خدارا پاکستان کو بچاو (حنیف رامےمرحوم)

مجھے آج بھی جیو کا پروگرام یاد ہے جس میں حنیف رامے مرحوم نے کہا تھا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انتظامی حوالے سے صوبوں کی ازسرنو حدبندی کی جائے اور یوں پنجاب کو تقسیم کر دیا جائے جس سے ایک طرف تو پنجاب کے پسماندہ علاقوں خصوصا سرائیکی پٹی کو فائدہ ہوگا اور دوسری طرف پنجاب کے حوالے سے دوسرے صوبوں کے خدشات بھی دور ہو جائیں گے۔ آج کل جب ڈیم پر بحث ہو رہی ہے۔تو اس پر بھی بحث ہونی چاہیئے۔ کیونکہ آزادی کے بعد ہندوستان میں بھی کئی صوبوں کی ازسرنو حد بندی کی گئی اور کئی نئے صوبے بنائے گئے۔ جس کی مثال ہندوستان میں شامل پنجاب کی جسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ امید ہے آپ لوگ اس بارے میں اپنی رائے کااظہار ضرور کریں گے
 

نبیل

تکنیکی معاون
وہاب، پوسٹ کرنے کا شکریہ۔ صوبوں کی تشکیل نو ایک خالص انتظامی معاملہ ہے اور اسے غیر جذباتی انداز میں ہی زیر بحث لانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہم بحیثیت قوم ہر معاملے کو اس کی افادیت سے قطع نظر انتہائی غیر حقیقی اور جذباتی طریقے سے لیتے ہیں۔ آپ صوبوں کو تقسیم کرنے کی بات کر رہے ہیں، کچھ عرضہ قبل غالباً ننکانہ صاحب کو کسی اور ضلع میں شامل کیا جا رہا تھا تو وہاں کے لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں اور نوبت خون خرابے تک پہنچنے والی تھی۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں میری تصحیح فرمائیں۔

کسی حد تک تو پاکستان کی تاریخ میں بھی صوبوں کی تنظیم نو کی جاتی رہی ہے، جیسے کہ ون یونٹ کا بنانا اور بعد میں اس کا توڑنا۔ میرے خیال میں تو صوبائی حدود کی تنظیم نو میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ انتظامی اعتبار سے اور غالباً سیاسی اعتبار سے بھی ملک کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
صوبوں کی تقسیمِ نو بہت مشکل کام ثابت ہو گا، لیکن اگر اس سے فائدہ پہنچ سکے تو اس پر غور کرنا چاہیے۔

مگر مسئلہ وہی ہے جو کہ نبھیل بھائی نے بیان کیا ہے۔

محترم وہاب صاحب، کیا آپ صرف سرائیکی پٹی کی بات کریں گے؟ یا پھر اگر آپ سے کوئی کہے کہ کراچی اور حیدرآباد کو الگ کر کے الگ صوبہ بنا دیا جائے تو آپ اس کی بھی حمایت کریں گے؟

یعنی مجھے حیرت ہوئی اس رویہ پر جب اہلِ اندرون سندھ نے سرائیکی صوبہ کی علیحدگی کے لیے تو آواز اٹھائی کہ اسے پنجاب کے پنجہ ظلم سے نجات دلائی جائے، مگر جب ان کے سامنے کراچی اور حیدر آباد کا مسئلہ پیش ہوا تو یہی برادران سندھ کی دھرتی کو اپنی ماں قرار دیتے ہوئے اس کی تقسیم پر مر مٹنے پر تیار ہو گئے۔



بہرحال، موجودہ حالات کے مطابق، مجھے سب سے اچھا قدم لگا ہے اختیارات کی ذیلی سطح پر تقسیم کا نظام۔ اس نظام کے آنے سے صوبہ یا صوبائی اسمبلی کے اختیارات صرف آئین سازی کی حد تک رہ گئے ہیں اور باقی تمام اہم چیزیں نچلی سطح پر منتقل ہو گئی ہیں۔ اب ہر علاقے کا فیصلہ اُسی علاقے کا ناظم کر رہا ہے چاہے وہ ترقیاتی کام ہوں یا پولیس وغیرہ سے نبٹنا وغیرہ۔

اسی طرح بیورو کریسی کے بہت سے کام بھی نچلی سطح پر منتقل ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس سے ایک ہی صوبہ میں رہنے والوں کے مابین صوبائی عصبییتیں کم ہوں گی۔ مثلا اب کسی علاقائی تنظیم کے پاس یہ بہانہ نہیں رہے گا کہ پڑوس میں بسنے والی دوسری قوم اُن کا استحصال کر رہی ہے۔

