بسم اللہ الرحمن الرحیم

دانشگاہ تہران، ایران کی سب سے پہلی یونیورسٹی ہے۔ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس میں اردو کا شعبہ بھی ہے۔ اس وقت اس بارے میں معلوم ہوا، جب اردو محفل میں، یونس عارف صاحب سے آشنائی ہوئی۔ یونس عارف صاحب، ہمدان کے رہنے والے ہیں، اور علامہ اقبال سے متاثر ہو کر، اردو ادب میں بیچلرز کررہے ہیں۔ اردو محفل کی برکت سے مجھے تہران یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ جانے کا موقع ملا، جس کی روداد یہاں لکھ رہا ہوں۔
میں اپنے دوستوں کے ساتھ، ایک کام کے سلسلے میں، تہران گیا تھا، تو سوچا کہ کیوں نہ تہران یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کی بھی زیارت کر لی جائے۔ چنانچہ عارف صاحب کو فون کر کے، میں اور میرے دوست سید یاسر عباس شمسی، دانشکدہ تربیت بدنی دانشگاہ تہران (Faculty of Physical Education and Sport Sciences, University of Tehran) کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ فیکلٹی بہت بڑے رقبے پر ہے، اور اصل یونیورسٹی سے دور ہے۔ اسی کے ساتھ دانشکدہ زبان ہائے خارجی (Faculty of Foreign Languages) اور دانشکدہ مطالعات جہانی (Faculty of World Studies) کی عمارتیں قائم ہیں۔ یہ دونوں فیکلٹیز آمنے سامنے ہیں۔
دانشکدہ مطالعات جہانی کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ کیونکہ نام تو 'جہانی' ہے، اور کام بھی دنیا بھر کی اقوام کا مطالعہ ہے، لیکن دروازہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ ایران کی تاریخ سے متعلق ہے۔ کیونکہ دروازہ قدیم ایرانی سلطنت، ہخامنشیوں کے زمانے کی بناوٹ کا نمونہ تھا۔ میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ ان دونوں چیزوں میں کیا تناسب ہے۔ یہ دروازہ تخت جمشید (Perspolis) کے دروازوں کی طرح بنایا گیا ہے۔
مجھے اپنا شیراز کا سفر یاد آیا۔ تخت جمشید میں داخل ہوتے ہی، ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا، کہ یہ دروازے ایک زمانے میں بہت خوبسورت اور عالیشان ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں جب مختلف ملکوں اور قوموں کے نمائندے، ایران کے بادشاہ سے ملنے، یا ہدایا اور خراج پیش کرنے آتے، ان دروازوں سے داخل ہوتے تھے۔ اور سلطنت ایران کی قدرت، عظمت اور جلالت دیکھ کر مرعوب ہوجاتے تھے۔ وہاں دروازے سے پہلے، اس زمانے کی تمام اقوام کے نمایندوں کی تصویریں پتھر پر منقوش تھیں، ان سب کو پادشاہ کے سامنے دست بستہ اور ہدیہ پیش کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ تاریخ کا بیان ہے کہ ایک شخص تھا، جو یہاں آیا، اور مرعوب تو نہیں ہوا، لیکن اس عظمت کو مرعوب کرکے، نظر آتش کر گیا۔ اس کا نام اسکندر اعظم بتایا گیا ہے۔
میں بھی اپنے آپ کو ایک قوم کا نمائندہ محسوس کرتے ہوئے بادشاہ ایران کے ویران محل میں داخل ہوا۔ میرے ایرانی دوست نے مجھ سے کھا۔ دیکھ رہے ہو ایران کی عظمت۔ میں نے کہا، ہم تو اس سے مرعوب نہ ہوئے، اور نہ کوئی عظمت نظر آرہی ہے، ہاں ایک بات ہے، مظلوم کے خون اور اور آہ کی قدرت صاف نمایاں ہے۔ کہ اتنی بڑی اور قدرتمند سلطنت، لمحے بھر میں جل کر راکھ ہوگئی۔ اگر بادشاہ دوسروں کو مرعوب کرنے کی جگہ، عوام کا خیال رکھتا، اور ان کی فکر کرتا، تو یہی عوام اپنی قدرت سے اسکندر جیسے فاتح کو بھی اپنے بادشاہ کے سامنے سر اٹھانے نہ دیتی۔ لیکن افسوس کہ حکمران، قدرت کے نشے میں تاریخ کو بھول جاتے ہیں۔ اور تاریخ تکرار ہو تی رہتی ہے۔
اب آپ خود ہی سوچیں کہ فیکلٹی آف ورلڈ اسٹڈیز کے لیے ایسا دروازہ کیوں منتخب کیا گیا ہے۔ کیا کسی کو مرعوب کرنا ہے؟ یا تاریخ کو دہرانے کا موقع فراہم کرنا ہے؟
خیر، ہم دانشکدہ زبان ہائے خارجی میں داخل ہوئے، اور عارف صاحب کے ساتھ ان کی کلاس میں جا بیٹھے۔ ڈاکٹر بیات لیکچر دے رہے تھے۔ موضوع، غالب کے شعری ادوار، تھا۔ لیکچر اردو میں دے رہے تھے۔ ڈاکٹر بیات صاحب نے دو یا تین برس پہلے، پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ روانی سے فارسی لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ ان کی چند کتابیں اور تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ہماری عزت افزائی فرمائی اور کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی۔ کلاس میں ہم دونوں کے علاوہ تقریبا تیرہ طالب علم تھے۔ جن میں سے صرف دو لڑکے تھے۔
کلاس کے بعد ہم کتابخانہ دیکھنے گئے۔ یہاں کتابخانے میں داخلہ منع ہے۔ اگر کسی کو کوئی کتاب پڑھنی ہے، تو فہرست میں سے اس کا نمبر بتا کر کتاب حاصل کرسکتا ہے۔ عارف صاحب نے کتابخانہ دار سے بات کی اور انہوں نے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔ کتابخانے میں مختلف زبانون میں کتابیں موجود ہیں۔ اردو شعبہ تقریبا اٹھارہ سال پہلے یہاں شروع ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، میرے اندازے سے کم اردو کتابیں یہاں موجود ہیں۔ لیکن کتابیں اچھی اور مفید ہیں۔
مختصر یہ کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری زبان ایران میں بھی پڑھائی جارہی ہے۔ اور اس کے شوقین بھی یہاں موجود ہیں۔ امید ہے ہماری زبان مزید مقبول ہو اور ترقی کرے۔


سید محمد نقوی
۲۷ مئی 2010​
 

یونس عارف

محفلین
اور اردو محفل کی برکت سے مجھے بھی بہت اچھے اچھے دوست مل گئے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف اردو بلکہ زندگی کے اسباق بھی سکھ رہا ہوں
سید محمد نقوی صاحب کی مہربانی سے بہت مشکور و ممنون ہوں اور ان کی باتوں کو مکمل کرنے کے لیے کچھ تصاویر شئیر کرتا ہوں


south-03L.jpg



south-06L.jpg

Faculty of Foreign Languages



ڈاکٹر جاوید اقبال ہمارے کالج میں دو سال پہلے

86-08-12-Javid001.jpg


86-08-12-Javid018.jpg
 
Top