x boy
محفلین
مصنف:محترم ریحان احمد یوسفی صاحب
مذہب کا انکار کرنے کے بعد اہل مغرب کے سامنے دو سوال آ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ محض اخلاقی نوعیت کے سوال نہیں تھے بلکہ خالص عقلی اور منطقی نوعیت کے سوالات تھے۔ پہلا یہ کہ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور دوسرا یہ کہ مخلوقات اورخود انسان جیسی باشعور ہستی کیونکر کائنات کے سادہ صفحے پر ابھری۔
ان سوالات کا سبب یہ علم تھا کہ کائنات ایک مادی وجود ہے۔ ہر مادی چیز کی طرح کائنات بھی خود بخود وجود پذیر نہیں ہوسکتی۔ اسکی کوئی علت ہونی چاہیے۔ یہ علت وہ شے خود نہیں ہو سکتی۔ ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی کمرے میں اگر فرج رکھا ہوا ہے تو اسکے بارے میں یہ سوال لازماً اٹھے گا کہ اسے کس نے بنایا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ فرج خود اپنے آپ کو بنالے۔ ٹھیک یہی بات اس کائنات کی ہر شے اور خود کائنات پر بھی صادق آتی ہے کہ ان میں کوئی بھی اپنی تخلیق پر آپ قادر نہیں۔ یہ محض ایک منطقی نوعیت کی بحث نہیں بلکہ سائنسی بنیاد رکھتی ہے۔
سائنس یہ مان چکی ہے کہ کائنات کا وجود ابدی نہیں ہے۔ یہ آج سے پندرہ بلین سال قبل ایک عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا۔ اس بات کے جواب میں سائنس بالکل خاموش ہے۔ وہ صرف اتنا بتادیتی ہے کہ یہ دھماکہ کسی خارجی طاقت کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیکن یہ خارجی طاقت کون تھی اور اس نے ایسا کیوں کیا، اس کا جواب سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ کیونکہ یہاں سے عالم شہود ختم ہوجاتا ہے اور عالم غیب شروع ہوتا ہے۔
اس بات کا جواب صرف مذہب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا۔ ( خیال رہے کہ یہاں اور اس بحث میں آگے ہر جگہ مذہب سے میری مراد اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسکے من جانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اسکی کتاب بالکل محفوظ ہے۔)
ملحدین (یعنی خدا کے منکر) مذہب کے اس دعوے کے جواب میں فوراً کہتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا۔ لیکن یہ قطعاً ایک غیر عقلی اور غیر منطقی سوال ہے۔ کائنات اور اسکی ہر چیز کے بارے میں ایک خالق کا سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انکا تجزیہ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک خالق کی ضرورت ہے۔ انکا مادی ہونا اور قابل تجزیہ ہونا لازم کرتا ہے کہ یہ بنائی گئی ہیں، خود بخود سے وجود میں نہیں آئیں۔
کیا کوئی ملحد خدا کی ذات کا تجزیہ کرکے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا ایک مخلوق ہے جس کا کوئی خالق ہونا منطقی طور پر ضروری ہے؟ کیا مذہب یہ کہتا ہے کہ خدا ایک مادی وجود ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ سوال اٹھے؟ دراصل خدا کے غیر مادی ہونے کی وجہ سے سائنس کی بنیاد پر خدا کا اقرار ممکن ہے نہ انکار۔ سائنس صرف یہ کر سکتی ہے کہ مادی دنیا کے مطالعے کے بعد، خدا کے امکان کے بارے میں کوئی منفی یا مثبت شہادت دے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیں کہ اس بحث میں سائنس کی حیثیت ایک جج کی نہیں بلکہ گواہ کی سی ہے۔ اور اس دور میں سائنس نے خدا کے ہونے کے امکان کے حق میں شہادت دے دی ہے۔
اس معاملے میں فیصلہ کن کردار عقلِ عام (Common Sense) کا ہے۔ چنانچہ مذہب کا مقدمہ سائنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلِ عام کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ مذہب کا مخاطب انسان ہے۔ اور انسان اپنی زندگی سائنس کے اصولوں پر نہیں بلکہ عقلِ عام کے اصولوں پر گزارتاہے۔ وہ اپنی زندگی کا پورا ڈھانچہ عقلِ عام کو استعمال کر کے ہی قائم کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ خدا تو بہت آگے کی ہستی ہے خود انسان سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ انسان سائنس کے دائرہ کارمیں آتا ہے نہ اسکے اعتبار سے چیزیں سمجھتا ہے۔ یہاں انسان سے میری مراد اس کا حیوانی وجود نہیں بلکہ عقلی اور شعوری وجود ہے۔ سائنس کا دائرہ کارصرف اور صرف جمادات، نباتات اور حیوانات تک محدود ہے۔
