حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا

حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا
بدھ: ۱۵؍ ستمبر ۲۰۱۰ء (شعری نشست)
صدارت: نوشیروان عادلؔ ، نظامت: شہزاد عادلؔ
دیگر شرکائے اجلاس: شکیل شاکیؔ ، ظفری پاشا، وحید ناشادؔ ، محمد حفیظ اللہ بادلؔ ، اور محمد یعقوب آسیؔ ۔
رمضان المبارک کی تعطیلات کے بعد حلقہ کی یہ پہلی نشست تھی۔ انتخابِ کلام:
شہزاد عادلؔ (ناظمِ اجلاس):
فرازِ ذات سے گری تو پاش پاش ہو گئی
انا کا پوچھتے ہو کیا انا تو لاش ہو گئی
اگر تمام راستے، جنوں کے سارے مرحلے
ہمیں نے طے کئے تو پھر ترا کمال کیا ہوا
شکیل شاکیؔ :
ایک دستار مل گئی ہے مجھے
اب کے اِک سر بنا رہا ہوں میں
میں نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے تو دیا
جانتا ہوں میں کہ میرے ہات میں کچھ بھی نہیں
سعید گل:
اسیں تے اج تک پیار وی کیتا ڈر ڈر کے
خبرے لوکی نفرت کیویں ک لیندے ن
محمد حفیظ اللہ بادلؔ :
دیکھنے والے مجھے ٹھیک سے دیکھیں تو سہی
سوچتا رہتا ہوں احباب میں آنکھیں رکھ دوں
انہوں نے دو نظمیں بھی سنائیں۔
محمد یعقوب آسیؔ :
رکھ کر سینے پر ہم نے
پتھر، کاٹی ہیں راتیں
سورج دن کو ہوتا ہے
اور جھلستی ہیں راتیں
نوشیروان عادلؔ :
میں نے کیوں تجھ کو پکارا ہے ذرا غور سے دیکھ
میری مٹھی میں ستارہ ہے ذرا غور سے دیکھ
توڑ کر بچے نے گڑیا کانچ کی
حشر برپا کر دیا میرے لئے
طے کیا گیا کہ بدھ ۲۲ ستمبر کو نوشیروان عادلؔ اپنی غزل بحث کے لئے پیش کریں گے۔ بدھ ۲۹ ستمبر کو حلقہ کے خبرنامہ کاوش کا تازہ شمارہ پیش کیا جائے گا، موقع پر موجود احباب اپنے فوری تاثرات کا اظہار کریں گے۔
 
حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا
جمعرات: ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء (ہنگامی تعزیتی ریفرنس)
صدارت: ظفری پاشا (صدرِ حلقہ) ، نظامت: محمد یعقوب آسیؔ
دیگر شرکائے اجلاس: راکب راجا، شہزاد عادلؔ ، سعید گل، احمد ابرار، رانا سعید دوشیؔ ، احمد شہباز، شکیل شاکیؔ ، ظفری پاشا، وحید ناشادؔ ، محمد حفیظ اللہ بادلؔ ، اور محمد یعقوب آسیؔ اور نوید اقبال۔
معروف شاعر، محقق، کالم نگار اور مبصر پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیر، بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایک بجے کے قریب مبینہ طور پر حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ دمِ مرگ وہ الما آتا (قازقستان) میں مقیم تھے، ان کی عمرِ عزیز ٹیکسلا اور واہ میں بسر ہوئی۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کے زیرِ انتظام ہنگامی تعزیتی اجلاس ہوا۔ ناظمِ اجلاس کی درخواست پر اجلاس کا آغاز مرحوم کے لئے دعائے مغفرت سے شروع ہوا۔ ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم کی شخصیت اور فن کے حوالے سے احباب کے تاثرات کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
محمد یعقوب آسیؔ نے مرحوم کی ادبی سرگرمیوں کا مختصر جائزہ پیش کیا، بزمِ رنگ و آہنگ، مجلسِ ادب، دھنک، فانوس، بزم قرطاس و قلم، حلقہ تخلیقِ ادب، دیارِ ادب، ادب قبیلہ، صریرِ خامہ (جملہ ادبی تنظیموں)میں رؤف امیرؔ کی مؤثر اور سرگرم شرکت کی تعریف کی اور ان کی شعری اور فنی استعداد کا اعتراف کیا۔
راکب راجا نے بتایا کہ مرحوم سے ان کی پہلی ملاقات ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدات اور مرحوم سے تعلقات میں نشیب و فراز کا ذکر کیا اور مرحوم کو ایک محنتی انسان، ذمہ دار ادیب، اور خود تعمیر شخصیت قرار دیا۔
شکیل شاکیؔ نے کہا میری رؤف امیر صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی، ان کا نام بہت سنا ہے، اُن سے ملنے کی حسرت ہی رہ گئی۔ ناظمِ اجلاس محمد یعقوب آسی نے کہا: جو دوست رؤف امیر کے بہت زیادہ قریب رہے ہیں (مثلاً: راکب راجا، رانا سعید دوشی، ڈاکٹر حفیظ)؛ وہ اپنی یاد داشتیں مرتب کریں۔ لکھا ہوا لفظ مستقل ہوتا ہے اور زبانی کہی ہوئی باتیں عارضی۔ محمد یعقوب آسیؔ نے شرکائے اجلاس کو اختر شادؔ اور طارق بصیرؔ کے جذبات سے آگاہ کیا۔ رانا سعید دوشی نے بھی ٹیلیفون پر تعزیت کا اظہار کرنے والے احباب کے نام بتائے۔
شہزاد عادلؔ نے بتایا کہ مرحوم کے کسبِ رزق کا آغاز ایچ آئی ٹی کی ملازمت سے ہوا۔ ان دنوں انجم طرازی، صدیق ثانیؔ بھی وہیں تھے۔ شہزاد عادلؔ نے ان کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ رؤف امیر کی شخصیت میں تحرک کا پہلو بہت نمایاں رہا ہے۔رؤف امیر کے ساتھ موضع عثمان کھٹڑ میں اپنی آخری ادبی نشست کا حوالہ دیتے ہوئے، شہزاد عادلؔ نے کہا: شروع میں ان کے مزاج میں سختی تھی جو ہولے ہولے نرمی میں بدل گئی۔
سعید گل نے بتایا کہ وہ بھی رؤف امیر سے ۱۹۹۰ء میں پہلی بار ملے تھے۔ بعد ازاں مرحوم نے انہیں نثر لکھنے کی ترغیب دی، اور افسانہ کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے رؤف امیر مرحوم کی عالی ہمتی کو سراہا اور کہا جہاں تک ذاتی تعلقات میں اتار چڑھاؤ کی بات ہے، ہر شخص کی ترجیحات اپنی ہوتی ہیں، رؤف امیر میرے لئے بہت اہم رہے ہیں۔
وحید ناشادؔ نے رؤف امیر کی زندگی کا ایک مختصر سا واقعہ سنایا جو مرحوم کی انکساری اور راست گوئی کا آئینہ دار تھا۔ احمد شہباز نے ذاتی یاد داشتوں میں احباب کو شریک کیا اور مرحوم کی الماتا روانگی سے ایک دن پہلے کی تفصیلات بتائیں۔
نوشیروان عادلؔ نے جذباتی کیفیت میں کہا میں تحیر کے عالم میں ہوں، کہ ہم رؤف امیر کا تعزیتی ریفرنس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا وہ باہر سے سخت تھا، اور اندر سے بہت نرم۔ احمد ابرار نے کہا مجھے ان کی موت پر دکھ ہوا ہے، میں ان سے راکب راجا کے توسط سے متعارف ہوا تھا۔
محمد حفیظ اللہ بادلؔ نے کہا: رؤف امیر سے میرے مراسم کا عرصہ دس، بارہ سال سے زیادہ نہیں، تاہم میری ان کی ملاقاتیں بہت بھرپور ہوا کرتی تھیں اور ہم ایک دوسرے کی انتہائی ذاتی باتوں میں بھی شریک رہے ہیں۔ انہوں نے میں ان حوالوں سے سرشار ہوں اور مجھے کوئی کمی محسوس نہیں ہو رہی، وہ تو اب بھی میرے ساتھ ہے۔
رانا سعید دوشی نے کہا: ادبی حوالے سے رؤف امیر ایک کوہسار کی حیثیت رکھتا ہے۔میں ۱۹۷۵، ۱۹۷۶ سے مرحوم کے اشعار پڑھ رہا ہوں جب وہ آداب عرض میں شائع ہوا کرتے تھے۔ میری اس سے ملاقات (۱۹۹۰ کے بعد) راکب راجا کے توسط سے ہوئی۔ رؤف امیر ناریل کی طرح کا شخص تھا۔میں، راکب راجا اور حفیظ ان کے رازدانوں میں ہیں۔ وہ ایک مکمل آدمی تھا اور بچوں کی طرح معصوم۔ رانا سعید دوشی نے مزید کہا کہ رؤف امیر کی غزل ان کی رومان پسند طبیعت کی آئینہ دار ہے، ان کے ہاں معاشی اور پاکستانی حوالے سے بہت خوبصورت اشعار ملتے ہیں۔
صدر حلقہ جناب ظفری پاشا نے اپنے مخصوص انداز میں بات کی اور کہا کہ مرحوم نے ۱۹۸۰ء میں پہلی بار میری ادبی بے عزتی کی تھی۔ وہ عزت کے بھوکے تھے، اور واہ میں اپنے سے بڑی عمر کے اہل قلم سے بڑے تھے۔ صدرِ حلقہ نے کاوش کی مجلسِ ادارت کو ہدایت کی کہ رؤف امیر کے سانحۂ ارتحال کو زیرِ ترتیب شمارے میں شامل کریں اور اس حوالے سے خصوصی اشاعت کے بارے میں بھی غور کریں۔
احباب نے مرحوم کے متعلق درجِ ذیل بنیادی معلومات بہم پہنچائیں:۔
تاریخ پیدائش: ۱۵؍ جون ۱۹۶۱ء چک امیر خان (ضلع اٹک)
نام :پہلے ’’محمد رؤف، امیر خانوی‘‘ اور بعد میں’ ’رؤف امیر‘‘ کہلائے۔
تعلیم ذریعہ معاش: ڈپلوما کیا، ایچ آر ایف ٹیکسلا سے ملازمت کی ابتداء ہوئی، پھر پی او ایف واہ کینٹ میں فورمین کے عہدے تک پہونچے، ایم اے اردو کیا، گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی میں معلم ہوئے، بعد ازاں ایف جی کالج واہ کینٹ میں تعینات ہوئے، ڈاکٹریٹ کی۔
قلم سے وابستگی: ایچ آر ایف میں ملازمت سے بھی پہلے کی ہے۔ واہ اور ٹیکسلا کی جملہ ادبی تنظیموں کے اجلاسوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے رہے، صریرِ خامہ واہ کینٹ کے جنرل سکرٹری رہے۔راولپنڈی اسلام آباد اور دیگر شہروں سے اہل قلم کو بھی واہ اور ٹیکسلا میں متعارف کرایا۔
شاعری: ’’درِ نیم وا‘‘ ۱۹۹۴ء، ’’دھوپ آزاد ہے‘‘ ۲۰۰۸ء(دو ایڈیشن)
تحقیق و تنقید: ’’ادبی تنازعات .. حمید شاہد کے مضامین‘‘ ۲۰۰۰ء، ’’ماہِ منور‘‘ (پروفیسر انور مسعود: شخصیت اور فن) ۲۰۰۰ء، ’’کلیاتِ ظہور‘‘ ۱۹۹۹ء، ’’رؤف امیر کے دیباچے‘‘ ۲۰۰۰ء، ’’اقلیم ہنر‘‘ (افتخار عارف: شخصیت اور فن)۲۰۰۳ء
مزید بر آں: قازقستان میں قیام کے دوران مضامین لکھتے رہے، اور کالم بھی لکھے۔ ایف جی ڈگری کالج واہ کینٹ کے ادبی مجلہ ’’گندھارا‘‘ کے ایڈیٹر انچارج رہے۔ پاکستانی اخبارات اور جرائد میں مشمولہ مضامین، تبصرے،دیگر تحقیقی کام اور شاعری منتظرِاشاعت ہے۔
تاریخ ارتحال: جمعرات: ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء (الماتا) قازقستان۔
 
