فیض خورشیدِ محشر کی لَو ۔ فیض احمد فیضؔ

فاتح

لائبریرین
آج کے دن نہ پُوچھو، مِرے دوستو
دُور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن، گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن، دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پَوچھو، مِرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں
آج کا دن زَبوں ہے، مِرے دوستو
آج کے دن تو یُوں ہے، مِرے دوستو
جیسے دَرد و اَلَم کے پُرانے نشاں
سب چلے سُوئے دل، کارواں کارواں
ہاتھ سینے پہ رکھّو تو ہر اُستَخواں
سے اٹھے نالۂ اَلاَماں! اَلاَماں!
آج کے دن نہ پُوچھو، مِرے دوستو
کب تمھارے لہو کے دَریدہ عَلَم

فرقِ خورشیدِ محشر پہ ہوں گے رقَم
از کَراں تا کَراں کب تمھارے قدَم
لے کے اٹھّے گا وہ بحرِ خُوں یَم بہ یَم
جس میں دھُل جائے گا آج کے دن کا غم
سارے دَرد و اَلَم، سارے جَور و سِتَم
دُور کتنی ہے خورشیدِ محشر کی لَو
آج کے دن نہ پُوچھو، مرے دوستو
(فیض احمد فیضؔ)
فیضؔ کی یہ نظم زہرہ نگاہ کی آواز میں ترنم کے ساتھ سنیے۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ آپ کی ادب دوستی کے تو ہم پہلے سے ہی قائل ہیں۔
 
Top