حیوانوں کی بستی - دوبئی - آخری قسط

تفسیر

محفلین

دوبئی

' ریدا ' ہوٹل، دوبئی سٹی کےگرد و نواح میں ابودھابی سےایک گھنٹے کا فاصلہ پر ہے۔ اس خوبصورت ہوٹل سےایمرت گولف کلب ، دوبئی انٹرنیٹ اینڈ میڈیا سٹی اورجبل علی فری زون بہت قریب ہیں۔ عربی میں ریدا اسے کہتے ہیں جس پرخدا کا فضل و کرم ہو ۔ اس 20 منزلہ ھوٹل ميں400 شاندار کمرے ہیں۔ 150 ایکڑ کی زمین پر باغات، مچھلیوں سے بھرے تالاب اور جگہ جگہ پانی کے آبشار ہیں۔
جب منی وین ہوٹل کے کچن کےدروازے پر پہنچی تو سورج کی پہلی کرن ہوٹل کی جھیل پرتلملارہی تھی۔ پہراداروں نےلڑکیوں کوجلد ہی ملازموں کو لےجانےوالی لفٹ سے پانچویں فلور پرپہنچا دیاگیا۔ یہ سارا فلور، ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' کےلئےمخصوص ہے۔ فلور پر اُن کا اسقتبال پانچ عورتوں نے کیا جن کی عمریں پینتیس سے چالیس کے لگ بھگ ہوں گی۔ یہاں لڑکیوں کو پانچ گروپ میں تقسیم کردیا گیا۔ ہرکمرے میں چار بنک بیڈ تھے۔ چار، چارلڑکیوں کوایک، ایک روم میں رکھاگیا۔ کپڑوں کے کلازٹ عمدہ کپڑوں سےبھرے تھے۔ لڑکیوں کوحکم دیا گیا کہ وہ نہا دھو کراس فلور کی کانفرنس روم میں جمع ہوں۔ ریمشاں اور اسکی ساتھیاں ایک ساتھ رہیں۔ لفٹ کےدروازے پرایک پہرے دار تھا۔اس کےعلاوہ ایسا لگتا تھا کہ ان کے فلور پر چلنے پھرنے پر کوئی کوئی پابندی نہیں تھی ۔
ریمشاں اور اس کی ساتھیوں نےنہا کرسادہ کپڑے پہنےاور راہداری میں چلتی ہوئی کانفرنس روم میں پہنچیں۔ کانفرنس روم میں پانچ لمبی میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ہر میز کےاردگرد نو کرسیاں تھیں۔اور میزوں پرناشتہ کے تمام لوازمات تھے۔ ویٹرہاتھ باندھے کھڑے اشارہ کے منتظرتھے۔
ہرایک گروپ کی ذمہ دار ایک عورت تھی جس نے آپنے کو ایک گائیڈ کہا۔ گائیڈ نےاپنی مقررہ لڑکیوں کو اپنےساتھ بیٹھایا۔ سب لڑکیاں ڈری اور سہمی ہوئی تھیں مگراس برتاؤ سےان کےحفاظتی خول کمزور ہونےلگے۔
"یہ تو کوئی بُری جگہ نہیں ہے"۔ ریمشاں کی ایک ساتھی نے بہت دہمی آواز میں دوسری ساتھی سے مسکرا کر کہا۔

 

تفسیر

محفلین

" آگے آگےدیکھئے ہوتاہے کیا؟"۔ دوسری ساتھی نےمسکرا کر دہمےسے کہا۔
ریمشاں کوحیرت ہوئ کہ یہ دونوں اسےحالات میں بھی مسکرا سکتی ہیں۔
"میں آپ کو' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' کی طرف سےخوش آمدید کہتا ہوں" ۔ کانفرنس روم کا بڑا سکرین روشن ہوگیا۔ ریمشاں کوسکرین پرتیس پنیتیس کی عمر کا ایک خوبصورت نوجوان تھا۔
" ہماری آرگنائزیشن کا مقصد ملکوں کے کلچر کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔تم اب کو' دوبئی ڈانس انٹرنیشل کی ملازمت میں ہو۔ ہمارے ڈانس انسٹرکٹر تم کو ڈانس کی تربیت دیں گے۔ اورتم ان کو پرائیوٹ پارٹیزمیں پیش کروگئ۔ ہرایک کو تمہارے ملکوں سے یہاں لانے میں ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' نے نوے ہزار درہام خرچ کئے ہیں۔ یہ ہمارا تم کوایڈوانس پیمنٹ ہے ۔ ایک طرح سے بغیر سود کا قرضہ ہے ۔ تمہاری تنخواہ اتھارہ درہام ہوگی ۔ اس وجہ سے تمہارے پہلے چار سال کی تنخواہ اس قرضہ کو نمٹائے گی۔ اس دوران تمہارے رہنے کی جگہ ، کپڑے اور کھانا ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' مہیا کرے گا۔ جس کے لیے تمہیں ہمارے لیےایک سال اور کام کرنا ہوگا۔ سب ملا کر تم ہمارے لیے پانچ سال کام کروگی۔
" میں کام نہیں کروں گی مجھےگھرجانےدو"۔ ایک لڑکی چلائی۔
دو اور لڑکیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
" ٹھیک ہے تم جاسکتی ہو "۔ نوجوان نے مسکرا کرکہا۔
پہرے دار ان لڑکیوں کو کمرے سے باہر لےگے۔
" اب آپ کی گائیڈ آپ کےٹرینگ اسکیجول سےواقف کریں گی"۔ سکرین خالی ہوگیا۔
" چلو ایک فائدہ تو ہوگا" ۔ ریمشاں کی دوسری ساتھی سےدھمی آواز میں کہا۔
" کیا"۔ پہلی نےپوچھا۔
" ڈانس توسیکھنےکو ملےگا"۔ دوسری نے مسکرا کر دہمےسےکہا۔
ریمشاں نےسوچا ، یہ دونوں پاگل ہوگئی ہیں۔