سر پھرا آدمی اور ادھ کھلا دروازہ
ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم کے اولین شعری مجموعے پر ایک تعارفی مضمون
۔(مذکورہ کتاب کی تعارفی تقریب میں پیش کیا گیا ۔ غالباً 1995)۔
رؤف امیر سے میری خاصی پرانی شناسائی ہے، اس کی شخصیت اور فن سمیت۔ تاہم یہ شناسائی کچھ ایسی ہے جیسے میں ایک ادھ کھلے دروازے کے اُدھر کھڑا ہوں اور موصوف کی ذات اور شاعری کے صحن میں مجھے سب کچھ تو نہیں البتہ بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے اور اس سے زیادہ کچھ وہ ہے جو میری نظروں سے اوجھل ہے۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ، کبھی آگ کبھی پانی، کبھی آنکھیں فرشِ راہ اور کبھی شناسائی سے منکِر، کبھی یوں گھل مل جانا کہ ’درمیاں سے ہوا نہ گزرے‘ اور کبھی ’سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا‘۔
رؤف امیر کی شخصیت ہی نہیں شاعری کے متعلق بھی میرا یہی احساس رہا ہے۔ اور آج بھی جب اُس کے بارے میں سوچتا ہوں تو اکثر الجھ جاتا ہوں کہ اُسے کیا نام دوں۔ اچھا ہوا کہ اُس نے خود کو ’سر پھرا آدمی‘ کہہ کر میری یہ مشکل آسان کر دی۔ سچ بھی یہی ہے کہ ادب اور بالخصوص شعر سے وابستہ ہر شخص، میرے سمیت، کسی نہ کسی حد تک ضرور سر پھرا ہوا کرتا ہے۔ یوں نہ ہوتا تو آج ادب کہاں رہ سکتا تھا۔
اُس کا شعری مجموعہ ’درِ نیم وا‘ میرے لئے کسی حیرت کا باعث نہیں بنا۔ حلقہ تخلیقِ ادب (ٹیکسلا) میں اُس کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں اور ایک دوسرے کے گھر پر لمبی لمبی رات گئے تک چلنے والی نشستیں جہاں لفظوں اور لہجوں کو گرمایا کرتی تھیں، وہیں دلوں کو بھی گرما دیا کرتیں۔ میں نے ڈانگری والے محمد رؤف امیر خانوی کو رؤف امیر بنتے دیکھا اور گاؤں والے رؤف امیر کو گاؤن والا پروفیسر بنتے بھی۔ رؤف امیر تب بھی غزل کہتا تھا، اب بھی غزل کہتا ہے۔اس کی شاعری اس وقت بھی بھرپور تھی، گاؤں کی زندگی کی طرح اور آج بھی بھرپور ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ہم ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی غزلیں کہا کرتے تے۔ اسے کوئی مسابقت کا جذبہ کہہ دے یا متابعت کا، کہ تب غزلیں کہنے کو جی چاہتا تھا۔ بسا اوقات ایک دن میں دو، دو، تین تین غزلیں بھی کہیں۔ میں اس شعر زار میں رؤف امیر کے بہت بعد وارد ہوا ہوں اس طرح ایک تسلیم ناکردہ قسم کا احترام بہر طور اُس کے لئے موجود رہا ہے۔ تسلیم نا کردہ سے میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ میں نے اسے شاعر تسلیم نہیں کیا۔ تسلیم کیا! مگر اِس فرق کے ساتھ کہ میں، اختر شادؔ اور صدیق ثانیؔ اُس کے سامنے اس کے شعروں کی غلطیاں گنواتے اور اس کی پیٹھ پیچھے اُس کی شاعری کو سراہتے۔ ایک طرف غیبت کا یہ منفرد انداز تھا اور دوسری طرف رؤف امیر کا رویہّ تھا جو رؤف امیر ہی کا ہو سکتا ہے، شعر کے ساتھ بھی اور شاعروں کے ساتھ بھی۔.... ذاتی حوالوں سے بات چلتی رہی تو بہت دور چلی جائے گی۔ جو کچھ رؤف امیر نے حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا کے ساتھ رہ کر لکھا وہ حلقہ کے ریکارڈ پر تو تھا ہی، اُس کا بیشتر حصہ اس کتاب میں بھی شامل ہے اور کئی مصرعے تبدیل شدہ ہیں۔ وہ خود کہا کرتا ہے: میں اپنے شعروں کو پالش کرتا رہتا ہوں۔
شعر کیا ہے؟ اِس پر بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک شعر اپنی ذات کے اظہار کا ایک باوقار سلیقہ ہے۔ موضوع اور صنف کے علاوہ اِس کی لفظیات، واردات، قافیہ ، وزن، ترکیب سازی، تخیل،اور ردیف تک کا تعلق براہ راست شاعر کے اپنے تجربے، تجزیے اور شخصیت سے ہوتا ہے بلکہ ایک طرح سے شعر اپنے شاعر کی ذات کا پرتو ہوتا ہے۔ رؤف امیر کی شخصیت میں جو رنگا رنگی ملتی ہے وہ اس کتاب میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اُس نے اپنی ذات کے حوالے سے بات کی ہے۔ اپنی ذات کے حوالے سے بات کرنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی، اور جب آپ کا اپنا مقام (ادبی، سماجی یا کسی بھی اور حوالے سے) آپ کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرے تو یہ کام مشکل تر ہے۔ رؤف امیر اس مشکل مرحلے سے کچھ اِس طرح گزرتا ہے کہ:
بکھیر دیتے ہیں رات کو خواب میرا پیکر
