میرے خیالات

منیب الف

محفلین
خیالات 14 مارچ 2018
سب لوگ کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ محفوظ کر رہے ہیں۔ شیئر کر رہے ہیں۔ کوئی فیس بک پہ، کوئی کتابوں میں، کوئی تصویروں میں، کوئی لفظوں میں۔
لیکن کیوں؟
کیا انسان بغیر شیئر کیے نہیں رہ سکتا؟ کیا وہ اپنی بات اپنے تک نہیں رکھ سکتا؟
کیا خوف ہے کہ ہماری باتیں کھو نہ جائیں؟ ہم مٹ نہ جائیں؟ کوئی ہمیں یاد کرنے والا ہو؟
کیا مٹنے سے ڈر لگتا ہے؟ کیا کھونے سے خوف آتا ہے؟
کیا ہوا اگر کوئی نام لیوا نہ رہا۔ وہ نام لیوا بھی تو نہیں رہے گا۔
مجھے میرا شعر یاد آ گیا،
جب میں کہتا ہوں مرے پاس رہو کہتا ہے
میں تو رہ جاؤں مگر تم ہی نہیں رہنے کے
ہو سکتا ہے یہ شعر مبہم ہو۔ ہو سکتا ہے میری کل کی کل شاعری مہمل ہو۔ لیکن اب مجھے اتنا دماغ نہیں ہے کہ مہمل اور غیر مہمل میں فرق کر سکوں۔
میرے لیے مہمل بھی بامعنی ہو گیا ہے۔ اور بامعنی بھی مہمل۔
شاید دونوں ایک ہی ہیں۔
میں جو دوسروں پہ انگلی اٹھاتا تھا کہ لوگ شیئر کیوں کرتے ہیں؟
اب میں بھی اس لکھے کو آن لائن شیئر کرنے جا رہا ہوں۔
کیوں؟
کیونکہ میں بوجھل ہوں۔ میں ہلکا ہونا چاہتا ہوں۔
شاید دوسروں پر بھی اپنے خیالات کا بوجھ ہو۔ شاید وہ بھی اپنے احساسات سے بوجھل ہوں۔ شاید وہ چاہتے ہوں کہ انھیں کوئی سہارا دینے والا مل جائے۔ ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔
ایک اور مصرع یاد آ گیا جو کچھ دن پہلے لکھا تھا،
ذات عرفانِ ذات سے بوجھل
لیکن اس پر گرہ لگانا باقی ہے۔
کیا بنے گی مکمل صورت؟ کئی قوافی ذہن میں ہیں۔
ناممکنات سے بوجھل
کائنات سے بوجھل
حادثات سے بوجھل
تو ہے جن واردات سے عاری
میں ہوں ان واردات سے بوجھل
لیکن میں نے اس غزل کو کبھی پورا نہیں کرنا چاہا۔ پورا کروں تو سناؤں گا کسے؟
ابھی یہی کہوں گا ذات عرفانِ ذات سے بوجھل کہ میرے دوست میرا منہ تکنے لگیں گے۔
میں سہل لکھنا چاہتا ہوں۔
ادھر کہوں ادھر سمجھا جائے۔ لیکن کتنا سہل سہل ہے؟ کتنا مشکل مشکل ہے؟
کیا مشکل صرف لفظوں میں ہوتی ہے؟
یا معنی میں بھی ہوتی ہے؟
کیا سہل لکھنے کا مطلب آسان الفاظ کا استعمال ہے یا آسان معنی چننے کا؟
لیکن معنی کیسے آسان ہو سکتا ہے؟
