یکم جنوری میں چند ساعتیں باقی ہیں۔ لاہور میں داتا دربار پر عرس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔
okcto8.jpg

عرس یکم جنوری سے شروع ہو رہا ہے۔
 

ساجد

محفلین
عقیدتمندوں کوشیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کی مبارکباد۔
عبدالرزاق قادری ، عزیزم آپ اور دیگر اراکین کی عقیدت کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن آئینِ پاکستان کے تحت ممتاز قادری نے قتلِ عمد کا ارتکاب کیا ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا ایک اہم حصہ ہونے کے باوصف ان کے عمل سے ملکی سیکورٹی فورسز پر انگلیاں اٹھی ہیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ ممتاز قادری کے اس عمل کے پیچھے کیا مہیج کارفرما تھا ہم کو قوانین اور عدلیہ کے خلاف کھڑے نہیں ہونا چاہئیے۔
دھاگے کے عنوان میں مناسب تبدیلی کر دی گئی ہے۔
 
عقیدتمندوں کوشیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کی مبارکباد۔
عبدالرزاق قادری ، عزیزم آپ اور دیگر اراکین کی عقیدت کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن آئینِ پاکستان کے تحت ممتاز قادری نے قتلِ عمد کا ارتکاب کیا ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا ایک اہم حصہ ہونے کے باوصف ان کے عمل سے ملکی سیکورٹی فورسز پر انگلیاں اٹھی ہیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ ممتاز قادری کے اس عمل کے پیچھے کیا مہیج کارفرما تھا ہم کو قوانین اور عدلیہ کے خلاف کھڑے نہیں ہونا چاہئیے۔
دھاگے کے عنوان میں مناسب تبدیلی کر دی گئی ہے۔
دھاگہ ہی بند کر دیں۔ عدالت نے تو غازی کے اقدام کو اسلامی طور پر درست قرار دیا تھا۔ عدلیہ کے ججز جسٹس نذیر اختر، جسٹس نذیر غازی، اور سابق چیف جسٹس آف لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف بھی پھر تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجد

محفلین
دھاگہ ہی بند کر دیں۔ عدالت نے تو غازی کے اقدام کو اسلامی طور پر درست قرار دیا تھا۔ عدلیہ کے ججز جسٹس نذیر اختر، جسٹس نذیر غازی، اور سابق چیف جسٹس آف لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف بھی پھر تو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

:)
بھائی جی ، آپ نے یہ دھاگہ صرف ممتاز قادری کے لئے ہی کھولا تھا کیا؟۔ برصغیر کی عظیم روحانی ہستی حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تو ذکر ہے اس میں۔ ویسے ممتا زقادری کا ذکر تو آپ کے مراسلے سے قبل ہی حذف کر دیا گیا تھا۔
 
:)
بھائی جی ، آپ نے یہ دھاگہ صرف ممتاز قادری کے لئے ہی کھولا تھا کیا؟۔ برصغیر کی عظیم روحانی ہستی حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تو ذکر ہے اس میں۔ ویسے ممتا زقادری کا ذکر تو آپ کے مراسلے سے قبل ہی حذف کر دیا گیا تھا۔
مجھے ایک دن میں دو تاریخی واقعات کو ایک جگہ بیان کرنے میں دل چسپی تھی
 

عثمان

محفلین
آپ ایک الگ دھاگہ کھول کر مذکورہ قاتل سے اظہار عقیدت کر لیجیے۔ اس اظہار عقیدت میں اپنے جیسے معتقدین ہی کو دعوت دیجیے۔ امید ہے ساجد صاحب معترض نہ ہونگے۔
ساجد صاحب اسے بھی حذف کر دیں گے۔ مجھے تو اس قاتل کے نقش قدم پر چلنے کی سوجھی ہوئی ہے
 