اس بات کو چند مثالوں سے سمجھیں۔ نیوٹن کا تیسرا قانون ہے کہ ہر عمل کا ردعمل اتنا ہی ہوتا ہے اور مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ آپ نے کتنی دفعہ انسانوں کے شعوری وجود کو اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ انسان اس اصول کی پابندی کر سکتا ہے مگر اس اصول کا پابند نہیں۔ جبکہ پوری کائنات اس اصول کی پابند ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین ہر آن متحرک ہے۔ آپ نے کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کو کبھی کہتے سنا ہے کہ میں حرکت کر رہا ہوں۔ کوئی ایسا کہے گا تو لوگ اسے پاگل خیال کریں گے۔ انسان اپنی زندگی کی ترتیب عقلِ عام کے اصولوں کے تحت بناتا ہے، نہ کہ سائنس کے تحت۔ وہ سائنس کی اس وقت تک پیروی کرتا ہے جب تک وہ عقلِ عام سے موافقت کررہی ہو۔ انسانوں کے لیے آج بھی سورج "ڈوبتا" اور "طلوع" ہوتا ہے۔ سائنس کا جو دل چاہے کہتی رہے۔
لہٰذا مذہب نے انسان پرخدا کے وجود کی دلیل سائنس سے قائم نہیں کی بلکہ عقلِ عام کی مدد سے بالواسطہ دلیل قائم کی ہے۔ پورا قرآن ان دلائل سے بھرا پڑا ہے جو اس نے عقلِ عام کی روشنی میں انسانوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ جس کو دیکھنا ہو وہ قرآن میں انکی تفصیل دیکھ لے۔
ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات اور خود انسان کے وجود میں کوئی کام الل ٹپ نہیں ہورہا۔ بلکہ ایک حکمت، ربط اور ترتیب کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے انسانوں سے منوانے کی ضرورت پڑے۔ یہ اسکا مشاہدہ ہے۔ یہ اسکے لیے ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ قرآن ان حقیقتوں کو اس کے سامنے رکھ کر اکثر خاموش ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد اگر انسان عقلِ عام کو استعمال کرے تو ٹھیک نتیجے پر پہنچ جائے گا بشرطیکہ وہ وہاں پہنچنا چاہے۔ اسکی عقلِ عام اسے یہ بتا دے گی کہ حکمت اگر پائی جارہی ہے تو لازماً اسکے پیچھے ایک حکیم موجود ہے، اگر نظم موجود ہے تو عقلِ عام کے لیے اس کے سوا چارہ ہی نہیں کہ ناظم کو مانے۔ قرآن کا اصل زور اس ذات کو منوانے پر نہیں، اسکی صفات کے صحیح تعارف پر ہے۔ کیونکہ انسان اصل ٹھوکر یہاں کھاتا ہے۔
مذہب کا انکار کرنے کے بعد اہل مغرب کے سامنے دو سوال آ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ محض اخلاقی نوعیت کے سوال نہیں تھے بلکہ خالص عقلی اور منطقی نوعیت کے سوالات تھے۔ پہلا یہ کہ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور دوسرا یہ کہ مخلوقات اورخود انسان جیسی باشعور ہستی کیونکر کائنات کے سادہ صفحے پر ابھری۔
ان سوالات کا سبب یہ علم تھا کہ کائنات ایک مادی وجود ہے۔ ہر مادی چیز کی طرح کائنات بھی خود بخود وجود پذیر نہیں ہوسکتی۔ اسکی کوئی علت ہونی چاہیے۔ یہ علت وہ شے خود نہیں ہو سکتی۔ ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی کمرے میں اگر فرج رکھا ہوا ہے تو اسکے بارے میں یہ سوال لازماً اٹھے گا کہ اسے کس نے بنایا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ فرج خود اپنے آپ کو بنالے۔ ٹھیک یہی بات اس کائنات کی ہر شے اور خود کائنات پر بھی صادق آتی ہے کہ ان میں کوئی بھی اپنی تخلیق پر آپ قادر نہیں۔ یہ محض ایک منطقی نوعیت کی بحث نہیں بلکہ سائنسی بنیاد رکھتی ہے۔
سائنس یہ مان چکی ہے کہ کائنات کا وجود ابدی نہیں ہے۔ یہ آج سے پندرہ بلین سال قبل ایک عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا۔ اس بات کے جواب میں سائنس بالکل خاموش ہے۔ وہ صرف اتنا بتادیتی ہے کہ یہ دھماکہ کسی خارجی طاقت کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیکن یہ خارجی طاقت کون تھی اور اس نے ایسا کیوں کیا، اس کا جواب سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ کیونکہ یہاں سے عالم شہود ختم ہوجاتا ہے اور عالم غیب شروع ہوتا ہے۔
اس بات کا جواب صرف مذہب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا۔ ( خیال رہے کہ یہاں اور اس بحث میں آگے ہر جگہ مذہب سے میری مراد اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسکے من جانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اسکی کتاب بالکل محفوظ ہے۔)
