خدیجہ مستور کا افسانہ

حجاب

محفلین
[align=right:840d2bb1ce]پاکستان بن گیا۔۔۔۔۔لیگی رہنما کراچی دارلحکومت جا چُکے تھے۔مشرقی پنجاب میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔بڑے چچا اس صدمے میں جیسے نڈھال سے ہوگئے تھے۔بیٹھک میں بیماروں کی طرح وہ ہر ایک سے پوچھتے رہتے : یہ کیا ہورہا ہے ؟؟؟؟
یہ کیا ہوگیا ؟؟؟؟؟
جب وہ یہ سب کچھ عالیہ سے پوچھتے،تو وہ اُن کا سر سہلانے لگتی۔بڑے چچا آپ آرام کیجئے،آپ تھک گئے ہیں بڑے چچا، اور بڑے چچا اس طرح آنکھیں بند کرلیتے جیسے خون کی ندی اِن کی آنکھوں کے سامنے بہہ رہی ہو۔
کریمن بوا فساد کی خبریں سُن سُن کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتیں اپنے شہر میں فساد تو نہ ہوا تھا مگر سب کی جان پر بنی رہتی تھی کہ پتا نہیں کب کیا ہوجائے۔
کہاں ہوگا میرا شکیل ؟؟؟؟؟؟ بمبئی میں فساد کی خبر سُن کر بڑی چچی بلکنے لگیں۔
تمہارا پاکستان بن گیا جمیل،تمہارے ابّا کا مُلک آزاد ہوگیا ،پر میرے شکیل کو اب کون لائے گا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سب ٹھیک ہو جائے گا امّاں ،وہ خیریت سے ہوگا۔یہ فساد وساد تو چار دن میں ختم ہوجائیں گے،جمیل بھیا اِن کو سمجھاتے مگر اِن کا چہرہ فق رہتا۔
شام کو سب لوگ خاموش بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ماموں کا خط آ گیا۔اُنہوں نے امّاں کو لکھا تھا کہ اُنہوں نے اپنی خدمات پاکستان کے لئے وقف کردی ہیں اور وہ جلد ہی جا رہے ہیں۔اگر آپ لوگوں کو چلنا ہو تو فوراً جواب دیجئے اور تیار رہیئے۔
بس ابھی تار دے دو جمیل میاں،ہماری تیاری میں کیا لگے گا،ہم تو بس تیار بیٹھے ہیں،ہے ! اپنا بھائی ہے بھلا ہمیں اکیلا چھوڑ سکتا ہے ؟؟؟مارے خوشی کے امّاں کا منہ سرخ ہورہا تھا۔
جمیل بھیا نے اس طرح گھبرا کر سب کی طرف دیکھا جیسے فساد اِن کے دروازے پر پہنچ گئے ہوں،مگر آپ کیوں جائیں گی چھوٹی چچی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ یہاں محفوظ ہیں۔۔۔۔۔میں آپ کے لئے اپنی جان دے دوں گا،اُنہوں نے آج بڑی مدّت بعد عالیہ کی طرف دیکھا،کیسی سفارشی نظریں تھیں ،مگر عالیہ نے اپنی نظریں جُھکا لیں۔
میں نہ جاؤں تو کیا ہندوؤں کے نگر میں رہوں،پاکستان میں اپنوں کی حکومت تو ہوگی،پھر میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر ایک منٹ زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔واہ،مارے خوشی کے امّاں سے نچلا نہ بیٹھا جارہا تھا۔
عالیہ جانے پر راضی نہیں ہوگی چھوٹی چچی،وہ نہیں جائے گی،وہ جا ہی نہیں سکتی،جمیل بھیا نے جیسے نیم دیوانگی کے عالم میں کہا۔
تم اچھے حقدار آگئے،کون نہیں جائے گا۔۔۔۔۔امّاں ایک دم بھپر اُٹھیں۔