معنی تو گہرا ہو سکتا ہے۔ یا کم گہرا ہو سکتا ہے۔
گہرا گہرے میں ڈوبتا ہے، سطحی سطح پر رہتا ہے۔
لیکن مزیدار بات یہ ہے پیمانہ بھی کوئی نہیں ہے۔
معنی کے جہان میں پیمائش نہیں ہو سکتی۔ جسے گہرا کہتے ہیں وہ اتنا ہی بلند ہوتا ہے۔
جو بلند ہوتا ہے، وہ اتنا ہی گہرا ہوتا ہے۔
لیکن مجھے گہرائی اور بلندی کی بحث میں نہیں پڑنا۔
مجھے پیمائش نہیں کرنی۔ مجھے فہمائش نہیں کرنی۔
مجھے مفہوم عزیز نہیں۔ مکتوب عزیز ہے۔
مکتوب بدلتا نہیں ہے، مفہوم بدلتا رہتا ہے۔
کاتب ایک ہے، فہیم بہت ہیں۔
فہیم بہت ہیں لیکن فہمان کم ہیں۔
میں پھر کثرت و قلت کے چکر میں پڑ گیا۔
بلندی، گہرائی، کثرت و قلت۔۔ میرا ذہن مجھے یہ اندازے لگانے، پیمائشیں کرنے پر کیوں مجبور کر رہا ہے؟
کیا یہ صرف دیکھنے پر اکتفا نہیں کر سکتا؟
لیکن شاید اس کی فطرت ہی یہی ہے۔
شاید فطرت نے اسے بنایا ہی پیمائش کرنے کے لیے ہے۔
مجھے اس سے گلا نہیں ہے۔
یہ میرا دوست ہے۔ لیکن جب یہ بےقابو ہو جاتا ہے۔ جب مجھ پہ سوچ حاوی ہو جاتی ہے تو میں بہت بوجھل ہو جاتا ہوں۔ لیکن قصور تو میرا ہے۔ یہ مجھے بےقابو نہیں کر سکتا، میں اسے بےقابو کرنے دیتا ہوں۔
ذہن کو قابو میں لانے کے لیے پیٹ کو قابو میں لانا ضروری ہے۔
پیٹ سے میری مراد معدہ ہے۔
انسان کا ذہن صرف سر میں نہیں ہے، معدے میں بھی ہے۔
قدیم افریقی لوگ تو ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ وہ پیٹ سے سوچتے ہیں۔
ایک اور مصرع یاد آ گیا، بےگرہ مصرع
گوشت کا کھانا نہیں، کھونا ہے اپنے ہوش کا
یوگی گوشت نہیں کھاتا، اس کی وجہ ہے۔
وہ کہتا ہے گوشت کھانا حیوانوں کا کام ہے، انسانوں کا نہیں۔
انسان جب تک شکار کر کے گوشت کھاتا تھا، تب تک وہ حیوان تھا۔ اپنے شعور کے ارتقا کے ابتدائی مرحلوں میں تھا۔
آہستہ آہستہ اس نے فصلیں بونا شروع کیں، پھل پھول کھانے لگا، اور انسانیت سے قریب تر ہوتا گیا۔
لیکن مجھے اس بحث میں بھی نہیں پڑنا کہ کیا کھانا چاہیے، کیا نہیں؟
گوشت کھانا چاہیے، یا نہیں؟ دودھ پینا چاہیے یا نہیں؟
ہر انسان مختلف ہے۔ اس کی بلڈ ٹائپ مختلف ہے۔
جو ایک کے لیے زہر ہے، وہ دوسرے کے لیے امرت ہے۔
مجھے یہاں رکنا چاہیے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
 

