خواب کو گھول کے اشکوں میں بنائی ہوئی ہے۔ جواز جعفری

شیزان

لائبریرین
خواب کو گھول کے اشکوں میں بنائی ہوئی ہے
ایک تصویر جو آنکھوں میں سجائی ہوئی ہے
مہکی مہکی ہوئی آتی ہے سرِ شام ہوا
تازہ تازہ کہیں پھولوں کی چُنائی ہوئی ہے
مجھ سے کترا کے گزر قافلۂ رنگ و بہار!
کہ جُنوں خیزی مری، رنگ پہ آئی ہوئی ہے
اِس لیے آنکھ بھر آئی ہے کہ مجھ کو یہ کتھا
میرے بچپن میں مری ماں نے سُنائی ہوئی ہے
پھر سرِ شام بدلنے لگا موسم کا مزاج
جانتا ہے مری فصلوں میں کٹائی ہوئی ہے
اُسی مدفن سے ملے گا مرے ماضی کا سراغ
جس کھنڈر کی ابھی دو ہاتھ کھدائی ہوئی ہے
ایک دن آئیں گے تعبیر کے پھل پُھول جواز
قلمِ خاک سرِ چشم لگائی ہوئی ہے
جواز جعفری
 
Top