 

تفسیر

محفلین

اس دن کے بعد ریمشاں کو وہ لڑکیاں جنہوں نے کانفرنس روم میں آواز نکالی تھیں نظرنہیں آئیں۔ ساتھیوں نے ریمشاں کو بتایا کہ وہ لڑکیاں دوسرے ملکوں کو بیچ دی جائیں گی۔ اگلےدوہفتہ ریمشاں نےایسی فلور پرڈانس اسٹودیو میں ڈانس سیکھنےمیں گزارے۔ ناچ ،انڈین کلاسیکل تھے مگرانداز بہت سکسی تھے۔ لڑکیوں کومردوں کوجنسی طور پر اُکسانے کےطریقے سیکھائے گے۔ گائیڈز کمرے کےعلاوہ ہروقت ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ان کے فلور پر پہرا تھا۔ اور کسی کو فلور سے باہرجانے کی اجازت نہیں تھی۔ دونوں ساتھیاں اب ریمشاں کی اچھی دوست بن گئی تھیں اور ریمشاں ان پر بھروسہ کرنے لگی تھی۔ ایک نے اپنا نام جمیلہ اور دوسری نے نسرین بتایا۔ دو ہفتہ حتم ہونے تک لڑکیوں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہاں سے فرا ر کا راستہ نہیں ہے۔ جن لڑکیوں نے ایسی کوشش کی ان کو مارا گیا۔ ڈانس کے کپڑے بدلنے کےدوران ریمشاں نےان لڑکیوں کے بدن پر نیل کے نشان دیکھے۔ ڈانس سےگریجویشن کی رات آئی۔سب لڑکیوں کو کانفرنس روم میں جمع کیا گیا۔
سکرین چمکا۔
" آج سےتمہاری ملازمت شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیرمیں یہاں ہمارے مہمان آئیں گےتمہارا کام ان کوخوش کرنا ہے۔ ان کا دیا ہوا مواضع تمہارا قرضہ نمٹائےگا۔ اگر تم نےایسا نہیں کیا توتمہیں سخت سزا ملےگی"۔
"جب کوئی مہمان تمہں پسند کرےاور تمہارے پاس آئے تواس سے پیار اور محبت سے پیش آو اور اپنے کمرے میں مدعو کرو۔ اسےخوش کرکےیہاں واپس آو۔ ہرایک مہمان کوخوش کرنے میں دس منٹ سےذیادہ نہیں لگانا آج رات تم ہر ایک کے لئے چالیس چالیس مہمان ہیں۔ "۔ گائیڈ نے اپنے اپنے گروپ سے کہا
" ریمشاں۔ تم ہم پرنظر رکھنا جب تک ہم کمرے میں ناجائیں ۔تم اکیلی مہمان کے ساتھ کمرے میں مت جانا"۔ ایک ساتھی نے کہا۔
" سمجھ رہی ہونا"۔ دوسری نےزور دیا۔
" ہاں میں تم دونوں سے پہلے کمرے میں نہیں جاؤں گی۔ مگر یہ سب کیا ہو رہا ہے"۔ ریمشاں سہم گی۔ اس نےدل میں اپنے آپ کو کوسا۔ یہ کسی غلطی ہوئ مجھ سے۔ نعمان کہاں ہے؟ بھیا کہاں ہیں؟

 

