حیوانوں کی بستی ۔ لاہور ۔ پانچویں قسط

تفسیر

محفلین
لاہور

ماں۔ میں ایک اندھیرے کمرے میں ہوں ، میرے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں۔ میرا ایک پاؤں چار پائ کےسیدھی طرف اور دوسرا الٹی چارپائ سے بندھاہے میرے منہ پرٹیپ لگی ہے۔ مرد ایک کے بعد ایک آتےہیں۔ میں تکلیف سے چیغتی ہوں مگرمیری آواز منہ سے باہرنہیں نکل سکتی۔ ماں اتنا درد ہےاورمیں چلا بھی نہیں سکتی ماں
۔
 

تفسیر

محفلین

پُرانےلاہور کی چار دیواری کےاندرشمالی حصہ میں تین اور چارمنزلوں کی عمارتوں سے بنی ہوئ ایک بستی ہے جس کا نام شاہی محلہ ہے مگریہ جگہ ہیرا منڈی کےنام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کےایک زمانےمیں یہاں فنکار رہتےتھے۔ میں اور ریمشاں الفیصل ہوٹل کےریسٹورانٹ میں بیٹھےچائے پی رہے ہیں۔ یہاں کھانےمیں دال، سبزی، دبنہ اور بکری کا سالن اور روٹی ملتی ہے۔ کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ یہ جگہ روشنی گیٹ کےقریب ہے۔ سڑک پر ٹھیلے والےگنے کا رس بیچ رہے ہیں۔ کچھ ٹھیلوں میں آموں سے بھری ہوئ بالٹیاں ہیں۔ ریسٹورانٹ میں عورتوں کےبیٹھنے کی جگہ کےاردگرد پردہ ہے - الفیصل ہوٹل فورٹ روڈ پرواقع ہے۔ فورٹ روڈ مسجد سےگزرتا ہوا روشنی گیٹ پرختم ہوتا ہے یہاں سےاندرونی شہر کےلوگ حضوری باغ میں داخل ہوتے ہیں پھروہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں یا عالمگیر دروازے کےذریعےقعلہ میں جاسکتے ہیں۔ یہاں سےفورٹ روڈ قعلہ کی دیوار کےساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاں پر رکشہ، موٹراور بائسیکل کوٹھیک کرنےوالوں کی دوکانیں ہیں۔ حجام فٹ پاتھ پربیھٹے لوگوں کے بال کاٹ رہے ہیں۔چوک کےدوسری طرف شرفاء کا محلہ شروع ہوجاتاہے۔
ہم یہاں چار دن سے ہيں۔ دن میں ہم لاہور کےمختلف سیرگاہوں میں گھوتےہیں اورشام، ہیرا منڈی میں گرازتے ہيں۔ ریمشاں ہمشہ برقعے میں ہوتی ہے تاکہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ دیں اور ہم اندرونی علاقہ میں نہیں جاتے۔ ہر روز کی طرح آج بھی آفریدی تحقیق کرنےچلا گیا۔ وہ ہرروز گلیوں میں گھومتا ہے اور کنجریوں سےگفتگو کرتا ہے۔ اس کا مقصدایسی طوائف کو تلاش کرنا ہے جو پندرہ ، بیس سال پہلےیہاں کام کرتی تھی –
پاکستان میں عورت اورمرد کا بغیرشادی کےہم بستری کرنا قانونی طور پرجرم ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی ہے ہیرا منڈی جوکہ دن میں ایک عام تجارت کا بازار ہے اب جسموں کی تجارت کا بازار بن جاتا ہے۔

 

