خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبٍّ

خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبّ
سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محتشم محمد اور ان كى آل اور ان كے سب صحابہ كرام پر درود و سلام
رسول اکرم کی تعریف و توصیف ایک ایسا مبارک ،باسعادت اور مشکبار موضوع ہے جو ایمان افروزبھی ہے اور دلآویز بھی،جس کی وسعت فرش زمین پر ہی نہیں آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراءہے۔ہر دور میں ان گنت انسانوں نے دربار رسالت میں پوری محبت و خلوص سے اپنی عقیدت کے گلدستے پیش کیے۔ان کی مدح سرائی کا غلغلہ بحر و بر میں بلند ہوا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلند تر ہوتا چلا گیا اور آگے یہ سلسلہ مزید پھیلتا رہے گا۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ یہ نام صبح و شام چہار دانگ عالم میں پھیلے عقیدت مندوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان کےلئے باعث حیات بنا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے اسلوب میں عقیدت و محبت کے پھول ”دربار رسالت “کی نذر کر رہا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔​
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں​
بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا و سلامتی کا راز محبت و غلامئ رسول میں مضمر ہے۔ آپ کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے جس کے بغیرہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدہ و دل میں عشق رسول کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔
در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ ﷺ ست
آبروئے ماز نامِ مصطفیٰ ﷺ ست
(حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا مقام ہر مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری ملی عزت و آبرو اسی نام سے قائم ہے۔)​
مسلمانوں کے لیے نبی کریم ?کی حیات طیبہ کا مطالعہ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اس وقت تک کوئی مسلمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبر و راہنما پیغمبر ?کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات و کلمات کا زندہ نمونہ ذات رسول پاک میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ہو بہو نبی کریم کی عملی زندگی سے ملتا ہے۔ اسی لیے جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے کسی نے حضور کے خلق کے بارے میں استفسار کیا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کان خلقہ القرآن، یعنی حضور اکرم کا خلق بعینہ قرآن تھا۔ نبی کریم ﷺکی زندگی جتنی خوبصورت اور دلکش ہے، اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات الغرض وہ سب کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے۔ اسوۂ حسنہ کا ابرِ رحمت ان سب پر سایۂ فگن ہوتا ہے۔
(جاری)
طالب دعا
احقر
محمد اقبال جیلانی​
 
خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبّ (حصہ دوم)
آج بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو پذیرائی نصیب ہو اور پیغام حق دلوں کی دنیا میں ہل چل پیدا کر دے، تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے حسین خدوخال کو سیرت مصطفی کے شفاف آئینہ میں لوگوں کو دکھایا جائے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ نبی کریم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کریں۔ شاید اس کی برکت سے زندگی کے بند دریچے روشنی اور نور سے مزّین ہو سکیں۔
سرورِ کائنات کی سیرتِ مطہرہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک انسان کو جو افتخار اور مسرت حاصل ہوتی ہی‘ حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمایئے جس ذات ِ اقدس کی تعریف و ثنا خود ربِ ذوالجلال نے کی ہو‘ کلام اللہ جس کے اوصاف و محاسن پر بولتا ہو‘ فرشتے صبح و شام جس پر درود بھیجتے ہوں اور جس کا نام لے لے کر ہر دور میں ہزاروں انسان زندگی کے مختلف گوشوں میں زندہ جاوید ہوگئے ہوں‘ اس رحمۃ للعالمین کے بارے میں کوئی شخص اپنے قلم و زبان کی تمام فصاحتیں اور بلاغتیں بھی یکجا کرلے اور ممکن ہو تو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے مدح و ثنا کی عبارتیں بھی لکھتا رہی‘ یا ماہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت و ارادت کے نگینے جڑتا رہی‘ تب بھی حق ادا نہ کرسکے گا حضور کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں۔ حقیقتِ یہ ہے کہ سرور کائنات کے ذکر سے انسان اپنے ہی لیے کچھ حاصل کرتا ہے۔ جس نسبت سے تعلقِ خاطر ہوگا اسی نسبت سے حضور کا ذکر ایک ایسی متاع بنتا چلا جائے گا کہ زبان و بیان کی دنیا اس کی تصویریں بنا ہی نہیں سکتی۔
آپ کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام ?اور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور مجموعہ اور حسین مرقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور ?کی ذات میں جمع کر دیے تھے تو گویا آپ تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کے مجموعہ ہیں۔ چناں چہ آپ کی شخصیت میں آدم کا خلق، شیث کی معرفت، نوح کا جوشِ تبلیغ، لوط کی حکمت، صالح کی فصاحت، ابراہیم کا ولولہٴ توحید، اسماعیل کی جاں نثاری، اسحاق کی رضا، یعقوب کا گریہ و بکا، ایوب کا صبر، لقمان کا شکر، یونس کی انابت، دانیال کی محبت، یوسف کا حسن، موسیٰ کی کلیمی، یوشع کی سالاری، داؤد کا ترنم، سلیمان کا اقتدار، الیاس  کا وقار، زکریا کی مناجات، یحییٰ کی پاک دامنی اور عیسیٰ کا زہد و اعجازِ مسیحائی آپ کی صفات ظاہری میں شامل تھی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ کی ذاتِ والا صفات میں سمائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے کہ اس نے براہِ راست تخاطب کے حوالے سے ایک دفعہ بھی حضور نبی اکرم کا نام لے کر آپ کو نہیں پکارا، بلکہ جہاں کہیں مخاطب کیا ہے تو عزت و تکریم کے کسی صیغے ہی سے آواز دی ہے کہ ﴿یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک﴾… ﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین…﴾ یا پھر محبت سے ﴿یا ایھا المزمل﴾ اور ﴿یاایھا المدثر﴾ کہہ کر پکارا ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں اولوالعزم انبیا کو جگہ جگہ ان کے اصل نام اور اسم سے پکارا گیا ہے۔ جیسے ” ﴿یاآدم اسکن انت و زوجک الجنة﴾․ ﴿وما تلک بیمینک یا موسٰی﴾․﴿یا داود انا جعلنک خلیفة﴾․﴿یا زکریا انا نبشرک بغلام ن اسمہ یحیی﴾․﴿یا یحیٰی خذ الکتاب بقوة﴾․﴿یانوح اھبط بسلام﴾․ ﴿یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ﴾ اس طریق مخاطبت کے مطابق چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ”یامُحَمَّداً، یااحمد“ کہہ کر پکارتا، مگر اللہ تعالیٰ کو اس درجہ آپ کا احترام سکھانا مقصود تھا کہ تمام قرآنِ مجید میں ایک جگہ بھی آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تعظیم و تکریم پر مبنی خوب صورت اور بہترین القابات پر مشتمل ناموں ہی سے آپ کو پکارا ہے۔
(جاری)
طالب دعا
احقر
محمد اقبال جیلانی​
 
خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبّ (حصہ سوم)
یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول پاک کی حیات طیبہ پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے پوری تاریخ انسانی میں کسی اورکی حیات پرنہیں لکھا گیا آپ کے ماننے والوں نے بھی آپ پر جی کھول کرلکھا ہے اور نہ ماننے والوں نے بھی، یہ الگ بات ہے کہ ان کے جذبات و محرکات الگ الگ رہے ہیں۔ ماننے والون نے عموما اس جذبے سے لکھا ہے کہ دنیا کے سامنے زیادہ سے زیادہ آپ کا تعارف کرایا جائے سیرت پاک کے دلکش گوشے سامنے لائے جائیں، جن سے آپ کے ماننے والوں میں عمل کا جذبہ بیدار ہو اور نہ ماننے والوں کی غلط فہمیاں دور ہوں، انھیں آپ کی دعوت، اورآپ کا مشن سمجھنے میں آسانی ہو۔
اس کے برعکس جو آپ کے مخالفین تھے، ان کے پیش نظریہ رہا ہے کہ جس قدر ہوسکے آپ کی شبیہ بگاڑی جائے، دنیا کو آپ سے متنفر کیا جائے، آپ کو محسن انسانیت، یا نبی رحمت کی حیثیت سے نھیں، بلکہ ایک ظالم وجابرحکمراں کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ یہ کام انہوں نے پوری دلیری اور نہایت ڈھٹائی سے کیا، اوردروغ بیانی اور جعل سازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
احقر نے اس مایہ ناز موضوع پر ایک کوشش کی ہے تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ اِنسان کا چہرہ اُس کے مَن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دِل میں جنم لیتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اَحوال و فضائل اس نقطۂ نظر سے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننے کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ اُس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، قد و قامت اور شکل و صورت کیسی تھی، جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدّن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و اَنجم بن گیا، جس کی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توّہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دیئے اور جس کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔
حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ ﷺکی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ ﷺافضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ ﷺہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺکی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
أُوْلَ۔ئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.
[مزید] پيغام کا آئکون: ’’(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔‘‘( القرآن، الانعام، 6 : 90)اس آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ ﷺکو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء ?کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ ﷺمیں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم ﷺجملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔
لا یمکن الثناءکما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
(جاری)
طالب دعا
احقر
محمد اقبال جیلانی
 
خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبّ (حصہ چہارم)
حضرت علامہ آلوسی ?مذکورہ آیت کے تحت اِمام قطبُ الدین رازی ?کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
أنه يتعين أن الإقتداء المأمور به ليس إلا في الأخلاق الفاضلة و الصفات الکاملة، کالحلم و الصبر و الزهد و کثرة الشکر و التضرع و نحوها، و يکون في الآية دليل علي أنه صلي الله عليه وآله وسلم أفضل منهم قطعا لتضمنها، أن اﷲ تعالٰي هدي أولئک الأنبياء عليهم الصلٰوة و السلام إلٰي فضائل الأخلاق و صفات الکمال، و حيث أمر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يقتدي بهداهم جميعًا امتنع للعصمة أن يقال : أنه لم يتمثل، فلا بدّ أن يقال : أنه عليه الصلٰوة والسلام قد امتثل و أتي بجميع ذالک، و حصل تلک الأخلاق الفاضلة التي في جميعهم، فاجتمع فيه من خصال الکمال ما کان متفرقاً فيهم، و حينئذٍ يکون أفضل من جميعهم قطعا، کما أنه أفضل مِن کل واحدٍ منهم.
’’یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اِس آیت میں شریعت کے اَحکام کی اِقتداء کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اَخلاقِ حسنہ اور صفاتِ کاملہ مثلاً حلم، صبر، زُہد، کثرتِ شکر، عجز و اِنکساری وغیرہ کے حاصل کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیتِ مقدسہ اِس اَمر پر قطعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے کہ اِس اِعتبار سے حضور تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل و اَعلیٰ ہیں کیونکہ ربِ کائنات نے جو اَوصاف اور فضیلتیں اُن نبیوں اور رسولوں کو عطا کی ہیں اُن کے حصول کا آپ ﷺ کو حکم فرمایا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے پیشِ نظریہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ﷺ نے اُن (فضیلتوں) کو حاصل نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ ﷺنے وہ خصائص اور کمالات جو دِیگر انبیاء و رُسل میں جدا جدا تھے اُن سب کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ بنا لیا، اِس لئے ﷺجس طرح ہر نبی سے اُس کے اِنفرادی کمالات کے اعتبار سے اَفضل ہوئے اُسی طرح تمام انبیاء و رُسل سے اُن کے اِجتماعی کمالات کے اعتبار سے بھی افضل قرار پائے۔‘‘
( آلوسي، روح المعاني، 7 : 217)
رسولِ اوّل و آخر ﷺکے محامد و محاسن کے ضمن میں شیخ عبدالحق محدث دِہلوی ? لکھتے ہیں :
آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم را فضائل و کمالات بود، کہ اگر مجموع فضائلِ انبیاء صلوات اﷲ علیھم اجمعین را در جنب آن بنہند راجح آید۔
’’حضور ﷺکے محاسن و فضائل اِس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کو ہی ترجیح حاصل ہو گی‘‘۔(محدث دهلوي، شرح سفر السعادت : 442)
اِس کائناتی سچائی کے بارے میں کوئی دُوسری رائے ہی نہیں کہ جملہ محامد و محاسن اور فضائل و خصائل جس شان اور اِعزاز کے ساتھ آقائے محتشم کی ذاتِ اَقدس میں ہیں اِس شان اور اِعزاز کے ساتھ کسی دُوسرے نبی یا رسول کی ذات میں موجود نہ تھے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر رقمطراز ہیں :
خلائق درکمالاتِ انبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام حیران، و انبیاء ہمہ در ذاتِ وے۔ کمالاتِ انبیاءِ دیگر محدود و معین است، اما ایں جا تعین و تحدید نگنجد و خیال و قیاس را بدرکِ کمالِ وے را نہ بود.
’’(اللہ رب العزت کی) تمام مخلوقات کمالاتِ انبیاء علیہم السلام میں اور تمام انبیاء و رُسل حضور ﷺکی ذاتِ اَقدس میں متحیر ہیں۔ دِیگر انبیاء و رُسل کے کمالات محدُود اور متعین ہیں، جبکہ حضور ﷺکے محاسن و فضائل کی کوئی حد ہی نہیں، بلکہ ان تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں۔‘‘) محدث دهلوي، مرج البحرين(
حضور سرورِ کونین کی ذات حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ ہی کے دم قدم سے ہیں۔ ربِ کریم نے آپ کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔ صحابہ کرام نے آپ کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کیا ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓفرماتے ہیں :
رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر.
’’ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور ﷺبھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہ کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔‘‘ )ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10. دارمي، السنن، 1 : 44، مقدمه، رقم : 57. ابو يعلي، المسند، 13 : 464، رقم : 7477. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 1417. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 167)
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
حسن و جمال میں حضورﷺ کی خوبی و محبوبی کسی سے پوشیدہ نہیں پر وقار انداز ، شگفتہ گفتگو ، خوبصورت چہرہ، مناسب قد الغرض ہر چیز اور ہر زاویے میں لازوال تھے۔ اسی لئے علامہ اقبال ؒنے ان کی خوبصورتی کو یوسف ، عیسیٰ اور موسیٰ پر ترجیح دی ہے۔
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بےضا داری
آنچ خوباں ہمہ دارند تو اتنہا داری
کیونکہ اللہ تک رسائی کے لئے حُب نبی ہی اصل زینہ ہے۔ جس پرصحابہ کرام نے عمل کیا۔ حضرت ابوبکرصدیق ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی نے عمل کیا۔ علامہ اقبا ل ؒا س لئے نصیحت کرتے ہیں اللہ سے وہی سوز طلب کرو جو انہی صحابہ نے طلب کیا تھا۔ جو ان کو عشق نبوی سے حاصل ہوا۔
(جاری)
طالب دعا
احقر
محمد اقبال جیلانی​
 
خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبّ (حصہ پنجم)
سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ عشق نبی از حق طلب
اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ ذات نبی اکرمﷺ ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں اصل خالق یعنی اللہ کی ذات کی پہچان ، صحیح معنوں میں ممکن ہوئی۔ آپ ﷺہی تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کی حقیقت کے بار ے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔
اسلام دینِ اعتدال و توازن ہے۔ اور ہمیں کشادہ دلی سے اعتدال و توازن کا راہ دکھاتا ہے۔ جبکہ آج کے دور میں کچھ حضرات دین و ایمان میں محبت کی قلبی کیفیات کی اہمیت کی ہی نفی کر ڈالتے ہیں اور صرف اور صرف ظاہری اعمال پر زور دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک مسلمانوں کے دلوں میں موجزن اللہ تعالٰی اور اسکے رسول اور اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور اولیائے کرام کی محبت و عقیدت کے عقیدے کو ہی غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور“محبت“ کے بارے میں گفتگو کو ہی “بےکار“ قرار دے دیتے ہیں۔
لہذا جو محبت دل میں ہے ، اس کے متعلق بحث بیکار ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اعمال کی نفی نہ تو دینِ اسلام کرتا ہے، نہ کوئی محبتِ رسول ﷺکا داعی، نہ اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا محب اور نہ ہی اولیائے کرام کا معتقد کرتا ہے۔ ایسا کہنے والے دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺکے اس عظیم جذبے کی اہمیت کو کم کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے بھروسے پر خود صحابہ کرام اجمعین کو آخرت میں اپنی سرخروئی کا یقین و ایمان تھا۔
لَّيْسَ الْبِرَّ اَن تُوَلُّواْ وُجُوھَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَۃِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّہِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَى الزَّكَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْباْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَاْسِ اُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَاُولَ۔ئِكَ ھُمُ الْمُتَّقُونَO (الْبَقَرَة ، 2 : 177)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیںo
قُلْ اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO (آل عِمْرَان ، 3 : 31)
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo
یہاں اتباعِ رسول ﷺکی بنیاد “محبتِ الہی“ کو بنایا گیا ہے۔
(جاری)
طالب دعا
احقر
محمد اقبال جیلانی​
 
خُلِقْتَ مُبَّراً مِنَّ کُلِّ عَیْبّ (حصہ ششم)
انسان حضور نبی اکرم رحمۃ للعالمین ﷺکے کردار کی بلندی اور عظمت کی رفعت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے اور زبانیں بیان کرنے سے معذور ، اگر اس کا صحیح ادراک کرنا ہے تو اس کے در پر آنا پڑے گا جو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے ''میں رسول ﷺکے پیچھے پیچھے اس طرح سے چلتا تھا جس طرح سے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ''اور اپنے بچپنے سے لیکر آخر وقت تک رسول ﷺکے ہمراہ رہا ﷺاس وقت دینا سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کا سر میرے سینہ پر تھا اور ان کی روح اقدس میرے ہاتھوں پر جدا ہوتی ہے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ پر مل لیا ۔ میں نے ہی آپ ﷺکو غسل دیا جب ملائکہ میری مدد کر رہے تھے اور گھر کے اندر و باہر کہرام برپا تھا۔ ملائکہ کا ایک گروہ نازل ہورہا تھا اور ایک واپس جا رہا تھا سب نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کی آواز یں سن رہا تھا ۔یہاں تک کہ میں نے ہی حضرت نبی اکرمﷺ کو سپرد لحد کیا ''(حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم )
نہ تو قلم میں اِتنی سکت ہے کہ حسنِ مصطفیٰ ﷺکو حیطۂ تحریر میں لا سکے اور نہ زبان ہی میں جمالِ مصطفیٰ ﷺکو بیان کرنے کا یارا ہے۔ سلطانِ عرب و عجم ﷺکی ذاتِ ستودہ صفات محاسنِ ظاہری و باطنی کی جامع ہے۔ کائناتِ ارض و سماوات آپ ﷺکے حسن کے پَرتو سے ہی فیض یاب ہے اور آپ ﷺکی نسبت کے فیضان سے ہی کائناتِ رنگ و بو میں حسن کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حکیم الاُمت علامہ محمد اِقبال ?یوں بیان کرتے ہیں :
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زِ نورِِ مصطفیٰ اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ ﷺ است

(دُنیائے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے، وہ یا تو نورِ مصطفیٰ سے چمک دمک رکھتی ہے یا ابھی تک مصطفیٰ کی تلاش میں ہے۔)
محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

(جاری)
طالب دعا
احقر
محمد اقبال جیلانی​
 
Top