تم ہوتے کون ہو روکنے والے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ضرور جائیے چھوٹی چچی،جمیل بھیا نے سر جھکا دیا ،اور عالیہ کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ نہیں جاسکتی،صدیاں گزر جائیں گی مگر وہ یہاں سے ہِل بھی نہ سکے گی۔
میں ابھی تار کئیے دیتا ہوں کہ سب تیار ہیں،جمیل بھیّا اُٹھ کر باہر چلے گئے۔
عالیہ کا جی چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر اعلان کرے کہ وہ نہیں جائے گی،وہ نہیں جا سکتی،اُسے کوئی نہیں لے جا سکتا مگر اُس کے گلے میں تو سینکڑوں کانٹے چبھ رہے تھے ،وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکی ،اُس نے ہر طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں،مگر وہ کیوں رکے کس کے لئے؟؟؟اُس نے سوچا اور پھر جیسے بڑی سکون سے چھالیہ کاٹنے لگی۔عالیہ بیگم اگر تم رہ گئیں تو ہمیشہ کے لئے دلدل میں پھنس جاؤ گی۔
کریمن بوا !!!!!!!! اگر سب لوگ چائے پی چکے ہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار میاں نے بیٹھک سے آواز لگائی اور کریمن بوا آج تو ڈائنوں کی طرح چیخنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے کوئی تو اسرار میاں کو بھی پاکستان بھیج دو،سب چلے گئے،سب چلے جائیں گے،مگر یہ کہیں نہیں جاتا۔
بیٹھک میں اسرار میاں کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔
کیا تم سچ مُچ چلی جاؤ گی چھوٹی دلہن ؟؟؟؟؟بڑی دیر تک چپ رہنے کے بعد بڑی چچی نے پوچھا۔
ظاہر ہے چلی جاؤں گی، اماں نے رکھائی سے جواب دیا۔
یہ گھر تمہارا ہے چھوٹی دلہن ،مجھے اکیلے نہ چھوڑو،بڑی چچی نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں بند کر لیں،شائد وہ تنہائی کے بھوت سے ڈر رہی تھیں۔
عالیہ جیسے پناہ ڈھونڈنے کے لئے اوپر بھاگ گئی،دھوپ پیلی پڑ کر سامنے کے مکان کے اونچی دیوار پر چڑھ گئی تھی،ہائی اسکول کے احاطے میں بسیرا لینے والے پرند مسلسل شور مچائے جا رہے تھے۔
کُھلی فضا میں آکر اُس نے اطمینان کی سانس لی ،اور مسافروں کی طرح ٹہل ٹہل کر سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا،شائد اچھا ہی ہو،وہ یہاں سے جاکر ضرور خوش رہے گی۔
جب وہ نیچے اُتری تو سب اپنے اپنے خیالوں میں مگن بیٹھے تھے،صرف کریمن بوا جانے کس بات پر بُڑبُڑا رہی تھیں اور پُھرتی سے روٹیاں پکاتی جا رہی تھیں۔
جمیل بھیا کہاں گئے ،وہ اب تک کیوں نہیں آئے،عالیہ نے سونی کرسی کی طرف دیکھا ،جانے یہ سرپِھرا آدمی اِسے یاد کرے گا یا بھول جائے گا۔اُس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