تفسیر

محفلین

ایک زمانہ تھا کہ چکلہ نےبہت فروغ پایا۔ اس وقت چکلوں میں خوبصورت عورتوں گاہک سےہم بستری کم کرتی تھیں انکے ساتھ بیٹھ کران سے ادب، شاعری اور فنون لطیفہ پرباتیں زیادہ کرتی تھیں ، اس کےعلاوہ مجرا یا ناچ کرنےوالی عورتیں امیروں کا دل ناچ کرلبہا تی تھیں ۔ طوائف کوٹھا اس زمانے میں زی عزت جگہ سمجھی جاتی تھی جہاں پرامراء ، تعلیم یافتہ اور شریف خاندان کےلوگ اور روشن خیال طبقہ اپنے لڑ کوں کلاسیکل موسیقی ، اردو شاعری آداب اور تہذیب سیکھنے بھیجتا تھا۔ ان کوٹھوں میں سے کچھ پر مصنف ، موسیقار اور ادیب تخلیقی خیالات کے لیے جمع ہوتےتھے۔ یہ ایک لذائذ نفسانی اور خوشیوں کی دنیا تھی۔ ان جگہوں کی طوائفیں مال دار، با رسوق اور اعلي عہدے کے لوگوں کی معاشوقہ بن جاتی تھیں۔ یہ طوائفیں اعلی درجہ کی طوائفیں کہلاتی تھیں۔ ان کے نیچے کی دوسرے درجہ کی طوائفیں تھیں جن کی کیفالت کرنے والے ملازم پیشہ اور کم مال دار لوگ تھے۔سب سے نیچلا درجہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کمائی کا ذریعہ جسم بیچنے پر محدود تھا۔ آج کا ہیرا منڈی صرف جسموں کی تجارت ہے۔
پردے کے پیچھےسے کسی نے کھانس کر کہا"۔ میں عدنان ہوں صاب"
عدنان ہمارا ہیرا منڈی کا گائیڈ تھا۔ اصل میں عدنان ایک بھڑوا ہے جو رنڈیوں کے لےگاہک لاتا ہے۔ " صاب ۔ میں نے ایک پرانی مائی کو تلاش کر لیا ہے جو30 سال پہلےیہاں کوٹھہ چلاتی تھی- اب وہ صرف اپنی لڑکیوں کی مائی ہے۔ ہمیں تببی گلی میں جانا ہوگا"۔ عدنان خاموش ہوگیا۔
" اچھا کام کیا ، چلو" ۔
" صاب کیا بی بی جی کا آنا ضروری ہے"-
" کیوں"۔ میں نے سوال کیا۔
" صاب بڑی خراب جگہ ہے"۔
" کیا مطلب"۔ میں پوچھا۔
" صاب ہرطرف چور ، لٹیرے اورخراب عورتیں ہیں" –
میں نے آفریدی اور کٹک کی طرف اشارھ کیا۔" وہ دونوں کی جیب میں پستول ہیں اوروہ یہاں ہماری حفاظت کے لئے ساتھ ہیں"۔
تببی گلی میں جانے کے کئ راستے ہیں۔ ایک راستہ تکسالی گیٹ سے ہے۔ ہم الٹے ہاتھ دو دفعہ مڑے اور اب ہمارے سامنے بلڈنگوں کےدرمیان ایک پتلی اور لمبی گلی تھی جس کےدونوں طرف چھوٹے راستےتھے۔ سسّتے میک اپ میں بنی سجی عورتیں دروازوں سے ٹیک لگائے کھڑی تھیں۔ ہم کھلےدروازوں سے پلنگوں پرلیٹی ہوئ عورتوں کودیکھ سکتے ہیں۔ کجھ جوان عورتیں اپنےسہلیوں سے باتیں کررہی تھیں اور ساتھ ساتھ کولھو مٹکا رہی تھیں۔ عدنان کی وجہ سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ ان کے لئے ہم عدنان کےگاہک تھے۔
ہم ایک گلیارا میں مُڑے اور ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے ۔
عدنان نے کہا۔" صاب ، دوسری منزل پراوراسکا نام نازیہ ہے"۔
میں نےاپنے بٹوے میں سےایک ہزار کا نوٹ نکال کرعدنان کو دیا"۔
" شکریہ صاب، نازیہ 5 ہزار پر راضی ہوئ ہے"۔
میں اور ریمشاں سیڑھیاں چڑھ کراوپر پہونچے ۔