نوائے وقت نے اس صفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت
پیر سید غلام معین الحق گیلانی ۔گولڑہ شریف
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے اسلام کے ابدی پیغام حق کو پھیلانے اور عوام کو راہ حق دکھانے میںجو بے مثل کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ اسلام کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔خدائے بزرگ و برتر کے ان مقبول و محبوب بندوں نے دنیاوی اسباب اور سازوسامان کے بغیر جس طرح کروڑوں انسانوں کے قلوب کو مسخّر کیا اور انہیں گمراہیوں اور گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و ایقان کی روشنی سے آشنا کیا۔ اپنے افعال و اعمال اور گفتار و کردار سے انہیں متاثر کیا۔ یہ سب حقائق ان کی روحانی عظمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ خاصانِ خدا پیغام ِ حق لے کر اجنبی سر زمینوں پر پہنچے۔ ان کے پاس تیر و تفنگ تھا‘ نہ شاہانہ افواج ‘ مال و دولت تھی نہ تخت و تاج لیکن’ ’ در دست نہ تیر است نہ بر دوش کمان است۔ ایں سادگی¿ ہست کہ بسمل دو جہان است“ کے مصداق مخلوقِ خدا کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے ان بندگانِ حق کے پاس ایمان کی دولت تھی۔ اسلام کے لازوال پیغام کی قوت تھی اور اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی طاقت تھی جس سے انہوں نے کفر و جہالت کی تاریکیوں میں چراغِ حق روشن کیا اور بھٹکتی انسانیت کو دینِ مبین کی راہ دکھائی۔
برِّصغیر میں یہ تاریخی کارنامہ جن اولوالعزم اور واجب الاحترام حضرات نے سرانجام دیا، ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ العزیز کی ذاتِ گرامی کو نہایت ارفع واعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔انہوں نے صدیوں پہلے غزنی سے آ کریہاں جو شمع حق جلائی تھی اس کی روشنی اور تابندگی آج بھی دلوں کو نور بخشتی ہے اور اَن گنت لوگ ان کے در سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ ان کی حیاتِ پاک کا پوری طرح احاطہ کرنے کے لیے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور بیشمار اہل علم اور اہل دل حضرات نے ان کی زندگی ‘ تعلیمات اور دینی و علمی خدمات کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے جسے پڑھ کر ان کی روحانی شان و شوکت ‘ عظمت و حشمت اور علم و معرفت میں درجہءکمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی برگزیدہ ہستیوں کے احوال کا مطالعہ قلب و نظر کی رہبری کا وسیلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے والے اولیائے کرام کی زندگی کامطالعہ ان کی ظاہری صحبت کی طرح فیضیاب کرتا ہے جس کے بارے میں حضرت مولانا روم ارشاد فرماتے ہیں۔” یک زمانہ صحبتِ با اولیاء۔ بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا“ آئیے اس مینارئہ نور کی روشنی سے فیضیاب ہوں۔
آپ کا نام علی بن عثمان ہے۔ ابوالحسن کنیت اور گنج بخش لقب ہے۔ آپ حسنی سادات سے ہیں۔ آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کا سلسلہءنسب اس طرح بیان کیا ہے۔ حضرت علی ہجویری ،بن عثمان، بن علی ،بن عبدالرحمن ،بن شجاع(عبداللہ) ، بن ابوالحسن علی ،بن حسن اصغر ، بن زید، بن امام حسنؓ، بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
آپ کی والدہ ماجدہ حسینی سادات سے تھیں۔ عابدہ، زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں۔ اعزہ و اقارب کے حقوق کی ادائےگی اور مسکین نوازی میں ممتاز تھیں۔ گویا حضرت داتا گنج بخش نجیب الطرفین سید تھے۔
متقی و متورع والدین کی آغوش میں پرورش پا کر آپ نے کیا کچھ حاصل کیا ہوگا اس کا اندازہ آپ کے مقاماتِ عالیہ سے لگایا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں تذکرہ نویس خاموش ہیں اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت غزنی علماءوفضلا ءکا مرکز تھا اور شہر میں کئی مدارس قائم تھے جو علومِ قرآنی کے فروغ کے لئے خدمات انجام دے رہے تھے۔آپ نے تحصیلِ علومِ دینیہ کرنے کے بعد تزکیہ نفس کی خاطر بہت زیادہ مجاہدات کیے ۔
آپ نے اپنے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے علاوہ اور بہت سے مشائخ کے فےضِ صحبت کا شرف حاصل کیا۔جن میں ابوسعید ابوالخیر اور رسالہ قشیریہ کے مصنف امام ابوالقاسم قشیری شامل ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش سلطان مسعود بن محمود غزنوی کے آخری دورِ حکومت میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مختلف ممالک کا سفر کرتے ہوئے لاہورتشریف لائے اور اس جگہ قیام کےا جہاں آپ کا مزارِ مبارک زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
فوائد الفواد میں ہمیں آپ کے لاہور تشریف لانے کی تفصیلات ملتی ہیں۔ حضرت نظام الدین محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں۔
