خدا، انسان اور سائنس

x boy

محفلین
مصنف:محترم ریحان احمد یوسفی صاحب
مذہب کا انکار کرنے کے بعد اہل مغرب کے سامنے دو سوال آ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ محض اخلاقی نوعیت کے سوال نہیں تھے بلکہ خالص عقلی اور منطقی نوعیت کے سوالات تھے۔ پہلا یہ کہ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور دوسرا یہ کہ مخلوقات اورخود انسان جیسی باشعور ہستی کیونکر کائنات کے سادہ صفحے پر ابھری۔

ان سوالات کا سبب یہ علم تھا کہ کائنات ایک مادی وجود ہے۔ ہر مادی چیز کی طرح کائنات بھی خود بخود وجود پذیر نہیں ہوسکتی۔ اسکی کوئی علت ہونی چاہیے۔ یہ علت وہ شے خود نہیں ہو سکتی۔ ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی کمرے میں اگر فرج رکھا ہوا ہے تو اسکے بارے میں یہ سوال لازماً اٹھے گا کہ اسے کس نے بنایا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ فرج خود اپنے آپ کو بنالے۔ ٹھیک یہی بات اس کائنات کی ہر شے اور خود کائنات پر بھی صادق آتی ہے کہ ان میں کوئی بھی اپنی تخلیق پر آپ قادر نہیں۔ یہ محض ایک منطقی نوعیت کی بحث نہیں بلکہ سائنسی بنیاد رکھتی ہے۔

سائنس یہ مان چکی ہے کہ کائنات کا وجود ابدی نہیں ہے۔ یہ آج سے پندرہ بلین سال قبل ایک عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا۔ اس بات کے جواب میں سائنس بالکل خاموش ہے۔ وہ صرف اتنا بتادیتی ہے کہ یہ دھماکہ کسی خارجی طاقت کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیکن یہ خارجی طاقت کون تھی اور اس نے ایسا کیوں کیا، اس کا جواب سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ کیونکہ یہاں سے عالم شہود ختم ہوجاتا ہے اور عالم غیب شروع ہوتا ہے۔

اس بات کا جواب صرف مذہب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا۔ ( خیال رہے کہ یہاں اور اس بحث میں آگے ہر جگہ مذہب سے میری مراد اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسکے من جانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اسکی کتاب بالکل محفوظ ہے۔)

ملحدین (یعنی خدا کے منکر) مذہب کے اس دعوے کے جواب میں فوراً کہتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا۔ لیکن یہ قطعاً ایک غیر عقلی اور غیر منطقی سوال ہے۔ کائنات اور اسکی ہر چیز کے بارے میں ایک خالق کا سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انکا تجزیہ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک خالق کی ضرورت ہے۔ انکا مادی ہونا اور قابل تجزیہ ہونا لازم کرتا ہے کہ یہ بنائی گئی ہیں، خود بخود سے وجود میں نہیں آئیں۔

کیا کوئی ملحد خدا کی ذات کا تجزیہ کرکے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا ایک مخلوق ہے جس کا کوئی خالق ہونا منطقی طور پر ضروری ہے؟ کیا مذہب یہ کہتا ہے کہ خدا ایک مادی وجود ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ سوال اٹھے؟ دراصل خدا کے غیر مادی ہونے کی وجہ سے سائنس کی بنیاد پر خدا کا اقرار ممکن ہے نہ انکار۔ سائنس صرف یہ کر سکتی ہے کہ مادی دنیا کے مطالعے کے بعد، خدا کے امکان کے بارے میں کوئی منفی یا مثبت شہادت دے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیں کہ اس بحث میں سائنس کی حیثیت ایک جج کی نہیں بلکہ گواہ کی سی ہے۔ اور اس دور میں سائنس نے خدا کے ہونے کے امکان کے حق میں شہادت دے دی ہے۔

