حماس کے 20 تابندہ سال

غازی عثمان

محفلین
حماس، حرکة المقاومة الاسلامیة، کامخفف ہے15دسمبر1987ء کو حماس کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا گیا،شیخ احمد یاسین (شہید) اس کے بانی چیئرمین بنے ،شیخ احمد یاسین شہید کی قیادرت میں حماس نے سرد خانے میں پڑے ہوئے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر دنیا کاحل طلب مسئلہ بنایا‘ عالمی امن کے پہرے داروں اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا- ان پر واضح کیا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے-باہر سے آئے ہوئے یہودیوں کا نہیں ہے-
حماس نے سپر طاقت ہونے کے دعویداروں کے خوابوں کو چکنا چور کرکے ان کو واپس بلوں میں جانے کے راستوں کو بھی مخدوش کر دیا ہے- دنیا اس پر گواہ ہے کہ کوئی ظلم ایسا نہیں جو مظلوم فلسطینیوں پر نہ آزمایا گیا ہو- ظلم کی اس چکی میں فلسطینیوں زندگی گزارنے پر مبجور ہیں-
فلسطین میں عالمی استعمار سے محفوظ رہنے والی مساجد ویران پڑی ہوئیں تھیں- یہ فلسطینیوں کو علم سے دور رکھنے کی ایک منظم سازش تھی تاکہ فلسطینی قوم اپنے تشخص کو بھلا دے- وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور مزاحمت نہ کرے-
فلسطین کے اندر کوئی مسجد ،گاؤں‘ شہر‘ کریہ اور محلہ ایسا نہیں جہاں حماس نہ پہنچی ہو- وہ مساجد جو ویران ہوتی تھیں اورناپاک یہودی ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے آج نمازیوں سے بھر رہی ہیں-اس کام کے جرم میں اسرائیلی آرمی نے شیخ احمد یاسین شہید کو گرفتار کرتی‘ ان پر تشدد کرکے ان کو بھوکا اور پیاسا رکھتی‘ طرح طرح کی اذیتیں دیتی- معذورہونے کی وجہ سے وہ نہ تو خود پیشاب کرسکتے تھے اور نہ کھانا کھا سکتے تھے - اسرائیلی آرمی کی طرح سے یہ پابندی ہوتی تھی کہ کوئی فرد ان کے پاس نہیں جا سکتا اسی حالت میں وہ پڑے رہتے یہودیوں کا خیال تھا کہ وہ شاید تنگ آ کر اپنی دعوت سے باز آ جائیں مگر یہ ان کی خام خیالی تھی قرآن میں ڈوبا ہوا انسان تشدد کو کب خاطر میں لاتا ہے بلکہ یہ سزائیں ان کے لیے مزید ہمت فراہم کرتیں-
حماس اب ایک نمائندہ تنظیم بن چکی ہے‘ جو فلسطینی منظر پر اسلام کے نظریاتی تشخص کی نمائندگی کرتی ہے-حماس نے اسلامی اصولوں اور نظریات کو اپنا شعار بنایا ہے- حماس نے اپنی تشکیل کے تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے آپ کو ’’اخوان المسلمون‘‘ کا حصہ قرار دیا‘ تاریخی‘ نظریاتی اور تنظیمی تعلقات کو اخوان کے ساتھ ضروری قرار دیا-
حماس کا عسکری ونگ عزالدین القسام کے نام سے قائم ہے اور اسی نام سے عسکری کارروائیاں کر رہا ہے ان کے مصری نیم فوجی دستوں نے یہودیوں اور سامراجیوں کے خلاف 1948ء کی جنگ میں فلسطینیوں کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لیا یہودیوں کو مختلف محاذوں پر وہ چرکے لگائے جس کے تصور سے آج بھی یہودی خوف زدہ ہو جاتے ہیں اخوان اور حماس کا نام سن کر کانپنے لگتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے وہ ہر قوم اور گروہ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں-1950 میں مشرقی اور مغربی کناروں کے الگ ہونے کے بعد اخوان نے ایک ایسی قیادت منتخب کی جو دونوں کناروں کی نمائندگی کرتی تھی-
اخوان المسلمون نے1954 اور 1956ء کے دوران اسرائیل کے خلاف مجاہدین کو منظم کیا- 1967ء میں جب اسرائیل استعمار کی مدد سے فلسطین کے بقیہ حصے پر بھی قابض ہو گیا اور اردن‘ لبنان اور مصر کے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا اور عظیم تر اسرائیل بنانے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا- اخوان المسلمون نے عرب حکمرانوں کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کے خلاف اپنی عسکری کارروائیوں کو جاری رکھا-
