اقتباسات حیدرآباد دکن سے علامہ اقبال کے تعلقات-از سید عبدالواحد معینی؛ اقتباس ارغمان دکن

عبدالحسیب

محفلین
حیدرآباد دکن سے اقبال کا ذہنی تعلق

یادش بخیر حیدرآباد کے سایہ عاطفت میں ہندوپاکستان کے ہی نہیں بلکہ دنیاء اسلام کی بعض بزرگ ہستیوں نے بھی فیض پایا ہے۔ چناچہ جب جمال الدین افغانی کے لیے دنیا کی عیسائی طاقتوں نے یورپ،افریقہ اور ایشیاء میں رہنا محال کر دیا تھا تو سید صاحب مرحوم نے آکر حیدرآباد خجستہ بنیاد ہی میں آکر دن گزارے تھے۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے باعث تعجب ہوتا، اگر علامہ مرحوم کو دولت خداداد حیدرآباد سے ایک روحانی اور ذہنی تعلق نہ ہوتا۔ یہ بات ضرور ہے کہ بعض کج ضہموں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں علامہ مرحوم کو قدرت نے یہ موقہ نہ دیا کہ وہ براۃ راست اس عظیم سلطنت کی خدمت کرتے مگر جو محبت علامہ کو اس سلطنت سے تھی وہ ان کے کلام اور خطوط سے ظاہر ہے۔

پہلا سفر حیدرآباد

اوائل زندگی میں تو مصروفیات زمانہ نے علامہ کواسکی اجازت نہ دی کہ علامہ حیدرآباد جائیں۔ مگر یورپ سے حصولِ تعلیم کے بعد واپسی پر علامہ پہلی بار 1910 میں حیدرآباد تشریف لے گئے۔ اس وقت سر اکبرحیدری ریاست میں معتمد فنانس تھے۔ اور سر اکبر حیدری سے انکی عزیزہ جناب عطیہ بیگم صاحبہ نے تعارف کرایا تھا۔ لہازا علامہ نے سراکبرحیدری کے دولت کدہ پر قیام کیا۔ حیدرآباد کے قیام کے دوران حیدرآباد کی بیشتر برگزیدہ ہستیوں سے ملاقات کی۔ یہ زمانہ مہارجہ کشن پرساد کی وزرات عظمیٰ کا تھا اور علامہ حیدرآباد کے قیام کے دوران اکثر مہارجہ بہادر کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ اس درویش صفت اور فقیر منش امیر کے اخلاق حمیدہ کا جو اثر علامہ کی طبیعت پر ہوا اس کا اظہار علامہ نے ان اشعار میں کیا تھا۔

آستانہ پر وزرات کے ہوا میرا گزر
بڑھ گیا جس سے مرا ملک سخن میں اعتبار
اس قدر حق نے بنایا اس کو عالی مرتب
آسمان اس آستانے کی ہے اک موج غبار
ہے یہاں شان امارت پردہ دار شانِ فقیر
خرقہ درویشی کا ہے زیر قبائے زرنگار
شکریہ احساں کا اَے اقبال لازم تھا مجھے
مدح پیرائی امیروں کی نہیں میرا شعار