میں بکھرے پیکر کو صبح اٹھ کر سنوارتا ہوں
امیر کس کو خبر تھی مری کہ یہ بچہ
بڑا ہوا تو بہت با شعور نکلے گا
اپنے ظرفِ نظر پہ ہے موقوف
جام آدھا بھرا ہے یا خالی
ارد گرد کے لوگ بھی اپنے حوالے میں شامل ہوتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے، رشتہ دار، دوست، دشمن سب مل کر ایک ماحول کی تشکیل کرتے ہیں۔ رشتوں کی اِس دھوپ چھاؤں میں ایک حساس آنکھ کا ردِّ عمل رؤف امیر کے ہاں اِس طرح ملتا ہے:
نہیں تھی ان کو کوئی آنکھ دیکھنے والی
مگر یہ بات نہیں جنگلوں میں پھول نہ تھے
اور یہ ساری غزل:
وہ کس لئے نہ رہے سچ کے نور سے عاری
کہ جس دیار میں رہتے ہوں دل کے کالے لوگ
انہی لوگوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے انسان کے قریب تر ہوتے ہیں۔ خون اور نسل کے رشتوں کی اہمیت مسلّمہ ہے اور یہ آج کے دور کا المیہ ہے کہ اکثر رنجشیں، بلکہ عداوتیں، انہی قرابت داروں سے ہوا کرتی ہیں۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ انسان اپنے قرابت داروں سے دانستہ یا نا دانستہ طور پر کچھ امیدیں وابستہ کر لیتا ہے کہ خون، نسل اور فطرت سے فرار ممکن نہیں ہوا کرتا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں، ہم نشینوں، دوستوں اور ایسے افراد کے ساتھ جو دھڑکنوں کے قریب رہتے ہیں، ایسا رویہ ممکن نہیں کہ اُن کی باتوں کو یا ان کے رویوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ انسان کسی اپنے کی کہی ہوئی ایک بات سے مر جائے تو بھی بعید نہیں۔رؤف امیر نے ان تعلقات کو دو سطحوں پر دیکھا ہے؛ ایک عمومی معاشرتی رویے کے طور پر اور دوسرے اپنے ذاتی حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں جس کا عکس کتاب میں شامل نظم ’گھر آنگن‘ میں ملتا ہے۔ وہی احساس پوری شدت کے ساتھ غزلوں میں بھی آیا ہے:
میں آپ اپنے گلے لگ کے بین کرتا ہوں
رؤف امیر مرے وِیر مرے سارے خواب
ہم اگر دل کو کھلا رکھیں محبت سے رہیں
پھر تو یہ چھوٹا سا آنگن بھی مرے بھائی بہت
تو جو سچا ہے تو آواز لرزتی کیوں ہے
تجھ سے کیوں لہجے پہ قابو نہیں پایا جاتا
اس پر مستزاد شاعر کا وہ احساس ہے جو ’ناراض ہے ‘ ردیف والی پوری غزل میں نکھر کر سامنے آتا ہے:
کوئی ایسا وصف ہے مجھ میں جو اوروں میں نہیں
ورنہ مجھ سے کیوں ہر اِک چھوٹا بڑا ناراض ہے
تعلقات اور احساس کی اس کشمکش نے رؤف امیر کے لہجے میں ایک درشتی اور کھردرے پن کو جگہ دی ہے جس میں بلا کی کاٹ ہے۔ اس کے ہاں ’عدو‘ ایک مضبوط علامت ہے جو میرے نزدیک رؤف امیر کے احساس کی اسی کاٹ کا حاصل ہے۔ عدو، جنگ، فتح اور شکست کے حوالے سے اس نے فکر انگیز اور خوبصورت شعر کہے ہیں:
سوچا تو میرے ہاتھ مرے پیر جیسے غیر
سمجھا تو میرے ساتھ مرے رو برو عدو
میرے پیارے عدو مجھ سے محتاط رہ
اے مری جان میں سر پھرا آدمی
امیر اب مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا
بہت دنوں سے کئی قاتلوں میں رہتا ہوں
بٹے ہوں دل ہی جب خانہ بخانہ
صفیں شانہ بشانہ کیا بنانا
رؤف امیر نے اس تصور کو وسیع تناظر میں دیکھا ہے اور انہیں مثبت اور منفی رویوں کی جنگ تک لے گیا ہے۔ نیکی اور بدی کی کشمکش کے ازلی سلسلے کا انسانی سطح پر تجزیہ کیا جائے تو یہ انہی مثبت اور منفی رویوں کی جنگ ہے۔ دو رُخی، جھوٹ، مکر و فریب، خود غرضی، جبر اور ایسے دیگر منفی رویوں پر اُس نے بڑی فن کاری کے ساتھ نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے سیاست گری کے رویوں پر کڑی گرفت کی ہے اور اعلیٰ انسانی اقدار کا پرچار کیا ہے۔اور، تلخ فکری کے اس ساریعمل میں شعر کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا:
وہ جن کے ہیں امیرؔ انداز ادنیٰ
انہی کا نام اعلیٰ پڑ گیا ہے
ثمر کیسا شجر پہ کوئی پتا بھی نہیں ہے
مگر ہم ہیں کہ شاخوں کو جھنجھوڑے جا رہے ہیں
رہیں گے یونہی اگر کھلی گفتگو پہ پہرے
تو اگلی نسلیں کریں گی باتیں پہیلیوں میں
یہاں ایک خوبصورت مطلع ذہن میں آ گیا ہے، آپ بھی دیکھتے چلئے:
مرے ہونٹوں پہ تالا پڑ گیا ہے
یہ کس پتھر سے پالا پڑ گیا ہے
