حیوانوں کی بستی - کراچی - چھٹی قسط

تفسیر

محفلین

کراچی

ریمشاں اور دوسری لڑکیاں ایک اندھیری گلی میں کھڑی تھیں۔ ایک ادھیڑ عورت اور مرد ان کی نگرانی کررہے تھے ۔ایک لڑکی نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی اورادھیڑ عورت نےاتنی زور سےاس کے منہ پر چانٹا مارا کہ وہ سڑک پرگری۔اس کے بعد کسی لڑکی کی ہمت نہیں ہوئ کہ وہ کچھ کہتی۔گاڑی کےانجن کی آواز آئ اور ایک ٹرک گلی میں داخل ہوا۔ ٹرک کےرکتے ہی عورت نے لڑ کیوں کو ٹرک میں دھکیلنا شروع کردیا۔ ٹرک میں سب لڑکیوں کےلیے جگہ کم تھی۔ سب بدن سے بدن لگا کر کھڑی ہوگئیں۔ عورت نے چلا کر کہا اگر کسی نے تھوڑی سی آواز نکالی تو میں اسکا منہ توڑ دوں گی۔ اور ٹرک کا دروازہ بند کردیا۔
ریمشاں کو ٹرک کی اندرونی دیوار کے پاس جگہ ملی۔ اسکی پیٹھ کو دیوار کا سہارا تھا۔ دوسری لڑکیاں ایک دوسرے کےسہارے پر کھڑی تھیں۔ ٹرک کے دھیرے ہونےیا روکنےاور چلنےسےلڑکیاں ایک دوسرے پرگرتیں۔آخر کار ٹرک ایک مقررہ رفتار سےچلنےلگا۔وہ شاید بڑی شاہراہ پرتھے۔
گرمی کےمارے برا حال تھا۔ ٹرک میں کوئ کھڑکی نہیں تھی اور لڑکیاں پسینےمیں نچڑ رہی تھیں۔ سانس لینا دشوار تھا۔ یہاں ٹرک نےاُچھلنا شروع کیا۔ سڑک ناہموار تھی ۔ ٹرک کی دیواریں لکڑی کےتختےتھےاور ریمشاں ان کے درمیان سے باہر دیکھ سکتی تھی۔ پٹوکی اوراکارا کے شہرگزرتے ہوے ساہیوال آیا۔ ساہیوال سےخانیوال تک کی سڑک ٹھیک تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے۔ ٹرک شام میں ملتان پہنچا۔ وہ ایک مکان کےسامنے رکے۔ مکان کےاندر عورت کی نگرانی میں دو دو لڑکیوں کوجوڑے کی صورت میں رَفع حاجت کو جانےکی اجازت ملی۔ کھانے کے لیے ایک ملازم نے پتلی دال اور چاول لا کر رکھے ۔
عورت نےریمشاں کو اپنےساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دوسرے کمرے میں آفریدی بیٹھا تھا۔ اس نےمقامی ہالی ڈے ان کا کھانا ریمشاں کےسامنےرکھ دیا۔ ریمشاں کھانے پرٹوٹ پڑی اور ٹھنڈے پانی کےدوگلاس پی گئی۔آفریدی نے پوچھا ٹھیک ہو۔ ریمشاں نےسرہلایا۔ عورت نےریمشاں کوچلنے کا اشارا کیا۔

 