اسی قیام کے دوران علامہ کی حیدرآبد کے اکثر عمائدین سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ان میں سے ایک حضرت نظم طبا طبائی پروفیسر نظام کالج حیدرآبا بھی تھے۔ حضرت نظم 16 محرم 1269 حجری کو بمقام حیدرگنج لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ سولہ برس کی عمر تک آپ نے وطن میں رہ کر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں شاہانِ اودھ کے شاہزادوں کی اتالیقی کے لیے منتضب ہوئے اور کلکتہ چلے گئے۔ مٹیا برج پہنچ کر استادی کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کا مشگلہ بھی جاری رکھا۔ جب واجد علی شاہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت نظم کا حیدرآباد کے نظام کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔
تیس سال تک وہ نظام کالج میں پروفیسر کی رہے۔ وظیفے پر سبکدوش ہونے کے بعد مختلف اسامیوں پر وہ کام کرتے رہے جب جامعہ عثمانیہ کے ساتھ دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا تو دار الترجمہ میں ناظرادبی کی حیثیت سے انکا تقرر ہوا۔ بلآخر 22 مئی 1932 کو اردو زبان اس قابل قدر ہستی کی خدمات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ انگریزی کی مشہور نظم 'گریز ایلجی' Grays Elegy کا منظوم ترجمہ حضرت طباطبائی نے اردو میں 'گورغریبان' کے نام سے کیا تھا۔ تاریخ ادب میں ایسا کامیاب ترجمہ ملنا محال ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے حیدرآباد پہنچتے ہی سراکبرحیدری سے درخواست کی کہ انکی حضرت نظم طبا طبائی سے ملاقات کا انتظام کرا دیں۔چناچہ سر اکبر نے علامہ کی حضرت نظم کے ساتھ ملاقات کا انتظام عبدالرزاق صاحب مرتب کلیات اقبال کے توسط سے کرایا تھا۔ اس ملاقات کے وقت عبدالرزاق صاحب بھی موجود تھے۔علامہ نے جب حضرت نظم سے کلام سنانے کی فرمائیش کی تو انہوں نے یہ اشعار سنائے۔

پردہ ظلمت سے نکلا روئے سلمائے سحر
ناقہء گردوں کی کھینچی لیلیٰ شب نے بہار
ہے شفق یا وارئ فیروزہ میں لالہ زار
ہے سحر سبزۃ زار آسماں میں آبشار
چاہ سے نکلے ہیں یوسف یا ہے تارا صبح کا
یا بنا گوش زلیخا میں ہے درشاہوار
آفتاب آیا نظر سردر گریباں افق
ہوگئی غائب شب یلدا ہوئی صبح آشکار
آتش افروزی جو کی مشرق میں پیر صبح نے
ہوگیا مغرب میں پنہاں ساحر زناردار
آنکھ ابھی محو تماشا تھی کہ بجھ کر رہ گئے
یا الہی جلوۃ انجم تھا یا رقص شرار
حضر خاور میں ہوئی فوج کواکب جاگزیں
ہوگیا لشکر پہ غالب ایک ترک نیزہ دار