لاکھوں فلسطینیوں کا قتل عام اور لاکھوں کو مہاجر کرنے کے پیچھے ایک نظریہ کارفرما تھا اور وہ نظریہ یہودیت کے غلبے کا نظریہ تھا فلسطین کو اس لیے منتخب کیا گیا کہ یہ انبیاء کا مرکز اور مسلمانوں کی رفعتوں کا نقطہ آغاز ہے اسی بنیادی مرکز کو یہودیوں نے مذہب کی بنیاد پر حاصل کرنے کا پروگرام بنایا تمام یہودیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جو مختلف علاقوں میں منتشر تھے-
تھیورڈ ہرٹزل کی صدارت میں1897ء میں ہونے والی انٹرنیشنل یہودی کانفرنس میں طے کیا گیا کہ یہودیوں کے لیے ایک ملک ناگزیر ہے جویہودیت کے غلبے کا بیس ہوگا‘جس کے لیے اسی دن انٹرنیشنل صہیونی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا- جس کا مقصد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو یکجا کرنا اور مسلمانوں کی بنیادوں کو کمزور کرکے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا-
مسلمانوں سے صلیبیوں کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لیے اس دور کی سپر طاقت برطانیہ دام درم سخن صہیونیوں کے ساتھ تھا-
برطانیہ نے فرانس‘ امریکہ، سابق سوویت یونین اور مسلمان عرب حکمرانوں کو مکمل طور پر کنٹرول کیا ہوا تھا‘ جس کی وجہ سے فلسطینی مسلمان اور دیگر اسلامی ممالک کو آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں- یہودیوں کی سازشوں سے اگر عرب حکمران آگاہ ہوتے تو آج تاریخ اور جغرافیہ مختلف ہوتا ہے- یہودیوں اور عیسائیوں کی بجائے مسلمانوں کی حکمرانی ہوتی-
باسل کے مقام پر1904ء میں بنیادپرست یہودی اور عیسائی دانشوروں کی کانفرنس ہوئی جو سات دن بغیر وقفے کے جاری رہی جو دو بڑے نقاط پر غور کر رہی تھی، مسلمانوں کو کس طرح ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے ،اسلامی تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب کیسے غالب کی جائے-خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں یہودیوں کا کردار نمایاں تھا-
1948ء اور 1967ء کی جنگوں کے بعد جب فلسطین پر یہودی قابضین کا غلبہ اور اقتدار قائم ہو گیا تو یہودیوں نے حیلہ سازیوں‘ مکاریوں اور خباثتوں کے ساتھ یہ کوشش شروع کر دی کہ کسی طرح مسلم نسل اپنے دین سے بیگانہ اور اپنی اصلیت سے بے پروا ہو جائے جب کوئی قوم اپنی اصلیت کو بھول جاتی ہے تو پھر وہ کبھی بھی ٹارگٹ کی طرف نہیں لڑ سکتی- ان کا خیال تھا کہ فلسطینی فلسطین اور قبلہ اول کو بھول جائیں گے-
یہ مرحلہ تھا جس میں تحریک اسلامی ادارہ سازی میں مصروف تھی- 1978ء میں غزہ اسلامی یونیورسٹی کا قیام اس مرحلے کا ایک اہم ہدف تھا- 1987ء میں عظیم انتفاضہ کے ظہور پذیر ہونے تک فلسطین کے اندر اور باہر فلسطینی عوام میں تحریک اسلامی نے ایک منفرد مقام حاصل کر لیا تھا-
پہلے مرحلے پر 1967ء سے 1976ء تک تحریک نے تعمیری جدوجہد کی اور اپنے مراکز کو مستحکم کیا- ابتداء میں فلسطینی اخوانیوں نے معاشرے سے یہودیوں کے پیدا کردہ بگاڑ کو دور کیا- غیر اسلامی فکر کو ختم کیا اور عوام کے اندر اسلامی فکر پیدا کی تاکہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مضبوط بنیادوں پر جدوجہد برپا کی جائے-