”شیخ حسین زنجانی اور شیخ علی ہجویری دونوں ایک ہی پیر کے مرید تھے اور ان کے پیر اپنے عہد کے قطب تھے۔ حسین زنجانی عرصہ سے لاہور میں مقیم تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے پیر نے خواجہ علی ہجویری سے کہا کہ لاہور میں جاکر قیام کرو۔ شیخ علی ہجویری نے کہا کہ وہاں شیخ حسین زنجانی موجود ہیں لیکن ان کے پیر نے پھر فرمایا کہ تم لاہور جاو¿۔ جب علی ہجویری اپنے پیر کے ارشاد کی تعمیل میں لاہور آئے تو رات تھی۔ صبح کو شیخ حسین زنجانی کا جنازہ باہر لایا گیا“۔
یہاں آپ نے ایک مسجد بنوائی۔ جسے تبلیغِ دین کا مرکز بنایا۔ دارا شکوہ اپنی کتاب سفینة الاولیاءمیں لکھتا ہے”حضرت علی ہجویری لاہور میں دن کے وقت تعلیم دیتے اور رات کو طالبانِ حق کو ہدایت کیا کرتے۔ ان کی رہبری میں ہزاروں جاہل عالم بن گئے، کافروں نے اسلام قبول کیا، گمراہوں نے ہدایت کی راہ پائی، دیوانے ہوش مند ہو گئے، جن کا علم ناقص تھا کامل ہوئے، فاسق و فاجر پارسا بن گئے“۔
آپ کی اپنی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو آپ کی زندگی میں ہی گنج بخش کے لقب سے پکارنا شروع ہو گئے تھے۔ کشف الاسرار میں آپ تحریر فرماتے ہیں ”اے علی! لوگ تجھے گنج بخش کہتے ہیں حالانکہ تو خود محتاج ہے اور تیرے پاس تو ایک دانہ تک نہیں۔ تو اس پر فخر نہ کر۔ گنج بخش رنج بخش خدا تعالیٰ کی ذات ہے“۔
لیکن ”گنج بخش“ لقب کی وجہِ شہرت جو ہر ایک کی زبان پر اور ہر تذکرہ میںموجود ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلطان الہند خوا جہ ءخواجگان حضرت معین الدین چشتی اجمیری آنجناب کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے اور ایک حجرہ میں چالیس دن تک مصروف ِعبادت و ریاضت رہے۔ اس عرصہ میں حضرت داتا گنج بخش کی روحِ پرفتوح سے کیافیض حاصل ہوا، کتنے مقامات طے ہوئے ،ان کے بحرِ سخاوت سے کس قدر سےراب ہوئے اس کا اندازہ آپ کے اس خراجِ عقیدت سے لگایا جا سکتا ہے جو بوقت ِرخصت ایک شعر کی شکل میں آپ کی زبانِ حق ترجمان پر جاری ہوا :
گنج بخش ِ فیضِ عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاں را پیر ِ کامل کاملاں را رہنما
ایک مردِ حق آگاہ کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ زبان زدِ خاص و عام ہوگیا اور آپ گنج بخش کے پیارے لقب سے مشہور ہوئے۔
حضرت داتا گنج بخش بلند پایہ عالم اور جامعِ معقول و منقول تھے۔ آپ نے متعدد عنوانات پر تصانیف لکھیں لیکن افسوس کہ ان میں سے کشف المحجوب کے سوا کوئی کتاب نہیں ملتی۔ خود آ پ کے بیان کے مطابق آپ کی بہت سے تصانیف نام نہاد مدعیانِ طریقت نے مستعار لیں اور نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرادیں۔ چند اوراق کا چھوٹا سا رسالہ ”کشف الاسرار“ بھی آپ کی قابل ِقدر تحریر ہے اور شائع ہو چکا ہے ۔ کشف المحجوب میں آپ نے اپنی جن دوسری تصانیف کا تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں:
۱۔ منہاج الدین ۲۔ کتاب الفنا والبقا ۳۔ اسرارالخلق المﺅنات ۴۔ کتاب البیان لاہل العیان ۵۔ بحرالقلوب ۶۔ الرعا یة لحقوق اللہ ۷۔رسالہ در شرحِ کلامِ منصور الحلاج ۸۔ دیوان
حضرت نظام الدین محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں:
”کشف المحجوب حضرت شیخ علی ہجویری کی تصنیف ہے۔ اگر کسی کا پیر نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو یہ کتاب اس کے پیر کا کام دے گی۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے“۔ دارا شکوہ نے لکھا:
”حضرت علی ہجویری کی بہت سی تصانیف ہیں لیکن کشف المحجوب مشہور و معروف ہے کسی کو اس پر لب کشائی کا موقع نہیں ملا۔ یہ کتاب راہروانِ طرےقت کے لئے مرشدِ کامل ہے۔ تصوف کی کتابوں میں فارسی زبان میں اس خوبی کی کوئی دوسری کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔“
حضرت داتا گنج بخش خود اس کتاب کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ کتاب راہِ حقیقت کو نمایاں کرتی ہے۔ تحقیقِ امور کی شرح کرتی ہے اور شریعت کے پردوں کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نام کشف المحجوب ہی ہونا چاہئے تھا اور حقیقت میں کشف، محجوب کی ہلاکت ہے۔“
ایک عرصہ تک برِّصغیر کو اسلامی تعلیمات کے نور سے منور کرنے والا آفتابِ ولایت ۴۶۵ھ میں جہانِ فانی سے عالم بقا کے لیے رخصت ہوا لیکن ان کا فیض کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک تشنگانِ حقیقت ان کے میخانہ ءعرفاں سے اپنی تشنگی بجھاتے رہیں گے۔ مزارِ اقدس کے کتبہ پر جامی لاہوری کے یہ اشعار کندہ ہیں۔
خانقاہِ علی ہجوےر است
خاکِ جاروب از درش بردار
طوطےا کن بدیدہ¿ حق بیں
تا شوی واقفِ درِ اسرار
چوں کہ سردارِ ملکِ معنٰی بود
سالِ وصلش برآید از سردار
 
