داغ چھوٹا نہیں، یہ کس کا لہو ہے قاتل

معصوم مراد آبادی

داغ چھوٹا نہیں، یہ کس کا لہو ہے قاتل
ہاتھ بھی دکھ گئے، دامن ترا دھوتے دھوتے
گجرات کی نسل کشی کے داغ نریندر مودی کے دامن سے دھونے کی اتنی کوشش ہو چکی ہے کہ اب خود یہ کام کرنے والے بے غیرت بھی تھکنے لگے ہیں۔ مودی کے دامن پر لگے ہوئے یہ داغ اتنے گہرے ہیں کہ انہیں مٹانے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی چلی جا رہی ہیں مگر مودی کے راج میں تحقیقات کرنے والوں کے اندر اتنی ہمت اور جرأت ہی کہاں کہ وہ مودی کو قصور وارث ثابت کر سکیں۔ شاطر اور عادی مجرموں کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ جرم کا ہر ثبوت ملیامیٹ کر دیتے ہیں۔ خود مودی سرکار کے کارکنوں نے اس وقت کے سرکاری ریکارڈ ڈائریاں اور اندراجات حتیٰ کہ فون کالوں کا ریکارڈ بھی تلف کر دیا ہے۔ ایسے میں کسی تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کے سامنے دیواروں سے سر ٹکرانے کے علاوہ راستہ ہی کیا ہے لہٰذا وہ یکے بعد دیگرے مودی کوقتل عام کی سنگین وارداتوں سے بری کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مودی کے سیاسی اور سرکاری کارندوں نے جس بے حیائی کے ساتھ قانونی مشینری کا ناجائز استعمال کیا، آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ نہ صرف ہندو دہشت گردوں کو مسلمانوں کے جان و مال سے وحشیانہ کھلواڑ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی بلکہ سرکاری مشینری اور پولیس نے اس موقع پر مجرموں کو پکڑنے کے بجائے قانون کی آبروریزی اور مجرموں کی ہم نوائی کا شرمناک کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود تحقیقاتی ادارے مودی کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام ہیں۔ انہیں نہ تو مودی کے دامن پر کوئی چھینٹ نظر آ رہی ہے اور نہ ہی ان کے خنجر پہ کوئی داغ ۔
خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے ایک بار پھر مودی کو بے قصور قرار دیا ہے۔ مودی سمیت 62کلیدی ملزموں کے خلاف ذکیہ جعفری کی درخواست ایک بار پھر نامراد لوٹ آئی ہے۔ بی جے پی لیڈران اسے اپنے لئے بڑی کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں فی الحال نریندر مودی کو گلبرگہ سوسائٹی قتل عام سے بری کیا ہے جب کہ وہ گجرات کی نسل کشی کے الزام سے پہلے ہی انہیں بری الذمہ قرار دے چکی ہے۔ اس بار ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں عدالت سے اس معاملہ کو ہمیشہ کے لئے بند کرنے کی بھی اپیل کی ہے تاکہ مستقبل میں دوبارہ کوئی مودی کے اوپر انگلی نہ اٹھا سکے اور وہ یونہی ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو جائیں۔
ذکیہ جعفری ایک 80سالہ بیوہ خاتون ہیں، ان کے شوہر احسان جعفری (سابق ایم پی) کو احمد آباد کی گلبرگہ سوسائٹی میں 69دیگر مسلمانوں کے ساتھ نہایت بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ خود احسان جعفری کے جسم کے ٹکڑے کر کے ان کی لاش نذرآتش کر دی گئی تھی، تب سے اب تک ذکیہ جعفری نے انصاف کے ہر دروازے پر دستک دی ہے اور ہر بار یہی کہا ہے کہ گجرات کی اس نسل کشی کا اصل ملزم نریندر مودی ہے۔ کیونکہ جس وقت گلبرگہ سوسائٹی کو دہشت گردوں نے گھیر رکھا تھا تو احسان جعفری نے مودی سے لے کر اعلیٰ پولیس افسران تک سب سے اپنی اور گلبرگہ سوسائٹی کے مکینوں کی جان بچانے کے لئے منت سماجت کی لیکن ان کی مدد کرنے کے بجائے فون پر غلیظ گالیاں دی گئیں۔
گجرات فسادات کے دوران خفیہ پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات رہے، سینئر آئی پی ایس افسر آر بی سری کمار نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ
(بقیہ نمبر 42صفحہ 3 پر ملاحظہ فرمائیں)
پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایس آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کے دوران شروع سے مودی سرکار کی حمایت کا رویہ اختیار کیا۔ ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں جو نتائج اخذ کئے ہیں مجھے ان پر کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ یہ ایجنسی شروع سے آج کے نریندر مودی اور ان کی حکومت کو ملزم قرار دینے والے ثبوتوں سے پہلو تہی کرتی رہی ہے۔
ان تمام حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آر کے راگھون کی قیادت والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا رویہ ابتدا ہی سے جانبدارانہ تھا اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے بجائے نریندر مودی اور فساد کے دیگر ملزمان کو بچانے کے لئے کوشاں تھی۔ آخرکار اس نے اپنی رپورٹ سے اس الزام کی تصدیق کر دی ہے لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو ابھی صرف ایس آئی ٹی نے ہی کلین چٹ دی ہے اور عدالت کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ ذکیہ جعفری نے کہا ہے کہ انہیں انصاف کی امید ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہر چند کہ یہ رپورٹ غمگین کرنے والی ہے لیکن انہیں انصاف ملنے کا یقین ہے۔ احسان جعفری کے بیٹے تنویر جعفری کا ردعمل بھی یہی ہے کہ مودی کو کلین چٹ ایس آئی ٹی نے دی ہے، عدالت نے نہیں۔ اب اس معاملہ میں سب کی نگاہیں سپریم کورٹ پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ اپنی قائم کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو جوں کا توں قبول کرتا ہے یا پھر اس معاملہ میں خصوصی وکیل راجو رام چندرن کی رپورٹ کو اہمیت دی جاتی ہے جو ایس آئی ٹی کی رپورٹ سے قطعی مختلف ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ اعتماد بھارت)

والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top