لالٹین کی بتّی خراب تھی اس لئے اُس میں دو لویں اُٹھ رہی تھیں اور ایک طرف سے چمنی سیاہ ہوگئی تھی،مدّھم روشنی میں اماں بڑی چچی اور کریمن بوا کے چہرے بگڑے بغرے لگ رہے تھے۔
جمیل بھیا گھر میں داخل ہوئے اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے،میں تار کر آیا ہوں چھوٹی چچی،اُنہوں نے دھیرے سے کہا۔
تم اتنی دیر باہر نہ رہا کرو ،شام سے گھر آجایا کرو،جانے کب یہاں بھی گڑ بڑ ہو جائے،بڑی چچی نے کہا۔
رہنا تو پڑتا ہے،مسلمان ڈرے ہوئے ہیں،اُنہیں سمجھانا ہے کہ وہ یہاں ڈٹ کر رہیں اور یہاں کی فضا کو پُر امن رکھیں گھر بیٹھ کر تو کام نہ چلے گا۔
توبہ اب ملک آزاد ہو گیا تو یہ کام شروع ہوگئے ،خیر مجھے کیا ، تم نے تار پر پتہ ٹھیک لکھا تھا نا ؟؟اماں نے پوچھا۔
آپ اطمینان رکھیں ، پتہ ٹھیک تھا۔
خیر سے ہم تو پاکستان جا رہے ہیں،مگر اب تم اپنے گھر کی فکر کرو جمیل میاں،کیا بری حالت ہوچکی ہے۔اپنی ماں کی طرف بھی دیکھو،اماں نے ہمدردی سے بڑی چچی کی طرف دیکھا۔
کون جا رہا ہے پاکستان ؟؟؟؟؟بڑے چچا نے صحن میں قدم رکھتے ہی بوکھلا کر پوچھا،اُنہوں نے اماں کی باتیں سُن لیں تھیں۔
میں اور عالیہ جائیں گے ،اور کس نے جانا ہے۔اماں نے تڑاق سے جواب دیا۔
کوئی نہیں جاسکتا،میری اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں نکال سکتا،کس لئے جاؤ گے پاکستان ؟
یہ ہمارا ملک ہے ،ہم نے قُربانیاں دی ہیں،اور اب ہم اسے چھوڑ کر چلے جائیں ؟
اب تو ہمارے عیش کرنے کا وقت آرہا ہے،بڑے چچا سخت جوش میں تھے۔
ماشا اللہ آپ بڑے حق دار بن کر آگئے،نہ کِھلانے کے نہ پِلانے کے،کون سا دُکھ تھا جو یہاں آکر نہیں جھیلا۔میرے شوہر کو بھی آپ ہی نے چھین لیا،آپ ہی نے اُنہیں مار ڈالا،میری لڑکی کو یتیم کردیا اور اب حق جتا رہے ہیں،مارے غصّے کے اماں کی آواز کانپ رہی تھی۔
کریمن بوا ! میرا کھانا بیٹھک میں بھجوا دو۔بڑے چچا سر جُھکا کر بیٹھک میں چلے گئے۔
کیا آپ چلنے سے پہلے بڑے چچا کو یہی بدلہ دینا چاہتی ہیں ؟؟؟؟
بڑے چچا نے کسی کو تباہ نہیں کیا،بڑے چچا نے کسی کو دعوت نہیں دی تھی کہ آؤ میرا ساتھ دو۔آپ آج اچّھی طرح سُن لیں کہ مجھے بڑے چچا سے اتنی ہی محبت ہے جتنی ابّا سے تھی،عالیہ نے کھانا چھوڑ دیا اور ہاتھ دھو کر بیٹھک میں چلی گئی۔
امّاں کیا کہتی رہ گئیں اُس نے ذرا بھی نہ سُنا۔
کیا تم سچ مُچ جا رہی ہو بیٹی ؟؟؟؟؟؟
ہاں بڑے چچا، امّاں جو تیار ہیں۔اُس نے جواب دیا۔
بڑے چچا میں تو امّاں کا واحد سہارا ہوں،میں اُنہیں کس طرح چھوڑ دوں،وہ ضرور جائیں گی مگر آپ کو نہیں معلوم کہ یہ گھر چھوڑ کر میں کس طرح تڑپوں گی ،
آپ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