نوائے وقت نے اس صفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت
سید ہجویرؒ

01 جنوری 2013
سرزمینِ پاک میں حق کی ضیا ہیں گنج بخش
عامیوں اور عارفوں کے رہنما ہیں گنج بخش

بادشاہ و بے نوا ہیں جن سے یکساں فیض یاب
وہ امامِ اولیاءو اصفیا ہیں گنج بخش

ماضی و حال اور استقبال روشن جن سے ہیں
ہر زمانے کے وہ کامل پیشوا ہیں گنج بخش

جن کا کرتے ہیں سبھی اہل ِ سلاسل احترام
اس زمیں میں قائدِ رشد و ہدیٰ ہیں گنج بخش

قطب الارشاد اور باب الہند یہ شہر آپ سے
پیکرِ شرع و حقیقت آشنا ہیں گنج بخش

علم و عرفاں کے خزانے حق نے بخشے آپ کو
فیض گستر ہیں، من اللہ، یوں بجا ہیں گنج بخش
(حفیظ تائب )
 
نوائے وقت نےاسصفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت

مسجد داتا گنج بخش تاریخ میں کعبہ پنجاب کے نام سے مشہور

01 جنوری 2013
خالد بہزاد ہاشمی
لاہور ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے اولیاءکرام اور صوفیاءکا مسکن رہا ہے لیکن جو عزت اور تکریم حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے حصہ میں آئی اس سے دیگر محروم رہے۔ آپ کو دنیا سے پردہ کئے 970سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ہزاروں بندگان خدا روحانی فیض سے آپ کی چوکھٹ پر سر جھکانا اپنے لئے باعث تکریم سمجھتے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے شیرِ خدا حضرت علی المرتضیؓ سے جاملتا ہے۔ آپ نے شیخ ابوالفضل بن حسن الختلیؒ سے روحانی فیض حاصل کیا جو شیخ ابوالحسن مصری کے مرید اور حضرت جنید بغدادیؒ کے متبعین میں سے تھے۔ حضرت شیخ ابوالفضل ختلیؒ ساٹھ سال تک پہاڑوں میں گوشہ نشین رہ کر مصروف عبادت رہے تھے اور چاہ میراں لاہور میں محو خواب حضرت شاہ حسین زنجانیؒ بھی آپ کے مرید تھے۔ مرشد کے حکم پر حضرت علی ہجویریؒ لاہور تشریف لائے تو رات ہونے کے باعث فصیل کے باہر ٹھہرنا پڑا۔ صبح شہر میں داخل ہوئے تو ان کے پیر بھائی حضرت شاہ حسین زنجانیؒ کا جنازہ باہر آرہا تھا۔ چنانچہ وہ اس وقت مرشد کے لاہور بھیجنے کے حکم کا مطلب سمجھ گئے۔ پیر بھائی کے جنازے اور تدفین کے بعد آپ نے لاہور کے باہر دریائے راوی کے کنارے مسجد تعمیر کی اور وہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہ برصغیر میں سب سے پہلی وسیع و عریض مسجد تھی جس کی بنیاد آپ نے رکھی اسی لئے مورخین نے اسے کعبہ پنجاب و ہند کے نام سے یاد کیا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کا عہد تھا۔ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کے مطابق آپ 460ھ کے بعد لاہور تشریف لائے۔ آپ سے قبل خطہ لاہور حضرت اسماعیل بخاریؒ ہال روڈ اور حضرت شاہ حسین زنجانیؒکے روحانی فیض سے منور تھا۔
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے آپ کے مزار مبارک پر چلہ کشی کی اور جاتے ہوئے وہ مشہور عالم شعر کہا جو آپ کے آستانہ مبارک پر رقم ہے
