حیوانوں کی بستی ۔ پشاور ۔ چوتھی قسط

تفسیر

محفلین


ماں

ماں ایک سال ہوگیا میں نےبابا اورتم کونہیں دیکھا۔ مجھ پتہ ہے کہ ماں میں نےتجھ کو بہت دکھ پنہچایا ہے۔ حسن نےمجھ سے کہاتھا کہ وہ اورمیں پاکستان جاکرشادی کرلیں گے۔ میں اس کےدھوکےمیں آگئی۔ جب ہم پشاور کی سرحد پر پہنچےتواس نےمجھےایک عورت کےساتھ بھیج دیا اور کہا کہ میں بازار سےسامان لےکرآتا ہوں۔
وہ دن اور آج کا دن میں نےاس کونہیں دیکھا۔ ماں میں اب آپ کو اپنا منہ نہیں دیکھنے کےقابل نہیں رہی۔ میں اب پاک نہیں ہوں ماں۔ مجھ کومعاف کردو-

تیری بیٹی
 

تفسیر

محفلین

ہمیں قندھارسےلوٹےہوئے دو دن ہوئے تھے۔ ریمشاں، ڈاکٹرجمیلہ کی طیبی نگرانی میں تھی۔
میرے فون کی گھنٹی بجی۔
“ کیا ریمشاں آپ کےساتھ ہے”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے پوچھا۔
“ نہیں۔ کیا ہوا۔ وہ توآپ کے پاس تھی”۔ میں گھبرایا۔
“ میں آفس سےگھر آئی تو وہ یہاں نہیں تھی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنےوالی نےبتایا کہ بی بی جی نےایک گھنٹہ پہلےٹیکسی منگوائی تھی“۔
میں نےٹیکسی کی تفصیلات لے کرآفریدی کےدفترمیں کال کیا۔
“ گھڑ بڑ ہوگی”
“ کیا”۔ آفریدی نےسوال کیا
“ ریمشاں گھر سے بھاگ گی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ پشاور کا رُخ کرےگی۔ کیاپشاور میں اس وقت اپنےلوگ ہیں؟”
“ ہاں”
“ ٹیکسی کا اڈے ، افغانستان کی سرحد اور مہاجروں کے کیمپ پر اپنے آدمی لگا دو۔ اور جیسے ہی کوئ اطلاع ملے بتانا “
“ ٹھیک ہے”۔ آفریدی نے کہا-
میں سکینہ کےدفتر کوکال کرنےوالا ہی تھا کہ سکینہ میرے دفتر میں داخل ہوئ۔
“ وہ لڑکی بےوقوف ہے۔ ڈاکٹرجمیلہ کی کال آئ تھی“۔ سکینہ نےغصہ میں کہا۔
میں نے کوہاٹ اور پشاور کےڈی۔آئ۔جی پولیس سےذاتی درخواست کی ہے کہ وہ اس کوڈھونڈنےمیں میری مدد کریں”۔
“ ارے اپنی زبان سنھبالیے۔ آپ میری بہن کو بےوقوف کہہ رہیں ہیں”۔ میں ہنسا۔
“ تو پھر کیا کہوں؟ وہ اسے کام کیوں کرتی ہے؟” سکینہ نےمعصومیت سے کہا۔
“ تم اس کو پگلی کہہ سکتی ہو۔ وہ بیمار ہے” میں نے ہنس کر کہا۔
“ میں یہ خبرسن کر بہت پریشان ہوں”۔ سکینہ نے کہا۔
“ اس سے پہلے کہ وہ کسی خطرے میں پڑے ہم اس کو تلاش کرلیں گے”۔ میں نےسکینہ کو تسلی دی لیکن میرا دل بھی ڈوب رہاتھا۔

٭٭٭

رات کے ایک بجے فون کی گھنٹی بجی۔ آفریدی کی کال تھی۔
“ پشاورکی پولیس کومعلوم تھا کہ وہ کہاں ہوگی۔ وہ عبدل غفارخان کےحویلی پرتھی۔ ریمشاں، سرحد پراپنےآپ کو بیچ چکی تھی۔ خریدار، عبدل غفارخان کےلوگ تھے۔ بڑی مشکل سےچارگنا قیمت پرواپس کرنے پرتیار ہوئے۔ ہم اسے ڈاکٹر صاحبہ کےگھر لےجارہے ہیں”۔ آفریدی نے کہا۔
میں نےسوچا کےننھی کواس وقت سہارے کی ضرورت ہوگی۔
“ میری بات کراسکتے ہو”۔ میں نے کہا-
“ ہاں” آفریدی نے ریمشاں کو فون دیا-

