حیوانوں کی بستی - سفر - آٹھویں قسط

تفسیر

محفلین

سفر
ماں ۔ میں ایک20 فٹ کےٹین کے ڈبےمیں بند ہوں ۔ دسیوں میری ہم عمر لڑکیاں اس ڈبہ میں بغیرآواز رورہی ہیں دھوپ سےچھت تپ رہی ہے۔ ہم سب پسینےشرابور ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ باہر پہرا ہے اور اگر ہم نےکوئی آوازیں نکالیں تووہ ہمیں جان سےمار دیں گے۔
 

تفسیر

محفلین

ریمشاں نےچھ انچ کی جالی میں سےکنٹینر کے باہردیکھا۔ وہ سب سےاوپر والے بسترے پرتھی۔ ریمشاں سامان اٹھانےوالی بڑی بڑی کرینوں کو بندرگاہ پردیکھ سکتی تھی۔ اور کچھ دورسمندر کا پانی سورج کی کرنوں سےجھلملارہاتھا۔ اسکی شلواراورقمیض پسینےمیں بھیگ کراسکےجسم سی چپک گی تھیں۔ ایسا لگتا تھاجیسےاس نے کپڑے پہنےغسل کیا ہو۔ وہ بالکل ننگی لگ رہی تھی۔ رات ہونےمیں چارگھنٹےاور باقی تھےجوانہیں اس ڈبےمیں گزارنےہوں گے۔ یہ صرف اس کو پتہ تھا۔
نعمان نےاس کو بتایا تھا کہ کراچی سے بلوچستان کا سفر مکران کوسٹل ہائی وے این10 پر ہوگا - کراچی سےگوادہرکی بندرگاہ کا سفر بارہ گھنٹے کا ہے۔ لڑکیوں لاریوں کے ذریع گوادہر کی بندرگاہ پر لےجایا جائےگا اور وہاں ان کوایک کنٹینر میں مقفل کردیا جائےگا۔ رات کےاندھیرے میں کرین اس کنٹینر کو پانی کے ایک جہاز پرلاد دےگی۔اوردوبئی کا سفرشروع ہوگا۔ دو دن کے بعد جہاز پورٹ راشد پر پہنچ جائے گے۔ نعمان نے کہا تھا کہ وہ اس سےدور نہیں ہوگا۔
کنٹینر میں اس کوملا کر40 لڑکیاں تھیں۔ کنٹینر میں دس قطاریں تھیں۔ ہرقطارمیں ایک بنک بیڈ تھا۔ ہر بنک بیڈ پرچار بستر، چار منزل کا بسترخانہ بنا رہے تھے۔ بستر دو دو فٹ چوڑے ، دو فٹ اونچےاور ساڑھے پانچ فٹ لمبے تھےاس کا اندازہ ریمشاں نےاپنےقد سے لگایا۔ ہر بستر کےسرہانےایک چھ انچ کا سوراخ تھا۔ جس پر لوہے کی جالی تھی۔ اس جالی سے ہوا اور کچھ روشنی کنٹینر میں داخل ہورہی تھی۔
ریمشاں نے کھڑکی کے باہر دیکھا سورج نےمغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا۔سورج ایک نارنگی بن گیا۔ اور اسس رنگ نے بادلوں میں قوس و قزح کا ایک سماں پیدا کردیا ۔ ریمشان نے اندازہ کیا کہ باہرکا درجہ حرارت اب کم ہوگیا ہے ۔ لیکن ڈبہ کی گرمی میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔
ریشماں صرف اوپری منزل کے بستر دیکھ سکتی تھی۔ وقت گرازنےکے لئےریمشاں نےان لڑکیوں کی شہریت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اس کےدائیں طرف چارلڑکیوں کے بسترتھے اور بائیں جانب پانچ ۔وہ سب مختلف ملکوں سےتعلق رکھتی تھیں- سفید رنگ والی شاید ایران ، افغانستان ، یا صوبہ سرحداور کالے رنگ والی بنگلہ دیش، ہندوستاں اور پاکستان سے ہونگی۔ اسےذیادہ ملکوں اوران کےجغرافیہ کی علمیت نہیں تھی۔ گرمی اور حبس میں کچھ کمی ہونے لگی ۔ باہراندھیرا ہوگیا تھا۔
ریمشاں کو اپنی ماں یاد آئی۔ میری ماں یہاں تھی۔ یہ لڑکیاں اسکی ماں کی طرح ہیں۔ جنہیں کچھ نہیں پتہ ھے کہ وہ کہاں ہیں ، کیوں ہیں اور کہاں لیےجائےجارہی ہیں؟ اس نےاپنی ماں کی بے بسی اور بے چینی محسوس کی۔ ریمشاں نے ایک سبکی لی اور اسکی آنکھوں سےآنسو بہنے لگے۔ ماں، ماں اس نے کہنے کی کوشش کی۔ میں تمہارے پاس ہوں نا ، ماں ۔ تم اب مت ڈرو ۔ میں تمھارے پاس ہوں ماں ۔ اور وہ زارقطار رونےلگی۔
اچانک کنٹینر ہلا اور جھولنا شروع کردیا۔ لڑکیوں نے بستروں کو مضبوطی سے پکڑا۔ مگرخود کو لوٹ پوٹ سے روکنا نا ممکن تھا۔ ریمشاں نے آنسووں کو پوچھ کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ کرین ، کنٹینر کو ایک اونچائی پر لے آئی تھی۔ اوراب جہاز کی طرف لیےجارہی تھی۔ لڑکیاں اب کھڑکی کے باہردیکھ کرخوف میں بستروں سے چپکی تھیں ۔ تھوڑی سی دیرمیں کرین نے کنٹینر کوجہاز کے ڈیک پررکھ دیا۔
کنٹینر نےجیسے پانی کئ جہاز کے ڈیک کو چھوآ جہاز نےچلنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندرگاہ سےدور تھے۔ ریمشاں نےمڑ کردیکھا اور بلندآوازمیں کہا
" الوعدہ میرے خدا۔اب ہم تیری ملکیت سے باہرہیں۔ ہم تجھےتیری ذمہ دار سے بری کرتے ہیں ۔ اب توہمارا خدا نہیں ہے ۔یہاں سےحیوانوں کی بستی شروع ہوتی ہے۔ یہاں ہمارے خدا دوسرے ہیں"۔