چھوٹی دلہن کو مجھ سے سخت نفرت ہے ٹھیک ہے،میں نے تم لوگوں کے لئے کچھ بھی نہ کیا،مگر اب وقت آیا تھا کہ اس گھر میں پہلی سی شادمانی لوٹ آتی،مجھے بڑی اچھی ملازمت دی جا رہی ہے،پھر دکانوں کو چلانے کے لئے دس پندرہ ہزار کی امداد بھی ملنے کی توقع ہے۔میں چھوٹی دلہن کی سب شکائیتں رفع کر دوں گا۔
اُنہوں نے عالیہ کو پیار سے تھپکا۔۔۔۔۔
کیا گھر میں تیل ختم ہوگیا ہے ؟؟؟
لالٹین کی روشنی مدّھم ہوتی جارہی ہے،اب انشااللہ تھوڑے دنوں میں بجلی کا کنکشن بحال کرالوں گا،اور اب تم ایم۔اے میں داخلہ کیوں نہ لے لو،میرا خیال ہے تم اگلے سال ضرور داخلہ جمع کروادو۔
عالیہ کا کلیجہ کٹ رہا تھا،آنسو پونچھ کر وہ خاموش بیٹھی رہی۔جی ہی جی میں گُھٹ رہی تھی مگر ایک لفظ نہ بول سکی۔
خدا آپ کو سُکھ دے بڑے چچا،خدا آپ کے سارے سہانے خواب پورے کرے،وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی۔
وہ بڑے چچا سے کس طرح کہتی کہ وہ تو یہاں سے خود بھاگ جانا چاہتی ہے۔
اسرار میاں بیٹھک میں داخل ہونے کے لئے پٹ کھول رہے تھے،عالیہ اُٹھ کر صحن میں آ گئی۔
امّاں اور بڑی چچی جانے کیا باتیں کر رہی تھیں،جمیل بھیّا اب تک کرسی پر بیٹھے انگلیاں مروڑ رہے تھے۔وہ ایک لمحے تک آنگن میں کھڑی رہی اور پھر اوپر چلی گئی۔
شبنم سے بھیگ کر رات بڑی روشن ہو رہی تھی،چاند جیسے وسط آسمان پر چمک رہا تھا اور روز کی طرح آج بھی قریب کی کسی چھت پر گراموفون ریکارڈ بج رہے تھے۔
" تیری گٹھری میں لاگا چور۔۔۔مسافر جاگ ذرا۔۔۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ ٹہلنے لگی،کیسی عجیب حالت ہو رہی تھی،جیسے سوچنے سمھجنے کی ساری صلاحیت کسی نے چھین لی ہو۔
کیا یہ میں ہوں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اُس نے اپنے آپ سے پوچھا،اور پھر اپنی آواز سُن کر حیران رہ گئی۔۔۔۔۔۔حد ہے دیوانگی کی،وہ کس سے پوچھ رہی تھی۔
ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک بار مُڑی تو جمیل بھیّا بُت کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے،وہ اور تیزی سے ٹہلنے لگی ،اب یہ کیا کہنے آئے ہیں ،اِنہوں نے اپنا وعدہ بھلا دیا۔
کیا سچ مُچ تم نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟؟؟؟ اُنہوں نے پوچھا۔
ہاں ! اس نے ٹہلتے ہوئے جواب دیا۔
تم یہاں سے جاکر غلطی کرو گی،تم نے ایک بار کہا تھا کہ دور رہ کر یادیں بہت اذیت ناک ہوجاتی ہیں،میرا خیال ہے کہ تم وہاں خوش نہ رہو گی۔
میں ہر جگہ خوش رہوں گی،مگر آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھ سے کبھی کچھ نہ کہیں گے۔
میں کیا کہہ رہا ہوں ۔؟؟؟؟؟؟؟؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تم میری مقروض ہو،یاد رکھنا تم کو یہ قرض چُکانا ہوگا۔وہ جانے کے لئے مڑے، "تم وہاں خوش رہو گی ناں “؟؟؟؟
