حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو

اکمل زیدی

محفلین
سبط علی صبا


جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا
سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا

حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا
جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا

کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن
تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا
کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا

حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو
وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا

حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا
بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو
غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا
 
Top