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیرا کامل کاملاں را راہنما
حضرت سلطان الہند نے آپ کے پیر بھائی حضرت شاہ حسین زنجانیؒ کے مزار پر بھی چلہ کشی کی تھی۔ یوں آپ کے مرشد شیخ ابوالفضل کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ ان کے دو مریدوں کے مزارات پر خواجہ غریب نواز نے چلہ کشی فرمائی۔
حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ جب لاہور تشریف لائے تو لاہور کا ایک حصہ غازیوں کے نام سے مشہور تھا اور یہ غازی بغیر کسی تنخواہ کے جہاد کے لئے تیار رہتے تھے اور ان کا گزارہ مال غنیمت پر ہوتا تھا۔ لاہور کی غیر مسلم آبادی مسلمانوں کا تمسخر اڑاتی اور مائیں اپنے بچوں کو مسلمانوں کی شکلوں سے ڈراتی تھیں۔ ایسے نامساعد حالات میں آپ نے یہاں تبلیغ اسلام شروع کی جس کی ہندو آبادی نے مزاحمت کی۔ لاہور کے ناظم الامور رائے راجوراجپوت نے جو جادوگری، نجوم، ریاضی اور دیگر علوم کا ماہر تھا آپ کے دس حق پر بیعت کی اور تاریخ میں حضرت شیخ ہندی کے خطاب سے مشہور ہوا اور آج بھی آپ کے روضہ سے متصل محو خواب ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ نے 34 سال تک اسلامی تعلیمات اور اپنے اخلاق و کردار سے لاہور شہر کی بڑی آبادی کو مسلمان کیا۔ حضرت سلطان الہند کے بعد ان کے خلیفہ حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ، ان کے خلیفہ حضرت شیخ العالم بابا فرید گنج شکرؒ اور ان کے خلیفہ سلطان المشائخ، محبوب الٰہی، حضرت نظام الدین اولیائؒ نے بھی یہاں حاضری دی اور یہاں سے روحانی فیض حاصل کیا۔
آپ نے بہت سی تصانیف لکھیں جن میں کشف المحجوب کو عالمگیریت حاصل ہوئی۔ حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءفرماتے ہیں کہ جس کا کوئی پیرومرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب کے مطالعہ سے خیروبرکت مل جائے گی۔ شاہ جہاں کے لخت جگر شہزادہ داراشکوہ قادری لکھتا ہے کہ حضرت کی بہت سی تصانیف ہیں لیکن ان سب میں کشف المحجوب بے حد مشہورومقبول ہے کسی کو بھی اس کے بارے میں کلام نہیں ہوسکتا کہ یہ کتاب مرشد کامل کا درجہ رکھتی ہے۔ فارسی زبان میں تصوف کی کتابوں میں اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ آپ کے وصال کے بعد حضرت شیخ ہندی نے اپنے ہاتھ سے لحد مبارک اور چبوترہ تیار کیا۔ بعد ازاں ظہیرالدین ابراہیم غزنوی (492-451ھ) نے آپ کی قبر بنوائی۔ مغل اعظم جلال الدین اکبر نے آٹھ پہلو مقبرہ، مزار کے گرد چار دیواری اور بڑے دالان تعمیر کرائے۔ رنجیت سنگھ، اس کے فیل بان میاں عرض خان اور ملکہ مائی موراں سرکار نے بھی یہاں بہت سی تعمیرات کرائیں۔ نور محمد سادھو نے لکڑی کی چھت کی جگہ پختہ گنبد تعمیر کرایا۔ 1940ءمیں مولوی فیروزدین (فیروزسنز) نے لکڑی کی جالیوں کی جگہ سنگ مرمر کی جالیاں لگوائیں اور بیرونی دیواروں پر سنگ مرمر نصب کرایا اور مزار کے گنبد کو سبز ٹائلوں سے مزین کیا۔
 