وطن ایک خطۂ زمین سے آگے کی چیز ہوتا ہے۔ ہماری سرزمینِ وطن کی حیثیت ایک نظریے، منتہائے نظر اور مقصد کی ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں انسانی فلاح کے الوہی پروگرام پر عمل درآمد کرنا سرِ فہرست تھا۔ دو نسلیں گزر گئیں آج بھی ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ اس پروگرام کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ اس وطن کے حصول کے لئے دی گئی قربانیاں جن میں جان سے زیادہ قیمتی عصمتیں شامل ہیں اُن کا حاصل کیا رہا؟ اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوال ہیں جو ہر ذی شعور کو کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ حب وطن ایک مسلمہ جذبہ ہے اور وطن میں پائی جانے والی ناہمواری کا ذکر اس جذبے کے خلاف نہیں۔ یہ وہ نازک موضوع ہے جس پر بات کرنا اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنی شدت احساس میں پائی جاتی ہے۔ ایک نکتہ اور بھی ہے کہ وطن کا تصور جب وطن ایک مشن کا نام ہو، ایک خطے کی سطح سے اوپر اٹھ کر پورے عالم انسانیت پر پھیل جاتا ہے۔ اس حوالے سے رؤف امیر کے افکار کچھ اس طرح ہیں:
ہمارے کعبے پہ کیسے قابض ہوا وہ دشمن
کہ جس کا ایمان بھی نہ فتحِ مبین پر تھا
کھلے ہیں پھول مگر غیر کے تسلط میں
برنگِ وادیٔ کشمیر مرے سارے خواب
اب نئے انداز سے ہے شہر یاروں کا سلوک
حل نہیں کوئی مگر خلقت کی شنوائی بہت
تم در و دیوار کے خوابوں میں کھوئے ہو امیر
نامکمل ہے عمارت کی ابھی بنیاد بھی
جنگ میں کوئی نہ پھر میرے مقابل ٹھہرے
کاش پھر سے مرا سویا ہوا بازو جاگے
رؤف امیر کی زیرِ نظر کتاب ’درِ نیم وا‘ دنیائے فکر و سخن کا ایسا ادھ کھلا دروازہ ہے جس کی اوٹ میں احساس کی تپش بھی ہے، محرومیوں کی آنچ بھی، اندیشوں کے سیاہ ناگ بھی، درد کی ٹیسیں بھی اور عزم و ہمت کی روشنی بھی:
نفرتوں کی ہواؤں کے آگے
ہم جلائیں گے پیار کے دیپک
یہ ایسے صاحبِ صلاحیت شاعر کی کوشش ہے جو بے شمار امکانات لئے ہوئے ہیں، جس کا اندازِ فکر عمیق اور جس کا لہجہ خلیق ہے۔ غزل کا مرکزی، آفاقی اور سدا بہار موضوع تعلقِ خاطر ہے۔ رؤف امیر کی غزل میں سے معانی کی روانی،تراکیب کی گہرسازی، لفظیات کی جادوگری، اختصار کی جامعیت، ایک پر تغزل اور پر وقار لہجہ، آس اور یاس کی دھوپ چھاؤں، گل ریزیاں اور دیگر خصوصیات کی حامل چند مثالیں:
رنگ کیا کیا نہ مہ و مہر و فلک نے بدلا
اک نہ بدلا تو مرے کوکبِ تقدیر کا رنگ
کہہ کے دکھلائیں غزل کوئی اُن آنکھوں جیسی
کیوں امیر، آپ کو دعویٰ ہے سخن دانی کا
اتنا اونچا امیر کیا اُڑنا
خاک آباد ہے خلا خالی
دھوپ دونوں کو جدا کر دے امیر
گل سے جتنی دیر میں شبنم کھلے
تیرے غم کا دل پر کوئی بوجھ نہیں
پلکیں کب آنکھوں پر بھاری لگتی ہیں
رؤف امیر ایک گاؤں سے آیا ہے۔ زبان اور لب و لہجہ میں شہری تہذیب سے فرق جو اُس کی عمومی گفتگو میں ہے اُس کی شاعری میں بھی ہے اور مزا دیتا ہے۔ سادہ زندگی، دور تک لہلہاتے کھلے کھیت اور کھلے دل، درخت اور باہمی تحفظ کا جذبہ، کھنکھناتے گھنگرو اور کھلکھلاتے قہقہے، شفاف نیلا آسمان اور بے کراں محبتیں، فطرت کے غیر مغشوش مظاہر جو دیہی زندگی کے بنیادی عناصر ہیں، اگرچہ اب ان کی گرم جوشی مائل بہ زوال ہے، معدوم بہر حال نہیں ہوئی۔ ایسے فطری ماحول کے پروردہ شاعر کی نظر مفطور سے فاطر کی طرف، مکاں سے لامکاں کی طرف، محدودیت سے لا محدودیت کی طرف اٹھتی ہے جو اُس کی ذات ایک عجیب و غریب ہلچل کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور یوں، وہ شاعر اپنے لسانی رویوں کے ساتھ ساتھ اپنی فکری پرواز اور اندرونی کرب کا کچھ حصہ بھی ادب کو دان کر دیتا ہے:
امیر اپنے دل نادان کو اک حد میں رکھیں
بگڑتا ہی چلا جائے گا جتنا پیار دیں گے
کام سے لوٹا نہیں مزدور باپ
سو گئے بچے کہانی کے بغیر
ضرور ملنا ہے اے غمِ رزق اُن سے مجھ کو
بنے گی اک روز قبر گاؤں کے بیلیوں میں
اگر نہ خود تو امیر مزدوریاں کرے گا
تو کون تیری ضرورتیں پوریاں کرے گا
تتلیاں، شوق، لہو، باڑ، بلکتے بچے
رخم لے آئے ہیں رنگوں کو پکڑنے والے
اِس زمانے کی الجھی ہوئی ڈور کا
اک سرا ہے خدا، اک سرا آدمی
زمیں پہ بھیجا گیا مجھ کو زندگی دے کر
اور اب فلک سے سندیسے اجل کے آتے ہیں
ہے نا، سر پھرا آدمی! جو اِس دارِ فنا میں ابدی زندگی کا خواہاں ہے اور عدو سے پیار بھی کرتا ہے اور خود سے محتاط رہنے کی نصیحت بھی کرتا ہے:
میرے پیارے عدو مجھ سے محتاط رہ
اے مری جان، میں سر پھرا آدمی
٭٭٭٭٭٭٭
 

