خیر خواہ یا بد خواہ

خیر خواہ یا بد خواہ

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے بندوں کو خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ پیدا کیا۔ اگر انسان کے اندر خیر خواہی کا عنصر نہ ہوتا تو انسانی معاشرہ پروان نہ چڑھتا۔ انسان خود بھی خیر خواہ ہے اور اپنے ساتھ خیر خواہی کرنے کو پسند بھی کرتا ہے۔ لیکن شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے وہ ازل سے ہی انسان کے اس خیر خواہی کے جذبے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا آیا ہے ۔ جب اللہ سبحانہ و تعالٰی حضرت آدم اور حضرت حوا علیہم السلام کو جنت میںتمام عیش و عشرت میں رکھتے ہوئے صرف ایک درخت کے پاس جانے سے منع کیا تو شیطان انہیں جنت سے نکلوانے کیلئے ان کا خیر خواہ بن کر اُن کے پاس آیا اور کہا:

وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَ۔ٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴿٢١﴾ الأعراف
’’ تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔اور اس (شیطان) نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ‘‘۔

دشمنانِ اسلام جو اُسی شیطان کے چیلے ہیں وہ بھی اُسی کے نقش قدم پر چل کر ہمیشہ خیر خواہ کا لباوہ اوڑھ کر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں اور آج بھی پہنچا رہے ہیں۔ پہلے مسلمان ملکوں میں اپنے پالتوں کتوں کے ذریعے دہشتگردی کا بازار گرم کرتے ہیں ‘ پھر خیر خواہ بن کر امن و امان قائم کرنے کا جھانسا دیتے ہیں۔ انسانیت کے خیر خواہ بن کر کسی ایک فرد یا ملک کو انسانیت کو تباہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور پھر اپنی تمام شیطانی طاقتوں سمیت اس ملک پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہیں اور انسانیت کا قتل عام کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ ہی ہمارے خیر خواہ ہیں حالانکہ دشمن کبھی خیر خواہ نہیں ہوتا۔ لیکن آج ہم مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اِن دشمنوں کو ہی خیر خواہ سمجھ رکھا ہے اور خود بھی اُن ( دشمنوں ) کے ہی بڑے خیر خواہ ہیں۔ ایسے لوگ میڈیا کی ہر فورم سے چوبیس گھنٹے ان دشمنوں کو مسلمانوں کاخیر خواہ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

جبکہ یہ خود ہی ملک و ملت اور مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہیں۔

خیر خواہ کون ہوتا ہے ؟ ‘
خیرخواہی کیا ہوتی ہے ؟
اور خیر خواہی کیسے کی جاتی ہے ؟
یہ تو جانتے بھی نہیں۔​

خیر خواہ تو اللہ کے برگزیدہ بندے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ہوا کرتے تھے جن کی نبوت و رسالت کا مقصد ہی انسانوں کو اللہ تعالیٰ اوربندوں کے حقوق سے آگا ہ کرنا اور خیر کی دعوت دینا اورہر شر سے ڈرانا اور اس سے باز رہنے کی تلقین کرنا تھا۔

اللہ تعالٰی قرآن میں فرماتے ہیں کہ

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّ۔هِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٦٢﴾ الأعراف
’’ تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں‘‘۔

اور حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے کہا:

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ﴿٦٨﴾ الأعراف
’’ تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے‘‘

حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے کہا تھا:

فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَ۔ٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ ﴿٧٩﴾ الأعراف
’’اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچادیا تھا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم لوگ خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے‘‘۔

اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا تھا:

فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ ﴿٩٣﴾الأعراف
’’ اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ اے برادران قوم، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے‘

یعنی تمام انبیا علیہم السلام خیر خواہ تھے اور اپنی اپنی قوم کی خیر خواہی کا فریضہ سر انجام دے گئے جبکہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے نہ صرف اپنی قوم کے بلکہ قیامت تک آنے والی پوری انسانیت کے یہاں تک کہ حیوانات اور چرند پرند کے بھی خیر خواہ رہے ہیں اور خیر خواہی کرنے کا انتظام کر گئے ہیں‘ خیر خواہی کیا ہوتی اور کیسے کی جاتی ہے یہ اپنی امت کو سکھا گئے۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ۔
’’ دین خیر خواہی ہے۔
صحابہ ؓنے پوچھا: کس کی؟
آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور ان کے عام آدمی کی‘‘۔

لہذا اللہ کی، اللہ کی کتاب کی، اللہ کے رسولﷺ کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام آدمی کی خیر خواہی کرنا ہی دین ہے۔