نوائے وقت نےاسصفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت
منقبت
جائے عافیّت ہے تیرا آستانہ گنج بخش!
فیض پاتا ہے جہاں ‘ سارا زمانہ گنج بخش!
چارہ بے چاروں کا، بے ساماں کا تُو سامان ہے
تیرا در ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ، گنج بخش!
آپ کا دربارِ جلوہ بار ہے لاہور میں
اولیاءکا ہے جہاں پر آنا جانا، گنج بخش!
غوثِ اعظم، والی¿ اجمیر اور گنجِ شکر
مانتے ہیں آپ کو دُرِّ یگانہ، گنج بخش!
تیرا روضہ ہے زیارت گاہ، خاص و عام کی
روز و شب جس کی فضا ہے دِلبرانہ ، گنج بخش!
التجا میرے دلِ پُرشوق کی مقبول ہو
طرز ہو میری فقیری کی شہانہ، گنج بخش!
آرزو ہے اب تو مسکن ہو مرا شہرِ نبی
اب تو میرا ہو وہیں کا آب و دانہ، گنج بخش!
اَز طُفیلِ حضرتِ خیر النسائ، بنتِ رسول
ہو معین الحق پہ لطفِ جاودانہ، گنج بخش!
پیر معین الحق گیلانی گولڑہ شریف
 
نوائے وقت نےاسصفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت

مشہور کرامات




اکمل اویسی پیرزادہ
روایت ہے کہ ایک روز سید علی ہجویریؒ اپنی قیام گاہ پر تشریف فرما تھے اور یاد الٰہی میں مصروف تھے کہ ایک بوڑھی عورت کا گزر ادھر سے ہوا‘ جس کے سر پر دودھ سے بھرا ہوا مٹکا تھا۔ آپ نے اس عورت سے کہا کہ تم اس دودھ کی قیمت لے کر دودھ دے دو۔ اس عورت نے جواب دیا کہ یہ دودھ آپ کو نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ دودھ رائے راجو کو دیتی ہوں، اگر نہ دیں تو اس کے اثر سے بھینسوں کے تھنوں سے دودھ کی جگہ خون نکلنے لگتا ہے۔
آپ نے عورت کی یہ بات سن کر کہا کہ اگر تم یہ دودھ ہمیں دے جاﺅ، تو اللہ کی رحمت اور فضل سے تمہاری بھینسیں پہلے سے بھی زیادہ دودھ دیں گی اور تم ہر قسم کی آفت سے بھی محفوظ رہو گی۔ آپ کی یہ باتیں سن کر وہ عورت رضا مند ہوگئی، چنانچہ اس نے دودھ آپ کو دے دیا اور واپس لوٹ گئی۔
شام کو جب اس نے اپنے جانوروں کو دوہا تو انہوں نے روز کی نسبت زیادہ دودھ دیا یہاں تک کہ اس گھر کے سب برتن بھرگئے اللہ تعالیٰ نے اس کے دودھ میںبرکت ڈال دی۔ یہ خبر جلد ہی لاہور کے قرب و جوار میں پھیل گئی کہ لاہو رکے باہر اللہ کا ایک فقیر ہے اس کو دودھ دیں تو دودھ اللہ کی برکت سے بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ دودھ میں برکت کی خاطر لوگ آپ کے پاس دودھ لانے لگے، آپ اپنی ضرورت کا دودھ لے کر باقی دودھ لوگوں میں تقسیم کردیتے۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر لوگوں نے رائے راجو کو دودھ دینا بند کردیااور اس کے خلاف ہوگئے۔ رائے راجو کو جب اصل حقیقت کا علم ہوا کہ اب اس فقیرکی دعا سے اس کا جادو بھینسوں کے تھنوں پر نہیں چلتا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے جادوگرکو تیز کرکے فقیر کو یہاں سے بھگا دیا جائے۔ مگر وہ نہیں جانتا تھاکہ اللہ کے فقیروں کے ساتھ خدا کی مدد شامل حال رہتی ہے۔ چنانچہ انتقامی جذبے کے تحت وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمارا دودھ تو بند کرادیا اب ہمارے ساتھ مقابلہ کرو۔ رائے راجو نے زبان میں کچھ پڑھا اور ہوا میں اڑنے لگا اور خدا کے فضل سے آپ کی جوتیاں ہوا میں بلند ہوکر اس کے سر پر پڑنے لگیں تو وہ زمین پر اترآیا۔
آخر وہ آپ کے قدموں میں گر گیا اور مسلمان ہوگیا۔ یہی بے بسی اس کا مقدرجگا گئی اور وہ سلوک کی منزل پر گامزن ہوگیا اور شیخ ہندی بن گیا۔
 