زیف سید

محفلین
جناب آسی صاحب: روف امیر صاحب کی رحلت پر بہت افسوس ہوا۔بہت شکریہ کہ آپ نے یہ خبر دی اورتعزیتی تقریب کا احوال بھی چسپاں کر دیا۔ مضمون بھی بہت عمدہ ہے جس میں ان کی شاعری کے بہت سے گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔

میں نے بہت پہلے ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں یہ شعر سنا تھا جو ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا:

ہیں اپنے دور کے یوسف مگر ابھی تک ہم
کنویں میں قید ہیں بازار تک نہیں پہنچے
(ممکن ہے الفاظ آگے پیچھے ہو گئے ہوں)

لیکن مجھے شاعر کا نام معلوم نہیں تھا۔ پھر بہت عرصے بعد اسلام آباد کی ایک ادبی محفل میں جناب روف امیر صاحب نے چند غزلیں سنائیں تو ان میں یہ شعر بھی شامل تھا۔ خیر، امیر صاحب طرح دار اور صاحبِ طرز شاعر تھے۔ ان کا بلند آہنگ اور دبنگ لہجہ دور سے پہچانا جاتا ہے۔

حق مغفرت کرے ۔۔۔

زیف
 
سوموار: ۲۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء (انتظامی اجلاس)
صدارت: ظفری پاشا (صدرِ حلقہ) ، نظامت:طارق بصیرؔ (معتمد عمومی)
دیگر شرکائے اجلاس: وحیدناشاد (ناظم مالیات)، شہزاد عادلؔ (نائب معتمد،
مدیر کاوش)، محمد یعقوب آسیؔ (ناظم نشر و اشاعت، مدیر مسؤل کاوش)
صدرِ حلقہ نے اجلاس کو بتایا کہ اتوار کے دن واہ میں ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم کی نمازِ جنازہ کے بعد کم و بیش چالیس اہلِ قلم سنگم کیفے پر جمع ہوئے اور ہنگامی تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر وحید احمد نے کی اور نظامت کے فرائض صریر خامہ کے سکریٹری طالب انصاری نے ادا کئے۔ تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت عبید حبیب کے حصے میں آئی۔ محمد وسیم کشفی نے حلقہ تخلیقِ ادب کے نمائندہ کی حیثیت سے اور سلمان باسط نے صریر خامہ کے نمائندے کی حیثیت سے مرحوم کے حوالے سے اپنے تاثرات اور جذبات کا اظہار کیا۔ بعد ازاں ریاض گل کی امامت میں مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔طے پایا گیا کہ حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا اور صریرِ خامہ کے اشتراک سے اتوار ۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو واہ آرڈنینس کلب میں ادبی ریفرنس منعقد ہو گا، جس کی تفصیلات بعد میں طے کی جائیں گی۔ حلقہ کے صدر ظفری پاشا نے موقع شہزاد عادلؔ اور رانا سعید دوشیؔ پر مشتمل دو رکنی کمیٹی کو جملہ معاملات طے کرنے کا اختیار دیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ بدھ ۲۲؍ ستمبر کو امجد شہزاد اور طالب انصاری اپنی تجاویز کے ساتھ حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔
مجلس عاملہ نے صدرِ حلقہ کے اقدامات کی توثیق کر دی۔ محمد یعقوب آسیؔ نے تجویز کیا کہ ادبی ریفرنس کے لئے شہزاد عادلؔ ، طارق بصیرؔ ، وسیم کشفیؔ ، اختر شادؔ ، رانا سعید دوشیؔ ، ظفری پاشا، محمد یعقوب آسیؔ ، راکب راجا، محمد حفیظ اللہ بادلؔ ، نوشیروان عادلؔ اور وحید ناشادؔ اپنے مضامین تیار کر لیں، صدرِ حلقہ نے احباب کو مطلع کرنے کی ذمہ داری خود لے لی۔ کاوش کے مدیر مسؤل نے بتایا کہ گزشتہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں کاوش میں ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم کے حوالے سے رپورتاژ شامل کر لیا جائے گا، رؤف امیر نمبر کی اشاعت پر بعد میں غور کیا جائے گا۔ مجلس عاملہ نے کاوش ستمبر۲۰۱۰ء کا پروف دیکھا اور اس کے مندرجات کی منظوری دے دی۔
 

عمران اسلم

محفلین
اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ بہت شکریہ ہم لوگوں تک مرحوم کی علمی و زاتی زندگی کے بارے میں معلومات پہنچانے کا،
 
