خاتون موذن ۔۔۔۔۔ ؟!

باذوق

محفلین
السلام علیکم !

ابھی ایک خبر آئی ہے کہ مشرقی وسطیٰ کے ایک اسلامی ملک بحرین میں خاتون موذن کا تقرر کیا گیا ہے۔ اس خبر کا آن لائن حوالہ :
بحرین میں خاتون مؤذن

اس موضوع پر چند ساتھیوں سے بحث چل نکلی تو ہمارے ایک سعودی ساتھی نے کہا :
اس میں کیا قباحت ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر عورت کے اذاں دینے کو منع فرمایا ہے؟

کم سے کم راقم کے علم میں تو ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس میں عورت کے اذاں دینے کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے واضح طور پر منع فرمایا ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ۔۔۔۔ کیا یہ چیز (عورت کا اذاں دینا) رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے دَور میں ممکن نہیں تھی؟ کیا کوئی ایک (صحیح) حدیث یا اثر ایسا موجود ہے جس میں صراحت ہو کہ کسی خاتون نے اذاں دی تھی۔
اگر نہیں تو یہ حقیقت صاف ظاہر کرتی ہے کہ عورت کے اذاں دینے کی سہولت کا اُس دَور میں بھی موجود ہونے کے باوجود کوئی روایت ایسی نہیں ملتی جس میں کسی عورت کا اذاں دینا ثابت ہو۔
تو جو چیز خیر القرون میں "خیر" سمجھی نہیں گئی وہ بعد کے زمانوں میں کس طرح "خیر" یا "جائز" سمجھی جائے گی؟؟

اگر کوئی روایت نہیں ہے کہ :
عورت کے اذاں دینے کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا ہو۔
مگر پھر ۔۔۔۔
قرآن کہتا ہے :
[ARABIC]يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا[/ARABIC]
اے نبى كى بيويو تم عام عورتوں كى طرح نہيں ہو، اگر تم پرہيز گارى اختيار كرو تو تم نرم لہجے ميں بات نہ كرو، كہ جس كے دل ميں روگ ہے وہ كوئى برا خيال كرنے لگے، اور ہاں قاعدے كے مطابق اچھا كلام كرو
( الاحزاب:33 - آيت:32 )

اگر اللہ تعالیٰ ، زمین میں رہنے والی عورتوں میں سب سے پاکباز اہل بیت کی معزز خواتین (رضی اللہ عنہن) کو "نرم لہجے میں بات کرنے" سے روک سکتا ہے تو ان كے علاوہ باقى عورتيں تو ان وسائل كى بہت زيادہ ضرورت مند ہيں۔
اللہ سبحانہ و تعالى نے ہى مرد و عورتوں کو پیدا فرمایا ہے، اسے علم ہے کہ عورت کى آواز میں نرمى اور سوز ہے جو طمع و فتنہ کو ابھارتی ہے اور انسانى دل کا حال یہى ہے کہ اس کى اصل خلقت میں ہى شہوت رکھى گئى ہے۔
خرابى و گندگى سے پاکى و طہارت اس وقت تک نہیں ہو سکتى جب تک ابتدائى اور بنیادى طور پر ہى اسے پیدا کرنے والے اسباب سے اجتناب نہ کیا جائے، اور پر حکمت شریعت نے ان سب فتنوں کے دروازے بند کیے ہیں لہذا اللہ نے ہى مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کلام میں نرمى اختیار نہ کریں۔

اگر کوئی کہے کہ متذکرہ بالا قرآنی آیت میں "اچھے کلام" سے منع نہیں کیا گیا ہے اور "اذاں" بھی تو ایک "اچھا کلام" ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف بلایا جاتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا اخلاق و آداب فاضلہ کی دعوت کے سب مردانہ وسائل ختم ہو گئے ہیں اور صرف "عورتوں کی آواز" ہی باقی بچی رہ گئی ہے؟؟
خیر یہ تو ایک عقلی سوال تھا۔
عبادت کے معاملے میں عورت کی آواز کی ممانعت کی نقلی دلیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
[ARABIC]ما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق ، من رابه شيء في صلاته فليسبح فإنه إذا سبح التفت إليه وإنما التصفيق للنساء[/ARABIC]
جسے اپنى نماز میں کوئى شک یا تردد ہو تو وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کى طرف متوجہ ہوا جائے گا، تالى تو عورتوں کے لیے ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب الاذاں ، صحیح مسلم ، کتاب الصلاة

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر العسقلانی "فتح الباری" میں لکھتے ہیں :
[ARABIC]وكان منع النساء من التسبيح لأنها مأمورة بخفض صوتها في الصلاة مطلقا لما يخشى من الافتتان ومنع الرجال من التصفيق لأنه من شأن النساء .[/ARABIC]
عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ انہیں نماز میں مطلقاً آواز پست رکھنے کا حکم ہے، کیونکہ اس سے فتنے کا ڈر ہے، اور مردوں کو تالی بجانے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ عورتوں کا کام ہے۔