سحرش سحر

محفلین
جہاں تک " شیئر " کرنے کی' بات ہے تو سننا اور سنانا انسان کی فطرت ہے ۔ وہ دوسروں کو سنانا بھی چاہتا ہے جس کو ہم اظہار کہتے ہیں اور دوسروں کی سننا بھی چاہتا ہے ۔ اس لیے تو ادب تخلیق ہوا ۔
 

منیب الف

محفلین
جہاں تک " شیئر " کرنے کی' بات ہے تو سننا اور سنانا انسان کی فطرت ہے ۔ وہ دوسروں کو سنانا بھی چاہتا ہے جس کو ہم اظہار کہتے ہیں اور دوسروں کی سننا بھی چاہتا ہے ۔ اس لیے تو ادب تخلیق ہوا ۔
بالکل صحیح کہا آپ نے!
 

سید عمران

محفلین
انسان انس سے ہے...
ایک انسان دوسرے انسان سے ہی انس حاصل کرتا ہے...
انس حاصل کرنے کا ایک ذریعہ کہنا سننا بھی ہے...
اللہ تعالی نے عیادت اور تعزیت کرنے کو عبادت بنادیا...
کہ اس کہنے سننے سے غمزدہ کا دل ہلکا ہوتا ہے!!!
 

منیب الف

محفلین
انسان انس سے ہے...
ایک انسان دوسرے انسان سے ہی انس حاصل کرتا ہے...
انس حاصل کرنے کا ایک ذریعہ کہنا سننا بھی ہے...
اللہ تعالی نے عیادت اور تعزیت کرنے کو عبادت بنادیا...
کہ اس کہنے سننے سے غمزدہ کا دل ہلکا ہوتا ہے!!!
بہت خوب صورت!
 

منیب الف

محفلین
خیالات 15 مارچ 2018
آج دوسرا دن ہے کہ میں اپنے خیالات لکھ رہا ہوں۔
میں حیران ہوں کہ کل اپنے خیالات شیئر کرنے سے میں کتنا ہلکا پھلکا ہو گیا۔
نہ صرف دن اچھا گزرا بلکہ رات بھی اطمینان سے سویا۔
مجھے یہ عادت ڈال لینی چاہیے۔
سننے والے کان نہ بھی ہوں، دل کو مطمئن کرنے کے لیے ہلتے ہونٹ ہی کافی ہیں۔
کان ساکت ہوتے ہیں۔ سکوت میں اپنا کام انجام دیتے ہیں۔
ہونٹ ہلتے ہیں تو بات کہہ پاتے ہیں۔
یہ تضاد چاہیے ہی تھا۔ یہ جہان مجموعہ اضداد ہے۔ اس کی ہر شے زوج زوج ہے۔
میرا زوج کیا ہے؟
کوئی عورت؟
شاید جسمانی حد تک ہاں، لیکن کیا میں صرف جسم ہوں؟
کیا میں صرف مادہ ہوں؟
کیا مجھ میں روح نہیں ہے؟
روح کسے کہتے ہیں؟
روح شعور کو کہتے ہیں؟ روح انرجی کو کہتے ہیں؟
کیا روح الیکڑو میگنیٹک فیلڈ ہے؟
اگر ہر چیز کا زوج ہے تو کیا روح کا زوج بھی ہے؟
لیکن اس سے پہلے یہ سوال بنتا ہے کہ کیا روح کوئی چیز ہے؟
مادے کی حد تک تو زوج دکھائی دیتا ہے، لیکن کیا روح بھی زوج کی محتاج ہے؟
شاید نہیں!
مجھے لگتا ہے نہیں۔
اگر عالم روحی میں بھی احتیاج ہے، تو وہ عالم بدنی سے برتر کیسے ہوگی؟
لیکن کیا برتری اور کمتری کا سوال پوچھنا بھی چاہیے؟
کیا عالم روحی اور عالم بدنی کو جدا جدا دیکھنا بھی چاہیے؟
کیا بدن میں روح نہیں ہوتی؟ کیا روح بدن کے بغیر ہوتی ہے؟
کیا خبر روحی اور بدنی عوالم دو ہوں ہی نہ، ایک ہی ہوں!
اگر ایسا ہے تو میں کس کی کھوج کروں؟
میں مادے سے کیسے اوپر اٹھوں؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ میں تو ہوں لیکن میرا جسم نہ ہو؟
روح ہی روح ہو؟
لیکن مجھے روح کے بھی ہونے کی فکر کیوں ہے؟
کیا ایسا ہونا نہیں ہو سکتا جس میں روح اور جسم دونوں ہی نہ ہوں؟
جب روح اور جسم دونوں نہ ہوں گے تو کیا ہو گا؟
کچھ ہو گا بھی یا نہیں ہو گا؟
کیا کچھ بھی نہ ہونے میں ہونا ہو سکتا ہے؟
ہے تو سہی!
نہ ہونا یعنی نہ اور ہونا۔ ہونا نہ ہونے میں بھی ہے!
اب کدھر جایا جائے؟
نہ ہونا محال ہے۔
یا فی الحال مجھے ایسا نظر آ رہا ہے۔
لیکن میں نہ ہونا کیوں چاہتا ہوں؟
کہیں گہرے میں مجھ میں نہ ہونے کی خواہش ہے۔
ہر چیز سے، ہر شے سے، ہر زوج سے، آزادی کی آرزو ہے۔
مکمل آزادی جسے شاید مکتی کہتے ہیں۔
یہ آرزو شاید تخریبی ہے۔ یا کہوں منفی ہے۔ لیکن ہے!
خیر، ہونا نہ ہونا بہت ہوا۔
جو ابھی ہے، وہ بھی مقدس ہے۔ وہ بھی آسمانی ہے۔
وہ بھی بہت ہے۔ اس کا بھی احترام چاہیے۔
اس کی بھی قدر چاہیے۔
نہ ہونے کا راستہ یہیں سے گزرتا ہے۔
اسے بھی پیار کروں۔ اسے بھی سراہوں۔ لیکن ڈرتا ہوں اسی کا نہ ہو کے رہ جاؤں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
واہ ۔ ۔ ۔ خوب دعوت فکر ہے ۔ ۔ ۔ زبردست۔ ۔ ۔
----------------------------------------
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
----------------------------------------
 