تفسیر

محفلین

کمرا مردوں سے بھرگیا۔ پانچوں گروپ نےایک کے بعدایک ڈانس پیش کئے۔ ڈانس کے بعد سب لڑکیوں کو ایک لائن میں کھڑا کردیا گیا۔
" ہائے " ۔ ایک ادھیڑعمر کے عربی آدمی جس کی توند چوغےسے بھی نکل رہی تھی اپنےسڑے ہوے دانت نکال کر کہا۔
ریمشاں کواسے دیکھ کر کراہت ہوئی۔ لیکن مگرگروپ گائیڈ کی نظرگروپ کی تمام لڑکیوں پر تھی۔ گائیڈ نے ریمشاں کوآنکھیں نکال کردیکھا۔
" ہائے " ریمشاں نے بناؤٹی مسکراہٹ سے کہا۔
" تم نام کیا؟"۔ عربی نےٹوٹی پھوٹی اردو بولنے کی کوشش کی ۔
" سمیرہ "۔ ریمشاں نےاسکو اپنا دیا ہوا نام بتایا۔
" ہم کو مطلب معلوم سمیرہ ، تم ہمارا دوست آج "۔ یہ کہہ کر اس نے ریمشاں کی کمرمیں ہاتھ ڈال کے اپنی طرف کھینچا۔
شراب کی بدبو نے ریمشاں کی ناک بھردی۔ اس نےگرفت سےنکلنا چاہا۔ مگرگائیڈ نے پھرآنکھیں دیکھائیں ۔
عربی نے ریمشاں کا بوسہ لینے کے لیے منہ بڑھایا۔ریمشاں نے پھرتی سےگال سامنے کردیا۔ عربی کا بوسہ ریمشاں کے لبوں کے بجائےاس کےگال پر پڑا۔ اس نے ریمشاں کےگال کا ایک بڑا بوسہ لیا اوراپنےدونوں ہاتھ ریمشاں کےگرد ڈال کراس کے کولہوں کوپکڑا اور ایک گیند کی طرح دبایا۔ اچانک کیسی نے ریمشاں کے کندھے پرہاتھ کر کہا چلو۔ اس آواز نے ریمشاں میں توانائی ڈال دی ۔اس نےموڑ کر دیکھا۔ اس کی دونوں نستین اور جمیلہ ی اپنے مہمانوں کےساتھ اس کے نزدیک کھڑی تھیں۔ ریمشاں نے پیار سےعربی کوجدا کیا اوراسکاایک ہاتھ پکڑ کردروازے کا رخ کیا۔
وہ مہمانوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے نسرین نے بار پرجاکر گلاسوں میں شراب انڈیلی اور مہمانوں کو پیش کی۔ اس نےتین اورگلاس بنائے اور ایک ریشماں کودیا۔ ریمشاں سے پُشتو میں کہا ۔
" یہ شراب نہیں ہے"۔
ریمشاں حیران رہ گئی ۔ یہ ساتھیاں کون ہیں؟ اس نےسوچا۔

 

تفسیر

محفلین

جمیلہ نے کمرے کی لائٹ کوچار بارجلایا اور بجایا۔ اس نےگیلری میں جاکر سامنےوالی بلڈنگ کودیکھا۔ اُسےایک کھڑکی میں لائٹ کوچار بار جلتےبجتے نظرآئی۔ جملیہ نےسگنل دوہرایا۔ اُسےاس سگنل کا جواب بھی ملا۔
جمیلہ دوڑ کردروازے پرگئی اور دروازے کو لاک کردیا۔ اس کے بعداس نے پولس والوں کی طرح ان تینوں عربیوں کےہاتھ پیچھے کر کےچادروں سے باندھ دیئے اور پھرغسل خانے کا رخ کیا۔
" ریمشاں سسٹر کے کیا حال ہیں" ۔
" بےغم صاحبہ جاگنے میں وقت لے رہیں ہیں "۔ نسرین نےہنس کر کہا۔
" کالی کافی پلاؤ اس کو" ۔
چند منٹ میں ریمشاں میں اتنی سمجھ آئی کہ وہ کہاں ہےاور رونےلگی۔
" سسٹر۔ کچھ نہیں ہوا۔ تم ویسی ہی ہو۔ جیسی پیدا ہوئی تھی، میرا مطلب ہے کہ ہم نے عربی کوموقع نہیں دیا۔ بچارا نےتمہارا ایک ماہ کا قرضہ بھی چکایا اور بدلہ میں تم نےاس کو کچہ نہیں دیا"۔ جمیلہ نےقہقہہ لگایا۔
" اور یہ کیاحماقت کی تم نے انگورکاخالص جوس پینے کے بجائے نشہ آور شراب پی لی ۔" نسرین نے پوچھا۔
" او کےسسٹر ریمشاں۔ ہم اب ڈیوٹی پرہیں۔ ہمارے باہرجانے کے بعد تم اس دروازے کو لاک رکھنا اور تب تک نہ کھولنا جب تک دستک دینےوالا یہ نا ثابت کردے کہ وہ تمہارا بھیا ہے۔ جمیلہ نے کہا۔
" سمجھ آئی" ۔ نسرین نے پوچھا۔
"ہاں" ۔ ریمشاں نے روتے ہوئے کہا۔