تفسیر

محفلین

ملتان سےلودھران تک سڑک ہموار تھی۔ خان بیلا، پی۔اس۔او پر ٹرک ڈرائیور نے پٹرول ڈلوایا۔اور رحیم یارخان کی طرف چلا۔ رحیم یارخان میں ٹرک نہیں رکا اور سندھ کی طرف مڑ گیا۔ یہاں سے سڑک کے دونوں طرف لمبےدرخت شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ گھوٹکی میں ایک مکان کے سامنے رکے۔ پھر وہی دال چاول۔ اس دفعہ ریمشاں کو دوسرے کمرے میں تلا ہوا گوشت اور سڑک کے کیفےسےلایا ہوا نان ملا۔ یہاں سب نےزمین پرسو کےرات گزاری۔ سکر کا نیا براج بہت خوبصورت ہے۔ سکر کے بعد سڑک کےساتھ ساتھ کھجوروں کےدرخت شروع ہوجاتے ہیں۔ میلوں تک پیلی کھجورں کےگچھےلٹکتے نظر آئے۔ سڑک کے کنارے گدھےگاڑیاں اور ٹریکٹر ٹرالیاں کھجوروں سےلددی چلی جارہی ہیں۔ کوٹ ڈیگی کا قلعہ سامنے سےگزرا ۔ہالےجی اور حیدرآباد سےگزرتے ہوے سڑک پھر ناہموار ہوگی ہے
ہالےجی اور حیدر آباد کے بعد کراچی تک کی سڑک اچھی ہے ۔ آخرسہراب کوتھ سامنے نظر آتا ہے۔اور پھرکراچی شروع ہوگیا۔
شاراع فیصل سےٹرک ایک پل پرمُڑا۔ پہلا اسٹاپ ناظم آباد تھا۔ 5 لڑکیوں کو یہاں اُتاردیا گیا۔ ایک بعدایک جگہ آئ۔ عائیشہ منزل، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، مچھر کالونی اورگلشن اقبال۔ ہراسٹاپ پر لڑکیاں کم ہوتی گئیں۔ آخرمیں ریمشاں رہ گی۔
"چلو اترو ، تمہارہ سفر ختم ہوا"۔ عورت نے کہا
عورت نے ریمشاں کو ٹرک سےدکھا دئے کراتارا۔ ریمشاں کو سمجھ نہیں آیا کہ عورت نےاس کو دکھا کیوں دیا۔ اس عورت کو آفریدی 5 ہزار روپے دئےتھے تاکہ وہ ریمشاں کی حفاظت کرے۔ اور کراچی پہنچنے پر بیچ لگزری ہوٹل پراتاردئے۔

 

