خیر الدین باربروسہ کی زندگی کا ایک باب

عمیر فہد

محفلین
خیر الدین باربروسہ کی زندگی کا ایک باب

مئی (952 ہجری —1547) کا ایک دن …

عالم اسلام اور عرب دنیا جہاد کے پرچموں میں سے ایک پرچم ، اسلام کی تلواروں میں سے ایک تلوار کھو دینے پر غم و یاس کی لہر میں ڈوب گئی ، جبکہ مغرب میں صورتحال اس کے برعکس تھی ، یورپ کے تمام ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ، اس عظیم شخص کی وفات پر شادیانے بجائے گئے جس سے یورپ کے تمام بادشاہ اور امراء زخم خوردہ تھے ، جو ان کے بحری بیڑو ں اور تجارت کیلئے سب سے بڑا خطرہ تھا جس کے حملوں سے ان کے محاذ ساحلی شہر اور بستیاں کبھی بھی محفوظ نہ رہیں ۔

بھوری داڑھی والا وہ مرد مجاہد (باربروسہ ) وفات پا چکا تھا جس نے اپنی زندگی سمندر میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے صبرو ثواب کی امید پر گزار دی ، جو اپنی زندگی میں مرتبہ ومال کا طلبگار نہ تھا اور نہ ہی اس نے جاہ و منصب کے حصول کیلئے کام کیا اور اگر اسے مرتبے عطاء ہوئے بھی تو اس کی جانب سے کسی کوشش وارادے کے بغیر

شیخ المجاہدین اپنی عمر عزیز کی 80 بہاریں گزار چکے تھے ، جو جہاد کے میدانوں میں تھکے نہیں اور نہ ہی زمانے کے مصائب وآلام نے ان عزم وارادے پر کوئی اثر چھوڑا اور نہ ہی ان کا مقصد ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوا ۔

سمندر نے ان کے عزیز ترین اہل اور دوست نگل لئے ، جہاد میں اپنے محبوب بھائیوں اور دنیا میں موجود دراں قدر ترین رشتوں کی قربانی دی ، جس کے بعد زندگی میں کوئی مقصد نہ باقی رہا سوائے اس کے کہ پرچم جہاد کو بلند رکھنے کیلئے اپنے مضبوط قدم جما کر رکھے جائیں جس پرچم تلے کئی یک اور پاکیزہ لوگ اپنا خون پیش کر چکے تھے ، اسی استقامت میں ان کے خون سے وفاداری تھی ۔

انھوں نے اپنی جان اس پامال ہوتے دین کے دفاع کیلئے کھپا دی ، چنانچہ اس دنیا میں احدی الحسنیین شہادت یا فتح سے زیادہ معزز اور گراں قدر راستہ کوئی ہیں ۔

اس راستے پر باربروسہ (سرخ داڑھیوں والے) اس تاریخی دورانئے می مسلمانوں کے محاذوں کا دفاع کرتے ہوئے چلے جس وقت صلیبی افواج نے مسلمانوں کو ناقابل تلافی زخم پہنچائے ، انھیں ان کے گھروں سے نکالا ، ان کا جینا حرام کیا ، انھوں قتل و غارتگری ، جلاوطنی ، غلامی نوچ کھسوٹ کا نشانہ بنایا گیا ، یہاں تک کہ دنیا اپنی تمام تر کشادگی کے باوجود ان پر تنگ کر دی گئی ، اس دوران ایک نجات دہدہ کی شکل میں یہ بطل اس طرح نمودار ہوا جیسا کہ روشن ستارہ تاریک آسمان پر اپنی روشنی بکھیرتا ہے۔اور ان لوگوں کی مدد و نصرت کا بیڑہ اٹھایا جن پر دنیا کی تمام مدد کے راستے بند ہو چکے تھے۔