اکمل زیدی

محفلین
انسان انس سے ہے...
ایک انسان دوسرے انسان سے ہی انس حاصل کرتا ہے...
انس حاصل کرنے کا ایک ذریعہ کہنا سننا بھی ہے...
اللہ تعالی نے عیادت اور تعزیت کرنے کو عبادت بنادیا...
کہ اس کہنے سننے سے غمزدہ کا دل ہلکا ہوتا ہے!!!
عمران بھائی انسان ۔ ۔ ۔ نسیان سے بھی ہے جو بھول جات ہے ۔ ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
جی۔۔۔
ہم نے موضوع کی مطابقت کے لحاظ سے متعلقہ لفظ کا ذکر کیا ہے!!!
کیا خوف ہے کہ ہماری باتیں کھو نہ جائیں؟ ہم مٹ نہ جائیں؟ کوئی ہمیں یاد کرنے والا ہو؟
کیا مٹنے سے ڈر لگتا ہے؟ کیا کھونے سے خوف آتا ہے؟
 

سید عمران

محفلین
نہیں۔۔۔
بلکہ یہ !!!
سب لوگ کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ محفوظ کر رہے ہیں۔ شیئر کر رہے ہیں۔ کوئی فیس بک پہ، کوئی کتابوں میں، کوئی تصویروں میں، کوئی لفظوں میں۔
لیکن کیوں؟
کیا انسان بغیر شیئر کیے نہیں رہ سکتا؟ کیا وہ اپنی بات اپنے تک نہیں رکھ سکتا؟
میں جو دوسروں پہ انگلی اٹھاتا تھا کہ لوگ شیئر کیوں کرتے ہیں؟
اب میں بھی اس لکھے کو آن لائن شیئر کرنے جا رہا ہوں۔
کیوں؟
کیونکہ میں بوجھل ہوں۔ میں ہلکا ہونا چاہتا ہوں۔
شاید دوسروں پر بھی اپنے خیالات کا بوجھ ہو۔ شاید وہ بھی اپنے احساسات سے بوجھل ہوں۔ شاید وہ چاہتے ہوں کہ انھیں کوئی سہارا دینے والا مل جائے۔ ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔
 

