خوفناک ہے بچوں میں غذائیت کی کمی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
چھ سال سے کم عمر کے بچوں کی صحت پر بھارت سرکار اور یونائیڈیڈینشن کی تنظیم یونیسیف نے مل کر ملک کا سرے کیا ۔یہ سروے 30نومبر2013سے مئی 2014کے درمیان ہوا ۔ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں اور 5600آنگن واڈی مراکز کو شامل کیا گیا تھا اس کی رپورٹ واقعی بہت خوفناک ہے ۔شاید اسی لئے سرکار نے اسے باضابطہ طور پر تو جاری نہیں کیا ۔لیکن اس پر اٹھے سنجیدہ سوالات کے بعد وزارت بہبود برائے خواتین و اطفال نے اپنی ویب سائٹ پر رپورٹ کو مختصر کرکے حال ہی میں اپ لوڈ کردیا ہے ۔اس کی مکمل کاپی کئی لوگوں کے پاس موجود ہے یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں امیروں کی تعداد برابر بڑھتی جا رہی ہے مگر ہمارے دیش میں غذائیت کی کمی کے شکار لوگوں کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلہ کہیں زیادہ ہے ۔

خاص طور پر غذائیت کی کمی کی مار سب سے زیادہ بچوں پر پڑ رہی ہے اس رپورٹ کے مطابق ملک کے 30فیصد بچوں پر غذائیت کی اتنی مار پڑ ی ہے کہ وہ عمر کے لحاظ سے کافی کم وزن والے ہیں اور ان کی لمبائی نہیں بڑھ رہی ، اتنی خراب صورت افریقہ کے بھی کسی دیش کی نہیں ہے۔
29ریاستوں کے اعداد و شمار پر مشتمل یہ رپورٹ اکتوبر میں ہی سرکار کو سونپ دی گئی تھی ۔ سرکار اسی وقت سے اسے دبا کر بیٹھی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم برسوں تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے ان کے دور حکومت میں دوسری غریب ریاستوں کے مقابلے گجرات کی حالت غذائیت کے سلسلہ میں زیادہ بدتر تھی گجرات 21ویں مقام پر ہے ۔ اس سے مودی کے ڈولپ گجرات مادل کی جھوٹی بنیاد کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق گجرات میں قومی اوسط سے زیادہ بچے غذائیت کی کمی کے شکار ہیں یہاں 56فیصد بچوں کو ہی معمول کے ٹیکے لگے ہیں جبکہ اس کا قومی اوسط 65فیصد ہے ۔ یہاں مدھیہ پردیش اور بہار جیسی دو پسماندہ ریاستوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں بھوکے بچوں کی تعداد60فیصد سے گھٹ کر 30فیصد پر آگئی اور بہار میں تعداد گھٹ کر 56فیصد سے 37فیصد رہ گئی اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کا انتظام ہونے سے بچو ں کی حاضری بڑھی ہے اور ان کی صحت بھی بہتر ہوئی ہے۔آئے دن اساتذہ کے ذریعہ گھپلا کرنے اور خراب کھانا دینے کی بات بھی سامنے آتی رہی ہے مگر پھر بھی کل ملا کر اسکولوں میں دو پہر کے کھانے کا انتظام کافی کامیا ب رہا ہے یونیسیف ساؤتھ ایشیا کے غذائیت کے صلاح کار وکٹرایگواؤ کا ماننا ہے کہ اس سے بچوں کی صحت ان کی عمر کے لحاظ سے ان کے وزن پر کافی اچھا اثر پڑا ہے ۔
مہاراشٹر کو لیں جس کی مالی حالت بہار اور مدھیہ پردیش کے مقابلہ اچھی ہے وہاں عمر کے لحاظ سے کم وزن والے بچوں کی تعداد پچھلے کچھ برسوں میں 37فیصد سے گھٹ کر 25فیصد ہو گئی ہے ۔ وکٹر کے مطابق مہاراشٹر نے چار اہم قدم اٹھائے (ا) بچوں کو پہلے کے مقابلے بھر پور کھانے کا انتظام کیا گیا (۱۱)حاملہ عورتوں کا خاص طور پر دھیان رکھا گیا جس سے انہیں پورا کھانا ہی نہیں بلکہ صحت مند کھانا مل سکے (iii) خاندان کی آمدنی بڑھانے کی طرف دھیان دیا جائے (iv)جس عمر میں عورتیں بچوں کو جنم دیتی ہیں اس عمر کو بڑھانے کی کوشش کی جائے مہاراشٹر کے افسران اور سیاستدانوں نے اس طرف خاص طور سے آدی واسی آبادی کی طرف دھیان دیا ہے ۔
ریپڈ سروے آن چلڈرن کے مطابق تمام ریاستوں میں بچوں کی حالت میں ایک جیسا سدھار نہیں ہوا ہے ۔ اتر پردیش کو ہی دیکھیں آدھے سے زیادہ بچوں کا قد معمول سے کم ہے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ 20فیصد بچے ایسے ہیں جن کا قد نہیں بڑھ رہا ان کو ہم بونوں کے زمروں میں رکھ سکتے ہیں ۔ یہاں ماؤں اور لڑکیوں میں ضرورت سے کم کھانے کا چلن ہے۔ کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کے مقابلہ لڑکوں کے کھانے پینے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے انہیں زیادہ بہتر کھانا دیا جاتا ہے لڑکیوں کے مقابلہ لڑکوں کی صحت ، تعلیم و تربیت پر زیادہ دھیان دینے کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لڑکیاں شادی کے بعد دوسرے گھر چلی جائیں گی جبکہ لڑکے خاندان کو چلانے کی ذمہ داری نبھائیں گے ۔ 15سے 18برس کی عمر کی لڑکیاں دبلی پتلی یاکمزور ہیں جس سے آگے چل کر ان کے بچے بھی کمزور ہی ہوں گے ۔
