خودکش ماں

لاہورمیں‌ایک غریب ماں نے اپنے بچوں کے ساتھ غربت کی وجہ سے خودکشی کرلی۔ وہ غریب ٹرین کے اگے کود گئی۔ یااللہ یہ پاکستان میں‌ کیا ہورہا ہے۔
وزیر اعظم نے اس گھرانے کا دورہ کیا ہے۔
پچھلے دور میں‌ فوجی حکومت کی غلط پالیسیوں‌اور امریکہ کے انگلیوں‌پر ناچنے کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی درگت بن رہی ہے۔ شوکت عزیز نے نے کنزیومر فنانسینگ کاجو عفریت عوام پر مسلط کیا ہے اس سے اشیا کی کھپت میں‌اضافہ تو ہوگیا اور لازما اشیا کے قیمیں بھی بڑھ گئی مگر چونکہ زیادہ اشیا درامد ہورہی ہیں اور ملک میں‌نہیں بنتیں لہذا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے مگر امد زر محدود ہی رہی۔ اوپر سے امریکہ کی غلط پالیسیوں‌اور دھشت گردانہ جنگوں کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی عالمی سطح پر بڑھ گئیں ہیں ۔ پھر شوکت عزیز نے گندم پر جو کھیل کھیلا اور پاکستان کے بے غیرت فوجی تاجروں‌نے جو ذخیرہ اندوزی کی اس کی وجہ سے روزمرہ کی اشیا قوت خرید سے باھر ہوگئیں‌ہیں۔

اس سب کھیل اور ایک اور رخ سود ہے جو شوکت عزیز نے ہماری عوام کی جڑوں‌تک پہچادیا ہے۔ ہر کوئی سود کے تار میں بندھ گیا ہے۔
اللہ کرے کہ پاکستان کی نئی حکومت اچھی پالیسیاں‌لائے اور مہنگائی میں‌کمی ہو۔ لوگ خودکشیاں‌کرنا چھوڑدیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: نجات، جاوید چوہدری (ڈیلی ایکسپریس 17 اپریل 2008 )

1100389548-2.gif
 

ساجداقبال

محفلین
اللہ کرے کہ پاکستان کی نئی حکومت اچھی پالیسیاں‌لائے اور مہنگائی میں‌کمی ہو۔ لوگ خودکشیاں‌کرنا چھوڑدیں۔
حکومتیں تو:
تیرے وعدے پر جیے تو۔۔۔۔
حکومتوں کی سو سالہ پالیسیاں تو جانے کب پوری ہوں لیکن اس سے پہلے ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ اگر ہمارے ارگرد خاص کر اگر رشتے داروں میں ہی ایسے لوگوں کی کسی طرح مدد کر سکیں تو ہم ایسی خودکشیوں کو ختم نہیں تو کم ہی کر سکتے ہیں۔ آئیے آج ہی اس کام کا آغاز کریں کہ باتیں بہت ہو چکیں اور عمل ابھی تک نہیں۔ اگر بشریٰ مرحومہ کی بچوں کی فیسیں ہی کوئی ادا کر دیتے، بھلے پورا خاندان بھوکا رہتا، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے بچوں کے پڑھ لکھ جانے کے بعد کسی اچھے مستقبل کی امید میں ہرگز ایسا قدم نہ اُٹھاتی۔ ہمارے اردگرد بھی ایسی کہانیاں موجود ہیں، ہم انہیں زہر یا ٹرین کا شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ کسی کے بچوں کی فیس یا ایک وقت کے کھانے کے انتظام سے ہم قلاش نہیں ہو جائینگے۔ مہنگائی اٹل حقیقت ہے لیکن ہم صرف اس پر افسوس نہیں کر سکتے کہ اس مسئلے کو حل کرنے والے نااہل ہیں۔۔۔ہم تنہا ہیں اور تنہا ہی ہمیں بشریٰ جیسے بے کسوں کی مدد کرنی ہے۔
 
اس خبر نے بہت دکھی کردیا تھا ۔ اس معاملے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جذباتی کالم نگار اس معاملے کو ایک ہی نقطہ نظر دے رہے ہیں‌جو غربت ہے۔ بشمول اس کالم کے ۔

مگر غربت تو بہت پرانی ہے۔ کئی مرتبہ جب مجھے اندرون سندھ جانے کا اتفاق ہوا تو غربت کو قریب سے دیکھا۔ کچھ بچوں کے تن پر کپڑے نہیں کچھ کے یہاں پکانے کا سامان نہیں۔ پھر پنجاب کے علاقوں‌میں‌ گھومنے کا اتفاق ہوا تو یہی معاملہ پایا۔ ابھی اسی موضوی پر سرحد کے ایک دوست سے بات ہورہی تھی اسکا کہنا تھا کہ اسکے علاقے میں ایک وقت میں‌کسی کے گھر پر آٹا نہیں‌ہوتا تھا۔ غربت کی انتہا ہوتی تھی مگر خودکشی کوئی نہیں‌کرتاتھا۔
شاید میڈیا کی ونڈو وہ چیز ہے جس کی وجہ سے غریب فرسٹریٹ ہوگیاہے۔ جب گلیمر اپنے سامنے ٹی وی کی کھڑکی سے دیکھتا ہے تو یہ محروم محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس محرومی اور فرسٹریشن وہ ٹول ہیں جو انسان کو غلط راہ پر ڈال دیتی ہیں۔
 

arifkarim

معطل
حدیث مبارکہ ہے کہ غربت و افلاس کے خوف سے اپنی اولادوں کو قتل نہ کرو۔ کیا ہمارے پیارے آقا و مولی' کی یہ حدیث آج کل کے دور میں غلط ثابت ہوگی کہ جب غربت انتہاء کو پہنچ جائی گی اور لوگ اذیت ذدہ فاقوں سے مرنے کی بجائے خود کشی کرنا اپنے لئے بہتر سمجھیں گے؟
کیا یہ آخری زمانے کی نشانیاں نہیں؟ جب سے یہ زمین بنی ہے، آج تک کبھی اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں نے غربت کی وجہ سے خود کشی نہ کی ہوگی۔ قرآن پاک میں تو یہ بھی آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس زمین کو تمام مخلوقات کیلئے اناج و دانا دینے کی طاقت بخشی ہے۔ پھر کیا قرآن مجید بھی نعوذ باللہ آج کل کے زمانہ میں غلط ثابت ہو گیا؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے عالمی معاشی نظام کی وجہ سے ہو رہا ہے، نہ کہ چھوٹی چھوٹی پالیسیوں کی وجہ سے۔ اگر ہم سارا الزام پچھلی حکومت پر تھوپ دیں، تو اس بات کی کیا گیرینٹی ہے کہ اس سے پہلے اور اس سے پہلی حکومت کے دور میں‌ جیسے لوگ غربت کی وجہ سے نہیں مرے تھے؟ اگر آج ہم پتھر کے زمانے کی طرح لین دین کرنسی کی بجائے چیزوں کے ذریعے کرنے لگیں تو کم از کم کوئی انسان بھوکا تو نہ مرے!
 

arifkarim

معطل
نبیل بھائی: بشریٰ اور اسکے بچوں کے قاتل یہ حکومتی وزیر ہی ہیں، یہ کیا کسی کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے!
 
Top