خسارہ

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ شہر کے شور ہنگاموں سے کافی دور اک چھوٹا سا گاؤں تھا۔سالانہ پانی اور زرخیز زمین کی بدولت گاؤں کی پیداوار زیادہ تھی اور لوگ خوشحال تھے۔ گاؤں کے وسط میں گاؤں اکلوتی جامع مسجد زیر تعمیر تھی۔ دین کی راہ میں اکثر وسائل محدود ہی ہوتے ہیں۔ سو اسی بنیاد پر تعمیر کا کام بہت آہستہ آہستہ سر انجام پا رہا تھا۔ گاؤں کا بڑا وڈیرہ ہی تعمیر کا زیادہ خرچ اٹھا رہا تھا۔

گرمیوں کی اک دوپہر میں اک نئے ماڈل کی کار آکر رکی۔ اور اس میں سے اک خوش لباس آدمی اترا۔ اس نے اردگرد نگاہ دوڑائی۔ اجنبی آدمی دیکھ کر کچھ لوگ خبر گیری کو پہنچے۔ اس آدمی نے پانی کی درخواست کی۔ گاؤں کے وڈیرے نے اسے اپنے ڈیرے پر بٹھا لیا۔ اور اسکی ہر ممکنہ خدمت کی۔ اور گاؤں میں آمد کا سبب بھی پوچھا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں ویزے لگوانے کا کام کرتا ہوں۔ اور کچھ گاؤں آگے اک اور گاؤں ہے۔ اور اسکے لوگوں کے لیئے بیرونی ممالک کے ویزے کا بندوبست کیا ہے۔ ابھی بس انکے پاس ہی جا رہا ہوں۔ آدھےلوگوں کا کام ہوگیا۔ اور بقیہ کا بھی جلد ہی کروا دوں گا۔ اس آدمی نے کچھ اس انداز میں اپنے کام اور نیکی کا نقشہ کھینچا کہ لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ اس سے زیادہ ایماندار آدمی اس پیشے میں اور نہ ہوگا۔

یونہی باتوں باتوں میں اس آدمی نے پوچھا کہ میں پہلے بھی اک دوبار یہاں سے گزرا ہوں تو مسجد کی تعمیر میں کچھ اضافہ نہیں ہوا۔ گرمیوں کا موسم ہے۔ تو پنکھے بھی نہیں لگوا رکھے۔ اس پر گاؤں کے بڑوں نے حالات اور درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیئے وسائل کے فقدان کے متعلق آگاہی دی۔ اس آدمی نے جیب سے ساٹھ ہزار روپیہ نکال کر گاؤں کے بڑوں کے ہاتھ پر رکھا۔ اور کہا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں کسی قسم کی دیری اچھی بات نہیں۔ ہم لوگ اپنے سارے کام تو کر لیتے ہیں۔ پر جہاں معاملہ دین اور اللہ کے گھر کا آجائے۔ وہاں پر ہم ہمیشہ ہی قلیل وسائل کا رونا روتے ہیں۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اور میری طرف سے یہ رقم ہدیہ سمجھ کر رکھیئے۔ اور مسجد کی تعمیر کا کام جلد مکمل کرائیے۔ پنکھے بھی لگوا دیجیئے۔ تاکہ نمازی حضرات کو زیادہ تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس نے کہا کہ میری زندگی میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ میں اللہ کے گھر پر خرچ کرنے میں کسی بھی قسم کی پس و پیش سے کام نہیں لیتا۔ یہ اک ایسا کاروبار ہے کہ جس میں مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سب لوگ اسکے اس جذبہ پر حیران رہ گئے۔اور اسکے ایمان اور عقیدہ کی پختگی کی داد دینے لگے۔ وہ آدمی اپنی کار میں بیٹھا اور اپنی راہ لی۔

