سعود عثمانی حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخرِ کار - سعود عثمانی

حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخرِ کار
رہ گیا ساتھ مسافر کے سفر آخر ِ کار

کوہ ِ اسود نے بہت راستے روکے لیکن
شرق سے پھوٹ پڑا چشمٔہ زر آخرِ ِ کار

اُس کے پتوں پہ لکیریں تھیں ہتھیلی جیسی
مدتوں سبز رہا پیڑ ، مگر ، آخر ِ کار

تھم کے رہ جائے گی اک روز لہو کی گردش
ختم ہوجائے گا اندر بھی سفر آخر ِ کار

جس نے اک عمر سے آواز جھلس رکھی تھی
آنکھ تک آگیا وہ شعلۂ تر آخر ِ کار

زرد ہوجائیں گے پتے بھی گلابوں کی طرح
ایک ہوجائیں گے سب عیب و ہنر آخر ِ کار

دستِ خوش لمس میسر نہیں آ ئے گا کبھی
بند رہ جائے گا سیپی میں گہر آخر ِ کار

تم نہیں جانتے اس رنج کو ہم جانتے ہیں
راکھ کر جائے گا تم کو یہ شرر آخر ِ کار

ٹوٹ جاتا ہے کسی شخص کے مانند سعود
قید ِ تنہائی میں رہتا ہوا گھر آخر ِ کار

(سعود عثمانی )
 
Top