 

تفسیر

محفلین

دروازہ کھول کرایک مرد نےچلا کرسب کو باہر آنے کا کہا۔ ریمشاں نےدیکھا کہ اس سے پہلے نکلنے والی لڑکیاں ایک مرد کے پیچھےایک کھلےدروازے کی طرف جارہی تھیں۔ اس نےبھی ان کے پیچھےچلنا شروع کردیا اوردروازے میں میں داخل ہوگئی وہ ایک چبوترہ پرتھی اور اس کے سامنےایک منزل نیچےایک کھلی ھوئی جگہ تھی۔ لڑکیاں سڑھیاں اتررہی تھیں ۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کمرے میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئ ۔ ریمشاں نے بڑی مشکل سےمتلی کو روکا۔ جب آخری لڑکی سیڑھی اترچکی۔ مردوں نےدروازہ بند کردیا۔
ریمشاں نے ایک مدھم بلب کی روشنی کمرے کا جائزہ لیا ۔ وہ تقریبا سوفٹ لمبےاور بیس فٹ چوڑے کمرے میں تھے۔ اس کےدائیں طرف کمرے کے آخر میں ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ یہ پاخانہ کرنے کی جگہ ہوگی۔اس سے پہلے کہ کسی اور لڑکی کواس کاخیال آتا۔ ریمشاں کمرے کی طرف بڑھی ۔ جیسے جیسے وہ کمرے کے قریب آتی گئی بدبو میں اضافہ ہوتا گیا۔اس نے دروازے کا پردا اٹھا کردیکھا اسکا خیال صحیح تھا۔ ریمشاں اندر داخل ہوئی اور اپنے کوکر رَفع حاجت سےفارغ کیا۔ یہاں ایک ٹوٹا ہوا پانی کا نلکا تھا مگرلوٹا نہیں۔ اس نےاپنےڈوپتے سے کےکنارے سے تین ٹکڑے پھاڑے ایک ٹکڑے سے اپنےآپ کو پُونچھا اور پھر پہلےدوسرا ٹکڑا کو پانی میں گیلا کر کر کے اپنے آپ کو صاف کیا اور تیسرے سے سکھایا۔ ٹوکری اوپر تک بھری تھی۔ ریمشاں نے ڈوپٹے کےگندے ٹکڑوں کو ٹوکری کے اُ بھرتے ہوئے ڈھیر پر ڈال دیا۔
جب ریمشاں باہرنکلی تو پاخانہ کے سامنے ایک لائن بن چکی تھی ۔ پاخانے کےسیدھےہاتھ پر کمبلوں کا ایک ڈھیرتھا ۔ ریمشاں نےلپک کرتین کمبل اٹھا لیےاور کمرے کےاس کونے کا رخ کیا جو پاخانےاورسیٹرھیوں سے بہت دورتھا۔ یکے بعددیگر ے دو لڑکیوں نےاس کی طرف رخ کیا۔
وہ ریمشاں کر قریب آ کر رک گئیں ۔ایک نے اپنا کمبل ریمشاں کر دائیں طرف اور دوسری نے ریمشاں کر بائیں طرف لگا دیا۔ ریمشاں کو ان کا بدن دیکھ کر ایسا لگا جیسے کےوہ دونوں وردیش کرتی ہوں ۔
ریمشاں کی نیند پکی نہیں لگی ۔ تھوڑی تھوڑی دیرمیں اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اس نےکسی کے چلانے اور رونے کی آواز سننی اور مردوں کےڈانٹنے کی اور تھپڑ مارنے کی۔ اس نےگھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھا۔ چار، یا پانچ مرد لڑکیوں سے زبردستی زنا کررہے تھے۔ وہ کیا کرسکتی تھی۔ کچھ بھی نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نےسیٹرھیوں سےدور جگہ کا انتخاب کیاتھا۔ تھوڑی دیر میں ہنگامہ ختم ہوگیا اورمرد جاچکےتھے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے پھرچلانےاور رونے کی ڈانٹنے اور تھپڑ مارنے کی آوازیں سننی۔ یہ سلسلہ رات پر جاری رہا۔اور ریمشاں کانپتی رہی۔ شاید یہ ڈر تھا یا سردی یا دونوں۔