اگر یہ نظام قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی رائج ہو چکا ہوتا، تو یقینا آج اہل کراچی ایم کیو ایم جیسی جماعت نہیں بناتے۔ یا پھر ایسی کوئی علاقائی لسانی جماعت ہوتی بھی، تو اسے اہل کراچی کی اتنی سپورٹ حاصل نہ ہوتی۔


بہرحال، محترم وہاب صاحب سے گذارش ہے کہ وہ اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالیں کہ صوبائی حدود کی ازسرنو سرحد بندی سے کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اُن کے مطالبات کیا ہیں۔ کیا یہ مطالبات نئے صوبے بنائے بغیر بھی پورے کیے جا سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

اگر اس قدم سے مثبت نتائج مل سکتے ہیں تو اس پر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

شکریہ۔
 
جواب آں غزل

دیکھیے جناب اس ملک کی یہی ستم ظریفی رہی ہے کہ ہم لوگ ہر چیز کو اپنے نقطہ نظر سے سوچتے اور دیکھتے ہیں۔قوم کے مفاد کی طرف کسی کی بھی نظر نہیں جاتی۔ اس لیے ایک ضلع حدود میں تبدیلی سے بھی ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے۔اور ہم مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں۔ لیکن پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے بڑا فائدہ وفاق کو ہوگا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پورا پنجاب ایک طرف اور پورے پاکستان کے ارکان ایک طرف یوں ظاہر ہے اختیارات کی تقسیم اور ملکی خزانے کی تقسیم میں چھوٹے صوبے ہمیشہ شکوک و شبہات کا شکار رہیں گے۔ پنجاب کی تقسیم سے وفاق میں ایک بہتر توازن لایا جاسکتا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ سینٹ کی بات کرتے ہیں جہاں صوبوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے۔ لیکن سینٹ ایک ایسا طوطا ہے جس کی نقار خانے میں کوئی نہیں سنتا۔ جہاں تک سرائیکی علاقوں کا تعلق ہے تو وفاق اور صوبے میں زیادہ تر بجٹ ترقی یافتہ علاقے کھا جاتے ہیں۔ تعلیم کی شرح کم ہونے کی وجہ سے ساری ملازمتیں پنجاب کے ایک خاصے خطے کے لوگوں تک محدود ہو جاتی ہیں۔ اور یوں پست ماندہ سرائیکی علاقوں کی حالت مزید بدتر ہوتی جاتی ہے۔ میں نیبیل بھائی اور مہوش دونوں سے اس بات پر اتفاق کرتا ہوں کہ صرف پنجاب ہی کیوں دوسرے صوبوں کی تقسیم پر بھی غور کیا جائے اور ازسر نو حد بندی کی جائے۔ میرے خیال میں اس وفاق کو بچانے کا یہی راستہ ہے ورنہ افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ اس سسٹم کا خدا ہی حافظ
 

دوست

محفلین
سرائیکیوں کا عرصہ دراز سے مطالبہ ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرکے الگ صوبہ ملتان کے نام سے بنایا جائے۔ بات تو ان کی بھی بری نہیں ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وہاں ترقی کم ہو رہی ہے۔ اور جنوبی پنجاب کے کچھ دانشور آج لاہور کے لیےوہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کبھی مجیب الرحمٰن نے اسلام آباد کے لیے کیے تھے۔
اسے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی اور انھیں لاہور کی سڑکوں سے جنوبی پنجاب کی کپاس کی بو آتی ہے۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔
انتظامی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے کچھ فائدہ ہوا ہے اتنا زیادہ بھی نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جنرل صاحب کے ساتھ ہی یہ نظام بھی رخصت ہو جائے گا یا شاید اتنا محدود کردیا جائے کہ اس کی افادیت وہ نہ رہے۔ سیاسی دباؤ میں آکر ناظمین کو ہٹانے کا اختیار وزیراعلٰی کو دینا اسی سلسلے کی کڑے ہے۔ اس صورت میں گویا ناظمین خصوصًا حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے ناظمین اپنا کام دیانت داری سے نہیں کر سکیں گے لامحالہ انھیں گرانٹ اور ترقیاتی کاموں کی منظوری کے لیے وزیرِاعلٰی کی پارٹی اور خوشنودی دونوں چیزیں حاصل کرنا ہونگی۔
ہم بہت جذباتی ہیں اپنے ہر معاملے میں۔ اور دوسروں کے معاملے میں بالکل ٹھس یا بے حس کہہ لیں۔ اوپر ایک دوست نے مثال دی ہے کس طرح کراچی اور حیدرآباد والوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔
سچ بتاؤں تو ایک بار مجھے بھی برا لگا تھا کہ پنجاب ہی رہ گیا ہے مشق ستم کے لیے۔ تاہم اگر ملک کی بہتری اس میں ہے تو بسم اللہ۔
 

