داعش کی پسپائی کا آغاز؟

یاز

محفلین
صرف چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ داعش یا اسلامی سٹیٹ کے نام سے مشہور شدت پسند تنظیم نے عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر کے اس پہ اپنی حکومت قائم کی ہوئی تھی۔ ان علاقوں پہ داعش کا نفوذ یا ہولڈ اس قدرتھا کہ اس علاقے کو ایک طرح سے ڈی فیکٹو سٹیٹ قرار دیا جا رہا تھا، جس کی اپنی معیشت، پولیس اور سرحدی چوکیاں وغیرہ تھیں۔ داعش کی جنگی یا جغرافیائی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بیس لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر موصل بھی ان کے قبضے میں تھا۔( دیگر جو شہر اور علاقے داعش کے قبضے میں ہیں، مجھے ان کی جغرافیائی اہمیت کا زیادہ اندازہ نہیں ہے)۔

میرے خیال سے یہ دنیا کی سیاسی تاریخ کے چند انوکھے واقعات میں سے ایک تھا کہ ایک تنظیم ( بظاہر ساری دنیا جس کے خلاف تھی) نے تقریباََ ایک ملک کھڑا کر لیا تھا۔ مختلف جرائد میں اس پہ بھی بات چیت سامنے آنا شروع ہو گئی تھی کیسے اور کن حالات میں اس نئی ریاست کو مختلف ممالک کی طرف سے باقاعدہ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
مزید خدشہ اس بات کا بھی پیدا ہو چلا تھا کہ اس کے بعد یہ تنظیم مزید ممالک میں بھی اپنا اثر پھیلائے گی۔ لیکن چند ماہ پہلے روس کے صدر پیوٹن نے شام میں اپنے فوجی دستے، خصوصاََ ایئرفورس بھیجنے کا اعلان کیا اور اس کے چند روز کے اندر ہی داعش کے خلاف روسی فضائیہ کی کاروائیاں شروع ہو گئیں۔ مختلف خبروں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق روسی کاروائیاں اس قدر مؤثر اور تیربہدف تھیں کہ چند ہفتوں میں ہی انہوں نے داعش کی کمر توڑ کے رکھ دی۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ دونوں ممالک یعنی عراق اور شام میں حکومتی افواج نے داعش کے زیرِ نگیں علاقوں میں پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ مجھے ان ممالک کے جغرافیہ یا مختلف شہروں کی جغرافیائی اہمیت کا زیادہ اندازہ تو نہیں ہے، تاہم اخبارات کے مطابق تزویراتی اہمیت کے عراقی شہروں میں سے ایک رمادی کو عراقی افواج نے داعش کے قبضہ سے آزاد کرا لیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف شام میں حکومتی افواج نے تدمیر اور پالمیرا نامی اہم قصبے یا علاقے بھی چھڑا لئے ہیں۔

اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں دو اہم معرکے موصل اور رقہ میں برپا ہوں گے۔ ایک طرف عراقی افواج موصل کو "آزاد" کرانے کے لئے پیش قدمی کررہی ہے اور ابتدائی جھڑپیں شروع ہو چکی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب شامی حکومتی افواج رقہ (جو کہ داعش کی اسلامک سٹیٹ کا غیراعلانیہ دارالحکومت کہلاتا ہے) پہ حملے کی تیاری میں ہیں۔

ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ پانچ ماہ کی فوجی کاروائیوں کے بعد اچانک روس نے اپنے فوجی دستوں کو واپس بلا لیا ہے۔ روسی حکومت کے بقول روسی فضائی کاروائیاں ابھی بھی کسی حد تک جاری رہیں گی۔ روسی فوج کے واپس جانے کو بعض حلقے معاشی مسائل سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ جبکہ بعض حلقوں کے نزدیک روس نے مختصر عرصے میں جنگ سے خود کو علیحدہ کر کے (افغانستان اور عراق میں) امریکی افواج کی مانند پھنسنے سے خود کو بچایا ہے۔

آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے، اور بوتل میں کونسا نیا جن برآمد کیا جاتا ہے۔
 

یاز

محفلین
آج کے روزنامہ جنگ سے ایک خبر (خاکسار کا تمام نفسِ مضموں سے متفق ہونا ضروری نہیں)

70788_details.png
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
وقتی ابال تھا اب بیٹھ رہا ہے ... یا دوسرے لفظوں میں جنہوں نے یہ درندے تیار کیے تھے اب انھیں ہی ان سے خطرہ ہوگیا ہے ..............
 

یاز

محفلین

شام کی افواج نے نام نہاد دولت اسلامیہ کو شکست دے کر مرکزی شہر القریاتین پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق شہر پر دوبارہ قبضہ مسلح گروہ کے خلاف جاری با ضابطہ کارروائی کے دوران کیا گیا ہے۔
چند روز قبل ہی نزدیکی قدیم شہر پیلمائرا کو بھی شدت پسند دولت اسلامیہ سے چھڑوایا گیا تھا۔ دولت اسلامیہ نے القریاتین پر گذشتہ سال اگست میں قبضہ کیا تھا اور وہاں کی مسیحی آبادی کو یرغمال بنا لیا تھا۔ تاہم بعد میں کئی افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر میں اب بھی چند مقامات پر لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے ادارے سِیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اتوار کو کہا ہے کہ شہر کے مشرقی حصوں میں دولت اسلامیہ کے جنگجو موجود ہیں تاہم وہ اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ القریاتین پر دوبارہ حکومتی قبضہ یقینی ہونے کی صورت میں یہ شام کے صدر بشار الاسد کے لیے اہم کامیابی ہوگی۔ حالیہ مہینوں میں بشار الاسد کی افواج نے روسی فضائیہ کی مدد سے باغیوں کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر پر مکمل قبضے کی صورت حکومتی افواج اور ان کے اتحادیوں کو عراقی سرحد کے نزدیک دولت اسلامیہ پر حملوں کے لیے ایک اہم علاقہ مل جائے گا۔
شام کی فوج کے ایک جنرل کا کہنا ہے کہ فوج نے ’القریاتین اور اس کے اطراف پر نہ صرف قبضہ کر لیا ہے بلکہ وہاں صورت حال مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ مغرب میں قلاماؤن پہاڑیوں کے سلسلے اور مشرقی علاقوں کے درمیان شدت پسندوں کی سپلائی لائن بھی کاٹ سکیں گے۔

القریاتین، پیلمائرا سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی سمت واقع ہے۔ گذشتہ سال مئی میں پیلمائرا پر شدت پسندوں کے قبضے کے بعد القریاتین پر قبضہ ان کا پہلا بڑا حملہ تھا۔ القریاتین میں عیسائیوں کی بڑی تعداد آباد تھی جن میں سے کئی افراد وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے جبکہ درجنوں افراد کو دولت اسلامیہ کے دارالحکومت رقّہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق انھیں چند ہفتوں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

گذشتہ ماہ ہونے والی جزوی جنگ بندی کے بعد شام میں لڑائی میں ڈرامائی کمی آئی ہے، جبکہ دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک نصرہ فرنٹ اس جنگ بندی کا حصہ نہیں ہیں۔
 
Top