 

تفسیر

محفلین

“ریمشاں۔ تم میری پیاری ننھی ہو ، میں تم سے بالکل ناراض نہیں ہوں۔ ہم کل صبع ملیں گے”۔
“ اچھا بھائی جان”۔ اس کی آواز میں اجنبیت تھی۔
عبدل غفارخان کا شمار پشاور کے معزز لوگوں میں ہے۔ ان کی پہونچ حکومت کےتمام اداوں میں ہے۔ اور پولیس کمشنراورنظام اعلٰی ان کےحلقہ احباب میں ہیں۔ وہ بہت کی نمازی اور پرہیزگارسمجھےجاتے ہیں۔ آپ تسبی کوان سےجدا نہیں کرسکتے۔ ان کی حویلی شہر سے باہر ہے- وہ افغانی نابالغ لڑ کےاور لڑکیوں، اور عورتوں کی تجارت کرتے ہیں۔
عبدل غفارخان کےایجنٹ ان کی لڑکیوں کو کئی طریقےسے حاصل کر تے ہیں۔ جب کم عمر بچےاور بچیوں والی افغانی فیملی سرحد پر پہنچتی ہے عبدل غفارخان کےایجینٹ اس فیملی پرنگاہ رکھتےہیں۔ وہ اس فیملی کو کیمپ میں جگہ لینے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک ایجینٹ یہ ظاہر کرتا ہے کے وہ ان کی ایک لڑکی سےشادی کرناچاہتاہے اور پیسوں کے بدل وہ اس پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ شادی جھوٹی ہوتی ہے اور لڑکی عبدل غفارخان کی حویلی میں منتقل کردی جاتی ہے۔ کچھ بچوں کواغوا کیاجاتا ہے کچھ کوخریدلیاجاتا ہے۔ وہ غریب ماں باپ جن کے چھ سات بچے ہوتے ہیں اپنے ایک بچے کو پیسے کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ بعض خوبصورت بالغ لڑکیوں کو روزگاری دلانے کے بہانےحویلی پہنچا دیاجاتا ہے۔
نیلام گھرمیں اس مال کوعمر، خوبصورتی، اور کنوارنا پن کےمطابق تقسیم کیاجاتا ہے۔ ہراتوار یہ نیلام ہوتا ہے۔ پاکستان کا امیرطبقہ ان لڑ کے، لڑکیاں اورعورتوں کوجنساتی غلام بنانے کے لیےخریدتے ہیں۔ کچھ تاجر، ان کو پنجاب اور کراچی کےطوائف خانوں کےلیےخریدتے ہیں۔ نوجوان خوبصورت لڑکے، بچیاں اورعورتیں مشرق وسطی والےخریدار اپنےشیخوں کے لیےخریدتے ہیں جوان کو جنساتی غلامان کی طرح رکھتے ہیں۔ خریدنےوالوں میں یورپ کےطوائف خانوں کے بھی تاجرہوتے ہیں - پاکستان کی منڈی سے یہ مال ہرسال ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں کو برآمد کیاجاتا ہے۔اس مال میں پاکستانی، افغانی، ایرانی، بنگلادشی، فلیپینی، برمی اور تھائی مال بھی شامل ہے۔

 

تفسیر

محفلین

دوسرا خط

ماں
میں ننگی ہوں - ایک عورت مجھے پردئے کے پیچھے سے اسٹیج پردھکیلتی ہے۔ماں ، کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ میں اپنے کوچھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ مگر کہاں اور کیسے ؟ میرا کندھا اس عورت کی جکڑ میں ہے۔ میں ایک ہاتھ سےاپنا اوپراور ایک ہاتھ سے نیچے کا حصہ چھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایک مرد ، عورت سے کہتا ہے کہ اس لڑکی کے ہاتھ ہٹاؤ۔ وہ میرے ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔ دوسرا مرد کہتا ہے اس کوموڑو۔ایک مرد پوچھتا ہے کیا یہ کنواری ہے۔ عورت بلند آواز میں کہتی ہے۔ یہ دونوں طرف سے کنواری ہے۔
ایک ہزار۔۔۔ دو ہزار۔۔۔ تین ہزار۔۔۔ چار ہزار۔۔۔
پانچ ہزار ایک - پانچ ہزار دو - بانچ پزار تین۔ بولی بند۔
ماں تیری بیٹی کی عصت کی قیمت پاکستان میں صرف پانچ پزار رو پیہ ہے۔

