بہزاد لکھنوی خود سے خیال میں جو وہ جانِ خیال آگیا - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
خود سے خیال میں جو وہ جانِ خیال آگیا
قلب کو وجد آگیا، روح کو حال آگیا

کچھ ملے یا نہ کچھ ملے، یہ تو نصیب کی ہے بات
دستِ گدا نواز تک دستِ سوال آگیا

ہائے نہ مٹ سکیں کبھی قلب کی بیقراریاں
جب بھی کوئی نظر پڑا تیرا خیال آگیا

تیرے کرم کی خیر ہو، تیری عطا کی خیر ہو
تجھ سے سوال جب کیا، لطفِ سوال آگیا

مجھ سے نظر ملا کے آہ مجھ سے نظر پھرائی کیوں
دل میں یہ بات لگ گئی شیشہ میں بال آگیا

عشق کی بارگاہ میں بےاَدَبی کام کیا
میری نظر کے سامنے کس کا جمال آگیا

اپنے خیال پر تو آہ اشک کبھی بہے نہیں
آج دلِ حزیں تجھے کس کا خیال آگیا

نکلا ہے کوئی گھر سے آج لے کے متاعِ ناز و حُسن
دستِ طلب دراز ہو وقتِ سوال آگیا

دل کا معاملہ کبھی دل سے نہ محو ہو سکا
میں نے بھری اک آہِ سرد، جب بھی خیال آگیا
 
Top