اس معاملے میں فیصلہ کن کردار عقلِ عام (Common Sense) کا ہے۔ چنانچہ مذہب کا مقدمہ سائنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلِ عام کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ مذہب کا مخاطب انسان ہے۔ اور انسان اپنی زندگی سائنس کے اصولوں پر نہیں بلکہ عقلِ عام کے اصولوں پر گزارتاہے۔ وہ اپنی زندگی کا پورا ڈھانچہ عقلِ عام کو استعمال کر کے ہی قائم کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ خدا تو بہت آگے کی ہستی ہے خود انسان سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ انسان سائنس کے دائرہ کارمیں آتا ہے نہ اسکے اعتبار سے چیزیں سمجھتا ہے۔ یہاں انسان سے میری مراد اس کا حیوانی وجود نہیں بلکہ عقلی اور شعوری وجود ہے۔ سائنس کا دائرہ کارصرف اور صرف جمادات، نباتات اور حیوانات تک محدود ہے۔

اس بات کو چند مثالوں سے سمجھیں۔ نیوٹن کا تیسرا قانون ہے کہ ہر عمل کا ردعمل اتنا ہی ہوتا ہے اور مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ آپ نے کتنی دفعہ انسانوں کے شعوری وجود کو اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ انسان اس اصول کی پابندی کر سکتا ہے مگر اس اصول کا پابند نہیں۔ جبکہ پوری کائنات اس اصول کی پابند ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین ہر آن متحرک ہے۔ آپ نے کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کو کبھی کہتے سنا ہے کہ میں حرکت کر رہا ہوں۔ کوئی ایسا کہے گا تو لوگ اسے پاگل خیال کریں گے۔ انسان اپنی زندگی کی ترتیب عقلِ عام کے اصولوں کے تحت بناتا ہے، نہ کہ سائنس کے تحت۔ وہ سائنس کی اس وقت تک پیروی کرتا ہے جب تک وہ عقلِ عام سے موافقت کررہی ہو۔ انسانوں کے لیے آج بھی سورج "ڈوبتا" اور "طلوع" ہوتا ہے۔ سائنس کا جو دل چاہے کہتی رہے۔

لہٰذا مذہب نے انسان پرخدا کے وجود کی دلیل سائنس سے قائم نہیں کی بلکہ عقلِ عام کی مدد سے بالواسطہ دلیل قائم کی ہے۔ پورا قرآن ان دلائل سے بھرا پڑا ہے جو اس نے عقلِ عام کی روشنی میں انسانوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ جس کو دیکھنا ہو وہ قرآن میں انکی تفصیل دیکھ لے۔

ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات اور خود انسان کے وجود میں کوئی کام الل ٹپ نہیں ہورہا۔ بلکہ ایک حکمت، ربط اور ترتیب کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے انسانوں سے منوانے کی ضرورت پڑے۔ یہ اسکا مشاہدہ ہے۔ یہ اسکے لیے ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ قرآن ان حقیقتوں کو اس کے سامنے رکھ کر اکثر خاموش ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد اگر انسان عقلِ عام کو استعمال کرے تو ٹھیک نتیجے پر پہنچ جائے گا بشرطیکہ وہ وہاں پہنچنا چاہے۔ اسکی عقلِ عام اسے یہ بتا دے گی کہ حکمت اگر پائی جارہی ہے تو لازماً اسکے پیچھے ایک حکیم موجود ہے، اگر نظم موجود ہے تو عقلِ عام کے لیے اس کے سوا چارہ ہی نہیں کہ ناظم کو مانے۔ قرآن کا اصل زور اس ذات کو منوانے پر نہیں، اسکی صفات کے صحیح تعارف پر ہے۔ کیونکہ انسان اصل ٹھوکر یہاں کھاتا ہے۔
 

x boy

محفلین
خدا کی ذات کا ثبوت

قرآن نے خدا کے ہونے کے ثبوت کے لیے براہِ راست خارجی دنیا کی صرف ایک دلیل پیش کی ہے۔ جو کہ سورۂ النور (24:40-53) میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک ہی توجیہ ممکن ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کو کائنات کا خالق مان لیا جائے۔

