پروین شاکر خوشبو کی زباں

زبان غیر میں لکھا ہے تونے خط مجھکو
بہت عجیب عبارت، بڑی اوق تحریر

یہ سارے حرف مری حد فہم سے باہر
میں ایک لفظ بھی محسوس کر نہیں سکتی

میں ہفت خواں تو کبھی بھی نہ تھی۔ ۔ مگر اس وقت
یہ صورت و رنگ ، یہ آہنگ اجنبی ہی سہی

مجھے لگتا ہے جیسے میں جانتی ہوں انہیں
(ازل سے مری سماعت ہے آشنا ان سے ! )

کہ تری سوچ کی قربت نصیب ہے ان کو
یہ وہ زباں ہے جسے ترا لمس حاصل ہے

ترے قلم نے بڑے پیار سے لکھا ہے انہیں
رچی ہوئی ہے ہر اک لفظ میں تری خوشبو

تری وفا کی مہک ، ترے پیار کی خوشبو
زباں کوئی بھی ہو خوشبو کی ۔ ۔ وہ بھلی ہوگی !

آج ملبوس میں ہے کسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دلہن کی خوشبو

پیرہن مرا مگر اس کے بدن کی خوشبو
اس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو

موجہ گل کع ابھی اذن تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو

قامت شعر کی زیبائی کا عالم مت پوچھ
مہرباں جب سے ہے، اس سروبدن کی خوشبو

ذکر شاید کسی خورشید بدن کا بھی کرے
کو بہ کو پھیلی ہوئی مرے گہن کی خوشبو

عارضی گل کو چھوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کسی قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو

کس نے زنجیر کیا ہے رم آہوکی چشماں
نگہت جاں ہے انہیں دشت و دمن کی خوشبو

اس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحن زنداں میں انہیں دشت وطن کی خوشبو

پروین شاکر
 
Top