ملحدین (یعنی خدا کے منکر) مذہب کے اس دعوے کے جواب میں فوراً کہتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا۔ لیکن یہ قطعاً ایک غیر عقلی اور غیر منطقی سوال ہے۔ کائنات اور اسکی ہر چیز کے بارے میں ایک خالق کا سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انکا تجزیہ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک خالق کی ضرورت ہے۔ انکا مادی ہونا اور قابل تجزیہ ہونا لازم کرتا ہے کہ یہ بنائی گئی ہیں، خود بخود سے وجود میں نہیں آئیں۔
کیا کوئی ملحد خدا کی ذات کا تجزیہ کرکے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا ایک مخلوق ہے جس کا کوئی خالق ہونا منطقی طور پر ضروری ہے؟ کیا مذہب یہ کہتا ہے کہ خدا ایک مادی وجود ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ سوال اٹھے؟ دراصل خدا کے غیر مادی ہونے کی وجہ سے سائنس کی بنیاد پر خدا کا اقرار ممکن ہے نہ انکار۔ سائنس صرف یہ کر سکتی ہے کہ مادی دنیا کے مطالعے کے بعد، خدا کے امکان کے بارے میں کوئی منفی یا مثبت شہادت دے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیں کہ اس بحث میں سائنس کی حیثیت ایک جج کی نہیں بلکہ گواہ کی سی ہے۔ اور اس دور میں سائنس نے خدا کے ہونے کے امکان کے حق میں شہادت دے دی ہے۔
اس معاملے میں فیصلہ کن کردار عقلِ عام (Common Sense) کا ہے۔ چنانچہ مذہب کا مقدمہ سائنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلِ عام کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ مذہب کا مخاطب انسان ہے۔ اور انسان اپنی زندگی سائنس کے اصولوں پر نہیں بلکہ عقلِ عام کے اصولوں پر گزارتاہے۔ وہ اپنی زندگی کا پورا ڈھانچہ عقلِ عام کو استعمال کر کے ہی قائم کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ خدا تو بہت آگے کی ہستی ہے خود انسان سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ انسان سائنس کے دائرہ کارمیں آتا ہے نہ اسکے اعتبار سے چیزیں سمجھتا ہے۔ یہاں انسان سے میری مراد اس کا حیوانی وجود نہیں بلکہ عقلی اور شعوری وجود ہے۔ سائنس کا دائرہ کارصرف اور صرف جمادات، نباتات اور حیوانات تک محدود ہے۔
اس بات کو چند مثالوں سے سمجھیں۔ نیوٹن کا تیسرا قانون ہے کہ ہر عمل کا ردعمل اتنا ہی ہوتا ہے اور مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ آپ نے کتنی دفعہ انسانوں کے شعوری وجود کو اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ انسان اس اصول کی پابندی کر سکتا ہے مگر اس اصول کا پابند نہیں۔ جبکہ پوری کائنات اس اصول کی پابند ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین ہر آن متحرک ہے۔ آپ نے کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کو کبھی کہتے سنا ہے کہ میں حرکت کر رہا ہوں۔ کوئی ایسا کہے گا تو لوگ اسے پاگل خیال کریں گے۔ انسان اپنی زندگی کی ترتیب عقلِ عام کے اصولوں کے تحت بناتا ہے، نہ کہ سائنس کے تحت۔ وہ سائنس کی اس وقت تک پیروی کرتا ہے جب تک وہ عقلِ عام سے موافقت کررہی ہو۔ انسانوں کے لیے آج بھی سورج "ڈوبتا" اور "طلوع" ہوتا ہے۔ سائنس کا جو دل چاہے کہتی رہے۔
لہٰذا مذہب نے انسان پرخدا کے وجود کی دلیل سائنس سے قائم نہیں کی بلکہ عقلِ عام کی مدد سے بالواسطہ دلیل قائم کی ہے۔ پورا قرآن ان دلائل سے بھرا پڑا ہے جو اس نے عقلِ عام کی روشنی میں انسانوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ جس کو دیکھنا ہو وہ قرآن میں انکی تفصیل دیکھ لے۔
ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات اور خود انسان کے وجود میں کوئی کام الل ٹپ نہیں ہورہا۔ بلکہ ایک حکمت، ربط اور ترتیب کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے انسانوں سے منوانے کی ضرورت پڑے۔ یہ اسکا مشاہدہ ہے۔ یہ اسکے لیے ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ قرآن ان حقیقتوں کو اس کے سامنے رکھ کر اکثر خاموش ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد اگر انسان عقلِ عام کو استعمال کرے تو ٹھیک نتیجے پر پہنچ جائے گا بشرطیکہ وہ وہاں پہنچنا چاہے۔ اسکی عقلِ عام اسے یہ بتا دے گی کہ حکمت اگر پائی جارہی ہے تو لازماً اسکے پیچھے ایک حکیم موجود ہے، اگر نظم موجود ہے تو عقلِ عام کے لیے اس کے سوا چارہ ہی نہیں کہ ناظم کو مانے۔ قرآن کا اصل زور اس ذات کو منوانے پر نہیں، اسکی صفات کے صحیح تعارف پر ہے۔ کیونکہ انسان اصل ٹھوکر یہاں کھاتا ہے۔