 

تفسیر

محفلین

شام کے کھانے پر بھائی جان ، نعمان ، سادیہ اور دونوں جمیلہ اور نسرین موجود تھیں۔ وہ سب ایک بوٹ پر تھے ۔ بیک گرونڈ میں دوبئی کا شہر بجلی کی روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
" یہ جمیلہ اور نسرین ہیں۔ تم ان کواچھی طرح سےجانتی ہو"۔ نعماں نےہنس کرابتدا کی۔
جمیلہ اور نسرین نے ریمشان کو آنکھ ماری۔
" یہ دونوں تربیت یافتہ انڈرکورایجنٹ ہیں۔ ان کا کام تمہاری حفاظت کرنا اور ہمیں سچویشن سے آگاہ رکھنا تھا۔ انہوں نے یہ کام خوبی سےانجام دیا۔ نسرین میرے لیے کام کرتی ہے اور جمیلہ یہاں دوبئی کی خفیہ پولیس میں ہے"۔ نعمان نےسانس لی۔
" ہم نےدوبئی کی خفیہ پولیس کی مدد سے ان اسمگروں کوثبوتی مواد کےساتھ گرفتار کرلیا ہے ۔ ہماری دونوں حکومتں ان کےخلاف قانونی کاروائی کریں گی"۔
کھانے کے بھائی جان ، سادیہ کوتفصیل سے آگاہ کرنےلگے۔ جمیلہ اور نسرین کیس سے متلعق باتیں کرنےلگیں۔ نعمان بوٹ کی ریلینگ کےنزدیک کھڑا ہو کرشہر کی روشنیاں دیکھ رہا تھا۔
ریمشاں نے نعمان کے کندھے پرہاتھ رکھا۔ نعمان نے ریمشاں کاہاتھ اپنےدونوں اپنےدونوں ہاتھوں کے درمیان دبوچا۔
" تمہارے ہاتھ بہت نرم اورخوبصورت ہیں"۔ نعمان نے کہا۔
" کیا تمہیں وہ سکون مل گیا جس کے لیے تم نے اپنی جان وجسم خطرے میں ڈالا"۔ نعمان نے پوچھا۔
"ہاں"۔ ریمشاں نے جواب دیا۔
تھوڑی دیر تک وہ دونوں روشنیوں کےشہر کو دیکھتے رہے ۔ پھر ریمشاں نے سوال کیا۔
" اے روشن اُن کےشہر بتا ۔اب کیا ہوگا، "۔
" میں واپس کراچی جاؤں گا اورایک دوسرے کیس پر کام شروع کردوں گا۔ اور تم ۔ تم سادیہ کے ساتھ امریکہ جارہی ہو"۔ نعمان نے مسکرا کر کہا ۔
" کیا ہم پھرملیں گے؟" ریمشان نے معصومیت سے پوچھا۔
نعمان نےریمشاں کی ٹھوڈی کواوپراٹھایا اور ریمشاں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
" ہمارے راستے مختلف سمت جاتے ہیں۔ میں پینتس سالہ خفیہ پولیس کا ملازم ۔ میرا چوبیس گھنٹہ گھرسےباہر مجرموں کا تعاقب کرنےمیں گزرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دن کسی کی گولی کا شکارہو کرمرجاؤں۔ میں تمہاری زندگی کا ساتھ نہیں ہوں ریمشاں"۔
ریمشاں کی آنکھیں آنسوں سے بھیگ گئیں۔
" لیکن ہاں اگر تم امریکہ جاکر کریمنالوجی میں ماسڑس کرلواور پھر واپس آو تومیں تم کومیرے ڈیپارٹمنٹ میں نوکری دیلانے کا وعدہ کرتا ہوں"۔ نعمان نےریمشاں کےآنسو پونچھتےہوئے کہا۔
" پکا وعدہ "۔ ریمشاں نے اپنے ہاتھ نعمان کے کندھے پر رکھ کر کہا
" پکا وعدہ"۔ نعمان نےاپناہاتھ دل پر کر ریمشاں کی پیشانی کو چوما ۔
ریمشاں کےہاتھ پھسل گئے اور اس کی بغلیں نعمان کے کندھوں کوچھو رہی تھیں۔۔۔ پھرچاند کی روشنی میں بوٹ کےفرش پردو سایےایک ہوگئے۔


خاتمہ ۔ حیوانوں کی بستی

 
Top