خدا کی چاہت

sajjad hyder

محفلین
خدا فرماتاہے ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت ہےہو گا وہ ہی جو میری چاہت ہے اور انسان کے واسطے مشکلات تب ہی پیدا ہوتی ہیں جب وہ اپنی چاہت کو خدا کی چاہت پے مقدم سمجھتا ہے اور نہیں مانتا اس کی چاہت کو تو پھر انسان تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور پھر اپنی کم ضرفی اور کم عقلی کی بنیاد پر کوشش پہ پے کوشش کرتا ہے۔ یہ بھول کر کہ اس کی طاقت بھی تو اس ذات کی عطا کردہ ہے۔ مگر انسان اس قدر پاگل ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کی منشا اور رضا کوایک طرف رکھ دیتا ہے۔ اور جب تھک جاتا ہے تو کہتا ہے کہ چلو جو خدا کی مرضی!!!!!!

سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ آج تکہم پہ گزرا یا جو آنے والے وقت میں گزرے گا ہمارے اختیار میں نہیں ہے نہ ہو گا۔ ۔ ۔
ہمارا پیدا ہونا!!!
کسے ماں باپ کی صحبت نصیب ہو گی!!!
ان دونوں کی شفقت ملے گی بھی کہ نہیں!!!!
رنگ و روپ، شکل و صورت کیسی عطا ہو گی!!!
جاب ملے گی کہ نہیں !!!
رزق تو پہلے ہی لکھ دیا گیا ہے!!!
وہ تو انسان خود ہے جو اس کے پیچھے اپنا ایمان خراب کرتا ہے بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ !!!
پھر کس طرح موت آئےگی، کہا ں آئے گی!!!
اور کب موت کی وادی کی طرف کوچ کرنے کا حکم صادر کر دیا جاے گا!!!
اور مُعافی ملے گی بھی کہ نہیں!!!!
بس میں تو کچھ بھی نہیں ہے تو پھر سب آپ کے اپنے خیالات سے پیدا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور سب جو لکھ دیا گیا ہے ہونا تو ہے ہی آپ چاہو نہ چاہو۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر بات تو ہے ان لوگوں کی کہ جو خدا کی رضا کو مان لیتے ہیں تو خدا کہتا ہے کہ اب ہو گا وہی جو تیری چاہت ہے۔ ۔ ۔
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں خدا اور بندے کی رضا ایک ہی ہو جاتی ہے نہ بندا نہ معبود ۔ ۔ ۔
یہ ہی لوگ تو خوش نصیب بھی ہوتے ہیں اور خوشحال بھی۔ ۔ ۔
یہ وہ مقام ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ ۔ ۔ بات مقام کی ہے۔ ۔ ۔سکون چاہتے ہو تو راضی ہونا سیکھو!!!!!
سجاد حیدر پاگلِ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پا۔ ۔ ۔گل
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب سجاد صاحب۔ بہت اچھی تحریر ہے۔ شریک محفل کرنے کا شکریہ۔

بُرا نہ منائیں تو کہوں کہ آپ نےاپنی تحریر میں گول ہ کی بجائے دو چشمی ھ زیادہ استعمال کی ہے۔ گول ہ انگریزی کے حرف o والی کنجی سے ہے۔
 
Top