نوائے وقت نےاسصفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت
وصال کے وقت پیر و مرشد کا سر آپ کی گود میں تھا




پیر محمد افضل قادری
حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ”بیٹا! میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کرلیا تو ہر قسم کے رنج و تکلیف سے بچ جاﺅ گے۔ یاد رکھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تیرے لئے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہو اسکے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے۔“ یہ 455ھ تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت داتا لاہور قیام کے دوران کچھ عرصہ (تقرےبا 2 سال) کےلئے شام اپنے پیرو مرشد کے پاس چلے گئے تھے اور 455ھ میں ان کے وصال کے بعد پھر لاہور واپس آگئے تھے۔
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی نے فرمایا: اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے اٹھو اور لاہور جاﺅ۔ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی قطبیت لاہور پر مامور ہیں ان کی موجودگی میں اس عاجز کی کیا ضرورت ہے۔ ارشاد ہوا ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجاﺅ۔ چنانچہ داتا گنج بخش 431ھ میں لاہور تشریف لائے اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ ےہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔ پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا جز تھا لیکن لاہور پر اس وقت ہندو مذہب اور ہندو تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ مےں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ علی الصبح میں لاہور میں داخل ہوا تو شیخ زنجانی کے جنازہ کا بڑا انبوہ دیکھا اور شیخ زنجانی کی وصیت کے مطابق میں نے نماز جنازہ کی امامت کی۔ یاد رہے کہ بعض تبصرہ نگاروں نے آپ اور شیخ زنجانی کے پیر بھائی ہونے کی نفی کی ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاءکتاب فوائد الفواد شریف میں ان دونوں بزرگوں کا پیر بھائی ہونا صریحاً مذکور ہے۔
 