مولوی عبالرزاق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نظم کے اشعار سن کر علامہ اقبال عش عش کر رہے تھے۔ اور انکی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ آخر کار انہوں نے اسی موضوع یعنی طلوع سحر پر خود ایک نظم کہہ ڈالی جس میں اپنے قیام حیدرآباد کے دوران مہاراجہ کشن پرساد کی نوازشوں کا ذکر بھی کر دیا ۔ یہ نظم 'نمود صبح" کے نام سے بانگ درا میں موجود ہے اور ہم کو دو عظیم المرتب شعرا کی ایک یادگار ملاقات کی آج بھی یاد دلاتی ہے۔یہ سچ ہے کہ نظم کے بہت سے اشعار علامہ نے طباعت کے وقت حذف کردیے تھے(1)۔ نظم کے ساتھ علامہ نے یہ شذرہ بھی تحریر کیا تھا ،" گذشتہ مارچ 1910 میں مجھے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں آستانہء وزرات پر حاضر ہونے اور عالی جناب ہزایکسیلینسی مہاراجہ سر کشن بہادر جی-سی-آئی-یمین السلطنت پیش کار وزیر اعظم دولت آصفیہ التخلص بہ شاد کی خدمت بابرکت میں باریاب ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔ ہزایکسیلینسی کی نوازش کریمانہ اور وسعت اخلاق نے جو نقش میرے دل پر چھوڑا۔ وہ میری لوح دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ مزید الطاف یہ کہ جناب ممدوح نے میری روانگیء حیدرآباد سے پہلے ایک نہایت تلطف آمیز خط لکھا اور اپنے کلام شیریں سے شیریں کام فرمایا"
مولوی عبدالرزاق صاحب کلیات اقبال میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نظم طبطبائی سے گفتگو کے دوران علامہ 'جی ہاں' کے بجائے 'ہاں جی' فرماتے تھے۔ اس کے متعلق ملاقات کے بعد حضرت نظم نے فرمایا تھا کہ پنجاب کی بود و باش کا اثر ہے۔
علامہ نے حیدرآباد کے اس قیام کے کے دوران ایک اور نظم لکھی تھی جسکا عنوان ہے،'گورستان شاہی' اور نظم کے بعض اشعار میں انگرزی شاعر گرے کی مشہور نظم 'گور غریباں' کا اثر نمایاں ہے بہت ممکن ہے کہ یہ اثر جناب نظم کی ملاقات کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔
یہ نظم مخزن میں شائع ہوئی تھی اور اس نظم کے ساتھ علامہ نے حسب ذیل شذرہ بھی تحریر کیا تھا۔ "حیدرآباد میں مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما جناب مسٹر نذر علی حیدری صاحب بی-اے۔ معتمد محکمہ فنانس کی قابل قدر خدمات اور وسیع تجربہ سے دولت آصفیہ مستفید ہو رہی ہے۔ مجھے ایک شب ان ساندار مگر حسرت ناک گنبد کی زیارت کو لے گئے جن میں سلاطین قطب شاہی سو رہے ہیں۔ رات کی خاموشی ، ابر آلود آسماں اور بادلوں میں چھن کے آتی ہوئی چاندنی نے اس پر حسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ ذیل کی نظم انہی بے شمار تاثرات کا ایک اظہار ہے۔ اس کو میں اپنے سفر حیدرآباد کی یادگار میں مسٹر حیدری اور ان کی بیگم صاحبہ مسز حیدری کے نام سے منسوب کرتا ہوں ۔ جنہوں نے میری مہمان نوازی اور میرے قیام حیدرآباد کو دلچسپ ترین بنانے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا۔"
اس نظم کا آخری شعر ہے
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور

حیدرآباد کے قیام کے بعد علام اورنگ آباد تشریف لے گئے۔ خلدآباد میں حضرت عالمگیر کے مزار پرانور کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اس زیارت کا جو اثر علامہ کے دل پر ہوا اس کا اظہار انہوں نے ان اشعار میں کیا ہے۔

شاہ عالمگیر گر دوں آستاں
اعتبار دود ستاں گور گان
در صف شہنشہاں یکتا ستے
فقراد از تربتش پیداستے

حیدرآباد سے واپس لاہور آکر علامہ نے محترمہ عطیہ بیگم کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں بات کا خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ وہ سر اکبر حیدری کے مکان میں ایسے ہی رہے کیسے کہ وہ انہی کا گھر تھا۔ اور یہ بھی لکھا کہ سفر کے دوران ایسے بے تکلف گھریلو ماحول کا لطف ان کو اس سے قبل زندگی میں صرف ایک بار آیا تھا اور وہ ان کے شفیق استاد آرنالڈ کے مکان میں آیا تھا۔

--------------------------------------------------------------------------------------
(1) یہ مکمل نظم معہ حذف شدہ اشعار 'حیدرآباد دکن'طلوع' کے زیر عنوان 'کلیات اقبال(مرتبہ عبدالرزاق راشد)میں شائع ہوئی تھی اور اسکو اس کتاب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