اللہ کو نکال دینے کے بعد کائنات کی کوئی عقلی تو کیا غیر عقلی توجیہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح ایک اندھیرے کمرے میں جب تک روشنی نہیں ہے آپ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ جیسے ہی روشنی ہوگی ہر چیز اپنی جگہ ٹھکانے پر نظر آنے لگے گی۔ اسی طرح خدا کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی کے بعد کائنات میں ہر چیز ( میں اسکی تفصیل قرآن کے علم الانسان کے عنوان سے آگے بیان کررہا ہوں ) اپنی درست جگہ پر نظر آئے گی اور اسکے بغیر آپ کائنات کے بارے میں بلا یقین متضاد باتیں کہتے رہیں گے۔ تاریکی پر تاریکی۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خدا کے سوا اس کائنات کی کسی دوسری توجیہ کا نہ ہونا آخری حد تک ثابت کرتا ہے کہ اگر کائنات کے ہونے کو ہم مانتے ہیں تو ہمیں خدا کو بھی ماننا ہوگا اور اگر نہیں مانتے تو اسکا مطلب ہے کہ ہم کائنات کے وجود کے منکر ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بنا پر خدا کو نہیں مانتے کہ وہ سائنسی طور پر ایک تسلیم شدہ حقیقت نہیں ہے، وہ ایک دوسری ہستی کو ماننے پر مجبور ہیں جو سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اور نہ اس کے دائرہ میں آتا ہے۔ یہ خود حضرتِ انسان کا اپنا شعوری وجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے شعوری یا روحانی وجود کو سائنس کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے نہ اس کے قوانین کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ اوپر میں دکھا چکا ہوں کہ انسان اپنی زندگی کا نقشہ بھی سائنس کی روشنی میں نہیں بناتا۔ اس کے باوجود انسان کے شعوری وجود کو نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ اسکے مطالعہ کے لیے علم النفسیات کے نام سے ایک پورا علم وجود میں آگیا ہے۔

خدا کو کس نے بنایا

اتفاق کی بات ہے کہ نیویارک میں اپنی بہن کے گھر بیٹھا جب میں یہ تحریر لکھ رہا تھا تو میری بیچ والی بھانجی ماہ رخ نے، جو پرائمری اسکول کی طالبہ ہے، اچانک مجھ سے سوال کیا کہ اللہ میاں کو کس نے بنایا۔ شاید خدا کو یہ منظور تھا کہ اس مقام پر عقلِ عام کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوجائے کہ خدا کے بارے میں یہ سوال ہی اصلاً غلط ہے اس لیے اس نے اس معصوم بچی کے دل میں اسی وقت یہ سوال ڈالا۔ میں اس سے مذکورہ بالا بحث نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے اس سے کہا کہ’’ A B C D ‘‘ سناؤ۔ اس نے سنائی تو میں نے اس سے پوچھا کہ Aسے پہلے کیا آتا ہے۔ اس نے کہا کہ A سے پہلے تو کچھ بھی نہیں آتا۔ اس پر میں نے کہا کہ جس طرح Aسے پہلے کچھ نہیں اسی طرح اللہ میاں سے پہلے بھی کچھ نہیں تھا۔ جب اللہ میاں سے پہلے کچھ نہیں تھا تو انہیں کسی نے پیدا بھی نہیں کیا۔ یہ بات باآسانی اسکی سمجھ میں آگئی۔

ارتقا کا نظریہ

خدا کے سوا کائنات کی کسی دوسری توجیہ کی غیر موجودگی میں، انکارِ خدا کے لیے، منکرینِ مذہب کے پاس صرف ارتقا کا نظریہ بچا ہے۔ جس کو وہ انکارِ خدا کی اساس سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے اگر ہم ارتقا کے نظریے کو بالکل درست مان بھی لیں تب بھی یہ انکارِ خدا کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے۔

مذہب کا دعویٰ یہ ہے کہ مخلوقات کو خدا نے بنایا۔ اس نے خدا کے طریقۂ تخلیق کو بیان نہیں کیا۔ اس ضمن میں قرآن نے صرف ایک بات کہی ہے۔ وہ یہ کہ ا للہ نے آدم علیہ السلام کوخصوصی تخلیق سے پیدا کیا۔ سورہ اٰلِ عمران آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر فرمایا ہوجا تو ہو گیا‘‘۔ کیا کوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا کی یہ بات غلط ہے اور جس آدم علیہ السلام سے یہ انسانیت وجود میں آئی وہ مٹی سے پیدا نہیں ہوئے۔

