ذوالقرنین

لائبریرین
صدیوں سے اخلاقیات کا درس دیتی روشن روشن حکایاتِ سعدی رحمتہ اللہ

حماقت کا انجام

ایک بیوہ رئیس زادی کی دو کنیزیں تھیں جن سے وہ گھر کا کام لیتی تھی۔ یہ دونوں کنیزیں سست، کاہل اور کام چور تھیں۔ انہیں کام کرنے سے سخت نفرت تھی۔ خاص طور پر صبح سویرے اٹھنا تو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔
ان کی مالکہ انہیں مرغ کی اذان پر جگا دیتی کہ اٹھو، صبح ہو گئی ہے۔ گھر کا کام کرو۔ ادھر مرغ کی اذان کا کیا وہ تو آدھی رات گئے ہی اذان دینے لگتا۔
دونوں کنیزوں نے تنگ آ کر مرغ کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا۔ کہ نہ یہ ہوگا نہ اذان دے گا اور وہ دن چڑھے تک مزے کی نیند سوئیں گی۔ ایک دن دونوں کنیزوں نے مالکہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرغ کو پکڑ کر مار ڈالا اور ایک جگہ دبا دیا۔ اب ہوا یہ کہ مرغ کے نہ ہونے سے بیوہ کو وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ وہ کنیزوں کی جان کھانے لگی اور انہیں نصف شب کو جگا نے لگی۔
حاصل کلام
غیر ضروری چالاکی اور ہوشیاری کا نتیجہ ہمیشہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ادلے کا بدلہ

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔
"کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔"
چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔
کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔
دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔ لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ ۔
"اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔"
خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔
چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔
حاصل کلام
جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بعد از مرگ واویلا

ریچھ نے ایک بکرا شکار کیا اور کھانے کے لیے بیٹھا۔ اچانک ادھر سے ایک بھوکا شیر بھی آ نکلا اور آتے ہی ریچھ پر حملہ کر دیا۔ ریچھ نے اپنے ہاتھ سے شکار نکلتے دیکھا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے دل میں کہا کہ ایسے مفت خورے شیر سے کیا ڈرنا، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ یہ سوچ کر انتہائی غصے سے دانت کٹکٹاتا ہوا شیر سے الجھ گیا۔ کافی دیر تک دونوں میں لڑائی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے لہولہان ہو گئے۔ نہ ریچھ ہار مانتا تھا نہ شیر۔ خوفناک لڑائی جاری رہی۔ دونوں زخموں سے چور چور بے دم ہو کر زمین پر بے سدھ گر گئے۔
ایک چالاک لومڑی کافی دیر سے دور کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ بڑی موقع شناس تھی۔ موقع سے فائدہ اٹھایا اور بکرے کو اٹھا کر لے گئی۔ شیر اور ریچھ بے بسی سے یہ منظر دیکھتے رہ گئے۔
حاصل کلام
آئے موقع کو ہاتھ سے گنوانا حماقت ہے۔ بار بار مواقع نہیں ملتے۔ ایک بار موقع کھو کر بعد میں کف افسوس ملنے سے کیا حاصل۔
 
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اپنے آپ پر بھروسہ کرو

کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔
"میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔"
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔"
اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔
" میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔"
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔" بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔"
حاصل کلام:
دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
وقت کی نزاکت

کسی مالدار بخیل کا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا۔ دوا دارو کرنے کے باوجود بھی بخار کا زور نہ اترا تو کسی نیک دل شخص نے اسے مشورہ دیا کہ قرآن مجید ختم کراؤ یا بکرے کا صدقہ دو۔"
یہ سن کر مالدار بخیل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا۔" قرآن مجید ختم کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ منڈی دور ہے اور آنے جانے میں بہت وقت ضائع ہوگا۔"
اس کی یہ بات سن کر نیک آدمی نے کہا۔" قرآن مجید ختم کرنا اس لیے پسند آیا کہ قرآن اس کی نوک زبان پر ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہوا ہے۔"
حاصل کلام:
بخیل وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھنے کی بجائے ہمیشہ دولت کو دیکھتا ہے خواہ دولت نہ خرچ کرکے نقصان ہی اٹھانا پڑے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
شیر بہت بیمار ہے

ایک شیر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔" فکر نہ کرو، میں اس کا بندوبست کردوں گا۔"
یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
یہ خبر سنتے ہی جنگل کے جانور اس کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا اور عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کا شکار کرکے اپنی بھوک مٹاتا رہتا۔
ایک دن لومڑی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے آئی اور غار کے دہانے پر کھڑی ہو گئی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔" باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔"
لومڑی نے چالاکی سے جواب دیا۔" نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔"
حاصل کلام
انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
غیبت گو سے بچو