جاری۔۔​
 

عبدالحسیب

محفلین
دوسرا سفر حیدرآباد

علامہ نے حیدرآباد کا دوسرا سفر 1920 یا 1921 میں کیا -اس سفر کے دوران علامہ کس کے مہمان رہے اور کن کن اصحاب سے انہوں نے ملاقاتیں کیں،اس کے متعلق کچھ معلومات فراہم نہ ہوسکیں۔ مگر اسی سفر کا ذکر جناب احمد محی الدین رضوی چیف سیکرٹری حکومت نطام اور نواب فضل نواز جنگ صدر الہام (وزیر) مالگذاری نے بڑے وثوق کے ساتھ کیا تھا۔ اس موقعہ پر علامہ کے اعزاز میں سول سروس ہاؤس میں ایک عشائیہ ترتیب دیا گیا تھا۔جس میں سر اکبر حیدری بھی موجود تھے۔نواب فضل نواز جنگ نے اس موقع پر ایک تقریر کی تھی جس میں علامہ کا خیر مقدم کیا تھا اور جملہ حاضرین کے اشتیاق کے پیش نظر علامہ کی زبان فیض ترجمان سے انکا کلام سننے کی فرمائش کی تھی۔ مگر علامہ نے بات ٹال دی تھی اور کلام سنانے پر راضی نہ ہوئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض احباب کو اس میں شبہ ہے کہ علامہ 20 یا 21 میں واقعی حیدرآبا تشریف لے گئے تھے یا نہیں۔

تیسرا سفر
علامہ تیسری اور آخری بار حیدرآباد جنوری 1929 میں تشریف لے گئے تھے۔علامہ کو جامعہ عثمانیہ کی جانب سے فلسفہ پر توسیعی تقاریر کے سلسلہ میں مدعو کیا گیا تھا۔ 15 جنوری کو ٹاؤن ہال میں جب علامہ نے پہلی تقریر کی تو علامہ کے پرانے دوست مہاراجہ کشن پراسد بہادر نے اس اس جلسہ کی صدارت کی تھی۔ مہارجہ بہادر نے جن الفاظ میں علامہ کا تعارف حاضرین جلسہ سے کرایا تھا۔اس سے ان کے خلوص اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔تعارف کرتے ہوئے مہارجہ نے فرمایا:-
"جامعہ عثمانیہ کی دعوت پر سر اقبال کی عالمانہ تقاریر کے سلسلہ میں پہلے لیکچر کی صدارت میرے لیےایک نہایت خوشگوار فریضہ ہے۔اس موقعہ پر صدارت کا فریضہ میری لیے آسان یوں ہوگیا ہے کہ ڈکٹر اقبال کے تعارف کی اس لیے ضرورت نہیں کہ اس ملک کا ہر فرد آپ کے کلام سے واقف اور آپ کے کلام سے اس مجمع کا ہر فرد اپنی استعداد اور ذوق کی مناسبت سے قدردان ہے۔ آپ کی ذات تعارف سے مستشنیٰ اور آپ کا کلام ستائش سے بالاتر ہے۔"
دوسرے لیکچر کی صدارت دکن کے فاضل بے بدل سرامین جنگ نے فرمائی تھی ۔لکچر کے آغاز سے پہلے سرامین جنگ نے موقعہ کی مناسبت سے علامہ کا یہ شعر پڑھا،
غلام ہمت آن خود پر ستم
کہ از نور خودی بندا خدارا

مہارجہ بہادر نے علامہ کی تشریف آوری کے موقہ پر ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا۔ اس مشاعرہ کا ذکر ایک صاحب نے یوں کیا ہے۔" اقبال مرحوم کی تشریف آوری کے موقعہ پر جو مشاعرہ ہوا وہ بھی عجیب تھا۔ سر مہاراجہ نے اعلیٰ پیمانہ پر دعوت اور مشاعرہ کا اہتمام کیا تھا۔ حیدرآباد کے تمام شعراء مشہور فارسی و اردو مدعو تھے۔ چونکہ کوئی خاص طرح مقرر نہ تھی اس لیے حیدرآباد کے مشہور شعراء مثلاً طبا طبائی مرحوم ، نواب ضیاء یار جنگ بہادر، نواب عزیز یار جنگ بہادر،مولوی مسعود علی محوی ، جوش ملیح آبادی وغیرہ جیسے مستند شعراء نے اپنے نقطہ نظر سے اپنا بہترین کلام سنایا مگر اقبال ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ صرف محوی صاحب کے اس شعر پر