اس تاریخی دورانئے میں جب اسپین کی افواج صلیبی پرچم تلے مغرب اسلامی پر حملے کیلئے نکلیں اور مغرب اسلامی کے ساحلی شہروں پر اپنا قبضہ جما لیا ان شہروں کی مساجد کی حرمت کو پا مال کیا ، اموال و دولت کو لوٹا تو یہ باربروسہ حسب المقدور اپنے دینی بھائیوں کی مدد کیلئے نکلے ، عمدہ ترین معرکے ، عظیم فتوحات سے بھری تاریخ رقم کی ، بر وبحر کے جہادی میدان ان کے فضائل و قربانیوں سے آشنا ہوئے ۔ اس طرح سے اانھوں نے عرب اور مسلمانوں کے دل میں ہمیشہ جاگزیں رہنے والا مقام حاصل کیا ۔ صرف مغرب اسلامی میں ہی نہیں بلکہ تمام عرب اور مسلم علاقوں میں۔

سرخ داڑھیوں والے (باربروسہ ) اس صفت کا اطلاق فرنگی اس خاندان پر کرتے ہیں جو سمندر میں جہاد کی قیادت ادا کرتا رہا ، پھر یہ لقب کثرت استعمال کی وجہ سے عرب میں منتقل ہو گیا اور اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ ان مجاہد بھائیوں کے اصلی ناموں پر غالب آگیا ۔

یہ بھائی بحر ارخبیل کے ایک جزیرہ میڈلی میں ترک باپ یعقوب بن یوسف کے ہاں پیدا ہوئے ، ان کی ماں اندلس کی رہنے والی تھی ، یعقوب بن یوسف کے 4 بیٹے تھے ، اسحاق ، عروج ، خضر ، محمد الیاس ،

یعقوب نے اپنے بیٹوں کی پختہ اسلامی روایات پر تربیت کرے کی کوشش کی ، بڑے بیٹے نے علم کا راستہ اپنایا، اسلامی علوم کے حصول کیلئے نکل کھڑا ہوا ، جبکہ باقی بھائی جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے میدان کا انتخاب کیا ۔بڑے بھائی عروج نے اپنے بھائیوں کے سامنے میدان کھولا اور ابھی اس کی عمر 15 سال سے کچھ ہی زیادہ تھی کہ سمندر کا راہی بنا ، کچھ ہی عرصہ میں اپنے لئے ایک کشتی بنا ڈالی اور اس کی سربراہی کا بیڑہ اٹھا لیا ، زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ مشرق کے سمندر میں دشمنوں نے اسے قید کر لیا ، اس قید و بند اور بیڑیوں میں دو سال گزارے اور بالآخر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ، مصر کے ساحل کے قریب اپنے آپ کو سمندر میں گرا دیا اور ایک جہاز پر سوار ہو کر میڈلی اپنے بھائیوں اور والدین کا رخ کیا راستے میں ایک بار پھر گرفتار ہوتےہوئے بچا۔

قرمان ترکی کے سواحل کے قریب ایک علاقہ تھا جہاں والی قرمان کورکود سلطان بایزید کے بیٹے نے اس کی تکریم کی اس میں چھپے جنگجو سپاہی کو پہچانا اور اس کو ایک جنگی کشتی تیار کر کے دی اور اٹلی کے سمندر میں جنگ کیلئے بھیجا جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ پورے زور و شور سے رواں تھی۔وہاں عروج نے پوپ کی ریاست کی ملکیت دو کشتیوں کو شکار کیا جو قیمتی سازوسامان سے لدی ہوئی تھیں۔

اسی طرح ایک اور اطالوی کشتی کو نشانہ بنایا اور اس مال غنیمت کے ساتھ اسکندریہ کی بندرگاہ کو لوٹا مال غنیمت میں سے خمس بیت المال میں جمع کروا دیا ۔

