کی تُو وہ دہائی دے
آسماں تک صدا سنائی دے
ہو عطا آنکھ کو نظر ایسی
پار دیوار کے دکھائی دے
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
عرش تک بھی ہمیں رسائی دے
میں نے مانگا ہے بس سکونِ دل
کب کہا ہے کہ تُو خدائی دے
پتھروں کے بھی دل پگھل جائیں
مجھ کو ایسی غزل سرائی دے
بھول جاؤں تری محبت کو
رب نہ ایسی کبھی جدائی دے
اپنے در کا ہی رکھ مجھے مالک
یو ں نہ در در کی تُو گدائی دے
کرنا ہے کچھ، تو ایسا کر راجا
رہتی دنیا تلک دکھائی دے
 
خوبصورت غزل ہے راجا بھائی۔ داد قبول فرمائیے۔
آخری شعر کی غنائیت کو بر قرار رکھنے کے لیے اگر یوں کردیں؟
کرچلیں کام ایسا کچھ راجا
رہتی دنیاء تلک دِکھائی دے
 

طارق شاہ

محفلین
غزل اچھے افکار ، خیال کی حا مل ہے ۔ آہنگ بھی بہت خوب ہے​
کہیں کہیں بستگی خوب ہونے پر بھی خیال کی وضاحت صاف نہیں کر رہی ہے​
اپنا خیال لکھ رہا ہوں، ایک مشورہ یا نقطۂ نظر ہی سمجھ کر دیکھئے گا اسے​
اصلاح تو جو اس قابل ہیں کر ہی دیں گے​
دردِ دل کی تُو وہ دہائی دے
آسماں تک صدا سنائی دے
مطلع کسی حاضر سے کلام لگتا ہے، پھر آسمان تک سنائی کی اسے خبر یا نوید بھی کچھ بھلا نہیں، آسمان کا سُننا ، شنوائی یا قبولیت کے زمرے میں آتا ہے​
دردِ دل یوں مرا دہائی دے​
ایک جگ کو صداسنائی دے​
یا​
دردِ دل روز ہی دہائی دے​
آسمان کو کہاں سنائی دے​
کچھ بھی اس طرح کا کہ جس سے شعرمبہم یا وضاحت طلب نہ ہو​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ہو عطا آنکھ کو نظر ایسی
پار دیوار کے دکھائی دے
اسے بھی​
کر عطا آنکھ کو نظر ایسی​
پار دیوار کے دکھائی دے​
" کر" سے اللہ سے طلب ظاہر ہوتی ہے​
یا کچھ یوں کہ:​
چشمِ بینا کو دے نظر جس سے!​
پار دیوار کے دکھائی دے​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
عرش تک بھی ہمیں رسائی دے

"رکھ نہ محدود" سے بے تکلفی یا حجت نظر آتی ہے جو صحیح ہے مگر دوسرے مصرع میں​
آپ "ہمیں لکھیں گے تو عجیب لگے گا ، ہمیں کو مجھے کردیں گے​
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی​
عرش تک بھی مجھے رسائی دے​
تو بہتر ہوگا اگر اجتماعی خیال ہے تو ہم کو لانا ہوگا​
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی​
ہم کو تُو عرش تک رسائی دے​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
میں نے مانگا ہے بس سکونِ دل
کب کہا ہے کہ تُو خدائی دے
میں نے مانگا ہے بس سکوں دل کا​
کب یہ چاہا کہ تو خدائی دے​
صحیح رہے گا ،کہ مانگنا اور چاہنا، دعائیہ ہے جب کے کب کہا تحمکانہ​
---------------------------
باقی کے اشعار مفہوم اور معنویت میں صحیح ہیں، بہتری ہمیشہ ہی ممکن ہے​
راجہ صاحب بہت خوش رہیں​
امید ہے میری باتوں کو صرف ایک مشورہ اور برادرانہ خیال ہی تصور کریں گے، اگر متفق ہیں تو صحیح ، نہیں تو کوئی بات نہیں​
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں​
خیر اندیش طارق​
 

الف عین

لائبریرین
ابھی حملہ کہاں کیا ہے اس ماہ کا۔ جب کتابوں کی اپڈیٹ ہو جاتی ہے تو دو چار دن آرام کرتا ہوں، اس آرام کے دوران اصلاح کا کام ہو جاتا ہے۔ عموماً مہینے کے پہلے ہفتے میں۔
 

الف عین

لائبریرین
دردِ دل کی تُو وہ دہائی دے
آسماں تک صدا سنائی دے
//بلال کی بات میں وزن ہے۔ ویسے شعر میں بظاہر کوئی سقم نہیں۔