نگاہ کر دن ذر دیدہ ام بہ بزم بہ وید
میان چیدن گل باغبان گرفت مرا

اتنا ارشاد ہوا کہ پھر پڑھیئے
خدا جانے کسی نقص کی بنا پر کہا تھا۔ یا بطور قدردانی کے، جب خود ان سے کچھ پڑھنے کی فرمائش کی گئی تو بڑے اصرار کے بعد ، چار پانچ شعر ارشاد فرائے۔

بگذ راز خادروافسونئی افرنگ شو
کہ نیرز و بجوے این ہمہ دیرینہ ونو
زندگی انجمن آرا و نگہدار خوداست
اے کہ در قافلہ بے ہمہ شوبا ہمہ رو
آن نگینے کہ تو با الر منان باختہ
ہم بجبریل ائیے نتوان کرد گرد

جب علامہ حضور نظام سے ملنے کے لیے گئے تو جناب خلیفہ عبدالحکیم صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ پہلے تو حسب قاعدہ وہ محل کی کتاب حضوری میں اپنا نام لکھ کر واپس ہوگئے۔جب یہ کتاب حضور نظام کے ملاحظہ میں پیش ہوئی تو حکم ہوا کہ علامہ کو بلایا جائے۔چنانچہ ہرکارہ دوڑا اور علامہ کو فرمان شاہی کی خبر دی گئی۔علامہ واپس کنگ کوٹھی تشریف لے گئے اور حضور نظام سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے دوران علامہ کا قیام مہمان خانہ شاہی میں ہوا تھا۔اور علامہ کے ہمرکاب ڈاکٹر عبداللہ چغتائی چودھری محمد حسین اور علی بخش تھے۔

حیدرآبد کے معاملات سے علامہ اقبال کی دلچسپی
یہ تو تھی مختصر سی روئیداد ان سفروں کی جو علامہ نے حیدرآباد کے کئے مگر ان سفروں کے علاوہ بھی علامہ حیدرآباد کے معاملات میں ہمیشہ دلچسپی لیتے رہے۔جامعہ عثمانیہ کے قیام کے متعلق حیدرآباد کے ارباب اثر ہمیشہ علامہ سے مشورہ پر کاربند ہوتے رہے۔اور جامعہ میں تقرات کے متعلق علامہ کی رائے کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔جناب جوش ملیح آبادی اور خلیفہ عبدالحکیم صاحب کا تقرر علامہ کی سفارش پر ہی ہوا تھا۔علامہ ایک عرصہ تک حیدرآباد سول سروس کے ممتحن تھے۔اور ان کے خوبصورت خط میں لکھے ہوئے امتحان کے پرچے سوس سروس ہاؤس حیدرآباد میں محفوظ ہیں۔

جاری۔۔۔
 

عبدالحسیب

محفلین
حیدرآباد کی آزادی سے متعلق اقبال کی اہم تجویز
1931 اور 1932کی راونڈ ٹیبل کانفرنس میں علامہ حیدرآبد کے وفد کو مفید مشورے دیتے رہے۔ ان مشوروں کی تفصیلات کا ذکر کانفرنس کی رپورٹوں میں تو نہیں ہے مگر بیشتر حاضرین کانفرنس کے علم میں تھا۔
ان کانفرنسوں میں ایک واقعہ ایسا بھی ہوا جس کا ذکر ہمارے لیے آج رنج اور تاسف کا ہی باعث ہوسکتا ہے۔
ان کانفرنسوں کے دوران علامہ نے غیر رسمی طور پر تجویز پیش کی کہ نظام حیدرآباد کو ان کی سیاسے اہمیت اور ریاست کی عظمت دیکھتے ہوئے 'ہز میجسٹی' کا خطاب دیا جائے۔ انگلستان کے ارباب اقتدار کو اس تجویز سے اتفاق بھی تھا مگر سر اکبر حیدری نے اس تجویز سے اختلاف کیا علامہ نے اس وااقعہ کا ذکر دہلی میں نواب بہادر یار جنگ مرحوم سے کیا۔ اور نواب صاحب مرحوم نے اس واقعہ کا ذکر نواب حسن یار بہادرکی موجودگی میں مجھ سے کیا تھا۔ اس واقعہ کا اثر علامہ کے حساس دل پر بہت ہوا تھا اور اسی اثر نے علامہ سے جاوید نامہ میں یہ اشعار لکھوائے۔