 

تفسیر

محفلین

دوسری منزل پرایک ادھیڑ عمرکی عورت نے ہم سےملی جس کا نام نازیہ ہے ۔ اس کی چال اور چہرہ سے پتہ چلتا تھا کہ ایک زمانے میں اس کے کوٹھے کے سامنے لائن ہوتی ہوگی اور اس نے ہزاروں دل توڑے ہوں گے۔
نازیہ کےساتہ ہم سامنے کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کمرے میں نازیہ نےاسکی4 لڑکیاں سےملوایا جن کی عمریں تقریباً 10 سے 18 سال کے درمیان ہوں گی۔ ایک عمر رسیدہ عورت بھی کمرے میں موجود تھی۔ یہ میری ماں ہیں۔ اس نے کہا۔
بیٹھتے ہی نازیہ کا پہلا سوال تھا ۔" میرے 5 ہزار "۔
میں بٹوے سےہزار ہزار کے5 نوٹ میز پر رکھ دیے۔
نازیہ نےنوٹوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
" اتنی جلدی نہیں" ۔ ریمشاں نےاپنا ہاتھ نوٹوں پر رکھ دیا۔
" تم ہیرا منڈی میں کب سے ہو؟"
" میں پیدا ہی یہاں ہوئی تھی۔ ایک زمانےمیں میری ماں کا شاہی محلہ میں اپنا جھرونکا تھا۔ اس گلی میں تو ہم حالات تبدیل ہونے کے بعد آئے "۔
" لڑکیاں جو باہر ملکوں کو بھیجی جاتی ہیں۔ ان کے متعلق پتہ ہے تم کو؟
"ہاں میری ماں ۔ پشاور جاکرلڑکیاں لاتی تھی ۔ان لڑکیوں کا کنواری ہونا بہت ضروری تھا۔"
ریمشاں نے اپنے پرس میں سے اپنی ماں کی ایک میلی سے تصویر نکال کرنازیہ کودیکھائ ۔
نازیہ نےتصویر کو کچھ دیردیکھا اور اپنی ماں کی طرف بڑھادیا۔ اسکی ماں نےاپنا چشمہ صاف کرکے تصویر کو دیکھااور پھر ریمشاں کی طرف دیکھا۔ اس نے پھرتصویرکوغورسےدیکھا اورتصویرنازیہ کودے دی ۔
" پہچانی" - نازیہ نےماں سے سوال کیا ۔
" ہاں یہ وہ ہی تو ہے جواپنی ماں کو یاد کر کے ہروقت روتی رہتی تھی"۔ نازیہ کی ماں نے کہا۔
" میرا خیال بھی یہ ہی ہے۔ یہ وہ ہی ہے" ۔ نازیہ نے کہا۔
" مجھے بتا کیا ہوا؟" ریمشاں نے بے تاب ہو کر کہا۔
" ہم نےاس کوشادی کرنےدوبئ بھیج دیا"۔
" کیا مطلب؟"
" کنواری لڑکیوں کی دوبئ میں بہت بڑی قیمت ہے۔ شیخ ان لڑکیوں کےلئےلاکھوں روپےدیتے ہیں۔ وہ ان سےایک دن کے لئے شادی کرتے ہیں ۔"
" اس کے بعدان لڑکیوں کا کیا ہوتا ہے؟" میں نےغصہ سے پوچھا۔
" اگران کے بچہ ہوجائے توشیخ ان کوماہانہ لگا دیتا ہے ورنہ ایک مقررہ قیمت دے دیتا ہے اوروہ یہاں کے لوگوں سےشادی کرلیتی ہیں"۔
" میں نہیں سمجھا کھ ایک طوائف کیوں شادی کرے گی"۔
" ارے بدھو ، پاکستان اسلامی ملک ہے۔ ہم اگر جسم نیلام لیں تو مجرم ہیں۔ اس لئے متعہ یا نکاح مؤقت کی شادی لازمی ہے۔ میرے یہ تیسری شادی ہے"۔
" میں نہیں سمجھی" ۔ ریمشاں نے کہا۔
میں نے ریمشاں کوسمجھایا۔ اسلام میں تھوڑے عرصے کی شادیاں، جائزشادی سمجھی جاتی ہیں۔ اور مرد اُس عورت کےساتھ سب کچھ کرسکتے ہیں جو کہ طوائف کےساتھ کیاجاتا ہے۔ میں تم کو اسکی تفصیل گھرچل کربتاؤں گا"۔
" تو پھراس لڑکی کا کیا ہوا؟"
" اسےشیخ نے رکھ لیا تھا"۔
" کبھی اس نےتم سےخط و کتابت کی؟"
" وہ اپنی ماں کے لئے خط بھیجتی تھی جوایک لفافے میں رکھ کر ہم اسکی ماں کوڈاک میں بھیج دیتےتھے وہ کچہ عرصہ آئےاور پھر بند ہوگے "۔
" یہ کام دلالوں کی مدد سے ہوتا ہے۔"
" کیا کام"۔
" شادی کا"۔
"ہاں"
" تمہارے پاس اس دلال کا نام ہے؟"
" ارے رحیم یار ۔ ہاں"۔
"رحیم یار کا پتہ؟"
" اسکا آفس مال روڈ پر ہے۔ عدنان جو تم کویہاں لایا ہے اس کو پتہ ہے۔