اُنہوں نے رک کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
وہ چپ رہی،جمیل بھیّا تھوڑی دیر کھڑے رہے اور پھر چلے گئے اور اس نے محسوس کیا کہ اِس وقت وہ سب کچھ کھو بیٹھی ہے۔
بڑی دیر تک یونہی ٹہلنے کے بعد جب وہ تھک گئی تو چھمّی کو خط لکھنے بیٹھ گئی۔اُسے یہاں سے جانے کی اطلاع دینی تھی ،یہ رات پہاڑوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے،کوئی اِسے گزار دے،کوئی صبح ہونے کا پیغام سُنا دے۔
اُسے صبح ہونے کا انتظار ہے،صبح وہ چلی جائے گی اور اس کرب سے نجات حاصل کرلے گی۔
سب بول رہے ہیں،باتیں کر رہے ہیں،پھر بھی کیسا سنّاٹا چھایا ہوا ہے۔چاند کی کونسی تاریخ ہے اب تک چاند نہیں نکلا۔
چھالیہ کاٹتے کاٹتے عالیہ نے سب کی طرف دیکھا،جمیل بھیّا سب کی باتوں سے بے نیاز اپنی کرسی پر بیٹھے ایک شعر گُنگنائے جا رہے تھے۔
مجھے اور زندگی دے کہ ہے داستاں ادھوری
مری موت سے نہ ہو گی میرے غم کی ترجمانی
جمیل بھیّا آج سارا دن باہر نہیں نکلے تھے،آج اُن کو فرصت ہی فرصت تھی جیسے سارے کام ختم ہوگئے اور اب اِنہیں کچھ بھی نہیں کرنا ہے۔
بڑی بھابھی میں تو جارہی ہوں مگر آپ میری ایک بات یاد رکھیئے گا کہ اگر آپ نے بڑے بھیّا اور جمیل میاں کو قابو میں نہ کیا تو آپ کی ساری عمر یوں ہی گزر جائے گی ،اب تو آزادی بھی مل گئی اب کون سا بہانہ رہ گیا ہے جو یوں سارا دن دونوں باپ بیٹے آوارہ پھرتے ہیں۔اماں بڑی چچی کو سمجھا رہی تھیں۔
مجھے اور زندگی دے کہ ہے داستاں ادھوری۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ہے داستاں ادھوری۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیل بھیّا اِسی ایک شعر کو رٹے جا رہے تھے۔
اِس شعر کو بار بار پڑھ کر وہ کیا جتانا چاہتے ہیں،وہ اِس سے کیا کہہ رہے ہیں؟؟؟؟؟
عالیہ کا سروتا بڑی تیزی سے چھالیہ کاٹنے لگا،اللہ میاں اگر اس وقت مجھے بہرا کردے تو کتنا اچھا ہو۔
چھوٹی دلہن ایسا جانا پڑتا ہے کہ کلیجہ منہ کو آیا جاتا ہے،بھرا پورا گھر تھا دیکھتے دیکھتے سب تڑی بڑی ہوگئے،زمانے زمانے کی بات ہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
قربان جاؤں اُس مالک کے جس نے ایک ملک کے دو ملک بنا دئیے ،اپنے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی پر ہم اکیلے رہ گئے۔کریمن بوا جدائی کے صدمے سے نڈھال ہورہی تھیں۔
تم بھی چلو کریمن بوا۔۔۔۔ اماں نے بڑے خلوص سے کہا۔
اب تو یہی دعا کریں چھوٹی دلہن کہ اس گھر سے لاش نکلے میری،آج یہاں سے چلی جاؤں تو مرنے کے بعد مالکن مرحومہ کو کیا منہ دکھاؤں گی،وہ اپنے جیتے جی جہاں بٹھا گئیں وہاں سے کیونکر پاؤں نکالوں۔