کہ شب ہندوستاں آید بروز
مرد حبفہ روح اندر تن ہنوز
تازقید یک بدن وامی و بد
آشیاں اندر تن دیگر نہد
گاہ اور ابا کلیسا ساز باز
گاہ پیش دیر بان اندر نباز
دین او آئین او سوا گری است
عنتری اندر لباس حیدری است

جب نواب بہادر یار جنگ نے یہ اشعار جاوید نامہ میں پڑھے تو انہوں نے علامہ کو ایک خط لکھا جس میں یہ دریافت کیا کہ کیا یہ واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آپ نے ڈاکٹر انصاری مرحوم کے بنگلہ پر دہلی میں مجھ سے کیا تھا؟ اس خط کے جواب میں علامہ نے نواب صاحب مرحوم کو ایک پوسٹ کارڈ بھیجا جس میں تحریر تھا۔ " میں خوش ہوں کہ آپ میرے کلام کو اس غور و خوض سے پڑھتے ہیں" یہ کارڈ نواب صاحب کے مرحوم کے پاس آخر وقت تک محفوظ تھا۔

علامہ کے انتقال سے پہلے حیدرآباد کے ارباب اقتدار سے ایک ایسی حرکت سرزد ہوگئی جو نہ ہوتی تو اچھا ہوتا۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر علامہ نے ایک قطعہ لکھا جس کا عنوان ہے 'سر اکبر حیدری کے نام' اس قطعہ کی شان نزول علامہ نے اپنے الفاظ میں یوں لکھی ہے۔
"یوم اقبال کے موقعہ پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے ایک ہزار روپیہ چیک بطور تواضع موصول ہونے پر"۔ قطعہ یہ ہے:

تھا یہ اللہ کا فرمان کہ شکوہ پرویز
دو قلندر کو کہ نہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایہ کہ لے اور شہنشاہی کر
حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سردرش
کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات
غیرت فقر مگر کرنہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات (2)

حیدرآباد سے روحانی تعلق
ویسے حیدرآبد کو ہمیشہ علامہ سے ایک روحانی تعلق بھی رہا ہے دنیا جانتی ہے کہ علامہ کے استاد حضرت داغ حیدرآباد کے ایک منصبدار تھے اور اب انتقال کے بعد حیدرآباد کی ہی سرزمین میں ابدی نیند سورہے ہیں ۔ اقبالیات کے مطالعہ کے لیے حیدرآباد ہمیشہ بڑا مرکز رہا ہے۔ علامہ کے کلام کا پہلا مجمعہ کلیات اقبال مولوی عبدالرزاق صاحب نے حیدرآباد ہی سے شائع کیا تھا۔ جناب ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کی معرکتہ آلارآتصنیف روح اقبال حیدرآباد سے شائع ہوئی تھی ۔ پروفیسر غلام دستگیر رشید کے مرتب کردہ مجموعہ ہائے مضامین بھی حیدرآباد سے شائع ہوئے تھے۔ نواب بہادر یار جنگ کے دولت کدہ 'بیتالامت' میں ہر ہفتہ درس اقبال ہوتا تھا۔ جس میں خود نواب صاحب مرحوم علامہ کے کلام کا بصیرت افروز درس دیتے تھے۔ یہ درس نواب صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد بھی برسوں جاری رہا۔
مہارجہ کشن پرساد بہادر نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا:-
'اگر خلوص ہے تو خدا کی ذات سے امید ہے کہ اقبال سے حیدرآباد کا اقبال چمک جائے گا۔ یہ امر موجب رنج وتاسف ہے کہ بعض ذی اثر اشخاص کے رشک اور حسد نے مہارجہ بہادر کی ان امیدوں کو جو انہوں نے حضرت علامہ کی ذات سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ پورا نہ ہونے دیا مگر یہ حقیقت ہے کہ علامہ کا حیدرآباد سے ہمیشہ ایک گہرا روحانی تعلق رہا ہے اور اس مردم خیز خطہ کے لوگوں نے علامہ کے کلام اور پیغام کی تشریح میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے اور علامہ کی ذات سے ہمیشہ والہانہ محبت اور تعلق کا ثبوت دیا ہے"

