خود کش حملوں سے متعلق علماء کرام کے فتاوی

مسلمان

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

khudkashhamleinmain.GIF



فدائی اورخود کش حملوں سے متعلق
علماء کرام کے فتاوی



سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز (رحمہ اللہ)
سماحۃ الشیخ عبدالعزیزآل الشیخ
سماحۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمہ اللہ)
الشیخ صالح الفوزان
الشیخ عبدالعزیز الراجحی
الشیخ عبدالمحسن آل عبیکان


ڈاون لوڈ
 

قیصرانی

لائبریرین
ان تمام فتاوٰی کا خلاصہ یہی ہے کہ خود کش بم حملہ کرنا ناجائز ہے اور یہ خودکشی کے زمرے میں آتا ہے۔ صرف ایک فتوٰی اس طرح کا تھا کہ اگر اس طرح کی خودکشی سے اسلام کو عظیم فائدہ حاصل ہو تو ایسا کرنا جائز ہے
 

زینب

محفلین
جب کے اس سے اسلام کو فائدہ نہیں نقصان ہو رہا ہے جب کے حملے میں مرنے والے بے گناہ شہری ھوتے ھیں خود کوش حملہ
آوروہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دوذخ کا ایندھن بنانے کی وعید دی ھے۔۔۔۔۔۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم خود کش حملے اور فدائی حملے میں فرق سمجھیں۔ خود کش حملہ وہ ہے جس میں کوئی شخص اپنے جسم کے ساتھ دھماکہ خیز مواد باندھتا ہے اور مطلوبہ ہدف پر جا کر اسے اڑا دیتا ہے۔ ایسے حملے میں حملہ آور کی موت یقینی ہوتی ہے۔ فدائی حملے میں مجاہد اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی کئی گنا زیادہ طاقت سے ٹکرا جاتا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ نے کرنل شیر خان کا نام سنا ہو گا جنہیں کارگل کی لڑائی کے دوران بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرنے پر نشانِ حیدر دیا گیا تھا۔ پاک فوج کا یہ جوان لڑتے ہوئے اکیلا ہی دشمن کے مورچوں میں جا گھسا تھا اور انہیں زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ ایسا حملہ فدائی حملہ ہے۔ اس میں قتل ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن سو فیصد نہیں۔ دورِ صحابہ سے لے کر آج تک مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب اللہ کے مجاہد بندوں نے میدان ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر امیرِ لشکر کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی اور کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن کی کئی گنا زیادہ طاقت سے ٹکرا گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شخص کی زندگی کو بہترین زندگی قرار دیا ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے چوکنا رہتا ہے اور جہاں سے اسے دشمن کی آمد کا غلغلہ سنائی دیتا ہے اڑتا ہوا وہاں پہنچتا ہے اور
يَبْتَغِي الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّهُ (صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب فضل الجھاد و الرباط۔ حدیث نمبر4845)
''قتل اور موت کو ان جگہوں پر تلاش کرتا پھرتا ہے جہاں جہاں اسے ان کے ملنے کی توقع ہوتی ہے۔''
فدائی حملے کے جائز ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ اب خود کش حملے کو دیکھیے۔ ایسا خود کش حملہ جس میں بےگناہ لوگ مارے جائیں، اس کے حرام ہونے پر پہلے دن سے علماء کا اتفاق ہے۔ میں نے اسی حوالے سے خونِ مسلم کی حرمت پر ایک مضمون لکھا تھا جس کا حوالہ منتظمین نے اپنے مراسلے میں دیا ہے۔
خود کش حملے کی دوسری صورت اتنی سادہ نہیں ہے۔ اسی لیے اس بارے میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔ فرض کیجیے ایک فلسطینی مجاہد دشمن کے گھیرے میں آ جاتا ہے، اسے یقین ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی بچ کر نہیں نکل سکتا، اس کے پاس بندوق، کلاشنکوف وغیرہ نہیں ہے جس سے وہ مقابلہ کر سکے، صرف دھماکہ خیز مواد ہے جس سے وہ دشمن کے چند آدمیوں کو مار سکتا ہے۔ بعض علماء اس حالت کو حالتِ اضطرار قرار دیتے ہوئے ایسے خودکش حملے کو جائز کہتے ہیں۔ دوسری مثال یہ ہے کہ دشمن کسی علاقے پر قبضہ کر لیتا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کی کوئی صورت خود کش حملوں سوا نہیں رہے تو ان کے لیے بھی بعض لوگوں نے اضطراری حالت کا فتوٰی دے کر خودکش حملوں کو جائز کہا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ ساری بات ان حملوں کے بارے میں ہے جس میں خالصتًا فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
قرآن و حدیث کے عمومی دلائل سے ان لوگوں کی رائے میں وزن محسوس ہوتا ہے جو خود کش حملے کو درست نہیں سمجھتے۔
 

زینب

محفلین
کچھ علماء نے لسطین کے حالات میں جائز کہا ہے جہاں نہتے لوگوں پے ٹینک لائے گیے اور وہ ٹینکوں کو پتھر مارنے پہ مجبور ہیں البتہ پاکستان میں جو بھی ھوے سب کرنے کروانے والے گناہگار ھیں
 

سید ابرار

محفلین
کچھ علماء نے لسطین کے حالات میں جائز کہا ہے جہاں نہتے لوگوں پے ٹینک لائے گیے اور وہ ٹینکوں کو پتھر مارنے پہ مجبور ہیں البتہ پاکستان میں جو بھی ھوے سب کرنے کروانے والے گناہگار ھیں

پاکستان میں خود کش حملوں کو ”جائز “ کس نے کھا ؟ :eek:
 

قسیم حیدر

محفلین
سعودی علماء کا شروع سے موقف ہے کہ خود کش حملے جائز نہیں ہیں خواہ فلسطین میں ہوں یا کسی دوسری جگہ۔
 
جہاں کفر کی طاقت ہر ایک کو کچلتی چلی جائے اور سوا خودکش یا فدائی حملہ ہی ایک باب ہو وہاں کیا کیا جائے؟ جائز ہے یا نہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
برادرم اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے، آپ خود بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ جس کام سے اللہ نے روک دیا، اس کو کسی بھی وجہ سے جائز کیسے کہا جا سکتا ہے؟
 

atta

محفلین
ولا تقتلوا انفسکم.اور اپنے نفسوں کو یعنی اپنی جان کو قتل نہ کرو.
یہ خود کشی ہے.اور حرام ہے.
 
Top