 

تفسیر

محفلین

" نازیہ تم نےایک ہزار اور کمانا ہیں"۔ ریمشاں نےسوال کیا۔
" ہاں وہ کیسے؟"
" میں یہاں تمہارے ساتھ ایک دن اور ایک رات گزارناچاہتی ہوں" ۔
" یہ کیا ہورہا ہے"۔ میں نے ریمشاں سےسوال کیا۔
" بھائی جان ، ہمارا نازیہ سے ملنے کا ایک مقصد یہ بھی تو ہے کہ ماں کی طرح میں بھی یہاں رہ کر دیکھوں"۔
" نہیں" ۔
" ہاں" ۔
" نہیں" ۔
" ہاں" ۔
" تم یہاں کیوں ٹھہرنا چاہتی ہو؟" نازیہ نےپوچھا۔
" بس میں تم لوگوں کی زندگی دیکھنا چاہتی ہوں " ۔ ریمشاں نے کہا۔
" صاحب ، میری دو لڑکیاں ہیں شایداسکی ہم عمرہوں۔ یہ ان ساتھ رہ سکتی ہے ۔میں اور میری لڑکیاں اوراس پرآنچ تک نہیں آنےدئیں گے"۔ نازیہ بولی
میں نےروکہے لہجہ میں کہا۔" میں تم پر کیسے بھروسہ کروں"۔
" صاحب۔ ہم کنجر ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ شہر کے معزز اپنی بیٹیوں کومیرے مجرہ خانے میں کلاسیکل موسیقی، اردو شاعری ، اوراعلیٰ خاندان کےآداب سیکھنے لے لیے بھیجتے تھےاورہاں ہرطوائف اپنا جسم نہیں نیلام کرتی ہے۔ میں ایک نواب کی دوسری بیوی تھی۔ نازیہ ایک نواب کی بیٹی ہے۔ ہمیں اس بیٹی کوہمارا ماحول دیکھنے پر اعتراض نہیں ہے"۔ نازیہ کی ماں بولی۔
" بھائی جان ۔میں مہاجر کیمپ میں اکیلی رہی اور اپنی حفاظت خود کی۔ آپ اطمیناں رکھیں"۔
"مجھےیہ بالکل پسند نہیں"۔ میں نے کہا۔
ریمشاں نےمیری ضرور سے چٹکی لی۔ میری چیخ نکل گی۔ نازیہ، اسکی ماں اور لڑکیاں زور سے ہنس پڑ ئیں۔
ریمشاں نےمیری گردن میں اپنے بازو ڈال کر کہا " میں ناراض ہوجاؤں گی اور کبھی نہیں بولوں گی آپ سے"۔
" ٹھیک ہے یہ میری شرائط ہیں۔ ایک، آفریدی باہرموجود رہےگا ۔سونے کے وقت وہ اندر برآمدے میں چار پائی پرسوئےگا۔دو ، تم موبل فون اپنے پاس ہر وقت رکھوگی۔ میں ایک بٹن کال پروگرام کردیتا ہوں ہے۔ بٹن نمبر ایک آفریدی کا موبل نمبر ہوگا اور نمبر دو میرا موبل نمبرہوگا"
نازیہ، اس کی ماں اور لڑکیاں قہقہہ لگاتےہوئے دوہری ہورہی تھیں۔
" بھائی جان۔ اب جب آپ نے وعدہ کرلیا تو بتادیتی ہوں۔ میں آپ سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوسکتی۔ ہاں لیکن میں ضدی ضرور ہوں اور آپ سے وعدہ لئے بغیر نہیں چھوڑتی"۔
" اور تم سمجھتی ہو کہ مجھے تمہاری چال پتہ نہیں تھی"۔ میں نےقہقہہ لگا کرکہا۔
" بھائی اپنی تعریف آپ کرنا اچھی بات نہیں ہے"۔
" آج کی رات اور کل کا دن۔ کل شام میں آ کر لئےجاؤں گا۔ آفریدی یہاں رہےگا اور میں خٹک کے ہاتھ تمہاری ضروریات کی چیزیں بھیج دوں گا "۔