انسانوں کو جانوروں کی ایک ترقی یافتہ شکل ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کہا اور پیش کیا جاتا ہے وہ اپنی خواہش کا اظہار تو ہوسکتا ہے حقائق سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اندازے اور قیاسات ہیں۔ جن پر مشرق اور مغرب دونوں جگہ بہت تنقید ہوچکی ہے۔ یہ لوگ تو انسان کے حیوانی وجود کے بارے میں بھی یہ ثابت نہیں کرسکے کہ یہ حیوانوں سے ترقی پا کر وجود پذیر ہوا ہے۔ کجا کہ وہ انسان کے اس شعوری اور روحانی وجود کے بارے میں کوئی دعویٰ کرسکیں جس کے قریب تو کیا دور تک بھی کوئی جانور نہیں پہنچ سکا۔
 

x boy

محفلین
انسان کا روحانی وجود اور علم ا لانسان (Anthropology)

انسان ایک حیوانی وجود رکھتا ہے۔ اس میں وہ تمام بنیادی جبلتیں پائی جاتی ہیں جو حیوانوں کا خاصہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان جانوروں سے بلند تر ایک وجود اور شعور رکھتا ہے جسے مذہبی اصطلاح میں روحانی وجود کہا جاتا ہے۔

اہل مغرب علم الحیوانات سے تو کسی طور یہ ثابت نہیں کرپائے کہ کب اور کیسے یہ نرا حیوان ایک بلند تر ذہنی اور روحانی شخصیت میں تبدیل ہوا۔ لیکن وہاں اصولی طور پر یہ طے ہوچکا تھا کہ انسان کی تشریح خدا اور بائبل والے آدم علیہ السلام سے ہٹ کر ہی کرنی ہے۔ لہٰذا علم الانسان کی بنیاد رکھی گئی اور ایک پورا فلسفہ گھڑ لیا گیا۔ جس میں انسان کے ذہنی اور روحانی ارتقا کا سفر وحشی انسان سے متمدن انسان تک دکھایا گیا۔ اس سلسلے میں جس استدلال کا سہارا لیا گیا وہ تحقیق کا نہیں حماقت کا شاہکار تھا۔

اس شعبے کے ماہرین کا طریقۂ کار یہ ہے کہ یہ معاصر غیر متمدن قبائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کی توہم پرستی اور وحشیانہ زندگی کو دیکھ کر انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ جس گوہرِ نایاب کی وہ تلاش میں تھے وہ ان کے ہاتھ آگیا۔ یعنی انہوں نے انسان کی اصل ڈھونڈ لی۔ وہ ان قبائل کی تمام خصوصیات کو دورِ قدیم کے انسان پر چسپاں کردیتے ہیں۔ پھر اپنی یہ نادر تحقیق دنیا کے سامنے بڑے اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا آغاز۔

اس استدلال کی بنیادی کمزوری اصولی طور پر یہ مان لینا ہے کہ تمدن کا شجر اسی غیر متمدن بیج سے پھوٹا ہے، حالانکہ اس بات کا پور ا امکان ہے کہ یہ وحشی انسان شاخِ تمدن سے ٹوٹ کر گرا ہو اور ناموافق حالات میں پروان چڑھ کر اس حال کو پہنچا ہو۔ انسانی تمدن کو اپنے ارتقا کے لیے مناسب ماحول چاہیے۔ جس جگہ یہ حالات دستیاب نہ ہوں انسان مجبوراً خود کو صرف بنیادی جبلی ضروریات تک محدود کرلیتا ہے اور وحشیانہ اور جانوروں سے قریب تر اندازِ زندگی اختیار کر نے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔

آج کے متمدن انسان کو بھی تنہا کسی غیرآباد ویرانے میں پہنچا دیں جہاں کسی قسم کے وسائل نہ ہوں۔ پھر دیکھئے کہ وہ اپنی زندگی کا سفر کس طرح طے کرتا ہے۔ اسی طرح افریقہ، آسٹریلیا اور امریکا کے قدیم قبائل کی مثال کو بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ زمانہ قبل از تاریخ کے کسی دور میں تہذیبِ انسانی کے مرکزی دھارے سے کٹنے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہوں گے۔ ان کی موجودگی سے یہ نتیجہ کیسے برآمد ہوتا ہے کہ تہذیب کا دھارا لازماً ان سے نکلا ہے۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے۔ آج سے چند ہزارسال قبل ایک مرد و عورت میں عشق ہوا۔ ان کا تعلق باہمی دشمن قبائل سے تھا۔ جسکی بنا پر ان کی شادی ناممکن تھی۔ چنانچہ یہ دونوں نہ صرف اپنے قبائل بلکہ اس سارے علاقے سے دور فرار ہوگئے جہاں تک ان کی پہنچ ممکن تھی وگرنہ یہ دونوں قتل کردیے جاتے۔ اب یہ دونوں اس دور کی متمد ن دنیا سے دور کسی ویرانے میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ جہاں ان کا واسطہ انسانوں سے زیادہ حیوانوں سے پڑتا ہے۔ یہ دونوں تنہا ملکر کونسا تمدن تعمیر کرینگے۔

تمدن صرف انسانی ہاتھ تشکیل نہیں دیتے۔ یہ سیکڑوں نسلوں کے تجربات، ہزاروں سالوں کی تحقیق کے بعد جنم لینے والے آلات اور مخصوص قدرتی وسائل وحالات کا محتاج ہوتا ہے۔ ان سب کے بغیر یہ دونوں کیا تیر چلائیں گے؟ ان کی اولاد کی باہمی شادیوں کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ ان کے لباس، رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملات ان کے پرانے قبیلے کی سطح کا کیسے ہوسکتا ہے؟

لازمی طور پر چند صدیوں میں ان دونوں سے ایک غیر متمدن قبیلہ جنم لے لیگا۔ یہ محض ایک مثال ہے وگرنہ عشق کے علاوہ جنگ وجدل، قدرتی حوادث، معاشی مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر بارہا انسان اپنی اصل سے کٹے ہیں۔ جس براعظم پر بیٹھا میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں یہاں بھی انسان چالیس ہزار سال قبل، چائنا کو اس وقت امریکا سے ملانے والے ایک گلیشیئر کے ذریعے، شکار کے پیچھے آئے تھے۔ بعد میں آئس ایج کے خاتمے سے یہ زمینی رابطہ منقطع ہوگیا تو یہ لوگ یہیں پھنس گئے۔ ایشیا والوں نے تو عظیم تہذیبیں جنم دیں مگر یہ لوگ آخری وقت تک شکاری ہی رہے۔

رہی عقائد و نظریات کی بات تو اس معاملے میں انسان نے ہر دور میں الٹی سمت میں سفر کیا ہے۔ یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ انسان نے شرک اور توہم پرستی سے اپنا آغاز کیا اور پھر خداؤں کی تعداد کم کرتا کرتا ایک خدا تک پہنچا۔ انسان نے تو معلوم تاریخ میں بھی ایک خدا سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے اور تین سے تین کروڑ خداؤں تک پہنچ گیا۔ خود اپنی امت کو دیکھ لیں۔ شرک کی جتنی مذمت اس دین میں ہے کسی اور میں نہیں۔ اس کا آغاز آخری درجے کے موحدین سے ہوا۔ اور آج حال دیکھ لیجیے۔ خدا کے گھر میں بیٹھ کر شرک کی دہائی دی جاتی ہے۔ انسان کی اس طبیعت سے واقف کوئی شخص کسی قبیلہ کے توہم پرستانہ عقائد دیکھ کر کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ یہ انسان کے ابتدائی عقائد ہیں۔

قرآن کا علم ا لانسان

اہل مغرب کے علم ا لانسان کی بنیادی غلطی واضح کردینے کے بعد یہ مناسب ہوتا ہے کہ قرآن کا علم ا لانسان بھی بیان کردیا جائے کیونکہ اس کے بغیر یہ بحث مکمل نہ ہوگی۔ مغرب کا علم ا لانسان ہمیں انسان کی ایک ایسی تصویر دکھاتا ہے جس میں وہ صرف ایک ترقی یافتہ جانور نظر آتا ہے۔ جو بخت و اتفاق کے ہاتھوں اس اتھاہ مگر بے آباد کائنات کے ایک حقیر سے ذرے یعنی زمین پر نمودار ہوگیا۔ جسے اپنے آغاز کا کچھ پتا ہے نہ ا نجام کا۔ بقول شاعر