امام ابن عبدالبر رحمة اللہ ، "التمھید" میں لکھتے ہیں :
[ARABIC]قال بعض أهل العلم : إنما كره التسبيح للنساء وأبيح لهن التصفيق من أجل أن صوت المرأة رخيم في أكثر النساء وربما شغلت بصوتها الرجال المصلين معها .[/ARABIC]
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ : عورتوں کے لیے "سبحان اللہ" کى کراہت اور تالى کى اجازت اس لیے ہے کہ اکثر عورتوں کى آواز اور گفتگو میں نرمى ہوتى ہے، ہو سکتا ہے کہ ایسی آواز سن کر مرد اسى میں مشغول ہو جائیں۔

تو شارع نے جب صرف "سبحان اللہ" جیسے مختصر کلام سے ہی عورتوں کو روکا ہے تو کیسے "اذاں" جیسے طویل کلام کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

نماز میں کوئى معاملہ بن جائے تو مرد حضرات کے لیے شریعت نے "سبحان اللہ" کہنا مباح کیا ہے، لیکن عورت کو "سبحان اللہ" کہنے کى اجازت نہیں دى تاکہ اس کى آواز مرد نہ سنیں، بلکہ اسے دونوں ہاتھوں کے ساتھ ہلکى سى تالى بجانے کا حکم دیا ہے، اور اسى طرح تلبیہ کہنے اور اذان اور سلام کے جواب میں بھى آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔
اور اسی موقف کی تائید میں فقھاء اربعہ کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

احناف کی فقہی کتاب "فتح القدیر" کى شرح میں کمال الدین السیواسى کہتے ہیں:
النوازل میں صراحت کى ہے کہ عورت کى آواز ستر ہے، اس بنا پر میرے نزدیک کسى عورت کا نابینا آدمى کى بجائے عورت سے قرآن کى تعلیم حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے۔

وہ کہتے ہیں: کیونکہ عورت کى آواز ستر ہے، اسى لیے رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
" مرد سبحان اللہ کہیں، اور عورتیں تالى بجائیں "
اس لیے اچھا نہیں کہ عورت کى آواز مرد سنے ، انتہى.
بحوالہ : شرح فتح القدیر ( 1 / 260 )

فقہ مالکیہ کى کتاب " شرح مختصر خلیل " میں درج ہے:
" اور الناصر نے بیان کیا ہے کہ : عورت کى آواز سننے سے اگر لذت حاصل ہونے کا خدشہ ہو تو اسے اس حیثیت میں بلند کرنا جائز نہیں، نہ تو جنازہ میں، اور نہ ہى شادى بیاہ کے موقع پر، چاہے وہ نوجوان ہو یا نہ، لیکن بوڑھى عورتوں کى آواز سننا حرام نہیں " انتہى.
بحوالہ : شرح مختصر خلیل للخرشى ( 1 / 276 )

اور کتاب الام میں امام شافعى رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" عورتوں کو پردہ میں رہنے کا حکم ہے، اس لیے عورت کى آواز کوئى شخص بھى نہ سنے تو یہ اس کے لیے زیادہ بہتر اور زیادہ پردہ کا باعث ہے، اور نہ ہى عورت تلبیہ میں اپنى آواز بلند کرے، بلکہ صرف اپنے آپ کو ہى سنائے " انتہى.
بحوالہ : کتاب الام ( 2 / 156 )

اور فقہ شافعى کى کتاب " روضة الطالبین " میں درج ہے:
" ۔۔۔ اگر عورت کا دروازہ کوئى مرد کھٹکھٹائے تو عورت کو چاہیے کہ وہ نرم اور سریلى آواز میں جواب نہ دے، بلکہ اپنى آواز میں سختى پیدا کرے " انتہى.
بحوالہ : روضة الطالبین ( 7 / 21 )

اور فقہ حنبلى کى کتاب " الانصاف " میں لکھا ہے:
صالح کى روایت میں ہے کہ امام احمد کا قول ہے: بڑى عمر کى عورت کو سلام کیا جائیگا، لیکن نوجوان لڑکى نہ بولے.

قاضى کہتے ہیں: یہ اس لیے کہ کہیں اس کى آواز سے فتنہ میں پڑ جائے، اور مذہب اسے مطلق کہا ہے، دونوں روایتوں کى بنا پر لذت سے آواز سننا حرام ہے، چاہے قرآت کى ہو۔
قاضى کہتے ہیں: عورت کى آواز سننے سے منع کیا جائیگا " انتہى.
بحوالہ : الانصاف ( 8 / 31 )


***
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور فہم عطا فرمائے ، آمین !!

[ARABIC]وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِينًا[/ARABIC]
اور کسى بھى مومن مرد اور مومن عورت کو اللہ تعالى اور اس کے رسول ( صلى اللہ علیہ وسلم ) کے فیصلہ کے بعد اپنے کسى امر میں کوئى اختیار باقى نہیں رہتا، اور جو کوئى بھى اللہ تعالى اور اس کے رسول کى نافرمانى کرے گا وہ صریحاً گمراہى میں پڑے گا
( الاحزاب:33 - آيت:36 )


تحقیق کا مصدر ، بشکریہ : الاسلام سوال و جواب ، بحوالہ فتویٰ نمبر:9279 اور 103439

پسِ تحریر :
بحرینی وزارتِ عدل نے اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے خاتون موذن کی تقرری کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ الحمدللہ۔
تفصیلی خبر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
 
Top