بدھ: ۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۰ء (شعری اور تنقیدی اجلاس)
صدارت: شہزاد عادلؔ ، نظامت: طارق بصیرؔ ، غزل: نوشیروان عادلؔ
دیگر شرکائے اجلاس: ظفری پاشا، وحید ناشادؔ ، محمد حفیظ اللہ بادلؔ ،محمد ظہیر قندیلؔ ، رانا سعید دوشیؔ ، وحید ناشادؔ ، عارف سیمابیؔ ، طالب انصاری، ارشد علی، رفعت اقبال، شمشیر حیدر، محمد یعقوب آسیؔ ۔
نوشیروان عادلؔ کی تنقید کے لئے پیش کردہ غزل کا مطلع:
شخصیت میں ذرا وضع داری نہیں اس کے لہجے میں بھی انکساری نہیں
تیرا گلشن بھلا کیا سنوارے گا وہ زندگی جس نے اپنی سنواری نہیں
غزل کی پہلی خواندگی پر احباب نے املاء کی متعدد اغلاط کی نشان دہی کی۔ صدرِ محفل نے کہا: لگتا ہے فاضل شاعر نے یہ غزل جلدی میں منتخب کی اور بحث کے لئے پیش کر دی، ایسے میں املاء کی غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ تاہم انہوں نے پڑھی درست ہے۔ یعقوب آسیؔ نے کہا: درست لفظ انکسار ہے، کیا ’’انکساری‘‘ کو غلط العام قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس غزل میں ہم نوشیروان عادلؔ کا وہی ناملائم لہجہ دیکھتے ہیں جو اُس کی کتاب میں بھی ہے اور شخصیت میں بھی، تاہم میں اس کو نقص نہیں گردانتا۔ طویل بحر میں بھرتی کے الفاظ بھی لانے پڑتے ہیں، جب کہ چھوٹی بحر میں الفاظ کی کمی مسئلہ بن سکتی ہے، یہ مسئلہ تو دونوں طرف ہوتا ہے۔
رفعت اقبال نے قدرے تفصیل سے بات کی اور کہا: جیسے ہم تصویرنا، قہقہانا جیسے نئے الفاظ دیکھ رہے ہیں، شاعر کو تخلیقی تصرف کی رعایت دی جا سکتی ہے، تاہم اس غزل کے کھلے قافیے میں ’’انکساری‘‘ جیسے لفظ سے گریز بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا: لہجے کے اعتبار سے یہاں درست کہا گیا، نوشیروان عادلؔ کی یہ غزل ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے۔ تیسرا شعر کسی قدر اٹھا ہے، زندگی میں معیارات ضرور ہوتے ہیں، شاعر یہاں اصولوں کی پاسداری کرتا دکھائی دیتا ہے باقی اشعار میں مضمون آفرینی نہیں ہے۔
رانا سعید دوشیؔ نے کہا: یعقوب آسیؔ اور رفعت اقبال کی گفتگو کو ملایا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خام شکل میں یہ ایک امکانی غزل ہے۔ شاعر کو چاہئے کہ وہ اپنی تخلیقی توانائی کو کام میں لائے۔ محمد یعقوب آسیؔ نے چوتھے شعر کی تفہیم چاہی تو رانا سعید دوشی نے کہا اس کی مثال ایسے ہے جیسے توتلا بچہ الفاظ ادا کرتا ہے، قاری پر کھل نہیں پاتا۔ تخلیقی ابہام اور ابہام محض میں فرق ہوتا ہے۔ محمد ظہیر قندیل نے کہا: شاعر کہنا چاہ رہا ہے کہ خواہش ادھوری سہی، چاند تارے میری خواہشیں ہیں مگر یہ وہ نہیں جو آسمان پر ہیں۔ انہوں نے مقطع کے مفاہیم کی طرف توجہ مبذول کرائی اور اسے غزل کا سب سے خوبصورت شعر قرار دیا۔
دن گذرتے رہے، عمر ڈھلتی رہی، آئنہ رنگ اپنا بدلتا رہا
اس قدر جلد عادلؔ بسر ہو گئی زندگی میں نے جیسے گزاری نہیں
شمشیر حیدر نے محمد ظہیر قندیل سے جزوی طور پر اتفاق کیا، اور کہا: فاضل شاعر غزل کے ساتھ کچھ وقت گزارتے اور پھر اسے پیش کرتے تو اچھا ہوتا۔ وحید ناشادؔ نے کہا: سننے میں غزل اچھی لگتی ہے، مگر مفاہیم متاثر کن نہیں ہیں۔ محمد حفیظ اللہ بادل نے کہا: یہ بحر فاضل شاعر کے مزاج کی نہیں وہ اکثر چھوٹی اور درمیانی بحروں میں شعر کہتے ہیں۔ اتنی لمبی بحر اُن کے ہاں شاذ ہے۔ غزل کے مزاج کے حوالے سے انہوں نے یعقوب آسیؔ کی رائے سے اختلاف کیا۔
طالب انصاری کی رائے تھی کہ بحر متدارک کو اتنا طویل نہیں کیا جانا چاہئے، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کتاب کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں نوشیروان عادلؔ کھل کر سامنے نہیں آ سکا۔ ظفری پاشا نے کہا: لگتا ہے تیسرا شعر پہلے کہا گیا، اور باقی اشعار اس سے باندھے گئے ہیں۔
صدرِ اجلاس جناب شہزاد عادلؔ نے لمبی بحر اور غزل کے مزاج کے حوالے سے احباب کی آراء کو سراہا اور کہا غزل پر خاصی گفتگو ہو گئی۔ یہ غزل کافی پہلے کی کہی ہوئی ہے اور متعدد بار وہ حلقے میں سنا بھی چکے ہیں، اس غزل کے مقطع کا مضمون ان کی کتاب میں شامل ایک اور شعر میں بھی ہے اور الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں۔ ’’انکساری‘‘ کے حوالے سے انہوں نے کہا بہتر ہے کہ فاضل شاعر اِس پر نظر ثانی کر لیں۔ انہوں نے غزل کو مناسب قرار دیا۔ اور تنقیدی نشست کے اختتام کا اعلان کیا۔
واہ سے جناب طالب انصاری (جنرل سکریٹری، صریر خامہ) اور جناب ارشد علی (سکریٹری نشر و اشاعت، ایضاً) کی آمد کا بڑا مقصد آئندہ اتوار کو ہونے والے ادبی ریفرنس کی تفصیلات طے کرنا تھا۔ لہٰذا ظفری پاشاؔ (صدرِ حلقہ)، طارق بصیرؔ (معتمد عمومی)، شہزاد عادلؔ اور رانا سعید دوشیؔ (خصوصی نمائندگان) اُن سے بات چیت کے لئے رک گئے اور دیگر احباب کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔ تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
 
محسن احسان
اردو غزل کا ایک درخشاں ستارہ
پیدائش: ۱۹۳۲ء ڈھکی نعل بندی، پشاور
وفات: جمعرات ۲۳؍ ستمبر ۲۰۱۰ء
پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ ۱۳ کتابیں تصنیف کیں۔ تنقیدی مضامین لکھے۔ گندھارا ہندکو بوڑد کے رکن رہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر معروف ہیں۔ جون ڈرائیڈن اور جارج برنارڈ شا کے شہ پاروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔
محسن احسان کی ہندکو شاعری ماہنامہ ’’ہندکو زبان‘‘ (ایڈیٹر مختار علی نیر) میں شائع ہوتی رہی۔ ان کی نظموں کا انگریزی، چینی، ہندی اور بھاشا ملائیشیا میں ترجمہ بھی ہوا۔
شعری مجموعے
نا تمام
نا گزیر
نا شنیدہ
نا رسیدہ


شبنم جو ملے خواہشِ دریا نہیں کرتے
ہم حد سے کبھی بڑھ کے تمنا نہیں کرتے

آنکھوں کے جزیروں میں بھی پانی نہیں ملتا
پیاسے ہیں مگر کوئی تقاضا نہیں کرتے

ہم راکھ ہوئے آتشِ خاموش میں جن کی
حیرت ہے کہ وہ لوگ تماشا نہیں کرتے

سیراب کرو دل کو اب اشکوں سے کہ بادل
اس خشک زمیں پر کبھی برسا نہیں کرتے

رنگ ِ گل و لالہ سے دہک اُٹھا ہے گلشن
ہم چاکِ قفس سے بھی نظارا نہیں کرتے

کچھ ایسے یقیں اُٹھ گیا اب اہلِ جہاں سے
غیروں کا تو کیا خود پہ بھروسہ نہیں کرتے

تنہائی میں دل کھول کے رو لیتے ہیں ورنہ
محفل میں تو ہم ذکر بھی تیرا نہیں کرتے

(محسن احسان)
 
حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کا سہ ماہی خبرنامہ کاوش
دوسرا دَور، پہلی جِلد، دوسرا شمارہ (ستمبر ۲۰۱۰ء)