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

قرآن اس بے یقینی کی کیفیت سے نکال کر ایک مکمل، معقول اور قابلِ قبول بات ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ قرآن کے مطابق اس دھرتی پر انسان کا وجود خدا کی اس اسکیم کا حصہ ہے جس کے تحت اس نے اپنی تمام مخلوقات کے سامنے ایک پروگرام رکھا۔ جس میں مخلوقات کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ خدا کی طرف سے دیے گئے بارِ امانت کو اٹھا لیں۔

امانت سے مراد یہ تھی کہ وہ مخلوق عارضی طور پر خدا کے دائرہ قدرت سے باہر ہوجائے گی۔ یعنی خدا غیب کے پردہ میں چلا جائے گا اور اس کے بعد اس مخلوق کو مکمل آزادی ہوگی کہ چاہے تو بلا جبر و اکراہ خدا کے احکامات مانے اور چاہے تو انکار کردے۔ جس نے پہلا راستہ اختیار کیا اس کا بدلہ ابدی جنت کی نعمتیں اور جس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اس کا بدلہ جہنم کی سزا۔ تمام مخلوقات نے اس امتحان کی ممکنہ اور بہت حد تک متوقع ناکامی اور اسکے بھیانک نتائج کو دیکھ کر اس میں کودنے سے ان کار کردیا۔ لیکن انسان نے اس بارِگراں کو اٹھانے کا فیصلہ کرلیا، ( الاحزاب33:72)۔

اس امتحان کے پہلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں (کی ارواح) کو ایک ساتھ پیدا کیا اور ان سب سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا۔ انہیں رسمی طور پر اس بات سے آگاہ کیا کہ قیامت کے دن جب ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہوگا تو اسکی بنیاد یہی توحید ہوگی۔ یعنی خدا کو ماننا اور ایک ماننا، ( الاعراف : 172-174)۔ اس واقعے کو اصطلاحاً عہدِ الست کہا جاتا ہے۔

دوسرے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو پیدا کر کے یہ بتایا کہ انہیں دنیا کے امتحان میں کیا کیا رکاوٹیں پیش آئیں گی جو انہیں ناکام کرسکتی ہیں۔ اسکا پہلا مظاہرہ اس وقت ہوا جب فرشتوں نے خدا کے حکم پر، کچھ سوال و جواب کے بعد، بلا جھجک آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔ لیکن ابلیس نامی جن نے نہ صرف سجدے سے ان کار کیا بلکہ اپنی بڑائی کے زعم میں وہ خدا سے بغاوت اور سرکشی پر اتر آیا۔ جس کے نتیجے میں اسے راندۂ درگاہ کردیا گیا۔ یہ پہلا سبق تھا کہ خدا سرکشی کو معاف نہیں کرتا۔ اس لیے کبھی خدا کے سامنے سرکشی مت کرنا۔

دوسرا سبق انسان کو اس وقت دیاگیا جب آدم و حوا ابلیس کے بہکانے میں آگئے اور اپنی پوشاک سے محروم ہوگئے۔ خدا نے اس معاملے کو بڑے مہذب انداز میں بیان کیا ہے۔ لیکن قرآن بالخصوص سورۂ الاعراف کا گہرا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ دراصل یہ جنس کا درخت تھا جس کا ثمر وہ شیطان کے بہکانے میں آ کر چکھ بیٹھے۔ کیونکہ شیطان نے انہیں ابدی زندگی کا لالچ دیا تھا۔ تاہم شیطان کے برعکس انہوں نے سرکشی کا رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ندامت اورشرمندگی کا راستہ اختیار کیا تو خدا نے انہیں معاف کردیا۔

