حیوانوں کی بستی - قندھار - تیسری قسط

تفسیر

محفلین

افغانستان جانے کے لئےسرحد دو جگہ سے کراس کی جاسکتی ہے۔ ایک راستہ تُرخم پردُرہ خیبر سے ہے جو پشاور کو افغانستان کےشہر جلال آباد سےملاتا ہے - دوسرا بلوچستان میں کوئٹہ چمن سے ہے جو کوئٹہ کو افغانستان میں قندھارسےملاتا ہے۔ قندھار جانے کا قریبی راستہ کوئٹہ کی سڑک کےذریعہ ہے۔ اس ٢٠٠ میل کے سفر کے لیے ایک ٹوٹی اورگھڑوں سے بھری ہوی دو طرفہ سڑک ہے۔ راستہ نہ صرف دشوار ہے بلکہ رات کا سفر خطرناک بھی ہے۔ رات کولٹیرے اور ڈاکو اس پر حکومت کرتے ہیں۔
ہمیں سفر کےلیےضروری کاغذات بھی لینے تھے۔ قبائلی علاقہ میں سفر کےلئے“ نوابجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ہوتا ہے۔

بس کی سرویس بند تھی لہذا ایک منی وین اور ایک نوجوان ڈرایئور کو نوکر کیا۔ ہم نےیہ فیصلہ کیا کہ ریمشاں اور میں شوہراور بیوی کی حیثیت سےسفر کریں گے۔ آفریدی اورخٹک بھی اس وین میں ہوں گے۔ وہ اجنبیوں کیطرح ہمارے ساتھ سفر کریں گے۔ رات کاسفردیادہ خطرناک ہے لہذا ہم نےدوسری صبح کو نکلنے کا منصوبہ بنایا-
کوئٹہ اپنےدُرہ بولان کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ درہ کوئٹہ اورقندھار کو ملا تا ہے۔ شہر کا بڑا بازار جناح روڈ پرواقع ہے۔ دوسرے بازار قنداری، لیاقت اورسورج گنج ہیں۔ ہم نےدوپہر میں ساج کھائی۔ ساج، دنبہ کا روسٹ کیا ہوا گوشت ہوتاہے اور کوئٹہ میں بہت شوق سے کھایاجاتا ہے۔ کوئٹہ کی کباب کی دوکانیں بھی بہت مشہور ہیں۔
مشرق میں دس کلومیٹر پرایک خوبصورت جھیل ہے جس کا نام حنّا ہے۔ ریمشاں پیڈل بوٹ میں بیٹھ کر بہت خوش ہوئی۔

 

تفسیر

محفلین


٥٠ کیلومیڑ ہر خوبصورت وادیِ پِشین ہے جہاں پہاڑوں میں سوراخ کرکےانگوری باغوں کے لئے پانی حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں سیب، انگور، آلو بخارہ، آڑو اورخوبانی کی پیداوار ہوتی ہے۔ جھیل سےشام کو واپس آ کرہم نے کیفے بلدیہ میں مقامی بکرے کےگوشت سے تیار کیا ہوابہترین پُلاؤ کھایا۔

سورج کی پہلی کرن سے پہلے ہم لوگ منی وین میں سوارتھے - تھوڑ١ فاصلہ تہہ کرنے کے بعد شہر کی گہماگہمی اور کھچا کھچ ختم ہوگی لیکن سڑک مصروف رہی۔ کار، ٹرک، بائسکل، رکشا ، گدھاگاڑیاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہماری وین ہندو کش پرچڑھ رہی تھی۔ ہندوکش کا شمار پاکستان کےاونچے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک مقام ہراسکی اونچائی ٢٥ ہزار فیٹ سے زیادہ ہے۔ ہماری سڑک سانپ کیطرح قدم قدم پر بل کھاری ہے۔ اور یہ لگاتاہےکہ بس کےڈرایئور کی ایک غلطی اورہم اللہ سے باتیں کررہے ہونگے۔