تفسیر

محفلین

عورت نےایک بار ریمشاں کو زور سےدکھا دیا۔ ریمشاں زمین پرمنہ کے بل گری۔ اٹھ ، کھڑی ہو حرام زادی جاسوس۔ ریمشاں کے منہ سےخون نکل رہا تھا۔ اس نےاپنی قمیض سےخون پوچھا اوراس سے پہلے کہ عورت ایک اوردکھادیتی وہ اس گھر کی طرف چل پڑی جس کی طرف عورت نےاشارہ کیا تھا۔
کمرے میں چار آدمی تھے۔
" یہ ہے وہ حرام زادی"۔ عورت نے کہا۔
" کیا اِسکا پولیس سےتعلق ہے"۔ ایک عمر رسیدہ آدمی جو تسبی پڑھ رہا تھااس نےعورت سےسوال کیا۔
" ہاں ، بیج دو سالی کو"۔عورت نےزہریلےلہجے میں کہا ۔
" ہم اسے زیادہ دن یہاں نہیں رکھ سکتے"۔ عمر رسیدہ آدمی بولا
ایک آدمی جو تینوں میں کم عمر تھا۔وہ ریمشاں کے قریب آیا اور اسکے اردگرد گھومااور پھراس نےاپنا ہاتھ ریمشاں کےسینہ پر پھرا اوراسکی چھاتیوں کواپنےدونوں ہاتوں سےدبایا۔
ریمشاں نےاس کوچانٹا مارا۔ عورت نےفورا ریمشاں کے ہاتھ پکڑ لیا اوران کومروڑا۔ ریمشاں دوہری ہوگی۔ آدمی نےاسکےدونوں کولھو کو اپنےہاتھوں سےمحسوس کیا۔
ریمشاں نے پیچھےلات مارنے کوشش کی اور وہ منہ کےبل گری۔ اسکی ناک سےخون بہنے لگا۔
" مجھ سے سودا کرلو۔ 8 ہزار “۔ نوجوان نےبولی لگائ
" 9 ہزار " دوسرا آدمی بولا۔
" کم عمر آدمی خاموش رہا "۔
" 10ہزار " تیسرا آدمی بولا۔
" 12 ہزار۔ چھاتی اور کولھے بہت چھوٹے ہیں۔ میں اس سے زیادہ نہیں دے سکتا اوراگر یہ پولیس والی ہے تو وہ اس کےلئےضرورآئیں گے۔ میں ایک دن میں اسےدوبئی بھیج دوں گا" نوجوان نے کہا۔
" تم میں سے کوئ بولی بڑھاناچاہتا ہے"۔ عمررسیدہ شخص نےدوسروں سے پوچھا۔
" میں بڑے نیلام انتطار کروں گا۔ مجھے12 یا 13 سال سے کم کی بنگالن چاہیے۔ ایک مرد نے کہا
" مجھے تھائ لڑکی چاہیے 10سا ل سے کم کی”۔ دوسرا بولا۔
" ٹھیک ہے۔ یہ تمہاری ہے مگرتم اس کوجلد سے جلد کراچی سےنکالو" عمر رسیدہ آدمی نےتسبی پراُ نگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔
" ایک رات کے لیےاسے مجھےدے دو۔ ایک ہزار دوں گا "۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا
" نہیں ، شیخ کنواری پسند کرتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے ۔ میرا لگایا پیسہ ذائع ہوجائے گا "۔ نوجوان نے کہا۔
نوجوان نے اپنا بٹوہ کھول کر12 ہزارگننےاور عمر رسیدہ شخص کےسامنےرکھ دیے۔
اس نےریمشاں کو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ ریمشاں نےلڑنے کی کوشش کی ۔
نوجوان نےعمر رسیدہ شخص سےرخصت چاہی اور ریمشاں کو دروازے کی طرف دکھیلا۔
ریمشاں نےسٹرک پرچلانے کی کوشش کی۔ نوجوان نےاسکا منہ بند کرکےاس کومسافر کی طرف سےکار میں دھکیل کردروازہ لاک کردیا۔
جب نوجوان گاڑی میں داخل ہوا تو ریمشاں نےاس پر حملہ کردیا۔
" میں تمھارا ساتھی ہوں۔ کراچی پولیس۔ اسپیشل برانچ "۔ نوجوان چلایا۔
" مجھےمیرے بھائ کے پاس لےچلو"۔ ریمشاں چلائ۔
" تمہارا بھائ۔ کیا مطلب تم لاہور کی خفیہ پولیس نہیں ہو؟ " نوجوان سٹپٹا گیا۔
" میرے ڈیپارٹمنٹ کے پیسے" ۔ نوجوان نےغصہ سے کہا۔
" میرا بھائ۔ تم کو دگنے پیسے دئے گا" ۔
" تمہارا بھائ کہاں ہے"۔
ریمشاں نے اسےاپنے بھیا کا موبل نمبر دیا۔
 