یہ مرحلہ 1976ء سے 1981ء کے درمیانی حصے پر محیط ہے- اس میں بھی تحریک نے اپنے مراکز کو مزید پھیلایا- یہ کام بڑی حد تک معاشرے میں اسلامی رجحان رکھنے والے تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعہ کیا گیا- ان اداروں نے فلسطینی عوام کی اکثریت کے ساتھ مؤثر رابطہ رکھا- اداروں کا وسیع نظام جو حماس کو اخوانیوں کی طرف سے ورثے میں ملا اس سے خوب فائدہ اٹھایا ان اداروں نے انتفاضہ کے دوران تحریک کو مزید مستحکم کیا-
تیسرا مرحلہ 1981ء سے 1987ء کے درمیانی عرصے پر مشتمل ہے- اس عرصے میں تحریک نے اپنی شاخیں قائم کرنے کا کام کیا اور مزاحمتی کارروائیوں کی طرف سفر شروع کیا-
اس کا مقصد تحریک کو طاقتور سیاسی تنظیم بنانا تھا تاکہ اس کے فوراً بعد اسرائیلی قبضے اور اسرائیلی آرمی کے خلاف مسلح جہا د کا آغاز کیا جائے- یہ تصور عملاً ’’المجاہدو الفلسطینیوں‘‘ کی تشکیل سے پایہ تکمیل کو پہنچا یہ تنظیم غزہ کی پٹی میں اخوان کا عسکری بازو تھی اور اس کی بنیاد پر 1989ء میں مجاہد الشیخ احمد یاسین کو پس زندان کیا گیا-
1987ء سے تا حال اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کو حماس کا چوتھا مرحلہ خیال کیا جاتا ہے- اس کا آغاز 8دسمبر1987ء کو فلسطینی انتفاضہ میں پھوٹ پڑنے پر ہوا اور اس کے بعد 15دسمبر 1987ء کو تحریک مزاحمت اسلامی (حماس) کے قیام کا اعلان کیا گیا-
فوجی قبضے کے خلاف نئے اور مؤثر طریقے وضع کیے گئے- فلسطین میں اسرائیل کے خلاف جہاد شروع کرنے میں اسلامی مراکز اور اسلامی اداروں نے اہم کردار ادا کیا-
نوجوانوں کے جوش اور جذبے کی وجہ سے نظریے اور پالیسیاں اخذ کی گئی جنہوں نے تحریک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں پیش کیں ان کے اثر و رسوخ کو قبضے کے خلاف بلا واسطہ مزاحمت کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا گیا-
ایک اہم ہدف جو اسلامی تحریک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اسلامی ریاست کے قیام اور فلسطین کی آزادی کے درمیان ترجیحات- تحریک کو دونوں ترجیحات پر‘ ایک ٹھوس پروگرام کے تحت آگے بڑھانے میں کامیابی ہوئی دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر دیا فلسطین کی آزادی اور اسلامی ریاست کا قیام-
قابض اسرائیلی آرمی نے فلسطینی عوام کے ساتھ بالعموم اور اسلامی تحریک کے خلاف بالخصوص ظلم و استبداد کے پہاڑ ڈھائے تاکہ نئی مزاحمتی تحریک کو دبایا جا سکے مگر جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان اسرائیلی آرمی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے-
1977ء میں ایک نئی یونیورسٹی مغربی کنارے (غزہ کی پٹی) میں قائم کی گئی- جس میں ہزاروں فلسطینی طلبہ کو داخل کیا گیا جہاں نظریاتی افراد تیار کیے گئے- جس کی بدولت اسلامی تحریک میں تیزی آئی- نظریاتی اور سیاسی تنظیموں میں مقابلہ بازی اور کشمکش نے اسلامی تحریک کو مزید پھیلنے کا موقع دیا اور نوجوانوں کے ایسے گروپ سامنے آئے جنہوں نے انتفاضہ میں کلیدی کردار اداکیا-
حماس کا تنظیمی ڈھانچہ اخوان المسلمون کی طرح ہے- تنظیم دینی فہم کے حامل اور صوم وصلوة کے پابند افراد پر مشتمل ہے اور دینی فہم سب کے لیے لازم ہے-تحریک میں ایک اعلی اختیاراتی قیادت کا شعبہ ہے جو شوری کہلاتی ہے- جو براہ راست مستقل ارکان کی منتخب کردہ ہوتی ہے- حماس کی رکنیت کے لیے اخوان کا رکن ہونا ضروری نہیں ہے- تحریک کے ارکان دوقسم کے ہیں‘ ایک جو اخوان کے بھی رکن ہوتے ہیں اور ایک صرف حما س کے رکن ہوتے ہیں-