سیتا نے رام کی کھنچی ہوئی لکیر سے باہر قدم رکھا تھا تو راون اُٹھا لے گیا تھا،سیتا نے جیتے جاگتے رام کی حکم عدولی کی تھی،مگر تم کریمن بوا رہو گی تم کو کون جانے گا ،تمہارا قصّہ کون لکھے گا۔؟؟؟؟؟
عالیہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے کریمن بوا کو دیکھا،لالٹین کی مدّھم زرد روشنی میں جدائیوں کے دُکھ کتنے اُجاگر ہو رہے تھے۔
چھوٹی دلہن اب بھی اپنا فیصلہ بدل دو،مت جاؤ چھوٹی دلہن۔بڑی چچی کی آواز بھاری ہورہی تھی۔
مجھے اور زندگی دے کہ ہے داستاں ادھوری۔۔۔۔جمیل بھیّا ساری باتوں سے بےنیاز ہوکر جیسے اس ایک شعر کی کیفیت میں ڈوب کر رہ گئے تھے۔
اللہ کوئی تو اِس رات کو گزار دے،ورنہ آج وہ اپنی جان سے گزر جائے گی،عالیہ نے سروتا رکھ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
چاند نکل رہا تھا ،آسمان روشن ہوتا جا رہا تھا۔
چھمّی کا خط آیا تھا،اُس نے کیا لکھا ہے عالیہ ؟؟؟بڑی چچی نے پوچھا۔
اُس نے لکھا ہے پاکستان جانا مبارک ہو ضرور جائیے۔اُس پاک سر زمین کو میری طرف سے چومیے گا اور مجھے وہاں کی تھوڑی سی مٹی بھیج دیجئے گا ،میں اُسے اپنی مانگ میں لگاؤں گی میں بدنصیب تو وہاں بھی نہیں جا سکتی اور سب کو سلام دعا لکھی ہے،عالیہ کو جتنا یاد تھا سب سُنا دیا۔
اور بھی کچھ لکھا ہے کیا ؟؟؟؟؟ بڑی چچی نے پوچھا۔
بس یہی سلام دعا خط اوپر رکھا ہے۔
میری موت سے نہ ہوگی میرے غم کی ترجمانی۔۔۔۔۔۔جمیل بھیّا اب بھی سب سے بے نیاز تھے۔
جانے ہمارے مسلمانوں کا مُلک کیسا ہوگا،مکان بھی مل جائے گا جلدی سے کہ نہیں،ہوٹل میں نہ ٹھہرنا چھوٹی دلہن،صحت خراب ہو جائے گی وہاں کے کھانے سے۔۔۔۔
کریمن بوا کو اب آگے کی فکر ستا رہی تھی۔
تم پریشان نہ ہوا کرو کریمن بوا جاتے ہی خط لکھ دوں گی،اماں نے کہا۔
رات کے بارہ بج رہے تھے رات سرد ہوتی جا رہی تھی مگر سب لوگ بیٹھے تھے عالیہ کا جی چاہ رہا تھا کہ بس اب کسی طرح اوپر بھاگ جائے۔
اچھا بھئی اب سونے کو چل دئیے ۔۔۔خدا حافظ۔۔۔جمیل بھیّا کرسی سے اُٹھ پڑے ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اور زندگی دے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کمرے میں چلے گئے۔
بیٹھک کے دروازے کُھلے اور بند ہو گئے،بڑے چچا ایک ذرا دیر کو بھی اندر نہ آئے عالیہ انتظار کرتی رہ گئی۔
گلی میں آوارہ کتے بھونک کر رو رہے تھے،کاش نیند آجائے،اُس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگ رہی تھیں۔