جیسبادی

محفلین
یہ تقسیم کی بات کچھ سطحی سی لگ رہی ہے۔ اب کراچی سب سے بڑا شہر ہے، کوئی کہے گا کہ اس سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے، اس لئے کراچی کو تقسیم کر دیا جائے، یا آبادی کو ادھر اُدھر منتقل کر دیا جائے! یہ پرانے کیمونسٹوں کے منصوبے آج کل نہیں چلتے۔ سرکاری ملازمتوں کی سوچ برطانوی راج کے زمانے کی ہے۔ اب تو ساری دنیا میں حکومتیں اپنا حجم کم کر رہی ہیں، ملازمتیں نئے کاروبار سے جنم لے رہی ہیں۔
 
جواب آں

دوستو میں پھر وہی بات کروں گا کہ مسئلہ نہ آبادی کا نہ ملازمتوں یہ تو سب ثانوی باتیں ہیں۔اصل مسئلہ وفاق میں اختیارات کی تقسیم کا ہے جو کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے پنجاب تمام اختیارات پر قابض نظرآتا ہے۔ کیونکہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ خود مشرف کا کہنا ہے کہ جو کالا باغ ڈیم کی حمایت کرے گا تو پنجاب اس حکومت کو گرا دے گا۔ یعنی دوسرے صوبوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ دوسرے صوبوں کووفاق میں جائز مقام دلانے کے لیے پنجاب کی تقسیم اشد ضروری ہے۔ کیونکہ وسائل دوسر ے صوبے زیادہ فراہم کرتے ہیں لیکن اُ ن کا منافع آبادی کے وجہ سے پنجاب کے ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ اور دوستو یہ ایسی تقسیم نہیں کہ ملک تقسیم ہوگا۔ بلکہ آبادی کی بنیاد پر ایک صوبہ تقسیم ہوگا اور بس اس میں قباحت ہی کیا ہے آخر۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہاب بھائی میں زیادہ سیاست تو نہیں جانتا، لیکن آپ پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات سے پہلے حنیف رامے (مرحوم) کی لکھی ہوئی کتاب “پنجاب کا مقدمہ“ ضرور پڑھ لینا۔
 

جیسبادی

محفلین
کینیڈا کے صوبے

کینیڈا کے دس صوبے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سب سے بڑے صوبے انٹاریو کی 106 سیٹیں ہیں، جبکہ کچھ چھوٹے صوبوں کی سیٹیں 4, 7, 10, 11, 14, 14 ہیں۔ مقابلتاً ٹورانٹو، جو سب سے بڑا شہر ہے، اور انٹاریو کا دارلخلافہ ہے کے پاس 24 سیٹیں ہیں۔ ظاہر ہے سیٹیں آبادی کے لحاظ سے مختص ہوتی ہیں۔

سینٹ میں تقرری وزیراعظم کرتا ہے، اس لیے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

ہر شخص دو ٹیکس دیتا ہے، ایک صوبائی، دوسرا وفاقی۔ جب آپ دوکان سے کچھ خریدو تو 15% سیلز ٹیکس دیتے ہو، جس میں سے 7% صوبے کو اور 8% وفاق کو جاتا ہے۔ وفاق اپنی آمدنی میں سے ان صوبوں کو جہاں معیار زندگی کم ہو، مدد فراہم کرتا ہے جسے equalization payments کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آبادی کے لحاظ سے ہی حساب لگایا جاتا ہے۔

کچھ لوگ وفاق کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، جس کا نقصان ظاہر ہے چھوٹے صوبوں کو ہی ہو گا۔

انٹاریو کے اندر زیادہ تر آبادی جنوب میں ہے۔ ٹورانٹو میں امارت نظر آتی ہے۔ شمال میں چلے جاؤ تو غربت دیکھی جا سکتی ہے۔ وسائل، یعنی معدنیات وغیرہ شمال میں ہیں۔ اس کے علاوہ شمال کے دور دراز علاقوں میں مہنگائی بھی زیادہ ہے۔ دودھ جو دوسرے علاقوں میں ایک ڈالر کا لیٹر ملتا ہے ان علاقوں میں تین ڈالر کا لیڑ ہے۔ ٹورانٹو میں کچھ پیدا نہیں ہوتا، لیکن بزنس ہوتا ہے چنانچہ ٹھات بھاٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹورانٹو میں عام لوگ امیر ہیں مگر صرف نظر آنے کی بات کر رہا ہوں۔
 
Top