پھر نئے سرے سے اپنے اس چھوٹے بحری بیڑے کے ہمراہ جس میں غنیمت سے حاصل شدہ کشتیاں بھی شامل ہو چکی تھیں ، سمندر میں سوار سخت جان مجاہدین کی ایک جماعت بھی اس کے پرچم تلے جمع ہو گئی اور انھوں نے بحر ابیض کے مغربی حصے کو اپنا محاذ بنانے اور اندلس کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ اس کی والدہ کا اصلی وطن بھی تھا۔انھوں نے جزیرۃ جربۃ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ، وہاں اس کا بھائی خضر بھی اس کے ساتھ آملا وہ بھی اس کی طرح ایک جنگی کشتی کی قیادت کر رہا تھا اور وہاں سے ان دونوں نے مل کر اندلس کا رخ کیا ، اسلام کی نصرت اور پناہ گزیں مہاجر اندلسیوں کو بچانے کیلئے نصاریٰ کے بحری بیٹوں کو تباہی کا نشانہ بنانے لگے ، یہاں سے نصاریٰ نے ان دونوں بھائیوں عروج اور خضر کو بربروس کا لقب دیا۔

یہیں پر کچھ اندلسیوں اور اہل مغرب نے خضر کو تجویز دی کہ وہ اپنا نام تبدیل کرے اور خضر نے اپنا نام بدل کر خیر الدین رکھ لیا۔

اس دوران تیونس ، طرابلس اور الجزائر کے مشرقی حصے پر بنو حفص کی حکومت تھی ۔ لگ بھگ 1510 میں حفصی حکمران ابو عبداللہ محمد نے ان دو ابطال سے نصاریٰ کے حملوں اور سمندری جارحیت کے خلاف اپنے دین اور مملکت کی حفاظت کیلئے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا ۔ ان دونوں کو اپنے مال غیمت کا خمس مملکت کے بیت المال میں جمع کروانے کا پابند بنایا۔

چنانچہ ان دونوں بھائیوں نے حلق الوادی کو اپنا ٹھکانہ بنا کر اسلام دشمنوں کے خلاف جگ شروع کر دی۔

یہ دونوں بھائی اپنے نئے ٹھکانے سے 3 چھوٹی کشتیوں پر نکلے ، سمندر میں ادر تک جانے پر ان کا ٹکراؤ ایک بڑے جنگی جہاز سے ہوا جو ناپولی سے برشلونہ کی جانب 300 ہسپانوی سپاہی لیکر جا رہا تھا، ناپولی کا جہاز اپنے حجم اور توپوں کی فائری قوت میں ان کشتیوں سے کہیں بڑا تھا ۔ اس کے باوجود ان بھائیوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کے جرائم کا انتقام لینے کیلئے اس پر حملے کا فیصلہ کیا۔

یہ 3 چھوٹی کشتیاں اس جہاز کو گرفتار کرنے کیلئے پھیل گئیں مگر اس کے بدلے اس کی ضخیم فائری قوت کو فائدہ پہنچا ۔ مجاہدین کی کشتیوں کے ذریعے حملے کی کوششیں 7 بار ناکام ٹھہریں اور آٹھویں حملے میں جب عروج کو گہرے زخم پہنچے ، خیر الدین دشمن کے جہاز تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے آپ کو اس جہاز میں گرا دیا مجاہدین بھی ریزی کے ساتھ اس کے پیچھے لپکے اور سخت خوں ریز اور شدید معرکے کے بعد اس جہاز پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے اس میں موجود تمام لوگوں کو قید کیا ، اور انھیں ہانک کر فتح کے پھریرے لہراتے حلق الوادی واپس لوٹے ۔

سلطا ن ابو عبداللہ کی نیکی کا اعتراف کرتے ہوئے ان بھائیوں نے اس کی جانب مال غنیمت میں سے شرعی خمس سے کہیں زیادہ قیمتی تحائف بھیجے جن میں قیدی اور لونڈیاں بھی شامل تھے ، سلطان کے ہاں ان کا مرتبہ اور عزت اور بھی بڑھ گئی ، خیر الدین نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ، یہاں تک کہ اس کا بھائی عروج بھی شفایاب ہو کر اس کے ساتھ آملا اور وہ دونوں مل کر دشمن کے خلاف جہاد میں مصروف ہو گئے ، یہ 1512 کی بات ہے۔

اور یہ تو ابتداء تھی…


از بسام العسلی
 
Top