خیر خواہی اللہ پر ایمان اور معرفت و محبت الٰہی کے ساتھ حقوق اللہ کی ادائیگی یعنی شرک سے پاک عبادت و اطاعت میں ہے۔
خیر خواہی قرآن کا حق ادا کرنے میں ہے یعنی خشوع خضوع کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنے اور اس کی معنی مطلب و مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس کے احکام وتعلیمات پر عمل کرنے میں ۔
خیر خواہی ہے آپﷺ پر ایمان لانا ‘ آپؐ سے محبت کرنا‘ آپؐ کی اطاعت کرنا‘ آپؐ کی نصرت کرنا‘آپؐ کے مشن کو پھیلانا اور آپؐ کی شریعت کو عام کرنا‘ آپؐ کی سنتوں پرعمل کرنا اور انہیں زندہ کرنا‘ آپؐ پر درود پڑھنا‘ آپؐکی اخلاق عالیہ کی تقلید کرنا وغیرہ وغیرہ
خیر خواہی مسلمانوں کی حکمرانوں کی حق کے معاملے میں اطاعت و معاونت اور ناحق معاملے انہیں تذکیر و تنبیہ کرنے میں ہے۔
خیر خواہی عام مسلمانوں کی جہالت دور کرکے ان کی اصلاح کرنے اور انہیں علمِ دین سے بہرہ مند کرنے میں ہے۔
خیر خواہی غیر مسلموں تک دین اسلام کی دعوت پہنچانے اور انہیں اسلام کی روشنی سے روشناش کرانے میں ہے۔
خیر خواہی فرقہ واریت کو ختم کرکے اسلامی بھائی چارا قائم کرنے میں ہے۔
خیر خواہی انسانیت کو ظلم و بربریت سے نجات دلانے میں ہے۔
وغیرہ وغیرہ ساری کی ساری خیر خواہی دین ہے۔

اور اللہ کے نزدیک یہ دین اسلام ہے۔
إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسل۔ٰمُ...﴿١٩﴾آل عمران​

اسلام ابدی اور محکم قانونِ اِلٰہی پر مبنی کامل ترین دین ہے۔ جو اس دین کا پابند ہے وہی خیر خواہ ہے اپنا، اپنے اہل و عیال کا، تمام مسلمانوں کا ‘ غیر مسلموں کا‘ ملک و ملت اور انسانیت کا۔
جبکہ موجودہ دنیا میں خیرخواہی کے چمپین کہلانے والے اپنی طاقت اور سائنس و ٹیکنولوجی کے نشے میں انسانیت کے ساتھ کیسی خیر خواہی کر ر ہے ہیں یہ دیدۂ عبرت رکھنے والے ہی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔لیکن مسلمانوں کی اپنی صفوں میں بیٹھے بڑے بڑے خیر خواہ جو ا پنی خیر خواہی کے ذریعے عوام الناس کو دینِ اسلام سے متنفر کرنے، اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو مسلمانوں کا خیر خواہ ثابت کرنے کی سعیٔ ناکام میں لگے ہوئے ہیں جن کی عقل سقیم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو لوگ ہمارے رب کےخیر خواہ نہیں ‘ رسول اللہ ﷺ کے خیر خواہ نہیں، کتاب اللہ کے خیر خواہ نہیں‘ وہ ہمارے، عام مسلمانوں کے یا پھرمسلمانوں کے حکمرانوں و رہنماؤں کے کیسے خیر خواہ ہوسکتے ہیں؟

مسلمانوں کی اپنی صفوں میں بیٹھے ایسے لوگ مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں بلکہ بد خواہ ہیں۔
مسلمانوں کے خیر خواہ تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کو اپنا اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتے ہیں۔ جو لوگ صرف نام کے مسلمان نہ ہوں بلکہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوں۔

کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٠٨﴾ سورة البقرة
’’اےایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وه تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘

لہذا خیرخواہی اسلام کو مکمل طور پر اپنانے میں ہے۔
حقیقی خیر خواہی وہی کر سکتا ہے جو مکمل طور پر دین اسلام کو اپنائے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو اپنا اور تمام مسلمانوں کو اپنا‘اپنی کتاب کا‘ اپنے رسول ﷺ کا ‘ مسلمانوں کے رہنماؤں کا اور عام آدمی کا خیر خواہ بنائے۔ ہمیں اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور شیطان کے قدموں کی تابعداری کرنے سے بچائے۔آمین

تحریر : محمد اجمل خان
Muhammad Ajmal Khan
https://m.facebook.com/apnitejarat
https://m.facebook.com/Position.Believer
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top