 

تفسیر

محفلین
" اگرلڑکی خوبصورت ہو؟ " ریمشاں سوال دوسرا سوال کیا۔
اگرلڑکی حسین ہو تو اس کے لئے رحیم یار خان خود کسی شیح سےاسکا سودا کرتا ہے۔ یہ لاکھوں والا معاملہ ہے ۔ شیخوں کو کنواری لڑکی چاہیے ۔ وہ ان کو لڑکی کا کنوارہ پن توڑ نا پسند ہے ۔وہ سمجھتے کہ یہ عمل ان کو جوان بناتا ہے۔ اس کے بعد لڑکی باپ سے بیٹے کو ملتی ہے ۔ اور15 یا20 دن میں جب بیٹے کا دل بھر جاتا ہے توشیخ لڑکی کو یہاں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اگرلڑکی کے بچہ ہوجائے تو شیخ اس کےتمام اخراجات اٹھاتا ہے۔
ریمشاں نے پوچھا ۔" وہ کیوں ۔شیخ کیوں اخراجات اٹھاتاہے ۔
" اس لئے کہ یہ شادیاں ہوتی ہیں ۔تمہیں نہیں پتہ اسلام میں یہ اصول خاص طور پر بنایاگیا۔ اس کو متحہ کہتے ہیں۔ یہ ہم طوائفوں کو قانون سے بھی بچاتا ہے۔یہ مشرق وسطی میں عام ہے"۔
تم دونوں اچھی شکل کی ہو۔ ریمشاں نے کہا۔ شمیم نےہنس کر کہا میری بہن ہے اس سے پوچھو ۔ مجھے تو صرف ڈانس کے گروپ میں کام ملا۔ اس نے تو شیخ کےساتھ بیس دن گزارے۔
تسنیم نے کہا۔ "ہاں۔ لیکن افسوس ہے کہ میں پیٹ سے نہیں ہوئ۔ ماں کو ماہانہ پیسے ملتے" ۔
" وہ کیوں" ۔ ریمشاں نے سوال کیا۔
" شیخ نےمجھ سے ہم بستری نہیں کی۔ اس نےمیرا کنواراپن اپنے ہا تھ سےتوڑا اس نےکلائ تک اپنے ہاتھ پرچکنائ لگائ اورپھر ہاتھ میرے اندر میں داخل کردیا میں درد سے بےہوش ہوگی۔ دس دن تک میں محل کے ڈاکٹر کی نگرانی میں تھی اور باقی دس دن تک اس محل میں آرام کیا۔ مجھےدنیا کی تمام سہولتیں مہیا تھیں۔ وہ ہر روز مجھے تازہ پھول بھیجتا تھا۔ وہ ابھی تک مجھ تحفے بھیجتا ہے
ایک گاہک نےریمشاں کو کمرے میں چلنے کو کہا۔ مگر تسنیم اسکا گاہک ہاتھ پکڑ کر اپنےساتھ کمرے میں لےگی۔
ریمشاں کی آنکھوں سےآنسوچھلک آئےاور وہ خاموشی سے کھڑکی کے قریب کھڑی ہوگی۔ اس کے دل میں یہ سوال اٹھا۔ کیا کہیں عورتوں کا بھی خدا ہوتا ہے؟
 