ہو عطا آنکھ کو نظر ایسی
پار دیوار کے دکھائی دے
//’ہو عطا‘ کچھ نا گوار لگتا ہے۔یوں کر دو
آنکھ کو وہ نظر عطا کر دے

رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
عرش تک بھی ہمیں رسائی دے
//اس زمیں تک نہ رکھ ہمیں محدود
زیادہ رواں محسوس ہوتا ہے۔

میں نے مانگا ہے بس سکونِ دل
کب کہا ہے کہ تُو خدائی دے
//‘بس سکو۔۔‘ اور ’نے دل‘ اچھا اثر نہیں چھوڑتا۔
صرف دل کا سکون مانگا ہے
زیادہ رواں نہیں؟

پتھروں کے بھی دل پگھل جائیں
مجھ کو ایسی غزل سرائی دے
//درست

بھول جاؤں تری محبت کو
رب نہ ایسی کبھی جدائی دے
// درست

اپنے در کا ہی رکھ مجھے مالک
یوں نہ در در کی تُو گدائی دے
//مالک؟ کیا خدا سے خطاب ہے؟ یا مراد ہی ہے کہ مجھے اپنے در کا مالک رہنے دے؟ یہ واضح نہیں۔
یوں اگر کہیں تو واضح ہو سکتا ہے۔
اپنے در کا مجھے فقیر بنا
یوں نہ در در ۔۔۔۔۔

کرنا ہے کچھ، تو ایسا کر راجا
رہتی دنیا تلک دکھائی دے
//کیا دکھائی دے، یہ واضح نہیں۔ یہاں ’باقی رہے‘ کے لئے کچھ اور ہونا چاہئے۔ شاید یہی تمہارا مطلب ہے۔
پہلا مصرع بھی رواں نہیں۔ ’کر راجا‘ میں بھی ’ر‘ کا معمولی سا سقم ہے۔اس کو خلیل کے مشورے کے مطابق کیا جا سکتا ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
ایک پرانی غزل، جس کو آپ کی اصلاح کی روشنی میں کچھ یوں کیا ہے۔

دردِ دل کی تو وہ دہائی دے
آسماں تک صدا سنائی دے
آنکھ کو ہو نظر عطا ایسی
پار دیوار کے سجائی دے
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
عرش تک بھی مجھے رسائی دے
میں نے مانگا ہے بس سکوں دل کا
کب یہ چا ہا کہ تو خدائی دے !!!!
پتھروں کے بھی دل پگھل جائیں
مجھ کو ایسی غزل سرائی دے
بھول جاؤں تری محبت کو
رب نہ ایسی کبھی جدائی دے
اپنے در کا ہی رکھ مجھے ، مالک
یوں نہ در در کی تو گدائی دے
کرچلیں کام ایسا کچھ راجا
رہتی دنیا تلک دِکھائی دے
 

ایم اے راجا

محفلین
سر اب دیکھیئے گا، کچھ کوشش خود سے کی ہے آپ کی اصلاح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔​
دردِ دل کی تو وہ دہائی دے
آسماں تک صدا سنائی دے
( یہاں شاعر خود سے مخاطب ہے گویا خود کو مشورہ دے رہا ہیکہ درد کی ایسی دہائی دے کہ آسماں تک جائے، میرے خیال میں مطلع درست ہے)
کر عطا آنکھ کو نظر ایسی
پار دیوار کے سجائی دے
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
عرش تک بھی مجھے رسائی دے
میں نے مانگا ہے بس سکوں دل کا
کب یہ چا ہا کہ تو خدائی دے !!!!
پتھروں کے بھی دل پگھل جائیں
مجھ کو ایسی غزل سرائی دے
بھول جاؤں تری محبت کو
رب نہ ایسی کبھی جدائی دے
اپنے در کا ہی رکھ مرے مالک
یوں نہ در در کی تو گدائی دے
کام ایسا کوئی کرو راجا
رہتی دنیا تلک دِکھائی دے
 

الف عین

لائبریرین
کر عطا آنکھ کو نظر ایسی
پار دیوار کے سجائی دے
پہلا مصرع اب بھی رواں نہیں۔ اور یہاں قافیہ ’سجھائی‘ ہوگا۔ سُجائی نہیں۔
رکھ نہ محدود بس زمیں تک ہی
میں نے مانگا ہے بس سکوں دل کا

اپنے در کا ہی رکھ مجھے ، مالک
ان مصرعوں میں میری اصلاح والی صورت مجھے اب بھی زیادہ رواں محسوس ہو رہی ہے۔
 
Top