ہفتہ کے بعد اس آدمی کا چکر لگا۔ اس نے ویسے ہی حال احوال لیا گاؤں والوں کا۔ تھوڑی گپ شپ کی۔ مسجد کی تعمیر کا جائزہ لیا۔ اور پوچھا کہ اب مزید کتنی لاگت آسکتی ہے اس کی تعمیر پر۔ اسکے بعد کچھ رقم اور اسی مد میں منتظمین کے ہاتھ پر رکھی۔ اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے نکل گیا۔

اس کچھ عرصہ میں اسکی فیاضی اور خوش گفتاری کے باعث گاؤں میں لوگ اس سے کافی متاثر نظر آتے تھے۔ گاؤں کے کئی لڑکوں نے بھی باہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور وڈیرے سے درخواست کی کہ وہ اس ضمن میں کل خرچہ کہ متعلق اس شخص سے استفسار کریں۔

اگلی بار اسکی آمد پر گاؤں کے بزرگوں نے اس سے اس سلسلہ میں گفتگو کی۔اس شخص نے سب کو سمجھایا کہ اس پر کافی زیادہ خرچہ ہوتا ہے۔ اور قریب قریب بھی ابتدائی مراحل مکمل کرنے پر اک لاکھ کے قریب خرچہ آئے گا۔ اپنا گاؤں زمین اور خاندان ہے۔ کیا ضرورت ہے ملک چھوڑ کر جانے کی۔ آپ سب کو سمجھائیں۔ اس نے کہا کہ اگلا چکر میرا آخری ہوگا۔ اسکی وجہ اک تو یہ ہے کہ میرا کام اب ختم ہونے کو ہے۔ ان لوگو ں کو ویزے دے کر میں اپنی ذمہ داری سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہوجاؤں گا۔ اسکے بعد اس نے مسجد کے انتظامات کرنے والے مہتمم کو چالیس ہزار اور دیئے اور کہا کہ مسجد میں قالین کا مناسب بندوبست کروا دیں۔یہ گھر جتنا خوبصورت ہو اتنا میں سمجھوں گا کہ محنت ٹھکانے لگی۔

گاؤں کے وہ لوگ جو باہر جانے کے معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ انہوں نے کسی طور روپے کا بندوبست کیا۔ اور اسکے اگلے چکر کا انتظار کرنے لگے۔

اگلے چکر پر اس نے مسجد میں آکر دو نفل شکرانے کے ادا کیئے۔ اور بڑی خوشی سے گاؤں کے بڑوں کو بتایا کہ اسکو سرخروئی حاصل ہوئی ہے۔ اور اس نے جتنی درخواستیں جمع کرائیں تھیں۔ ساری منظور ہوگئیں۔ اسکے بعد وہ ان لوگوں کو ان کی امانتیں بھی لوٹا آیا ہے۔ اور خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہے۔ گاؤں کے بزرگوں نے ان نوجوانوں کی بابت بتایا جو باہر جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اور رقم کا انتظام بھی کیئے بیٹھے ہیں۔ اس نے اک بار پھر سب کو سمجھایا کہ دیکھو سب کچھ اس ملک میں ہی ہے۔ اور اپنے خاندان سے بہتر نعمت کچھ نہیں۔ مگر ان لوگوں کی بحث کے آگے آخر اس نے ہتھیار ڈال کرحامی بھر لی۔ دس کے قریب لوگوں نے اسے اپنے کاغذات اور رقم تھمائی۔ اس نے بار بار بڑے عاجزانہ انداز میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر لوگوں نے اس کو کہا کہ نہیں براہ مہربانی آپ ہمارے لیئے درخواست جمع کرادیں۔ دس لاکھ کے قریب رقم لے کر وہ اس گاؤں سے نکلا۔​
اس رات گاؤں کے نوجوان باہر کے ملک کے سپنے دیکھتے سو گئے۔ اور اسکی گاڑی کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیئے وہاں سے جا رہی تھی۔ باہر بڑی شاہراہ پر وہ نمبر پلیٹ بدلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ واقعی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اک کے دس دیتا ہے۔ بے شک اس کاروبار میں خسارے کا کوئی اندیشہ نہیں۔​
 

نایاب

لائبریرین
لاجواب " شاطر کیسے کیسے جال بچھاتے ہیں " اختتامی سطریں آگہی کا عجب در وا کر گئیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم نیرنگ بھائی
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔۔!

بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔! اور آج کل کے حالات کے حساب سے حسبِ حال ہیں۔ لوگ اپنی جھوٹے تقویٰ اور پرہیزگاری سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور پھر وہ کرجاتے ہیں کہ سامنے والے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم خواب آنکھیں بند کرکے دیکھے جاتے ہیں اور نیند میں چلنے والوں کا کسی گڑھے میں گر جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہوتی۔

ایک بہت خوبصورت تحریر پر مبارکباد قبول کیجے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لاجواب " شاطر کیسے کیسے جال بچھاتے ہیں " اختتامی سطریں آگہی کا عجب در وا کر گئیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم نیرنگ بھائی
نایاب بھائی شکریہ اس حوصلہ افزائی پر :)

بہت خوب۔۔۔ ۔!

بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔ ! اور آج کل کے حالات کے حساب سے حسبِ حال ہیں۔ لوگ اپنی جھوٹے تقویٰ اور پرہیزگاری سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور پھر وہ کرجاتے ہیں کہ سامنے والے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم خواب آنکھیں بند کرکے دیکھے جاتے ہیں اور نیند میں چلنے والوں کا کسی گڑھے میں گر جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہوتی۔

ایک بہت خوبصورت تحریر پر مبارکباد قبول کیجے۔
یہ متفق بہت خوب تحریر کے لیئے نہیں تھا :p
جی احمد بھائی۔ یہ اک حقیقت ہے کہ ہم دین کے نام پر بہت جلد بیوقوف بنتے ہیں :)
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر ہے بھیا!
اور سچ ہے کہ لوگ مذہب کےنام پر بہت جلد بیوقوف بن جاتے ہیں۔۔۔افسوس ان لوگوں پر بھی جو مذہب کی آڑ لے کر دھوکا دیتے ہیں۔۔۔:sad3:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ لیکن ابھی پڑھا نہیں ہے :)
اتنا عمدہ ہے کہ پڑھا ہی نہیں :p

سوچ و آگہی کے در وا کرتی ہوئی ایک عمدہ تحریر !
بہت سی داد آپ کے لیئے چھوٹے بھائی ۔۔۔
اللہ کرے زور فکر و قلم اور زیادہ ۔:)
آداب عرض ہے آپی۔ :)

بہت عمدہ تحریر ہے بھیا!
اور سچ ہے کہ لوگ مذہب کےنام پر بہت جلد بیوقوف بن جاتے ہیں۔۔۔ افسوس ان لوگوں پر بھی جو مذہب کی آڑ لے کر دھوکا دیتے ہیں۔۔۔ :sad3:
بالکل عینی ۔۔۔ اور اسی بات سے ہی آگہی کی ضرورت ہے۔ :)
 

مہ جبین

محفلین
اس رات گاؤں کے نوجوان باہر کے ملک کے سپنے دیکھتے سو گئے۔ اور اسکی گاڑی کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیئے وہاں سے جا رہی تھی۔ باہر بڑی شاہراہ پر وہ نمبر پلیٹ بدلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ واقعی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اک کے دس دیتا ہے۔ بے شک اس کاروبار میں خسارے کا کوئی اندیشہ نہیں۔

مذہب کے نام پر لوٹنے والے کیسے کیسے مکار اور عیار لوگ جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور لٹنے والے سب کچھ جانتے بوجھتے بھی بے وقوف بن جاتے ہیں