تفسیر

محفلین

پولیس افسر نعمان ، آفریدی، میں اور ریمشاں ہوٹل بیچ لگزری کے لان میں بیٹھے تھے۔ ریمشاں سےمیں پوری بات سن چکا تھا۔ اور جس عورت پر ہم نے بھروسہ کیا تھا اسں نے ہمیں دھوکا دئےدیا تھا،
میں نےنعمان کواس کے پیسے لوٹا دیے اور اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
" ایک مسئلہ ہے"۔ نعمان نے کہا۔
میں نے نعمان کی طرف دیکھا۔
" اگرمیں آپ کی بہن کو واپس نہیں لےجاتا اور دوبئ نہیں پہنچاتا تو میں ان انسانوں کےتاجروں کو مکمل طور ہرپکڑسکتا۔ وہ سمجھ جائیں کہ میں بھڑوا نہیں ہوں اورہم دونوں خفیہ پولیس سے تھے۔ اگرمیں مقامی گروپ کوگرفتار کرلوں تو پورا رینگ نہیں ٹوٹےگا"۔ نعمان نے کہا۔
" تم کہنا کیا چاہتے ہو؟۔" میں نے پوچھا۔
" اگرمیں ریمشاں کواس وقت تک اپنے ساتھ تک رکھنا چاھتا ہوں جب تک کہ مجھےانکے دوبئی کےمکمل رابطےکا پتہ چل جائیں۔ میں ایک پولس افسر کی حیثت سےریمشاں کی پوری حفاظت کا وعدہ کرتا ہوں"۔
" نہیں۔ ریمشاں کےلئےیہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ بھول جاؤ"۔
" دیکھو ریمشاں میں نےتم کو بےعزتی ، بےحرمتی اورایک ظوائف کی زندگی سےبچایا۔ کیا تم نہیں چاہوگی کہ ان لوگوں کا رینگ ٹوٹےاور وہ سب گرفتار ہوں''۔ نعمان نےریمشاں سےسوال کیا۔
" ہاں ، مگر بھائ جان کی مرضی کےبغیرنہیں "۔
نعمان نے میری طرف دیکھا۔
" میرا جواب اب بھی نہیں ہے"۔ میں نے کہا۔
اس سے پہلے کے میں یا آفریدی داخل انداز ہوتےنعمان نے پھرتی سے ریمشاں کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دی اوراپنی پستول نکال کر کہا کہ ریمشاں ایک سرکاری گواہ ہے اوراس وقت تک پولیس کی خفاظت میں رہ گی جب تک یہ کیس عدالت میں نہیں جاتا۔ پھراس نےاپنےموبیل فون میں کہا۔ مجھے فورا بیچ لگژری پر بیک آپ چاہیے۔
" بھائ۔گھبرائیں نہیں۔ اگر اسے اپنے کیس کی مجھ سے زیادہ پرواہ ہوتی تو یہ مجھےآپ کے پاس نہیں لاتا۔ آپ اس کی بات توسن لیں" ریمشاں نے کہا۔
نعمان نے بتانا شروع کیا۔ ہمیں پتہ کے کس طریقہ سےلڑکیوں کو بنگلہ دیش ، ایران ، افعانستان ، چائینا ، تھائ لینڈ اور برما سے حاصل کرے اسمگلر پاکستان کی سرحد پار کرتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کراچی بیرون دنیا کے لئے انسانوں کی تجارت کا اڈا ہے۔ لیکن ہمیں دوبئی لنک کی مکمل معلومات نہیں ۔ ہم چھوٹی مرغی نہیں پکڑنا چاہتے ہم سور پکڑنا چاہتےہیں۔ ہم پانی کے راستوں ، کشیتوں اوران کےمالکوں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ ان کوگرفتار کر کےاس رینگ کو ٹوڑا جائے۔ ملک سے باہرہم انٹر پول ایجنسی اور دوبئ کی خفیہ پولیس کے ساتھ کام کررہے ہیں۔میں ایک سال سےاس پرخفیہ کام کررہا ہوں۔ یہ میرے لئے ایک بہترین موقع ہوگا۔
" ریمشاں کو جانے دو ۔ میں کل جواب دوں گا"۔ میں نے کہا۔
" میں ریمشاں کوصرف دوگھنٹےسےجانتا ہوں لیکن مجھےاس کا جواب پتہ ہے وہ آج بھی ہاں ہے اور کل بھی ہاں ہوگا۔اگر اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئ خاص وجہ نہ ہواورایک سولہ سال کی لڑکی اپنے آپ کواس خطرناک صورت حال میں نہیں ڈالتی۔ اور تم، تم میری تحقیقات کرنا چاہتے۔ ہم کل ملیں گے "۔نعمان نے ہنس کر کہا۔
نعمان نے ریمشاں کی ہتھکڑیاں نکال دیں۔

 
Top