خواب

بدنام پاگل

محفلین
وہ وہ ایک پر شکوہ عمارت تھی کوئی بھی دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ یہ پرانے بادشاہوں میں سے ضرور کسی کی رہائش گاہ رہی ہوگی بہر حال عمارت جیسی بھی ہو تھی خو بصورت
شام کا سہانا وقت تھا آسمان پر بادل ہلکے ہلکے سروں میں سنگیت بجا رہے تھے اور بارش کے پانی بھی کسی دولہے کے باراتی کی طرح بادل سے زمین تک کا سفر کر رہے تھے تبھی میں نے اپنے قریب ایک سریلی آواز سنی جس نے اس خوبصورت موسم کی رعنائی کو دوگنا کر دیا
میرے اندر تجسس پیدا ہوا کہ ذرا دیکھوں یہ خوبصورت آواز آخر کس خوبصورت انسان کی ہے اور میں اسی آواز کی تلاش میں پورے محل میں گھومنے لگا مگر کہیں سے کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا
تبھی ایک ہلکی سی آواز سننے میں آئی اور میں اسی سمت میں چلنے لگا مگر ابھی ذرا ہی دور گیا تھا کہ پیچھے سے آواز (عظیم اب اٹھ جاو) اور جب میں نے اس پر غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز میری ماں کی ہے مگر میں اس وقت سمجھ نہیں پایا کہ امی کی آواز یہاں کہاں اور اگر امی بھی یہاں آگئی ہیں تو اٹھنے کو کیوں بول رہی ہیں جب کہ میں پہلے ہی کافی ہشاش بشاش ہوں
بہر حال اس وقت میں نے امی کی آواز کو اپنا وہم سمجھتے ہوئے خوبصورت آواز کی سمت چل پڑا ابھی تھوڑا ہی دور گیا تھا کہ دیکھا سامنے ایک دیو کھڑا مجھے گھور رہا ہے اور اس نے مجھ سے کہا واپس لوٹ جاو مگر میرے دل میں وہ خوبصورت آواز جگہ بنا چکی تھی لہذا میں پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا اور دیو سے لڑنے کو تیار ہو گیا اور میں نے دیو سے کہا مجھے اس خوبصورت آواز تک پہنچنا ہے اس لئے تم میرے راستے سے ہٹ جاو ورنہ نتیجہ کے ذمہ دار تم خود ہوگے میرا اتنا ہی کہنا تھا کہ اس نے اپنے ڈنڈے سے جس کو اس نے اپنے داہنے ہاتھ کی دو انگلیوں میں دبا رکھا تھا میرے پیر کی طرف مار دیا اور میں ناقابل برداشت تکلیف کا شکار ہوگیا اور تکلیف کا احساس ہونا ہی تھا کہ میری نیند کھل گئی اور دیکھا کہ امی ڈنڈا لے کر کھڑی ہیں تب میری سمجھ میں آیا کہ تکلیف کے باوجود میں نے ذرا بھی آواز کیوں نہیں نکالی اور مجھے یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ میں کسی پر شکوہ عمارت میں نہیں بلکہ اپنے کمرے میں بستر پر نیند میں خواب دیکھ رہا تھا
 
Top