تیری بیٹی

٭٭٭

ڈاکٹرجملیہ نےدروازہ کھولا۔
“ ریمشاں نہا رہی ہے۔ چائے بنواؤں” اور بغیرجواب کا انتظار کےگھر کی دیکھ بھال کرنےوالی کوناشتہ تیار کرنے کو کہا”۔
“ یہ ریمشاں کا معاملہ ، کیا ہوا”۔ میں نےسوال کیا۔
“ وہ کل صبع تک بالکل ٹھیک تھی”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے کہا۔
“ تمہارا کیا خیال ہے”۔
“ وہ اپنے عمل سےخود کوخطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس لیے میں آپ کو بتارہی ہوں۔ مگریہ آپ تک رہےگیا”۔ڈاکٹر کی نظریں اُس دروازے پرتھیں جو باتھ روم کی طرف جاتا ہے۔
“ وہ اپنی ماں کے کے خط پڑھ رہی ہے۔ اوراُس سفر پرجانا چاہتی ہے جواُس کی ماں سے زبردستی کروایا گیا تھا”۔
 

تفسیر

محفلین


ہال سے قدموں کی آواز آئ اور ہم دونوں خاموشی سےچائے پینے لگے۔ ریمشاں نے کمرے میں دا خل ہوکر مجھےسلام کیا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گی۔
میں اپنی کرسی سےاُٹھ کراس کےنزدیک والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
“ کیا میری بہن مجھ سے پیار نہیں کرتی”
“ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔ مگرمجھے پتہ ہے کہ آپ کیا کہیں گے”
“ کیا“۔ میں نےشرارتی لہجہ میں پوچھا۔
“ تم نے ہم سب کوڈرادیا۔ تم نے یہ بیوقوفانا حرکت کیوں کی؟ اپنےآپ کوخطرے میں کیوں ڈالا؟ تمہارا مقصد کیاتھا۔ جانتی ہوتم کیا کر رہی تھیں۔ اگرتم کو کچھ ہوجاتا۔۔۔ ” ریمشاں خاموش ہوگی۔
“ تم رات ٹھیک سے سوئیں۔ میں تو تم سےصرف یہ پوچھنے والا تھا”۔ میں نےاس کی گردن کو سہلاتے ہوئے پیار سےکہا۔
“ جی بھائی جان”
“ اب تم نے بات کی ہے تو بتاو کیا تمہاری ماں نےساتھ ایساہوا تھا”۔
“ اس کو حسن نے5 ہزار روپے میں بیچ دیا تھا۔ اس کی انکھوں سےآنسوں کے دوقطرے نکل کرگالوں سے پھسلنے لگے
“ تم وہی سفر کرناچاہتی ہو جوتمہاری ماں سے زبردستی کروایا گیا۔ میں آج شام تم کواسی جگہ لےجاؤں گا جہاں عورتوں اور بچوں کی تجارت ہوتی ہے“ میں نے کہا۔
“ ہاں۔ میں ہر وہ چیز خود کرناچاہتی ہوں۔ جومیری ماں سے زبردستی کروائی گی”۔
“ یہاں سے ہمارا راستہ جدا ہوجاتا ہے۔ ”
“ وہ کیوں ابھی ابھی تو آپ نے کہا تھا۔۔۔ ”
میں نے ریمشاں کا جملہ کاٹ دیا” میں نے کہا تھا تم وہی سفر کرنا چاہتی ہو جو تمہاری ماں سے زبردست کروایا گیا۔ کیا میں نے کہا کہ خود ؟”
“ جی نہیں “۔
“ یہ سفر تم کو میری حفاظت میں کرنا گا۔ اور تم اس کو دیکھوگئ ، محسوس کروگی مگراس کا حصہ نہیں بنو گی۔ تم میری ننھی ہواور تم کو میری بات مانی پڑھےگی۔ اگر منظور ہے تو۔۔۔ ”۔
" منظور۔ میں نےسب کچھ کھودیا ہے۔ آپ ہی تو ایک رہ گئے ہیں”۔
ریمشاں نے میری بات کاٹ دی اور اپنے بازو میری گردن میں ڈال کر اپنا سرمیرے کندہے پر رکھ دیا”۔

 

