محسن نقوی خُون مزدور ہُوں بے وَجہ بہایا جاؤں

اَپنے ہی دَرد کے ماتھے پہ سجایا جاؤں
خُون مزدور ہُوں بے وَجہ بہایا جاؤں

مجھ کو جَلنے دے سرِ طاقِ شبِ ہجر کہ میں
تیرے دامن کی ہَوا سے نہ بجھایا جاؤں

آرزو مجھ سے اُلجھتی ہے زُلیخا کی طرح
میں بھی یوسف ہُوں تو بازار میں لایا جاؤں

اپنے افکار کو پستی سے بچانے کے لیے
آسمانوں کی بلندی سے گرایا جاؤں

یاد آؤں گا تجھے ذہن کی ہر منزل پر
حرفِ سَادہ تو نہیں ہُوں کہ بھُلایا جاؤں

عُمر بھر ذہن میں چمکا نہ کوئی فِکر کا چاند
چاندنی اب ترے شعلوں میں جَلایا جاؤں

میرے محسؔن مرے افکار کی تخصیص نہ کر
عکسِ آئینہ ہُوں ہر دِل پہ گرایا جاؤں
محسن نقوی​
 
عُمر بھر ذہن میں چمکا نہ کوئی فِکر کا چاند
چاندنی اب ترے شعلوں میں جَلایا جاؤں
بہت خوب
شکریہ محترم
واہ۔۔۔ بہت اعلٰی۔۔ زبردست
نوازش ،بہنا
واہ! بہت خوب۔ شئیر کرنے کا بہت شکریہ۔
اظہار خیال اور پسند کا شکریہ بہن
 
Top