نیرنگ خیال بہت عمدگی سے تم نے ایسےشاطر لوگوں کا طریقہءواردات بیان کیا ہے
حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس رات گاؤں کے نوجوان باہر کے ملک کے سپنے دیکھتے سو گئے۔ اور اسکی گاڑی کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیئے وہاں سے جا رہی تھی۔ باہر بڑی شاہراہ پر وہ نمبر پلیٹ بدلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ واقعی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اک کے دس دیتا ہے۔ بے شک اس کاروبار میں خسارے کا کوئی اندیشہ نہیں۔

مذہب کے نام پر لوٹنے والے کیسے کیسے مکار اور عیار لوگ جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور لٹنے والے سب کچھ جانتے بوجھتے بھی بے وقوف بن جاتے ہیں

نیرنگ خیال بہت عمدگی سے تم نے ایسےشاطر لوگوں کا طریقہءواردات بیان کیا ہے
حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے
جی اپیا بالکل۔ ویسے میں نے بھی یہ اک سچے واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ اس میں طریقہ واردات اور تھا۔ یہ میرے والا فرضی ہے۔ :)
بہت شکریہ اپیا اس حوصلہ افزائی کا :)

یہ تو بہت غلط بات ہے :(
مگر خیال بھائی آپ نے لکھا بہت اچھا ہے :thumbsup:ویری ویری شاباش فار یو :)
جی بالکل گڑیا بہت غلط بات ہے۔ )
اور شاباش دینے کے لیئے بہت شکریہ :) :notworthy:
 

مہ جبین

محفلین
۔ اس میں طریقہ واردات اور تھا۔ یہ میرے والا فرضی ہے

نین بھیا اگر وہ طریقہء واردات لکھو تو اور بھی اچھا ہو
تاکہ لوگوں کو اس سے آگہی ہو اور وہ محتاط ہوجائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
۔ اس میں طریقہ واردات اور تھا۔ یہ میرے والا فرضی ہے

نین بھیا اگر وہ طریقہء واردات لکھو تو اور بھی اچھا ہو
تاکہ لوگوں کو اس سے آگہی ہو اور وہ محتاط ہوجائیں
ویسے بتا دیتا ہوں کہ اس آدمی نے مسجد بنواتے ہوئے شہر کی اک ہاوسنگ سکیم کا ذکر کیا۔ اک جعلی پراپرٹی دفتر بنا کر وہاں پر گاؤں سے کچھ لوگوں کا پلاٹ وغیرہ دکھائے۔ اور بکنگ کے نام پر روپیہ اینٹھ کر چلتا بنا۔ پر لوگ اب اس جعل سازی سے آگاہ ہوچکے ہیں کافی حد تک۔ اس لیئے ایسا لکھا کہ لوگ باہر کے نام پر بھی اندھوں کی طرح بیوقوف بننا چھوڑ دیں۔
 

مہ جبین

محفلین
ویسے بتا دیتا ہوں کہ اس آدمی نے مسجد بنواتے ہوئے شہر کی اک ہاوسنگ سکیم کا ذکر کیا۔ اک جعلی پراپرٹی دفتر بنا کر وہاں پر گاؤں سے کچھ لوگوں کا پلاٹ وغیرہ دکھائے۔ اور بکنگ کے نام پر روپیہ اینٹھ کر چلتا بنا۔ پر لوگ اب اس جعل سازی سے آگاہ ہوچکے ہیں کافی حد تک۔ اس لیئے ایسا لکھا کہ لوگ باہر کے نام پر بھی اندھوں کی طرح بیوقوف بننا چھوڑ دیں۔
ایسے جعلساز وں سے اللہ بچائے آمین
شکر ہے کہ اب لوگوں میں کچھ شعور آگیا ہے
 

نیلم

محفلین
بہت خُوبصورت تحریر
ایسے لوگ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو پیٹھ پیچھے وار کرتےہیں ،اچھا بن کے ڈستے ہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
Top