تفسیر

محفلین
پشاور میں شام ہو رہی تھی۔ آفریدی نےگاڑی بڑا روڈ سےخیبر روڈ پرموڑی۔ میں نے ریمشاں کی طرف دیکھا۔ وہ اس لباس اور میک اپ میں ایک عام شکل صورت کا مرد لگ رہی تھی۔ سکینہ نےساری دوپہر اس کومرد بنانےمیں لگادی۔ ایک فلم میک اپ آرٹسٹ سےاس کا مردوں والا نیچرل میک اپ کروایا۔ اس کےبال لڑکوں کی طرح کٹوائے اور رنگ کیا۔ اس کے جسم پر پیڈینگ لگائی تا کہ اس کا جسم مردوں سا لگے۔ یہ سب اس لیے کہ ہم عبدل عفار خان کی حویلی میں جارہے تھے۔ جہاں خریدار مرد ہوتے ہیں اور بچے بچیوں، لڑکے لڑکیوں اور عورتوں کا نیلام ہوتا ہے۔ اور اگر عبدل عفارخان کو یہ پتہ چل گیا کہ خریداروں میں ایک لڑکی بھی موجود تو ہمارا وہاں سے زندہ نکلنا مشکل ہوجائےگا۔ سکینہ بہت فکر مند تھی۔ اس لیے آفریدی کےعلاوہ وہاں ہمارے کچھ دوسرے حفاطت کرنے والے بھی موجود ہونگے۔
اب ہم ائر پورٹ کے سامنے سےگزر رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں صاحب زاد گل روڈ آگیا۔ آفریدی نےگاڑی جمرود روڈ کی طرف موڑی۔
“ ہم اب بھی واپس لوٹ سکتے ہیں” ۔ میں نے ریمشاں سے کہا۔
“ نہیں“۔ ریمشاں نےسختی سے جواب دیا۔
“ تمہیں میری ہدایات یاد ہیں”۔ میں نے پوچھا۔
“ کسی بھی حالت میں بات نہ کرنا۔ کسی حا لت میں آنسونہ بہانا یا رونا۔ کسی صورت میں مجھ سے یا آفریدی سے ایک فٹ سے زیادہ دور نہ جانا۔ کسی صورت میں مجھے یا آفریدی کو مت چھونا ”۔ ریمشاں نےطوطے کی طرح دوہرایا"۔
 

تفسیر

محفلین
آفریدی نےگاڑی ایک پرائیوٹ روڈ پرموڑ دی۔ سڑک کے آخرمیں ایک عالیشان حویلی تھی۔ دوردور تک کوئ مکان یا حویلی نہیں تھی۔ دروازے پر دوگارڈ بندوقیں لیےکھڑے تھے ان میں سے ایک نےہم سے کاغذات طلب کیے۔ آفریدی نے ہم سب کے شناخی کاغذات گارڈ کےحوالے کردیے۔گارڈ نےانہیں اپنی لسٹ سے ملاکر دیکھا۔ اس نے کچھ وقت لیا اور میں نےاپنی پشانی پر پسینہ محسوس کیا۔گارڈ نے آفریدی کواندر جانے کا اشارہ کیا۔ دوسرےگارڈ نےگیٹ کھولا۔ ہماری گاڑی اندر چلی اور نےگارڈ نےہمارے پیچھےدروازہ بند کردیا۔ میں نے رومال سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کیا۔ سڑک کےدونوں طرف درخت تھےاور تقربیا سوگز کے فاصلے پرحویلی تھی۔ محل کےدروازے پر پھر سے کاغذات دیکھے گے اور پھر ہم اندر داخل ہوئے۔ ایک خوبصورت ہوسٹیس نےہمارا استقبال کا اور ہمیں ایک کمرے میں لےگی جہاں اندازً بیس یا پچیس میزیں لگی تھیں۔ ہوسٹیس نے ہمیں ایک ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جس پرصرف تین کرسیاں تھیں۔ ہم نے ریمشاں کو اپنے درمیان میں جگہ دی۔

