احمد ندیم قاسمی خلش - احمد ندیم قاسمی

کاشفی

محفلین
خلش
(احمد ندیم قاسمی- 1940ء)

ہر کلی میں پھول بننے کی نہاں ہے آرزو
دیکھ کر طوفاں کوکَھول اُٹھتا ہے قطرے کا لہو

ہر ستارہ چاند بننے کے لئے بیتاب ہے
چاند کا دل بھی تمنّاؤں سے لذّت یاب ہے

اُس کے سینے میں بھی ہے خورشید بننے کا خیال
اُس کی نظروں میں بھی ہے مہرِ درخشاں کا جمال

ہے خزف ریزے کے دل میں آئینہ بننے کا شوق
آئینے کو مہ وشوں کا نقشِ پا بننے کا شوق

ناچتے ہیں پھول اِس اُمید میں مستانہ وار
گوندھنے آئے گی مالن ایک دوشیزہ کا ہار

سر پٹخ کر جھاگ برساتے ہیں پیہم آبشار
چاہتے ہیں اپنی منزل سے ہوں یکدم ہمکنار

دن کے دل میں رات بننے کی تمنّا ہے نہاں
رات کو یہ شوق، کب ہوگی سحر جلوہ فشاں

تیرگی کو نور کا روئے حسیں محبوب ہے
نور کو ظلمات کی سنجیدگی مرغوب ہے

مفلسوں کو سلطنت کا شاہ بننے کی ہوس
شاہ کو کونین کا اللہ بننے کی ہوس

کمسنی کے دل میں رقصاں ہے تمنّائے شباب
اور بڑھاپے کی تبسّم پر جوانی کی نقاب

میں کہ اک شاعر ہوں بے پروائے قدرِ ننگ و نام
میرے سینےمیں بھی اک اُمید ہے، آتش بجام!

ایک شعلہ سا لرزتا ہے رگوں میں، مستقل
"جانے والے لوٹ آتے ہیں" یہی کہتا ہے دل

زندگی کو میں نے دیکھا ہے برافگندہ نقاب
زندگی پیہم خلش ہے، جاودانی اضطراب!
 
Top