 

تفسیر

محفلین

صبح دروزہ کھلا اورسورج کی روشنی نے کمرے کوچمکا دیا۔ ایک مرد نےاندر آ کر کچھ لڑکیوں کواس کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔ لڑکیاں ہچکچائیں۔ مرد نےغصہ سےایک کےچانٹا مارا دوسری کے پیٹ میں لات ماری اور تیسری کے بال پکڑ کرسیڑھی کی طرف کھینچا۔ تینوں لڑکیاں روتی ہوئی اس کے پیچھے چلیں دئیں۔ کمرے میں ایک افسردگی چھاگئی۔ شاید ہرلڑکی اپنے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کے ساتہ کیا ہوگا۔
ایک گھنٹہ بعد ریمشاں نےان تین لڑکیوں کو واپس آتےدیکھا۔ ان کےہاتوں میں بالٹیاں تھیں۔ اور دو مردوں کےہاتھوں میں کاغذ کی پلیٹیں اور پلاسٹک کےچمچےاور پانی کی بالٹیاں۔ تینوں لڑکیوں کےسامنےقطاریں بن گئیں۔
دو دن کےبھوکی پیاسی لڑکیوں کےلیے یہ دلیا اورایک نعمت تھی ۔ ریمشاں نے اپنا حصہ وصول کیا اور اپنے کونے میں واپس آکر بیٹھ گئی اور دلیا کھانے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری ماں نے بھی اس قسم کے جہاز میں سفر کیا ہوگا۔ مگر وہ تو مجھ سے زیادہ معصوم ہوگی۔ پچیس سال پہلے تواس کو کچھ بھی نہیں پتہ ہوگا۔ مجھےتوتھوڑا بہت پتہ ہے کہ مجھے کہاں لےجایا جارہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے ۔
کیا کسی نے ماں کو تھپڑ مارا ہوگا یا کسی نےاس کے بال کھینچے ہونگے؟
کیا کیسی نے اس کے پیٹ پر لات ماری ہوگی؟
کیا اس کےساتھ زنا بلجبر ہوا ہوگا؟
کیا وہ بے بسی اور تکلیف میں وہ نانی کا نام لے کرچلائی ہوگی؟
کیا اس کھوکھلے کمرے میں ماں کی چیخیں ان لڑکیوں کی طرح گونجی ہوں گی؟
کیا ماں کا خدا اس پرہنسا ہوگا ؟
نعمان اس وقت کہاں ہے؟ وہ میری حفاظت کیسے کرےگا؟
بھیا میں وعدہ کرتی ہوں میں آپ کی ہر بات مانوگی۔ مجھے یہاں سے لے جاؤ ۔ان باتیں سوچ کر ان کو زبردست متلی ہوئی اور اس نے قَے کردی۔
سمندر ظغیانی پرتھا۔ موجزن سمندر سےجہاز جھولے کھا رہا تھا۔ بہت سی لڑکیوں کو متلی ہورہی تھی اور کچھ قَے کر رہی تھیں۔
دوپہرمیں لڑکیوں کو ڈیک پر لایا گیا اور پہرے داروں کے درمیان انہوں نے سورج کی روشنی میں سمندر کی کھلی ہوا کو سونگھا۔ ریمشاں کو اتنی بدبو سونگھنے کے بعد تازی ہوا بہت اچھی لگی ۔دونوں لڑکیاں جواس کے قریب سوئی تھیں ڈیک پر بھی اس سے زیادہ دور نہیں ہوئیں ۔
شام کو پھر وہی دلیا ملا۔ اس دفعہ ریمشان کودلیا اتنا خراب نہیں لگا اور وہ پورا پیالہ کھا گئی ۔ رات آئی اور پھراس نے رونے، چلانےاورالتجاؤں کی آوازیں سننی ۔اس نے روتے ہوتے کہا ۔ کیا خدا بہرا اوراندھا ہے؟ ۔ کیا وہ نہیں دیکھ سکتا کہ ان بیٹیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟

 

تفسیر

محفلین

رات کے ایک پہر میں شور وغل اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔
برابر کی دونوں لڑکیوں نے ایک ساتھ کہا " تم ہمارے ساتھ رہنا"۔
ریمشاں ان لڑکیوں کےساتھ ڈیک پر آئی۔ کچھ دور شہر کی روشنی نظر آرہی تھی۔ تمام لڑکیوں کو ربر کی انجن والی کشتیوں میں اتارا جارہا تھا ریمشاں ان دونوں کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوگئ ۔ کشتیاں تیزی سے ساحل سمندر کی طرف چلی ۔ ساحل پر مردوں نے سب کو ایک گلی کی طرف جانے کا اشارہ جہاں چھ منی وین ان کا انتظار کر رہی تھیں۔

اختتام - سفر

 
Top