ایک دن جب وہ یہاں آئی تھی اور پہلی رات اس کمرے میں گزاری تھی تو ساری رات سو نہ سکی تھی اور آج جب وہ یہاں سے جارہی ہے تو پھر نیند نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔کتنی بہت سی باتیں اُس کا کلیجہ نوچ رہی تھیں۔۔۔۔۔جمیل بھیّا نے مجھ سے ایک بات بھی نہ کی،کیا جاتے جاتے وہ اب مجھ سے کچھ نہ کہیں گے ،کیا اب کچھ کہنے کو باقی رہ گیا؟
اللہ بڑے چچا کیا سوچ رہے ہونگے،وہ بڑے چچا کو چھوڑ کر جا رہی ہے ۔اور چھمّی خدا کرے اُسے پاکستان آنا نصیب ہو جائے۔جاگتے جاگتے صبح ہو گئی،نچلی منزل سے برتنوں کے کھڑکنے اور باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی۔
اُس نے کمرے پر ایک وداعی نظر ڈالی اور نیچے آگئی۔
ناشتا تیار تھا وہ اماں اور بڑی چچی کے ساتھ بیٹھ گئی،کمرے کے کُھلے دروازے سے اس نے دیکھا کہ جمیل بھیّا اب تک چادر تانے سو رہے تھے۔
حد ہوگئی بے مروتی کی،میں جا رہی ہوں اور ان کی آنکھ بھی نہیں کُھلتی ،جیسے موت کی نیند آگئی ہے۔
عالیہ کو کیسی ٹھیس لگ رہی تھی اُن کے یوں ٹھاٹھ سے سونے پر۔وہ چلی جاتی تو پھر سو لیتے۔ناشتے کے بعد امّاں نے اپنے سارے سامان کا جائزہ لینا شروع کر دیا کپڑوں اور ہلکے پُھلکے دو کمبلوں کے سوا تمام سامان چھمّی کے کمرے میں بھر دیا گیا تھا کہ جب اچھا وقت آئے گا تو پھر آکر سب کچھ لے جائیں گے۔
" تانگے آ گئے ہیں۔“ اسرار چچا نے باہر سے آواز لگائی تو وہ جلدی سے بیٹھک کی طرف بھاگی۔
" کیا آج بڑے چچا بھی سوتے رہیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟“
تمہارے بڑے چچا تو تڑکے ہی کہیں چلے گئے،کہتے تھے کہ کام ہے اور یہ بھی کہتے تھے کہ میں سب کو جاتے نہ دیکھ سکوں گا۔
کریمن بوا نے بڑی رقت سے بتایا۔
یہ کہو ناں کریمن بوا کہ وقت نہیں تھا جو رخصت کرنے بیٹھے رہتے۔۔۔۔۔۔۔۔اماں نے برا سا منہ بنایا۔
بڑی بھابھی میرا سامان حفاظت سے رکھئیے گا،اِس کمرے میں تالا لگا دیجئے گا،امّاں نے ایک بار پھر ہدایت کی۔
اللہ آج کی سیٹیں ریزرو نہ ہوتیں،آج وہ رک سکتی،بڑے چچا سے ملے بغیر وہ کس طرح جا سکتی ہے۔وہ جیسے تھک کر بیٹھ گئی۔
اُٹھ جاؤ جمیل ! تمہاری چچی اور بہن جارہی ہیں ،اِنہیں رخصت تو کرو۔
بڑی چچی نے تیسری بار جمیل بھیّا کو آواز دی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
جلدی کرو کریمن بوا،ہوائی جہاز کسی کا انتظار نہیں کرتا،وقت پر اُڑ جائے گا،اسرار میاں نے پھر صدا لگائی۔
خدا نہ کرے،میرا بھائی آج لاہور کے ہوائی اڈے پر انتظار کرے گا،جو ہم لوگوں کو نہ پایا تو کلیجہ پھٹ سا جائے گا اُس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امّاں نے بوکھلا کر برقع اوڑھ لیا۔
اب تم بھی جلدی کرو ناں۔۔۔۔۔۔اُنہوں نے جَھلّلا کر عالیہ کی طرف دیکھا جو اب تک بے سُدھ سی بیٹھی تھی۔
بہت وقت ہو رہا ہے ، پہلے سے پہنچنا اچھا ہوتا ہے۔اسرار میاں کی آواز رکتی ہی نہ تھی۔
