یاس خون کے گھونٹ بلا نوش پیئے جاتے ہیں

عندلیب

محفلین
خون کے گھونٹ بلا نوش پیئے جاتے ہیں
خیر ساقی کی مناتے ہیں جیئے جاتے ہیں
ایک تو درد ملا اس پہ شاہانہ مزاج
ہم غریبوں کو بھی کیا تحفے دیے جاتے ہیں
آگ بجھ جائے مگر پیاس بجھائے نہ بجھے
پیاس ہے یا ہوکا کہ پیئے جاتے ہیں
نہ گیا خوابِ فراموش کا سودا نہ گیا
جاگتے سوتے تجھے یاد کیے جاتے ہیں
خوب سیکھا ہے سلام آپ کے دیوانوں نے
شام دیکھیں نہ سحر، سجدے کیے جاتے ہیں
نشہء حسن کی یہ لہر، الٰہی توبہ!
تشنہ کام آنکھوں ہی آنکھوں میں پیئے جاتے ہیں
دل ہے پہلو میں کہ امید کی چنگاری ہے
اب تک اتنی حرارت ہے کہ جیے جاتے ہیں
ڈوبتا ہے کہ ٹھہرتا ہے سفینہ دل کا
دم الٹتا ہے مگر سانس لیے جاتے ہیں
کیا خبر تھی کہ یگانہ کا ارادہ یہ ہے
ڈوب کر پار اترنے کے لیے جاتے ہیں
 
Top