احمد مشتاق خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں۔ احمد مشتاق

الف عین

لائبریرین
خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں
خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گئیں

دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر
جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں

جو مقدر میں تھا اس کو روکنا تو بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں نا گہانی ہو گئیں

رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
٭٭٭
 

محمداحمد

لائبریرین
رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں

ہائے ہائے۔

کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔
 
Top