اقبال کے مقبرہ کا نقشہ
یہاں یہ عمر بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ کے مقبرہ کا نقشہ حکومت حیدرآباد کی زیر ہدایت اس ریاست کے ایک مقتدر عہدیدار میر تعمیر (چیف آرکیٹیکٹ) نواب زین یار جنگ نے تیار کیا تھا۔ نواب زین یار جنگ نے ایک بار فرمایا کہ انہوں نے مقبرہ کا ایک نقشہ حسب ہدایت سر اکبر حیدری سے تیار کیا تھا۔ اس میں مینار دروازہ روشن دان سب نہایت نازک اور نفیس تھے۔ جب نواب صاحب نے یہ نقشہ سر اکبر حیدری کو دکھایا تو صاحب موصوف نے نواب صاحب سے دریافت کیا کہ آپ علامہ کے پیغام اور اشارات سے واقف ہیں یا نہیں؟ جب نواب صاحب نے جواب نفی میں دیا تو سر اکبر حیدری نے فرمایا کہ علامہ کا پیغام طاقت و قوت کا پیام ہے۔ اس کے بعد نواب صاحب نے مقبرہ کا موجودہ نقشہ تیار کیا (3)
--------------------------------------------------------------------------------
(2) اس افسوس ناک واقعہ سے متعلق معین نواز جنگ جو اس زمانہ میں معتمد باب حکومت (کیبینٹ سیکرٹری) تھے کی تصریح ملاحظہ ہو، موصوف فرماتے ہیں۔
تو شک خانہ عامرہ کا محکمہ تھا ہی اس لیے کہ اس فنڈ سے ملک اور بیرون ملک کے اہل کمال کی مالی اعانت اور خدمت کی جائے لیکن اس سلسلے میں جو دفتری کاروائی ہوتی تھی وہ راز میں رہتی تھی۔صاحب معاملہ کو اسکا کوئی علم نہ ہوتا تھا، چنانچہ اکبر حیدری اکثر اس فنڈ سے اقبال کی خدمت کرتے رہتے تھے ۔ اس واقعہ کے وقت ایک ہندو منتظم برسرکار تھا، اس نے عملاً یا ناوقفیت کی بناء پر چیک کے ساتھ ایک دفتری زبان میں خشک اور سپاٹ سا مراسلہ بھی اقبال کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ اس کو پڑھ کر ان کا برانگیخستہ ہو جانا عین فطری بات ہے۔ افسوس کہ قطعہ لکھنے کے اور رقم واپس کرنے کے چند ہی روز بعد انکا انتقال ہوگیا۔ اکبر حیدری کو ہمیشہ اس کا ملال رہا کہ وہ اس غیر متوقع واقعہ کی صفائی اور تلافی نہ کرسکے۔ (منقول از اقبال اور حیدرآباد مصنفہ نظر حیدرآبادی)
(3) زین یار جنگ نے نقشہ کو آخری شکل دینے سے پہلے لاہور کا سفر کیا۔ انہوں نے علامہ اقبال کے دوست احباب سے ملاقات کی، ان کے مشورے اور ہدایت کے مطابق نقشہ مکمل کیا۔

۔۔ختم شد۔۔
 
Top