تفسیر

محفلین


جب سے ریمشاں ہیرا منڈی سے واپس آئ وہ بالکل خاموش ہوگی۔ میں نےاسکا دل بہلانے کی لئےمیں نے اس کولاہور دیکھانے سوچا۔
لاہور دریاے راوی کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ پرانےلاہور کےتیرا دروازے ہیں ان میں سےایک دروازہ چھوٹا ہےجس کوموری دروازہ کہتےہیں۔ مشرقی دروازے کر دہلی دروزہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا ایک رُخ د ہلی کی طرف ہے۔ دروازے کے باہر ریلوے اسٹیشن ہے ۔اسی دروازے کےاندر ایک سیدھی سڑک قلعہ کوجاتی۔ یہاں مسجد وزیرخان اورسرائے وزیرخان اور وزیرخان حمام ہے۔ اکبری دروازہ محمد جلال الدین اکبر کےنام سےموسوم ہے۔یہاں ہر قسم کےغلہ کی منڈی ہے جواکبرمنڈی کہلاتی ہے۔ اب صرف منڈی رہ گئ ہے۔ موتی دروازہ جو کہ موچی دروازہ بھی کہلاتا ہے۔ یہ دروازہ جمعدار موتی رام کےنام سےموسوم ہے۔ موتی رام اکبر کے زمانےمیں اس دروازے کی حفاظت پر تعینات تھا۔ سکھوں کے عہد میں اسکا نام موچی دروازہ میں بدل گیا۔ اب صرف اسکی یادگار باقی ہے دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ عالمگیردروازہ ، اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے کے نام سے موسوم ہے۔ دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پرمغل حویلی ہے، لال خو اور سادہکرن مسجد محمد صالح ہے۔ اس پتلےبازارمیں دونوں طرف آتش بازی کا سامان فروخت ہوتا ۔ یہاں پرسوسال سےایک کباب اور ایک مٹھائ کی دوکان ہے جولاہوری اسٹائل میں کھانےاور مٹھائ بناتےہیں۔ لہاری دروازہ کام نام لاہور ی دروازہ ہے جو بگڑ کرلُہاری ہوگیا۔ محمودغزنوی نےاس جگہ راجہ جیپال سےجنگ جیتی۔ غزنوی نےشہر کوآگ لگادی اور رعایا کا قتل عام کیا۔ یہ شہر کچھ عرصے تک غیر آباد رہا۔ ملک ایاز کے زمانےمیں شہر کی نئ آبادی اسی محلہ سے ہوئ جس کولاہور منڈی کہتے ہیں۔ موری دروازہ لوہاری اور بھاٹی کے درمیاں فیصل برج کے نزدیک ہے۔ یہ بھی ملک ایاز سے موسوم ہے۔ پنجابی زبان میں موری اس بدررو کو کہتے ہیں جس میں سے پانی گہر کا نکلتا ہو کہتے ہیں۔ مشہور انارکلی کا بازار یہاں پر ہے چٹ خارا ہاوس میں لاہوری اسٹائیل کا کھانا ملتا ہے۔
پہاڑی دروازہ ، بہاٹ کی قوم سے موسوم ہے۔ سرکولر، راوئ روڈ ، لوارمال، موہنی روڈ، بلال گنج اور لوہارہ کی سڑکیں یہاں ملتی ہیں حضرت داتا گنج کا مزارقریب ہے۔ اس چوک پر کھانے پینے کی چیزوں کےاسٹال بھی ہیں ۔ ٹکسالی دروازہ کےاندر ایک زمانےمیں ایک سکہ بنا کرتا تھا۔ روشنائ دروازہ مسجد بادشائ اور قعلہ لاہور کےدرمیان ہے۔اس دروازہ کے اندرونی میدان اور باہر روشنی کی جاتی تھی، اسلئے یہ روشنائ دروازہ کہلایا۔ یہ قعلہ کا بھی دروازہ ہے۔ مستی دروازہ ایک شاہی ملازم کے نام سے مشہور ہے جس کا نام مستی بلوچ تھا۔اب یہ ایک چھوٹا گیٹ ہے۔کشمیری دروازہ کا رخ کشمیر کی طرف ہے ۔یہاں شاید کشمیری آباد کئےگے تھے۔ خضری دروازہ کےسامنےایک زمانے میں دریاے راوی تھا۔ اسلئےاس کودریا کی نزدیکی کی بنا پرخضری دروازہ کہاجاتا تھا۔ اب لوگ اس کوشیروں والا دروازہ کہتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کےزمانےمیں ہمشہ دوشیروں کے پنجرے رکھے ہوتے تھے۔ تیرواں ذکی دروازہ المعروف مکی یہ دروازہ پیرذکی شہید کےنام سےمشہور ہے