نوائے وقت نےاسصفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت

شہرہ آفاق تصنیف ’کشف المحجوب‘ بیش بہا خزانہ


صاحبزادہ محمد عارف ستار القادری
حضرت داتا صاحبؒ کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ بھی کشف المحجوب کے علمی و روحانی ذخار کی غواصی کرنے والا قاری ہی کر سکتا ہے، لہٰذا آپکے علم کا حقیقی جائزہ لینے کے لئے آپ کی شہرہ آفاق تصنیف لطیف ”کشف المحجوب“ ایک بے بہا خزانہ ہے۔ آپ نے اس میں علم کے جو موتی بکھیرے تھے ان کی آب و تاب آج بھی صنوفشاں ہے، علماءحکماءاور صوفیاءآج بھی اس سے علم وحکمت کے موتی چتنے ہیں، اصحابِ طریقت و شریعت اس سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں، یہ کتاب علوم و معارف کا ایک گنجینہ بے بہا ہے، یہ کتاب محض کلمات وارشادات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ہدایت اور رہنمائی کا لامتناعی خروس ہے اس کے الفاظ بے جان حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ زندہ حقیقتوں کے مرقع ہیں، یہ کتاب قاری کی سماعتوں کو نوازتی ہے۔ مردہ دلوں کو بیدارکرتی ہے، بیدار دلوں کو سوزِ یقین عطا کرتی ہے، یہ کتاب راہِ سلوک کے مسافروں کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔
الغرض! اس کتاب میں حضرت داتا صاحب کا اسلوبِ تحریر پرکیف ہے اور اندازِ پیشکش بھی پر ہار، ابواب وفصول کی جامعیت و ترتیب آپ کے ذہن و علم کی تہہ گیری و وسعت پر دلالت کرتی ہے اور اس کے موضوعات جادہ حق کے مسافر کے لئے لائقِ التفات ہیں، یہ کتاب نظریاتی مباحث پر بھی رہنمائی کرتی ہے اور عملی بے راہ رویوں کا ازالہ بھی، اس کتاب میں قرآن و حدیث کے حوالے سے استخراجات کو استحکام و یقین عطا کرتے ہیں تو راہِ ہدایت کے راہ یاب مسافروں کے نقوش قدم پر چلنے کے لئے اعتماد و حوصلہ بھی اور اس کتاب میں شریعت و طریقت کی اجتماعیت نظر آتی ہے اور قرآن و سنت کی بالادستی بھی۔
 
نوائے وقت نےاسصفحہ پر کچھ معلوماتی تحریریں شائع کی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ بشکریہ نوائے وقت
جہاں اولیاءکرام کے سر اقدس اور بادشاہوں کے سر جھک گئے
کے۔ڈی چودھری
حضرت علی ہجویریؒ کی روحانی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ، حضرت شیخ بہلوانؒ دریائی ؒ، حضرت میاں میر ؒ ، حضرت خواجہ باقی بااللہؒ، حضرت مجددالف ثانیؒ، حضرت مادھولال حسینؒ ، ملا عبدالنبی جامی لاہوریؒ، حضرت بو علی قلندرؒ، حضرت گیسو درازؒ، حضرت شاہ محمد غوث قادریؒ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اور حضرت بلھے شاہ قادری ؒ نے آپ کے مزار اقدس پر عقیدت ومحبت سے حاضری دی۔ جبکہ دربار اقداس پر آنے والے شہنشاہوں اور حکمرانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ آپ کا ازحد احترام کرتا تھا وہ اپنے دور میں خود بھی حاضر ہوتا رہا اور اپنے خزانہ سے ایک ہزار روپے سالانہ مجاہدین کا وظیفہ مقرر کیا۔ اس کے علاوہ رانی چندر کور نے ایک دالان بھی اپنے اخراجات سے تعمیر کروایا تھا، مسلمان بادشاہ بھی اپنے اپنے دور میں مزار اقدس پر حاضری دیتے رہے، ظہیر الدولہ ابراہیم غزنوی جو افغانستان اور پنجاب کا حکمران تھا نے اپنے عہد میں مزار شریف کی تعمیر کروائی، اس کے علاوہ ہر دور کے حکمران حاضری دیتے رہے، غزنوی سلاطین کے بعد سلطان محمد غوری، سلطان قطب الدین ، مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر، نور الدین جہانگیر،شہاب الدین شاہجان، اورنگ زیب اور شہزادہ دارالشکوہ بھی انتہائی عاجزانہ انداز میں حاضری دیتے رہے، حضرت سید نا علی ہجویری ؒ سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ہجویر سے لاہور تشریف لائے اور تبلیغ اسلام و اشاعت دین کیلئے اپنی تاریخی خدمات، اعلیٰ کردار، انسان دوستی، محبت اور رواداری کے فروغ کی وجہ سے ”مرشد لاہور“ بن کر لاہور سے منسوب بلکہ لاہور شہر آپ کے نام گرامی سے منسوب ہو کر ”داتا کی نگری“ بن گیا۔ آپ کا 969واں سالانہ عرس مبارک 20صفر (2جنوری) کو انتہائی عقیدتوں اور محبتوں سے منعقد ہو رہا ہے، عرس کے ایام میں سارا لاہور شہر جگمگا اٹھتا ہے بلکہ پنجاب کے علاوہ دیگر تین صوبوں کشمیر اور بیرون ملک سے کثیر تعداد میں زائرین و عقیدتمندحاضر ہوتے ہیں۔
 
Top