کمرہ کی لمبای اور چوڑائ میں 25 سے 30 فٹ کے برابر لگ رہا تھا۔ کمرے کے بیچ میں اسٹیج تھا۔ میزوں اور کُرسیوں کو اسٹیج کےاردگرد اس طرح لگایا گیا تھا کہ ہرمہمان اسٹیج کو مکمل طور پر دیکھ سکے۔ ایک خوبصورت سی لڑکی ہماری میز پرآئ۔ اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کرایا۔
“ میرا نام شرین ہے۔ میں آپ کی ہوسٹیس ہوں”
“ آپ لوگ کچھ پینا پسند کریں گے؟”۔
میں نےتینوں کےلے ٹھنڈا سوڈا آرڈر کردیا۔
جب سب جگاہیں بھرگیں تو دروازے سے ایک عمر رسیدہ شخص داخل ہوا اور اسٹیج کےقریب بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں تسبی تھی۔ وہ تسبی پڑھ رہا تھا۔
آفریدی نےمیری طرف جھک کر کہا“۔ یہ عبدل غفارخان ہے”۔
اسٹیج کے پردے کے پیچھے سےایک صحت مند عورت اسٹیج پرآئ اوراس کےساتھ 20 تقریباً کم عمر بچے تھے جن کی عمریں10 سے 12 سال کےدرمیان ہونگی۔ بچے ایک قطار بنا کر کھڑے ہوگئے۔ ان کےدونوں طرف گارڈ تھے۔ لڑکےخوف ذرہ اور گھبرائے ہوئے سے تھے۔

 

تفسیر

محفلین

عورت نے قطار سے پہلے لڑکے کوسامنے آنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ ایک گارڈ نے اس کوذرا سا دھکادیا۔ لڑکا سہما سہما آگے بڑھا۔
5 ہزار روپیہ ایک ، کمرے میں کئی ہاتھ اٹھے۔
5 ہزار ایک سو، ایک ۔ہاتھوں کی تعداد کم ہوگئ۔
5 ہزار ایک سو، دو ۔ تین ہاتھ اوپر رہ گئے۔
5 ہزار دو سو، ایک۔ ایک ہاتھ اوپر رہ گئے
5 ہزار دو سو، دو۔
5 ہزار دو سو، تین ۔
گارڈ نے بچے کی قمیض پرخریدار کی میز کا نمبرلکھ دیا۔
سب سے بڑی بولی 5500 تک پہونچی
ایک خریدار نے5 بچے ایک ساتھ خریدے۔
آفریدی نے دھیرے سے کہا۔ یہ مشرق وسطی کاخریدار ہے۔
اس طرح ایک کے بعد ایک بچوں کا نیلام ہوا۔
اب کم عمر لڑکیوں کی باری تھی۔ 10 سے 12 سالہ خوف ذدہ لڑکیاں کمرے داخل ہوئیں۔ بولی 7000 ہزار پرشروع ہوئ۔ اور 15 منٹ میں تمام لڑکیاں بک چکی تھیں۔
کمرے میں اب ایک زیادہ عمر کی لڑکی داخل ہوئ اس کی عمر شاید 15 سے 16 سال ہوگی۔ بولی 8000 شروع ہوئی۔
کسی نے کہا “ مال دیکھاؤ”۔ عورت نےلڑکی کو کرتہ اتارنے کو کہا۔ جب لڑکی نےحکم نہیں مانا۔ گارڈ نے اسکےہاتھ پکڑ لیےاور عورت نے قینچی سےاس کی قمیض کاٹ دی۔ لڑکی نے اپنی چھاتی کو ہاتھوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ قیمت اب 9000 تک پہونچ گئی۔
اور دیکھاؤ۔گارڈ نے پھرہاتھ کو پیچھے کر کے پکڑ لیا۔ عورت نےبڑھ کر لڑکی کی شلوارگرادی۔ لڑکی نےایک ہاتھ سی چھاتی اور دوسرے سےسامناچھپا نے کی کوشش کی۔ وہ رو رہی تھی۔ عورت نےاس کو زبردستی موڑا اور اس کی گردن پکڑ کر اس کو کمر کے بل جھکا دیا۔
“ کیا یہ کنواری ہے۔ ”
“ ہاں “۔ عورت بولی۔
10000 ایک۔۔۔
10000 دو۔۔۔
10000 تین
میں نے ریمشاں کی طرف دیکھا۔ اس نےدھیرے سے کہا " بھیا میں اُلٹی کرنے والی ہوں”۔ میں نےفوراً اس کا ہاتھ ایک طرف سے پکڑا اورآفریدی نے دوسری طرف سےاور ہم ہوا کی طرح سےحویلی سے باہرتھے۔ ریمشاں نےحویلی کے باہر اُلٹی کردی۔
“ کیا ہوا؟”۔ ایک گارڈ نے پوچھا۔
” میرے دوست کی طبیت خراب ہوگی۔ ہم لوگ اگلے ہفتہ آئیں گے”۔ آفریدی نےگارڈ سے کہا۔
ریمشاں سارا راستہ اپنے ماں کا نام لے کر روتی رہی۔
 
Top