 

تفسیر

محفلین

"چوتھی منزل"۔ عدنان نےایک سات منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کیا۔
بلڈنگ ماڈرن اور خوبصورت تھی ۔
چوتھی منزل پرایک دروازے پر" رحیم یار ٹریڈر" کا بورڈ تھا۔ آفس کے سامنے والے کمرے میں ایک شخص نے ہمیں روک دیا۔
" کس سےملنا ہے"۔ اس نےریمشاں کی طرف دیکھتےہو ے کہا۔
" رحیم یار سے"۔ میں نے کہا۔
" یہاں انتظار کرو" ۔
تھوڑی دیر بعد ایک دروازے سےایک رحیم یار باہر آیا اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس نےدروازہ بند کردیا۔
" تمہاری بہن" ۔ وہ بولا
" ہاں" ۔ میں بولا۔
" نقاب اٹھاؤ"۔
ریمشاں نے اپنا نقاب اٹھادیا۔
" ٹھیک ہے ۔5 ہزار۔ ایک پیسہ بھی زیادہ نہیں"۔
"مجھےنازیہ نے تمہارا نام دیا تھا"۔ میں نے ہزار ہزار کے5 نوٹ میز پر رکھ دیئے۔ رحیم یار کا منہ کھلا رہ گیا۔ وہ مجھےحیرت سےدیکھ رہا تھا۔
" یہ لڑکی ایک شیخ کے لئے ہے۔ مجھےاس لڑکی کو دوبئ لےجانا ہے۔ کیا تم ٹرانسپورٹ کا انتظام کرسکتے ہو۔ ہم دونوں کے لئے "۔
رحیم یار بولا ۔ " دس ہزار ہوں گے دونوں کے"۔
میں نے ہزار کے10 نوٹ اور میز پر رکھ دیے۔

 
Top