منیب الف

محفلین
19 مارچ 2018
الفؔ!
تیسرا دن ہے۔
لکھنا شروع کریں؟
لیکن یہ کرنا۔
یہ کرنا بہت نامکمل ہے۔ بہت ادھورا ہے۔
کرنے سے کبھی کچھ نہیں ہوا۔
ہونے سے ہوا ہے۔
میں لکھنا شروع نہیں کروں گا۔ شروع ہونے دوں گا۔
اس ایک بات کی سمجھ نے مجھے بدل دیا ہے۔
اب میں وہ نہیں ہوں جو کیا کرتا تھا۔
اب میں وہ ہوں جو ہونے دیتا ہے۔
کس کس ڈھنگ سے دہراؤں ایک ہی بات؟
سو رنگ میرے پاس نہیں ایک پھول کے مضمون کے لیے۔
ایک شعر لکھا تھا کبھی،
خواب ساحل کے کبھی آنکھ میں تیرے ہی نہیں
اب جہاں موج بہاتی ہے بہا کرتے ہیں​
سچ کہوں تو ایک وقت تھا جب میری آنکھوں میں بھی خواب تیرے تھے۔
لیکن اس سمجھ سے پہلے!
پہلے، جب مجھے شاعری کا شوق تھا، زباندانی کا شوق تھا۔
اب نہیں!
اب ایک الفؔ سیکھا گیا ہے۔ بے کی ضرورت نہیں۔ ابجد تو بہت دور کی بات ہے۔
اب جو جانا ہے، جتنا جانا ہے۔
اسے ہی دہرانا ہے۔
میں دہراتے دہراتے ہی دہر سے نکل جاؤں گا۔
ایک مسئلہ ہے!
جاننے کی حد ہے۔
ایک پردہ ہے۔ بس اسی تک نظر آتا ہے۔
اس کے آگے نہیں۔
اس کے آگے جانا ہو تو پردہ اٹھانا پڑتا ہے۔
پردہ اٹھ جائے تو گرتا نہیں۔
پردہ اٹھانے والا ہی گرتا ہے۔ اننت میں۔ اَن اَنت میں!
دوسرا مسئلہ ہے!
افہام و تفہیم کا۔
جو جانا جائے، اسے جنایا کیسے جائے؟
جو بات جس مقام سے کہی جاتی ہے، اسی مقام سے سمجھی جا سکتی ہے۔
شدھ کو اشدھ پکڑ نہیں سکتا۔
لطافت کثافت کی سمجھ میں نہیں آتی!
لیکن یہ کہنے کی مجھے ضرورت کیوں پڑی؟
لطیف کون ہے؟ کثیف کون ہے؟
میں نہیں جانتا۔
میں سب کچھ نہیں جانتا۔
شاید کچھ بھی نہیں جانتا۔
اجہل ہوں، اغفل ہوں۔
نامکمل ہوں!
 

منیب الف

محفلین
زیدی بھائی اور عمران بھائی، آپ دونوں نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ اس کے لیے شکریہ!
میں یہ تو نہیں جانتا کہ لفظ انسان کا اصل مادہ کیا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ انسان کے مادے میں انس اور نسیان دونوں ہیں۔ :) لہذا آپ دونوں ٹھیک فرماتے ہوں گے!
 

ام اویس

محفلین
سب لوگ کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ محفوظ کر رہے ہیں۔ شیئر کر رہے ہیں۔ کوئی فیس بک پہ، کوئی کتابوں میں، کوئی تصویروں میں، کوئی لفظوں میں۔
لیکن کیوں؟
کیا انسان بغیر شیئر کیے نہیں رہ سکتا؟ کیا وہ اپنی بات اپنے تک نہیں رکھ سکتا؟
کیا خوف ہے کہ ہماری باتیں کھو نہ جائیں؟ ہم مٹ نہ جائیں؟ کوئی ہمیں یاد کرنے والا ہو؟
کیا مٹنے سے ڈر لگتا ہے؟ کیا کھونے سے خوف آتا ہے؟

لکھنے والے کوئی اور ہیں اور شئیر کرنے والے کوئی اور
انسان جب لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا تب بھی وہ سوچتا تھا اپنے تجربات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا تھا ۔ ہر شخص کے سوچنے ، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیتیں مختلف ہیں اور انسان میں اس کے خالق نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ دوسروں سے سیکھتا اور سکھاتا ہے ۔ نہ تو لکھنا غلط ہے نہ اسے شئیر کرنا البتہ معلوم ہونا چاہیے کہ کیا لکھ رہے ہیں اور کیا شئیر کررہے ہیں ۔
دنیا کا نظام چلتا رہتا ہے لیکن مخلوق خدا کی راہنمائی کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں خواہ وہ لکھ کر کریں یا شئیر کرکے ، زبانی کریں یا عملی طور پر
اس لیے لکھتے رہیے اپنی اور دوسروں کی تربیت کرتے رہیے کیونکہ ہر سوچنے والا لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا
 

ام اویس

محفلین
میرے خیال میں خیالات کو سمت بھی نہیں دی جاسکتی
خیالات گویا طویل قطار در قطار ٹریفک ہے جسے بہنے دینا چاہیے جہاں روکا ٹریفک جام
شاید شہاب نامہ میں اس کی کچھ تفصیل پڑھی تھی ۔ اچھی لگی
سیکھا اور یاد رکھا
 
Top