اس واقعے میں یہ سبق تھا کہ جس دنیا میں امتحان کے لیے رکھا جارہا ہے اس میں برائی کی طاقتیں وسوسہ اندازی کر کے ہمیشہ انہیں بہکاتی رہیں گی کہ وہ خدا کے احکام کو سن لینے کے بعد بھی ان کی خلاف ورزی کریں۔ اور اس بہکانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ جنسی داعیات اور عریانیت ہوگی۔ تیسرا سبق یہ تھا کہ جب کبھی غلطی ہوجائے تو خدا کے حضور معافی مانگنے سے معافی مل جائے گی۔

آخری بات خدا نے یہ بتائی کہ اب قیامت تک کے لیے میں اپنے اور انسانوں کے بیچ میں غیب کا پردہ حائل کر رہا ہوں اور اب تم جانو اور تمہارا امتحان۔ میرے پیغمبر آ کر میرے اس منصوبے کی یاددہانی تمہیں کراتے رہیں گے۔ اور میرے تازہ ترین احکامات تمہیں دیتے رہیں گے۔ جو ان کو مانے گا وہ نجات پا جائے گا وگرنہ بربادی اسکا مقدر ہوگی۔ قرآن میں یہ قصہ سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے یعنی البقرہ، الاعراف، الحجر، بنی اسرائیل، الکہف، طہ، ص۔

یہ ہے قرآن کا علم الانسان جس کے مطابق انسان پورے دن کی روشنی میں اس دنیا میں آیا ہے۔ اس کے پاس ہر سوال کا جواب اول دن سے موجود تھا۔ وہ اپنی، کائنات کی اور خدا کی حقیقت سے خوب باخبر تھا۔ انسان نہ کسی ارتقائی سفر کے نتیجے میں پیدا ہوا اور نہ ہی اسکا علم کسی ارتقائی مرحلے سے گزر کر اس مقام تک پہنچا۔

قرآن کے مطابق ہاں یہ ضرور ہوا کہ ’’احسن تقویم‘‘ پر پیدا ہونے والا انسان بار بار پستی میں گرا اور اتنا گرا کہ جانوروں سے بھی نیچے پہنچ گیا۔ اس بحث کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے تمدن نے ارتقا نہیں کیا۔ تمدن نے تو کیا مگر خدا کے بارے میں انسان کے علم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ بلکہ یہ الٹی سمت میں ہی گیا۔ کبھی اپنے سے کمتر درجے کی مخلوقات کو معبود بنا کر اور کبھی خود کو محض ایک ترقی یافتہ حیوان سمجھ کر۔ اب آپ اگر قرآن اور مغرب دونوں کے علم الانسان کا موازنہ کریں تو جان لیں گے کہ کون سی بات زیادہ معقول اور مکمل ہے۔

تاریخِ انسانی اور خدا کے امتحان کی نوعیت

جب ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو قرآن کے بیان کردہ اس امتحان اور جن جن امور سے خدا نے متنبہ کیا تھا ان میں انسانوں کا مبتلا ہونا بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کی اکثریت حسبِ توقع اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ کمال یہ ہے کہ انسانوں کے بارے میں جن توقعات کا اظہار فرشتوں اور شیطان نے کیاتھا، انسانوں نے ان سب کو پورا کیا۔
فرشتوں نے فساد اور خونریزی کا امکان ظاہر کیا تھا۔ آپ عالم کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں، آپ کو اس میں سب سے زیاد ہ نمایاں چیز جنگ و جدل ہی ملے گی۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعویٰ کیا تھا کہ جن کو تو نے مجھ پر ترجیح دی ہے ان کی اکثر یت میری پیروی کرے گی اور تو ان کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ ہم میں سے ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ بات کتنی سچی ثابت ہوئی۔ لمحے لمحے اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں پلنے والا انسان جس طرح اپنے رب کی ناشکری اور اپنے دشمن شیطان کی پیروی کرتا ہے اسکا حال ہر دور میں عیاں رہا ہے۔

