داغ خرید کر دلِ عاشق کو یار لیتا جا - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

خرید کر دلِ عاشق کو یار لیتا جا
نہ ہوں جو دام گرہ میں، اُدھار لیتا جا

نہ چھوڑ طائر دل کو ہمارے اے صیاد
یہ اپنے ساتھ ہی اپنا شکار لیتا جا

نکل کے جلد نہ جا اس قدر توقف کر
دعائے خیر دلِ بیقرار لیتا جا

عدم کو جانے لگا میں تو بولی یہ تقدیر
کہ داغِ عشق پئے یادگار لیتا جا

فلک سے کی ہوسِ عشق جب کبھی میں نے
ندائیں آئیں غمِ بے شمار لیتا جا

مزے وصال کے اے دل خیالِ یار میں ہیں
خوشی کے ساتھ شبِ انتظار لیتا جا

چلا تھا زخمیِ تیغِ نگاہ میں ہوکر
کہا ادا نے میرا بھی وار لیتا جا

ہوا کے جھونکے سے کہتا ہوں میں جب آتا ہے
کسی کے دل سے اُڑا کر غبار لیتا جا

وہ جان لیں مری افسردگی کو اے قاصد
بجھی ہوئی کوئی شمع مزار لیتا جا

وہ مجھ سے کہتے ہیں جب بن سنور کر بیٹھتے ہیں
بلائیں ہاتھوں سے بار بار لیتا جا

اِسے بھی کھیل سمجھ تو کہ ہر ادا کے ساتھ
ہمارے دل سے شکیب و قرار لیتا جا

نہ اُٹھ سکے گی یہ کل پیش داورِ محشر
نہ بے گناہوں کا گردن پہ بار لیتا جا

مرے مزار کو تو اس طرح سے کر پامال
کہ بانکپن کی بھی اے شہسوار لیتا جا

مزہ جب ہی ہے کہ بھر بھر کے داغ جام شراب
وہ دیتے جائیں تو اے بادہ خوار لیتا جا
 
Top