داغ دھلوی

خان بھائی

محفلین
اردو ادب کے ایک درخشاں شاعر داغ دھلوی کا پورا نام نواب مرزا خاں تھا۔25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی داغ
چھوٹے ہی تھے کے والد کا انتقال ہوگی درحقیقت اُٰنکے والد کو ولیم فیسر کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی-
اور داغ کی والدہ نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بیٹے فخرو سے بیا ہ کر لیا۔ لہذا داغ کی پرورش بھی شاہی محل میں ہوئی۔ داغ کی شاعری پر ابراھیم ذوق کا کافی رنگ نظر آتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ شاہی خاندان میں پرورش تھی کیونکہ بہادر شاہ ظفر اور مرزافخرو دونو ں باپ بیٹا ذوق کے ہی شاگرد تھے۔
غدر کے بعد داغ رام پور چلے گئے جہاں پر نواب کلب علی خان نے اپنے ہاں داغ کو ملازمت بھی دی ۔ یہاں پر وہ کم و بیش کوئی چوبیس پچیس سال رہے یہاں پر ہی نشاط و کیف کے دنوں میں ہی ”حجاب“ کی زلف گرہ گیر میں پھنس گئے اور اسی عشق کی پاداش میں کلکتہ کی خاک ریزی بھی کی ۔ داغ کی مشہور زمانہ مثنوی فریاد ِ عشق اسی محبت کی فسوں کاریو ں کی داستان ہے۔

نواب کلب علی خان جب اس دنیا فانی سے رحلت کر گئے تو داغ نے بھی حیدرآباد دکن کو مسکن بنا لیا۔یہاں پر نظام دکن کے استاد مقرر ہوگئے۔۔ اور انہی خدمات پر شاید داغ کو دبیرالدولہ ۔فصیح الملک ، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب بھی ملے۔ داغ کا شاعری کے میدان میں سب سے بڑا اعزاز شاید یہ تھا کہ جتنے شاگرد آپ کو میسر آئے شاید ہی اردو کے کسی اور شاعر کے حصے میں آئے۔۔ داغ کے شاگردوں کی تعداد پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ مشہور شاگردوں میں اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی وغیرہ ہیں جبکہ آپ کے جانشین کے طور پر جانے جانے والے شاعر نوح ناروی ہیں جو کہ ایک معروف شاعر تھے
س میں کوئی شک کی بات نہیں ہوگی کہ داغ اردو زبان کے بے تاج بادشاہ تھے بقو ل غالب
” داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی!ذوق نے اردو کواپنی گو دمیں پالا تھا۔ داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے۔“

تھے کہاں رات کو آئینہ تو لے کر دیکھو
اور ہوتی ہے خطاوار کی صورت کیسی
نہ ہمت ، نہ قسمت ، نہ دل ہے ، نہ آنکھیں
نہ ڈھونڈا، نہ پایا، نہ سمجھا ، نہ دیکھا
سادگی، بانکپن ، اغماض ، شرارت ، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغ کی ساری شاعری میں عجب رنگینی زبردست نغمگی بالا کی شوخی اور صفائی ۔ غرض لوگ کہتے ہیں کہ ذوق کی شاعری کا ایک انوکھے ذوق کا نام داغ تھا۔۔


داغ کی شاعری صرف ایک محور پر گردش کرتی ہے اور وہ ہے عشق ۔ مومن کی طرح ان کے ہاں بھی نفسیاتی بصیرت کا اظہار جگہ جگہ ملتا ہے۔ مثال کے طورپر کہتے ہیں،

رخ روشن کی آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
اپنی تصویر پہ نازاں ہو تمہارا کیا ہے
آنکھ نرگس کی ، دہن غنچے کا ، حیرت میری
قیامت ہیں بانکی ادائیں تمہاری
ادھر آؤ لے لوں بلائیں تمہاری
 
Top