حماس کا مقصد اسرائیل سے آزادی حاصل کرنے کے بعد فلسطین کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے- حماس انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے- اس عظیم نظریاتی سرچشمہ سے رہنمائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حماس نے اپنے اندر ایک حد تک لچک رکھی ہے تاکہ اس تحریک کو محدود نہ کیا جائے-
حماس اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قبضہ مزاحمت کو جنم دیتا ہے تمام بین الاقوامی قوانین و چارٹر کسی بھی قوم کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ قابضین سے اپنی اور اپنی زمین کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں- حماس کے نزدیک مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے- قبلہ اول ہر اس مسلمان کا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی رہتاہو-حماس کے نزدیک فلسطینی عوام کا یہ حق ہے کہ وہ ایک اسلامی جمہوری سیاسی نظام کے تحت رہیں-ایسا نظام جس میں لوگوں کو عزت نفس‘ حقوق اور آزادی کا تحفظ حاصل ہو-
حماس کے نقشے کے مطابق بحرۂ احمر سے دریا اردن تک اور شمال سے جنوب تک کا علاقہ فلسطین کا حصہ ہے‘ جس کی آزادی قرض ہے-حماس کے نزدیک صہیونی تحریک سامراجیت کی پیداوار ہے‘ جس نے 1947ء میں فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ کیا اور اسی سامراج نے اسرائیل کو اس قابل بنایا کہ اس نے 1967ء میں پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا-
اگر 1947ء میں ان کے خلاف مناسب مزاحمت کی جاتی تو یہودی کبھی بھی فلسطین پر قبضہ قائم نہیں رکھ سکتے تھے- اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حماس نے تحریک مزاحمت شروع کی‘ جو فلسطین کی آزادی تک جاری رہے گی-
پہلا سرکل:
ان فلسطینیوں کو جو ظلم کا شکار چلے آرہے ہیں ایک بار پھر حرکت میں لایا جائے - ان کو اس بات سے آگاہ کرنا کہ یہودیوں سے آزادی کا واحد راستہ عسکری مزاحمت ہے- عسکری مزاحمت کے لیے فلسطینیوں کو تیا رکرنا حماس کی پہلی ترجیح ہے کیونکہ کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کے کارکن مرنے اور مارنے پر تیار نہ ہو جائیں-
دوسرا سرکل:
عرب ممالک میں صہیونی جارحیت کے خلاف راہ ہموار کرنا اور ان کو ایک منصوبہ بندی کے تحت صہیونیوں کے خلاف کردار کے لیے تیار کرنا- عرب ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو صہیونیوں کے خطرناک عزائم سے آگاہ کرنا-
تیسرا سرکل:
اسلامی سرکل‘ جس میں ساری امت مسلمہ شامل ہے‘ اس کے ذریعے یہودیوں کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کرنا-
تحریک آزادی فلسطین میں ہر اول دستے میں فلسطینی ہوں گے اور اسرائیل ان کا ہدف ہوگا- پشت پر امت مسلمہ ہوگی اس تحریک سے عرب اور ملت اسلامیہ کے درمیان ایک وحدت قائم ہوگی- جو حماس کا اہم مقصد ہے- معاہدہ اوسلو‘ وائی ریور معاہدہ اور دیگر اندرونی معاہدات جو یاسر عرفات اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں‘ ان کے باوجود غزہ کی پٹی کا ایک تہائی اور نصف سے زائد مغربی کنارہ خود مختار اتھارٹی ہونے کے باوجود اس پر اسرائیل کا قبضہ ہے-
اسرائیلی حکومت فلسطین کی سا لمیت اور اس کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم سازشیں کر رہی ہے- حما س نے مکار‘ دھوکے باز اور بدعہد قوم کے خلاف اعلان کیا ہے کیونکہ تحریک کا مقصد مسئلے کا کوئی عارضی حل یا فلسطین کے کچھ علاقوں سے اسرائیلی آرمی کا انخلاء نہیں بلکہ پورے خطے سے اسرائیل کا انخلاء اور فلسطین کی مکمل آزادی ہے-
مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہ ہے کہ اصل فلسطینیوں کو واپس فلسطین لایا جائے اور یہودی جنہیں دنیا بھر سے اکٹھا کرکے یہاں لایا گیا ہے‘ ان کو یہاں سے نکالا جائے- جب تک باہر سے آیا ہوا فتنے باز ایک بھی یہودی فلسطین کے اندر موجود رہے گا- مسئلہ فلسطین حل طلب رہے گا-
فلسطینی عوام کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے‘ ایک منصوبے کے تحت ان کو اسلام سے منحرف کرنے کی سازش کی گئی مگر حماس نے معاشرے کو ایک بار پھر اسلامی خطوط پر استوار کیا ہے-
حماس نے معاشرے کی اصلاح کے لیے مختلف شعبوں میں کام کیا ہے اس کی تمام ذیلی تنظیمیں مختلف سیکٹروں میں کام کر رہی ہیں- حماس مختلف درجے کی ٹریڈ یونین اور طلبہ یونین کے الیکشن اور ان کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہے اور ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست بھی کرتی ہے-
مسلح جدوجہد کی جوازیت:
اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کا عقیدہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت مذہبی اور قومی فریضہ ہے- اسلام کی رو سے اگر کوئی غیر مسلم ملک یا قوم اس علاقے پر قبضہ کر لے جو مسلمانوں کا ہے اور وہاں پر اسلامی حکومت رہی ہو تو قابضین کو نکالنے کے لیے جہاد فرض ہو جاتا ہے-
نبی نے مسجد اقصی کی زیارت کرنے کا حکم دیا ہے- یہ مسلمانوں کا تیسرا بڑا مقدس مقام ہے- نبی سونے سے پہلے ان آیات کو ضرور تلاوت فرماتے تھے جن میں مسجد اقصی کی عظمت بیان کی گئی تاکہ اس کا خیال ذہن سے محو نہ ہو- آپ آخردم تک اس کی آزادی کے لیے فوج کو منظم کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرتے رہے-
وہ مقدس مقام آج اللہ کی باغی قوم کے پاس ہے- کیا اس کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی جوازیت کے لیے اب بھی ہمیں اور کسی دلیل کی ضرورت پڑے گی؟ کیا اللہ کا اعلان نہیں ہے کہ یہود و نصاری آپ کے بدترین دشمن ہیں؟ اور پھر کہا کہ یہود ونصاری کو اپنا دوست مت بناؤ-
اس کو وہاں سے نکالنا فرض ہے ان کو وہاں سے نکالو جہاں سے تم نکالے گئے ہو‘ یہ اللہ کا اعلان ہے- اگر وہ لوگ جن پر کفار ظلم کر رہے ہیں ‘ کمزور پڑ جائیں یا دشمن کی طاقت کے مقابلے میں وہ کم ہوں تو قریب والے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے- اگر وہ بھی کافی نہ ہوں تو ان کے ساتھ والے لوگوں پر حتی کہ جہاد ساری امت مسلمہ پر فرض ہو جاتا ہے- آج اسرائیل کے ساتھ سارا عالم کفر ہے- فلسطینی اکیلے ان کے خلاف جہاد نہیں کرسکتے تو سارے عالم اسلام پر جہاد فرض ہے کیونکہ اللہ کی باغی قوم نے جس علاقے پر قبضہ کیا ہے وہاں مسلمانوں کا قبلہ اول‘ مقام معراج اور حرم ابراہیمی ہے- انہوں نے وہاں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیاہے- اب اسلام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ ان کو وہاں سے نکالیں-
دوسری طرف اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین بھی یہ حق تسلیم کرتے ہیں- اس لیے اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) فلسطینی عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی رائے عام کو اسرائیلی قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے کی جوازیت کو اجاگر کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے- جس میں حماس نے کامیابی حاصل کی ہے- اس مزاحمت کے اندر مزید جوش و جذبہ روکنے کے لیے یاسر عرفات اتھارٹی کو سامنے لا کھڑا کر دیا گیا ہے- یاسر عرفات اتھارٹی سے الجھے بغیر مزاحمت کو جاری رکھنا حماس کے لیے چیلنج رہا ہے-