اچانک ہمیں ہرطرف خیمے ہی خیمےنظر آتے ہیں۔ یہ سرحدی شہراسپن بلڈوک ہے۔ اسکےاردگرد میلوں تک خیموں کا شہرآباد ہے۔ افغانستان کے ہزاروں مہاجرخاندان ان خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ریمشان اُداس ہوگی۔ یہاں پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں -

سڑک جو اب تک پکی تھی۔ یہاں سےگڑھوں کا ایک مجموع بن گی ہے۔ ہرقدم پر ہماری منی وین اُچھل رہی ہے اور ہمارا سر اُسکی چھت سےٹکرا رہاہے۔ دھول اُڑ رہی ہے اور درجہ حرارت ١٢٠ ڈگری ہے۔ سڑک کےدونوں طرف ہر قسم کی گاڑیوں کے ڈھانچےنظر آتے ہیں جو ہمیں حطرناک روڈ اور ایکسیڈینٹ کا احساس دِلاتے ہیں-

تین بجےہم قندھار کےاطراف میں تھے۔ ریمشاں بہت خوش تھی ۔ وہ مجھے اپنا شہردیکھانا چاہتی تھی۔ ہم نےاس کےگھر کی طرف جانے کےلئےلمبا راستہ لیا۔

کابل کےبعد قندھار افغانستان کا بڑا شہر ہے ۔ اسکی آبادی ٢٥٠ ہزار ہوگی۔ یہ دنبہ، اُون، کاٹن، غذا، اناج ، تمباکو، تازہ اورخشک پھلوں کی تجارت کا مرکز ہے۔ اسکا انٹرنیشل ائرپورٹ اسکو کابل، حیرات، کوئٹہ اور روس کے پرانی مملکتوں سےملاتا ہے -
٤ صدی ب س میں الکیزینڈردی گریٹ قندھار آیا۔ہندوستان اور ایران میں اس کی ملکیت پر جنگیں ہوئیں کیونکہ قندھار وسط ایشیا کے تجارتی راستہ پر ہے۔ ٧ صدی میں عربوں نے قندھار کو فتح کرلیا۔ ١٠ صدی میں ترکی کےغزنووں نےاس پر حکمرانی کی۔ ١٢ صدی میں چنگیزخان نےاس شہر کو تباہ کردیا۔١٤ صدی میں ایران کے تِیمُور نے منگولوں کو شکست دی - ١٦ صدی میں بابر نےقندھار کومُغل سلطنت میں شامل کرلیا۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں قندھار میں پیدا ہوئ تھی۔ نیا قندھار احمد شاہ بابا دُرانی نے بسایا۔ قندھار ١٧٤٨ سے١٧٧٣ تک افغانستان کا دارلسلطنت تھا۔ ا حمدشاہ بابا دُرانی موجودہ افغانستان کا بانی تھا۔ اسکا لقب دارِدُرانی ( موتیوں کا موتی ) تھا یہ لقب اسکو اس افغانستان کے روحانی بزرگ پیرصابرشاہ نےدیا۔ احمد شاہ دُرانی نے ١٧٤٧ سے لیکر١٧٧٢ تک بادشاہت کی۔ احمد شاہ دُرانی نے نیا قندھار ایک چوکونے کی طرح بنایا۔ چرسق چوک شہر کے درمیان میں ہے۔ جہاں چارخاص بازار ملتے ہیں۔ کابل بازار پرجامع موی مبارک ہے۔یہ مسجد جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول صلم کے بال اس مسجد میں موجود ہیں۔ دوسرے طرف حیرت بازار مشرق کیطرف جاکر شہیدان چوک پر ختم ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک توپ اور یادگار بنی ہے
 

تفسیر

محفلین


ہم نےآفریدی اور خٹک کوشاہدان چوک پراتاردیا وہ دونوں نورجہاں ہوٹل میں ٹھہریں گے۔

ریمشاں نے ڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا ۔
“ یہ شاہ بازار ہے۔ یہاں قندھار کی سب سے خوبصورت بلڈنگ ہے، یہ ہمارے جدید افغانستان کے بانی کا مقبرہ ہے۔اس کے اٹھ کونے کتنےاچھے لگتے ہیں۔“