کسی عالم سے دریافت کیا گیا۔
"اگر کوئی پارسا شخص انتہائی حسین ہو اور کسی بند کمرے میں کسی حسینہ کے ساتھ محو گفتگو ہو۔ ایسے میں انہیں دیکھنے والا کوئ نہ ہو۔ نفس بھی طلبگار قربت ہو، اور شہوت بھی غالب۔ مقولہ عرب کے مطابق کھجوریں پکی ہیں اور باغبان روکنے والا نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی حالت میں پرہیز گاری کی وجہ سے بچا رہے۔"
عالم نے جواب دیا۔" اگر اپنے آپ کو خرمستیوں سے بچا بھی لےتو برائی کرنے والوں کی بدخوئی اور ملامت سے نہ بچ سکے گا۔"
حاصل کلام
انسان اپنے نفس کی برائی سے بچ سکتا ہے مخالف کی بدگمانی سے نہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
معالج کیا کرے

عجم کے کسی بادشاہ نے ایک اعلیٰ پائے کا حکیم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ وہ حکیم کئی سال مدینہ شریف میں رہا۔ کوئی ایک شخص بھی اس کے پاس علاج کے لیے نہ آیا۔ ایک دن وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں اس شکایت کے ساتھ حاضر ہوا۔
"یہ خادم یہاں کے لوگوں کے علاج معالجہ کے لیے آیا لیکن اتنی مدت گزرنے کے باوجود کسی نے میری طرف توجہ ہی نہیں کی اور نہ ہی علاج کے لیے کوئی بیمار میرے پاس آیا ہے۔"
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ان کا دستور یہ ہے کہ بلا تیز بھوک کھاتے نہیں اور کھاتے وقت ابھی بھوک باقی ہوتی ہے تو اپنا ہاتھ کھانے سے کھینچ لیتے ہیں۔"
حاصل کلام
ہمیشہ تندرست رہنے کا راز یہی ہے کہ بلا تیز بھوک مت کھاؤ اور ابھی بھوک باقی ہو تو اس سے ہاتھ کھینچ لو۔ انسان کبھی بیمار نہیں ہوتا۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
نفس کے تقاضے

کسی غلہ فروش کے چند درہم ایک صوفی پر قرض ہو گئے۔ غلہ فروش ہر روز صوفی سے قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتا اور صوفی کو اچھی طرح ذلیل بھی کرتا۔ ایک دن صوفی کو اس کے ایک دوست نے کہا۔
"یہ غلہ فروش تمہیں رقم کے تقاضا میں روز ذلیل کرتا ہے اور تم ٹال مٹول کرتے رہتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اپنی یہ عادت بنا لی ہے۔ بہتر ہوتا کہ نفس کے تقاضے کو بھی آئندہ کل پر ٹال دیتے اور قرض کی مصیبت میں نہ پڑتے۔"
حاصل کلام
وقتی پریشانی دور کرنے کے لیے قرض لینا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
وائے حسرتا

بقول شیخ سعدی ایک شب ایام جوانی میں کچھ دوست باہم مل کر خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ہمارا ایک ہمدم بوڑھا بھی آ گیا۔ ایک نوجوان نے بڑے میاں کو خاموش پا کر کہا۔" آپ کس سوچ میں غلطاں ہیں، ہنسی ٹھٹھول سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کریں۔"
بوڑھے نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔" برخوردار! صبا کے جھونکوں سے جھومنا ان درختوں کو ہی زیبا دیتا ہے جن کی شاخیں پتوں سے لدی ہوئی ہوں، بوڑھا درخت جنبش کرے تو ٹوٹ جاتا ہے۔ شب جوانی کی سحر ہونے پر ہوس کو سر کے نہاں خانوں سے نکال دینا ہی بہتر ہے۔ میری جوانی دیوانی فضول کاموں میں ختم ہوگئی۔ فضول خواہشات نے مجھے دین سے غافل رکھا۔ وائے افسوس کسی استاد نے اپنے شاگرد سے کہا تھا۔
"وائے حسرتا! وقت ختم ہو گیا اور کام ابھی باقی ہے۔"
حاصل کلام
بڑھاپے میں کم از کم انسان کو لہو و لعب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ زندگی کا انجام بہرحال موت ہے۔ اس فانی زندگی کے مقابلے میں غیر فانی زندگی کے لیے اچھے اعمال کرنا ضروری ہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
خسارہ