سماجی خدمت:
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) نے سماجی خدمت کو اولیت دی - انہوں نے عوام کے مسائل حل کرنے اور بے روزگارنوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے یونٹ قائم کئے - تعلیم کو عام کرنے کے لیے طلبہ کو وظائف فراہم کئے جاتے ہیں-حماس نے فلسطین کے تمام بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں خدمت خلق کے لیے مراکز قائم کئے ہیں - حماس کے کارکنان فری خدمات پیش کرتے ہیں -
فلسطین میں اسرائیلی جارحیت سے زخمی ہونے والوں کا علاج حماس کے مراکز کرتے ہیں- فری ہسپتال اور ڈسپنسریاں قائم ہیں جہاں لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے- ان ہسپتالوں میں غریب اور معذور افراد کا مفت علاج کیا جاتا ہے - خواتین اور طالبات کے لیے الگ نظم قائم ہے - یتیم بچوں کی کفالت‘ نابینا بچوں کی دیکھ بھال اور معذور بچوں کو ہنر سکھانے سمیت تمام کام حماس سرانجام دے رہی ہے-
logoo20.jpg



تحریر۔ راجہ زاکر خان
بحوالہ ۔مرکز اطلاعات۔ فلسطین
 

غازی عثمان

محفلین
اسلامی تحریک مزاحمت(حماس )نے اپنے بیسویں یوم تاسیس کے موقع پر فلسطینی عوام کے سلب شدہ حقو ق کی بحالی تک مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کااعادہ کیا ہے-
حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقوق پر سودے بازی کی ہر صورت ناکام بنادی جائے گی اور اس وقت تک جدو جہد جاری رہے گی جب تک فلسطینی عوام کو ان کے مسلمہ عالمی اصولوں کے مطابق بنیادی حقوق حاصل نہیں ہو جاتے- حماس کی بیس سالہ تاریخ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایک پرعزم تحریک کامل نمونہ ہے- دشمن پر ثابت کیا کہ فلسطینی عوام ریاستی جبر کے نیچے دب جانے والے نہیں اور نہ کسی دبائو میں کر اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہوں گے- جان ومال اور ہرقسم کی قربانیوں کا سلسلہ پہلے بھی جاری رکھا گیا ارو آئندہ بھی اس سے گریز نہیں کیا جائے گا-حماس نے اپنے اعلی قیادت سے لے کر ایک عام کارکن تک کا خون فلسطینی عوام کی آزادی پر قربان کیا اورقابض استعمار کے تمام ہتھکنڈے ناکام بنا دیے -
بیان میں کہا گیا کہ فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں اور حماس فلسطین سرزمین میں سے ایک اینچ پر یہودیوں کو دینے کو تیا رنہیں ہو گی، یہودیوں کے فلسطین سے نکل جانے تک ہماری جنگ جاری رہے گی- بیان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی، اسرائیلی جیلوں میں دس ہزا رسے زائد کی تعداد میں پابند سلاسل فلسطینیوکی آزادی کو بنیادی مطالبات قرار دیتے ہوئے ان آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا بھی اعادہ کیاگیا-
بیان میں فلسطینی عوام سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ اسرائیل کی دشمنانہ پالیسیوں کو سمجھیں اور آپس میں متحدہو جائیں- بیان میں مزید کہاگیا کہ اسرائیل اور امریکہ نے غزہ کے شہریوں کو ان کی جمہوریت پسند ی کی سزا دے رکھی ہے،لہذا غزہ کے شہری بھی یہ ثابت کردیں کہ وہ جارحیت کی کسی بھی شکل کو برداشت نہیں کریں گے اور کسی دبائو میں ہر گز نہیں آئیں گے-

بحوالہ ۔ مرکز اطلاعات فلسطین
 

شمشاد

لائبریرین
غازی صاحب آپ کی مندرجہ بالا تحریر کا شکریہ لیکن کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟ اگر نہیں، تو جہاں سے آپ نے نقل کیا ہے اس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔
 
Top