“بھائ جان یہ دیکھئے اس درگاہ شریف زیارت میں حضور صلم کاایک لبادہ ہے جو کہ بخارہ کےامیر نے بابا دُرانی کو تحفہ میں دیا تھا۔“
“ کیا اُسے عام لوگ دیکھ سکتے ہیں۔“ میں نے پوچھا -
“ نہیں بھائ جان۔ میں نے نانی سے سنا تھا کے کہ انہوں نے٢٠ سال کی عمر میں اس کو دیکھا تھا۔ اب محافظوں کےعلاوہ اس کو دیکھنے کا اعجاز صرف طالبان کے مُلا عمرکو ملا تھا“
“ چلیں چیہلزنہ دیکھیں “
“وہ کیا ہے؟ “ -
وہ ایک غار ہے جو چالیس سیٹرھیوں کی اونچائ پر ہے۔ وہاں سے آپ سارے شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔“
“ وہ کہاں ہے؟“
“ ہم اب شہیدان چوک پرہیں - وہ مشرق میں چار کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سیڑھیاں چٹانوں کو کاٹ کربنائی گی ہیں “۔
“ دیکھے بھائ کتنا پیارا نظارہ ہے نا“
“ اب میں آپ کو قبرستان لےچلتی ہوں“ ۔ اس نےڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا۔
“ وہ کیوں؟“
“ یہاں میرے مجاہدین دفن ہیں - جن پر مجھ کو فخراور ناز ہے“ ۔ ریمشاں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
“ یہاں طالبان اور القاعدہ کےممبر دفن ہیں۔ یہاں ایک عورت اور 80 غیرملکی مرد دفن ہیں جنہوں نے قندھار کےائر پورٹ اور اسپتال کونارتھ الائنس اور امریکوں کے قبضہ سے بچانے کے لئے جان دے دی“۔

“ بھائ آپکو پتہ ہے۔ انہیں موقع تھا کہ چلے جاتےاور انہیں پتہ تھا کہ ٹھہرے توموت لازمی ہے وہ جمےرہے اوراپنی جان دے دی“ ۔
“ مجھے پتہ ہے میں یہاں تھی“ ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
میں نے اپنےرومال سےاسکی بھیگی آنکھیں صاف کیں۔
“ نانی کہتی تھیں اس قبرستان کی راکھ میں شفا ہے“ ۔ ریمشاں نے جھک کرتھوڑی مٹی اٹھائی اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی۔
“ اب ہم میرےگھرچلتے ہیں۔“ اُس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔

 

تفسیر

محفلین


ریمشاں نے مجھے جھنجوڑیاں دے رہی تھی۔
“بھائی جان ناشتہ کا وقت ہو گیا “ ۔
میں جاگ گیا۔
“ میں آپ کے لئے بازارسےناشتہ لائی ہوں ۔“
میں نے باہر جاکر بہتے پانی میں منہ دھویا اور کُلی کی۔
ناشتہ کےبعد ہم دیوڑھی میں آئے۔ ریمشاں ٹوٹی ہوئی جھولا کرسی میں بیٹھ گی۔
“ یہ میری نانی کی کرسی ہے۔“ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔
“ اور میں یہاںان کے پیروں کے پاس بیٹھتی تھی۔“
میں نے اس کےطرزِکلام میں تبدیلی محسوس کی ۔ جیسےوہ ٹرانس میں ہو۔ اسکی آواز بدل گئی۔
“ ریمی بیٹا ، میرے کو سردی لگ رہی ہے۔ میری ٹانگوں ہرچادرڈال دو“
“ جی نانی جی میں ابھی لائی“ ۔
“ میں بہت بوڑھی ہوں اور میں شاید جلد ہی اللہ کوپیاری ہوجاؤں - میں آج تمہاری ماں کی کہانی تمہیں سنناتی ہوں“ ۔
“ مجھے محسوس ہوا کہ یہ ریمی نہیں ہے“ ۔