ارے کوئی اِس اسرار میاں کو بھی پاکستان بھیج دو،کریمن بوا کلیجہ پھاڑ کر رو دیں۔
کریمن بوا اور بڑی چچی امّاں سے مِل مِل کر رو رہی تھیں،مگر وہ دم بخود کھڑی رہی،اِسے تو رونا بھی نہ آرہا تھا۔
اگر شکیل وہاں ملے تو خط ضرور لکھنا،بڑی چچی نے عالیہ کو لپٹا کر سرگوشی کی۔
جاؤ خدا کو سونپا۔۔۔۔۔۔۔اُن کی آواز کانپ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ارے جمیل اب تو اُٹھ جا۔۔۔۔۔۔۔بڑی چچی نے زور سے پکارا۔
میں جا رہی ہوں خود مل لوں گی،عالیہ نے کہا۔
کیوں مل لو گی ؟؟؟؟؟؟؟؟وہ تو مارے نفرت کے ملنا نہیں چاہتا،اماں نے تیوریوں پر بل ڈال لئے۔"بس اب چلو جلدی “
میں جا رہی ہوں،خدا حافظ۔
عالیہ نے جمیل بھیّا کے منہ پر سے چادر کھینچ لی اور پھر جھجھک کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
بھیگی اور سوجی ہوئی آنکھوں میں ایک داستان دم توڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس نے گھبرا کر آنکھیں بند کرلیں،پھر بھی وہ آنکھیں تو اِس کی آنکھوں میں گُھسی جا رہی تھیں۔
تم جاتیں کیوں نہیں بےوقوف لڑکی ؟؟؟؟؟؟؟
کیا یہی دیکھنے کے لئے مجھے جگانے آئی تھیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُنہوں نے پھر منہ چُھپا لیا۔
جلدی چلو عالیہ۔۔۔۔۔۔امّاں کی آواز آئی۔
تب عالیہ کو خیال آیا کہ اِسے جانا ہے باہر تانگا کھڑا ہے مگر اِس کے پاؤں کیوں نہیں اُٹھتے،اب وہ جاتی کیوں نہیں اور یہ کمرے میں اتنا اندھیرا کیوں چھا رہا ہے۔
کریمن بوا جلدی کرو بہت دیر ہو رہی ہے اور چھوٹی دلہن سے اور عالیہ بی بی سے میری دعا کہہ دو اور کہہ دو کہ میرا کہا سُنا معاف کریں اور کہہ دو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار میاں کی آواز رک گئی۔
خدا کرے تمہاری زبان تھک جائے اسرار میاں۔۔۔۔۔کریمن بوا نے تڑپ کر دعا مانگی۔
عالیہ سب کچھ سُن رہی تھی مگر اِس کے پاؤں ارے کوئی اِسے کھینچ کر ہی لے جائے،وہ اس کمرے سے تو نکل جائے۔
تم اِس لئے دیر کرا رہی ہو کہ ہوائی جہاز ہم کو چھوڑ کر اُڑ جائے ،میرے بھائی کے ٹکٹوں کے دام غارت جائیں،اور وہ ہمیں اس جہاز میں نہ پا کر پاگل ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں جانے اور کیا کہتیں کہ عالیہ وحشیوں کی طرح بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔
" آپ کے بھائی اور بھاوج سے اتنا بھی نہ ہوا کہ چار پانچ دن ہماری وجہ سے ٹھہر جاتے،ہمارے ساتھ سفر کرلیتے اور اب ہمارے لئے پاگل ہوجائیں گے،افوہ “
عالیہ زور سے بولی اور پھر بڑی چچی سے لپٹ کر سسکنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××
[/align:840d2bb1ce]
 
Top