بنیادی طور پر انسانیت کے سامنے اصل مقصد پرچۂ توحید میں کامیابی کا حصول تھا۔ اس کی یاد اسکے لاشعور میں اتنی گہری ہے کہ انسان ہر دور میں ایک برتر ہستی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے بے قرار رہا ہے۔ منکرینِ مذہب بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ مافوق الفطری قوت کا تصور انسان میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان۔ شیطان انسانوں کے اندر سے توحید کی اس فطری پیاس کو تو ختم نہیں کر سکا لیکن اس نے کبھی ان کے سامنے شرک کی نشہ آور شراب رکھ دی اور کبھی مادیت و انکارِ خدا کا رنگین شربت۔

حضرت آدم علیہ السلام کی داستان میں جن رکاوٹوں کا ذکر ہے وہ بالعموم رسولوں کی امتوں کو پیش آئیں۔ یہود و نصاریٰ آج بھی اس بات کی صداقت پر مہر لگانے کے لیے موجود ہیں۔ یہود اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ پہلی رکاوٹ کا شکار ہوگئے۔ شیطان کی طرح انہوں نے تکبر کیا اور اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہو کر مغضوب ہوگئے۔ جبکہ عیسائی دوسری رکاوٹ کا شکار ہوئے۔ توحید کے عَلم کو تین ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کے علاوہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام یعنی شریعت کی پابندی کا چوغہ ہی سر سے اتار پھینکا۔ بالخصوص عریانیت اور جنسی بے راہروی جس بڑے پیمانے پر ان کے ہاں عام ہے اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ خود بھی گمراہ ہوئے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
ایک سوال

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جواکثر لوگ مجھ سے کرتے بھی ہیں کہ خدا نے انسان کو اس آزمائش میں کیوں ڈالا جس میں ان کی اکثریت ناکام ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس امتحان سے انسانیت گزررہی ہے اس میں اسے خدا نے نہیں ڈالا۔ انسان نے خود اس آگ میں چھلانگ لگائی ہے۔

انسانوں کے رویے نے ہمیشہ اس بات کی تصدیق کی ہے۔ آج بھی انسان فائدہ حاصل کرنے کے لیے نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے۔ آج بھی انسان نے اپنی دنیا میں کامیابی کے لیے امتحان کا اصول قائم کررکھا ہے جس میں ناکامی کا پورا امکان ہوتا ہے۔ آج بھی انسان تجارت میں نفع کے حصول کے لیے اپنی پونجی کو داؤ پر لگانے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ یہ انسان کی طبیعت ہے۔ جو آج بھی ہے، ہمیشہ رہی ہے اور اس وقت بھی یقیناً ہوگی جب یہ امتحان ساری مخلوقات کے سامنے رکھا گیا تھا۔

انسان نے ابدی کامیابی، جنت کی بے مثال نعمتوں اور خدا کے تقرب کو دیکھ کر جہنم کے اندیشے سے آنکھیں بند کرلیں۔ کہانیوں کے اس غریب لکڑہارے کی طرح جو حسین و جمیل شہزادی اور شاہی تخت وتاج کو پالینے کی خواہش میں کسی بھی ناممکن مہم پر جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ وہ لکڑہارا کامیاب ہوجاتا ہے۔ آج کا انسان بھی اکثر دنیاوی امتحان اور تجارت میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہاں مہم کو مہم، تجارت کو تجارت اور امتحان کو امتحان سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسوس آخرت کی مہم، آخرت کی تجارت اور آخرت کے امتحان کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ انسان آخرت میں اس لیے ناکام ہوگا کہ وہ اس سے غافل ہوگیا، اس لیے نہیں کہ اس میں کامیابی کی صلاحیت نہیں تھی۔
 

x boy

محفلین
سوالات·
یہ کائنات کس طریقے سے خدا کی پہچان کرواتی ہے؟ مخلوق کس طرح سے اپنے خالق کی نشاندہی کرتی ہے؟
·نظریہ ارتقاء میں کیا خامیاں پائی جاتی ہیں؟

·خدا کے منکرین اس کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی ٹھوس علمی دلیل موجود ہے یا پھر ان کے انکار کی وجہ کچھ اور ہے؟
·اہل مغرب نے علم الانسان سے کیا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے؟



















جوابات تو اوپر لڑی میں ہی ہے
 
آخری تدوین:
Top