خورشید رضوی خون سے لکھتا ہوں اور لفظ میں ٹھہراتا ہوں

نمرہ

محفلین
خون سے لکھتا ہوں اور لفظ میں ٹھہراتا ہوں
پھر بھی عکسِ دلِ بےتاب کہاں پاتا ہوں

اے صدائے نہ شنیدہ، تو کہیں ہو کہ نہ ہو
پا بریدہ میں تری سمت کھچا آتا ہوں

ہاں مجھے گرمئی بازار سے کچھ ربط نہیں
جو شکستہ ہو گہر، چن کے اٹھا لاتا ہوں

صحبتِ اہلِ زمانہ مجھے کیا راس آتی
شور سے بھاگتا ہوں، زعم سے گھبراتا ہوں

زخم کھاتا ہوں دلِ زار سے باہر خورشید !
اور پھر کنجِ دلِ زار میں سستاتا ہوں
 
Top