. ٭٭٭
" تم بلکل ویسی ہی لگتی ہو جیسی تمہاری ماں تھی جب وہ بارہ سال کی تھی وہ بھی ان باغوں میں اپنی سہیلی جویریہ کے ساتھ تمہاری طرح سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی تھی - وہ دیکھو وہ جویریہ کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ دونوں بہت ہی اچھی دوست ہیں ۔ جویریہ کےگھر کی دیوارہمارے گھر سےملتی ہے۔ یہ دیکھو یہ درمیانی دیوار میں سوراخ ہے۔ یہ تمہاری ماں اور جویریہ نے بنایا ہے - رات ہوگی ہے جویریہ کے ابا سوگے ہیں ۔ وہ سوراخ کے ذریعہ ہماری طرف آجاتی ہے اور وہ دونوں ایک بستر میں لیٹ کر گھنٹوں باتیں کررہی ہیں۔ جویریہ کی ماں اورمجھے پتہ ہے مگر ہم نےان کےاباؤں کو نہیں بتائیں گے۔
وہ دیکھو وہ جویریہ کا بڑا بھائی حسن ہے ۔ وہ عمر میں کافی بڑا ہے۔ اس نے پشاور دیکھا ہے۔ وہ میری بیٹی اور اپنی بہن کو پشاور کے قصےسنارہا ہے۔ انہیں شہر کی باتیں سننا کر سُہانے خواب دیکھلاتا ہے۔ مجھے یہ لڑکا بلکل پسند نہیں۔ مگرجویریہ کو اس کے قصوں کو سننےمیں مزا آتا ہے “ ۔
“آج میری بیٹی اسکول سے واپس نہیں آی - بہت ڈھونڈا مگر اسکا نشان نہیں ملا۔ حسن کا بھی پتہ نہیں تھا۔“
آج میری بیٹی کا خط آیا ہے۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہے؟ -
دیکھو ریمی بیٹا ، میں نے یہ سب خط تمہارے لئے سنھبال کر رکھے ہیں۔
وہ مجھےاب خط کیوں نہیں لکھتی ۔
آج میری بیٹی لوٹ کرگھر آگی - مگرتواتنی بیمار کیوں ہے؟
یہ کون ہے؟ یہ تو میری پوتی ہے۔ بیٹی تم مجھ کو دو سال کی لگتی ہو۔


نانی ، وہ میری ماں کو زمین میں کیوں چھپا رہے ہیں ؟“
ریمی کپکپا رہی تھی۔ میں نے سفری تھیلے سےکمبل نکال کر اس پر پھیلا دیا۔
جب میں اردگرد دیکھ کر واپس لوٹا تو وہ جاگ گی تھی اور مکان سے دور بیٹھی تھی۔ مجھےدیکھ کر وہ میری طرف دوڑی۔
“بھائی جان۔ آپ مجھے اکیلاچھوڑ گے۔ اب کبھی ایسا نہ کرین۔ وعدہ کریں“
“ میں وعدہ کرتا ہوں ۔ کیوں کیا ہوا“۔
“مجھےلگا ہے کہ ماں اور نانی کی روحیں گھراندر ہیں۔
“ تم ُان سے ڈرتی کیوں ہو۔ وہ تو تمہاری ماں اور نانی ہیں“-
“ نہیں میری ماں اور نانی مرچکی ہیں“ اس نے مصومیت سے کہا۔
“اچھا - بتاو تمہاری نانی کا انتقال کب ہوا۔“
“ جس رات انہوں نے مجھے ماں کےخط دیئے۔ میں نے ان کو صبح اس جھولا کرسی پر مرا پایا“۔
“ تمہارے یہاں کوئی رشتہ دار ہیں “
“نہیں - نانی کہتی تھیں کہ سب لڑایئوں اور بم باریوں میں مرگئے۔“
“ اور تم نے نانی کی موت کے بعد کیا کیا“۔
“ میں ایک قافلے کے ساتھ پاکستان چلی گئی“
“بھائی جان “
“کیا؟“
“واپس چلیں مجھے یہاں ڈر لگتا ہے۔“

 
Top