اس سروے سے یہ بات بھی اجاگر ہوتی ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو معمول کے ٹیکے دینے پر خاص دھیان نہیں دیا گیا ہے ساتھ ہی گھروں میں بیت الخلاء کا انتظام نہ ہونے سے لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کے لئے جانا پڑتا ہے جس سے بیماریو ں کا خطرہ بڑھتا ہے ۔ طر ح طرح کے جراثیم پنپتے ہیں پچھلے کئی سالوں کے درمیان اس میں معمولی سی کمی آئی ہے پھر بھی 45فیصد لوگ کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں نتیجہ یکے طور پر صحت مند کھانا کھانے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ۔رپورٹ سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کی اس طرف کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس میں گجرات کی مثال سامنے ہے جہاں فی نفر آمدنی دوسری ریاستوں سے زیادہ ہونے کے با وجود ہی 33.5فیصد بچے بھوکوں کی صف میں کھڑے ہیں ۔یہ اوسط قومی اوسط 29فیصد سے زیادہ ہے کم و بیش اسی طرح کی مالی نوعیت رکھنے والی ریاست مہاراشٹر کی حالت گجرات سے کافی بہتر ہے بونے بچوں کا فیصد گجرات میں کئی ریاستوں کے مقابلہ کہیں زیادہ ہے اتنا ہی نہیں گجرات میں 60فیصد لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے کو مجبور ہیں ۔امرتاسین کی مانیں تو مودی صوبہ میں حفظان صحت کی پالیسی کو صحیح سمت دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ہمارے دیش میں گھریلو پیداوار کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ حفظان صحت پر خرچ ہوتا ہے اس سال کے قومی بجٹ میں اس میں بھی تخفیف کی گئی ہے ۔ چین کے مقابلہ ہمارے قومی بجٹ میں حفظان صحت کا حصہ کافی کم ہے ہمارے یہاں غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی تعداد 30فیصد ہے جبکہ چین میں صرف 3فیصد بچے کم وزن کے ہیں یعنی غذائیت کی کمی کے شکار۔ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ غذائیت کی کمی والے بچے کمزور تو ہوتے ہی ہیں ان کے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی کم ہوتی ہے جس سے ان کے بیمار ہونے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہتا ہے ان کے دماغ کی پوری طرح نشونما نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اسی لئے وہ پڑھائی لکھائی میں بھی پیچھے رہتے ہیں ۔ڈائیریا اور دوسری بیماریوں سے ہونے والی بچوں کی اموات میں بلا واسطہ طور پر غذائیت کی کمی کا بھی دخل ہوہوتا ہے ۔
1990سے سرکاری اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کا سلسلہ جاری ہے اسے جہاں بچوں میں غذائیت کی کمی دور ہوئی ہے وہیں اسکول میں ان کی حاضری بھی بڑھی ہے ۔ تمام خامیوں کے با وجود اس سے فائدہ ہوا ہے کئی صوبوں میں بنا سوچے سمجھے وزیر اعلیٰ کھانے کے بارے میں فرمان جاری کرتے رہتے ہیں ۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ نے فرمان جاری کیا کہ اسکولوں میں انڈوں پر پابندی لگے کیونکہ انڈوں کو نانویج کے زمرے میں رکھا گیا ہے ۔ کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ کی خبروں سے کون واقف نہیں ہے مگر انڈے میں یہ ملاوٹ نہیں ہو سکتی ۔انڈے پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں اس طرح کے فرمان جاری کرنے سے پہلے بچوں کی صحت کو دھیان میں رکھنا چاہئے ۔
جے رام رمیش اور کئی دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کو دبانے کے پیچھے خاص وجہ گجرات میں مودی کے زمانے میں بچوں میں غذائیت کی کمی کو دور کرنے کی طرف کوئی پیش رفت کا نہ ہونا ہے ۔گجرات کے اعداد وشمار موجودہ مرکزی حکومت سے برداشت نہیں ہو رہے ہیں ۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد حفظان صحت کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کم کی گئی ہے شاید مودی جی کے ایجنڈے میں صحت کو فوقیت حاصل نہیں ہے اسے ملک کی بد قسمتی ہی کہا جائے گا کیونکہ غذائیت کی کمی سے جوجھنے والے زیادہ تر غریب لوگ کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا ۔ ان کے ساتھ بھید بھاؤ کی باتیں اکثر اخبارات کی سرخیوں میں ہوتی ہیں ایسی صورت میں انہیں فراموش کیا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ بھاجپا کو تو ویسے بھی غریبوں و پسماندہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہے اس کی پالسیوں سے ایسا ہی احساس ہوتا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بھک مری کے خلاف آندولن کو قومی سطح پر اہمیت دی جائے اور ریپڈ سروے آن چلڈرن رپورٹ بلا کسی تاخیر کے شائع ہو ۔ یونیسف کے مشوروں پر کھل کر سنجیدہ گفتگو ہو اور انہیں لاگو کرنے کے لئے سرکار حکمت عملی بنائے بچوں میں غذائیت کی کمی کو دور کرنے کے لئے مڈ ڈے میل اسکیم کا بجٹ بڑھایا جائے بچے صحت مند رہیں گے تبھی ملک صحت مند ہوگا اور زآگے بڑھے گا ۔


FikroKhabar - Online Urdu News Portal - خوفناک ہے بچوں میں غذائیت کی کمی
 
Top