حضرت سعدی ایک قافلے کے ہمراہ بیابان قید طے کر رہے تھے کہ ایک پڑاؤ پر قافلہ رکا تو نیند کے غلبے نے ایسا مدہوش کیا کہ قافلے کی روانگی کا احساس نہ ہوا۔ ایک شتر سوار نے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر جگایا اور کہا۔
"کیا مرنے کا ارادہ ہے جو یوں غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ یاد رکھ، قافلے سے بچھڑنے کی صورت میں اس لق و دق بیابان میں ہی ہلاک ہو جائے گا۔ وقت کسی کی خاطر اپنی رفتار کم نہیں کرتا۔ اس کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔ اسے غفلت کی نیند میں برباد نہ کر۔"
حاصل کلام
سفر حیات کی نزاکتوں اور دشواریوں کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے ورنہ بیابان قید کے غافل مسافر کی طرح ہلاکت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غفلت میں پڑے ہوئے لوگ اعمال حسنہ کی برکتوں سے خالی دامن کی وجہ سے خسارے میں رہتے ہیں اور عاقبت میں نہ ختم ہونے والا عذاب ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
فلاح کی بات

ایک شخص قضائے الہٰی سے فوت ہو گیا۔ اس کے عزیز و اقارب رونے دھونے اور سینہ کوبی میں مصروف تھے۔ ایک مرد دانا نے ان کو اس حال میں دیکھ کر کہا کہ بجائے اپنے عزیز کے انجام سے آگاہ ہونے تم الٹا کام کر رہے ہو۔ یاد رکھو! بچہ پاک ہی آیا تھا اور پاک ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ رونا تو اس بات پر آنا چاہیے کہ جب میں اس دنیا میں آیا تھا تو پاک تھا اور جب رخصت ہوں گا تو گناہوں کی ناپاکی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں گا۔ تجھے چاہیے کہ موت آنے سے پہلے اگلے جہاں کی فکر کرتا کہ وہاں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
حاصل کلام
موت نہ ٹلنے والی حقیقت ہے جو ہر حال میں آکر رہے گی۔ بہتر یہی ہے کہ حاصل زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اچھے اعمال کرنے چاہئیں۔ اس میں فلاح آخرت ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
عمر ضائع نہ کر

ایک نماز، روزے اور ذکرِ الہٰی میں محو رہنے والے شخص کے ہاتھ کہیں سے سونے کی اینٹ پڑی ہوئی لگ گئی جس کی وجہ سے اس کے قلب کی ماہیت ہی بدل گئی۔ خدا کی یاد سے غافل ہو کر اب اس نے ہر وقت دنیاوی آسائشیں حاصل کرنے کے کے منصوبے بنانے شروع کر دئیے۔ کبھی اعلیٰ شاندار محل، کبھی باغیچہ فردوس، کبھی بہترین طعام اور لباس فاخرہ اور کہیں کچھ اور غرض کہ اس طرح کی سوچوں نے اس کی نیند حرام کردی۔
اسی پریشان حالی اور سوچوں میں گم وہ ایک دن جنگل کی طرف نکل گیا۔ وہاں اس نے ایک شخص کو قبر کی مٹی سے اینٹیں بناتے ہوئے دیکھا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے دماغ پر چھائی ہوئی ہوس کی گرد چھٹی۔ اس نے سوچا۔
"تو بھی کیسا احمق اور بے وقوف ہے۔ سونے کی اینٹ کیا ہاتھ آئی، تو اپنی عاقبت بھی بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو تمہاری قبر کی مٹی سے بھی اسی طرح اینٹیں بنائی جائیں۔ اپنی عمر عزیز ضائع نہ کر اور سیدھی راہ اختیار کر۔
حاصل کلام
دولت حاجات پوری کرنے کا ایک ذریعہ ہے حد سے زائد دولت انسان کے دل کو پتھر بنا دیتی ہے اور یاد الہٰی سے غفلت میں پڑ کر دنیاوی شور و شغب اور لہو و لعب میں ڈوب جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف اپنی عاقبت خراب کرتا ہے بلکہ دنیا میں بھی خسارے میں رہتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
کم از کم اس کا ماخذ تو بتا دو، اس میں اور میری برقی کتاب میں فرق تو ہے، اگر ایک اور کتاب بھی بنا دی جائے تو کیا اچھا نہیں رہے گا!!
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بالکل انکل! میں انہیں مخزق اخلاق سے لکھ رہا ہوں۔ میرا تو پہلے سے ہی ارادہ تھا آپ کو یہی کہنے کا کہ انہیں بھی کتاب میں شامل کر لیں۔:):):)
 
Top