اس شمارے کے مشمولات
غزلیات: نوید صادق، شمشیر حیدر، امجد شہزاد، احمد فاروق، خیال کنجاہی، الیاس بابر اعوان، وحید ناشادؔ ، ابو ذر، نوشیروان عادلؔ ، ظفری پاشا۔
منظومات: عصمت حنیف، طالب انصاری، وحید ناشادؔ ، رانا سعید دوشیؔ ، محمد یعقوب آسیؔ ۔ افسانے: سعید گل، آغا گل، ظفری پاشا، اسد محمود خان، شکیل شاکیؔ ۔
نقشِ دوام: میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ۔
کلامِ شیریں: شیخ عثمان کا فارسی کلام۔
بیاضِ رفتگاں سے: عدیم ہاشمی، مقبول کاوشؔ ، نوشاد منصفؔ ۔
حرفِ لطیف: محمد ظہیر قندیل۔
پنجاب رُت: ڈاکٹر ریاض مجید، عبیداللہ توحیدی، ڈاکٹر رشید انور، تابش کمال۔
منزلوں کے خواب: محمد یعقوب آسیؔ ۔
بوئے گل (حلقہ کے تنقیدی اجلاسوں میں پیش کی گئی غزلیں) ساجد حیات، محمد یعقوب آسیؔ ، طارق بصیرؔ ، نوشیروان عادلؔ ، شہزاد عادلؔ ، راکب راجا، رانا سعید دوشی
حلقہ کے ادبی اجلاسوں کی روداد: طارق بصیرؔ ، محمد یعقوب آسیؔ ۔
گاہے گاہے باز خواں: محبوب الشعراء (سخا دہلوی) سے انتخاب۔
مضمون: بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔
کارواں بنتا گیا :نئے لکھنے والوں کی شاعری۔
ہم قلم ہم قدم: تبصرے۔
زمیں کھا گئی: ڈاکٹر رؤف امیر، محسن احسان، اور ڈاکٹر وزیر آغا کی رحلت پر رپورتاژ۔
قیامت نامے
..... اور
بہت کچھ

بدھ ۲۹؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کے ہفتہ وار ادبی اجلاس میں پیش کیا جائے گا
ان شاء اللہ۔
 
کلام
میر تقی میرؔ
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
کوئی نامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تئیں کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
*********


ترجمہ
محمد یعقوب آسیؔ
وانگ فقیراں سدّا دے کے تُر چلے
سکھ دیاں سیساں دیندے دیندے تُر چلے
تیرے بن کیہ جیناں ساڈا وعدہ سی
کیتے جیہڑے قول، نبھائے تُر چلے
جھوندی اکھیں ویہندے بے شک ویہندے تاں
تسیں تاں منہ تے پلا کر کے تُر چلے
کناں چا سی تیرے یار دوارے دا
اپنی رت وچہ آپ نہاتے تُر چلے
جھات وکھا کے ساڈے ہوش اڑا چھڈے
سانوں ساڈے کولوں کھوہ کے تُر چلے
متھا گھسیا اینے سجدے کیتے نیں
بندہ ہون دے حق نبیڑے تُر چلے
سجناں تینوں ایتھوں تیکر پوجیا سی
رب بنا کے لوکاں بھانے تُر چلے
سوچاں غزلاں کردیوں عمر وہانی سی
ایویں نہیں اِس نوں وڈیا کے تُر چلے
کیہ دساں گے میرؔ جے کوئی پچھ بیٹھا
دنیا وچہ کیہ کرم کمائے تُر چلے
ہفتہ ۲۵؍ ستمبر ۲۰۱۰ء
 
بدھ: ۲۹؍ ستمبر ۲۰۱۰ء (تنقیدی نشست اور کاوش کا تازہ شمارہ)
صدارت: اسد محمود خان ، نظامت: طارق بصیر، افسانہ: خالد قیوم تنولی
شرکائے اجلاس کی تعداد پچیس کے قریب تھی۔ ناظم اجلاس طارق بصیر نے گزشتہ اجلاس کی روداد پڑھ کر سنائی۔ اور خالد قیوم تنولی نے افسانہ ’’خوابِ پریشان‘‘ بحث کے لئے پیش کیا۔ افسانہ ایک ایسے مزدورکے گرد گھومتا ہے جو خواب و خیال میں خود کو ایک گروپ آف کمپنیز کا مالک سمجھتا ہے جس کے حلقہ احباب میں مختلف سربراہانِ مملکت، مشہورِ عالم صنعت کار، صحانی اور فلمی دنیا کی شخصیات شامل ہیں۔وہ اپنے من کی موج کے تحت گھر سے فیکٹری تک پیدل جاتا ہے اورگیٹ آفس پر متعین شخص کی ڈانٹ سن کر خیال و خواب کی اس دنیا سے نکل آتا ہے۔صدرِ محفل جناب اسد محمود خان کی دعوت پر محمد حفیظ اللہ بادل نے گفتگو کا آغاز کی اور کہا: فاضل افسانہ نگار نے تلفظ کی متعدد غلطیاں کی ہیں (بِلّیوں اچھلنا،تَگ و دُو، برجُستہ، خود کَش بمبار، عِزّتِ مآب) ۔ محمد یعقوب آسیؔ نے ان سے اتفاق کیا اور کہا کہ تنولی صاحب ایک منجھے ہوئے ادیب اور نقاد ہیں، اُن سے ایسی فروگزاشتیں ہونا مایوس کن امر ہے۔ یعقوب آسیؔ نے مزید کہا کہ اس میں شامل فارسی مکالمے آج کل کے قاری کے لئے ثقیل ہیں۔ تاہم رانا سعید دوشی، طارق بصیر اور شہزاد عادل نے اتفاق نہیں کیا۔ رانا سعید دوشی نے کہا: امکانی طور پر یہ فاضل افسانہ نگار کے علاقائی لہجے کا اثر ہے۔ سعید گل نے کہا یہ ایک اردو افسانہ ہے جسے فارسی اور انگریزی میں پیش کیا گیا ہے۔ وحید ناشاد اور طارق بصیر کا کہنا تھا کہ فن کار پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، یہ قاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی علمی اور ذہنی استعداد کو بلند کرے۔ ظفری پاشا نے کہا مرکزی کردار کے مکالمے اس کی معاشرتی سطح سے میل نہیں کھاتے۔ لیاقت خان نے کہا کہ مزدور ہونا کم علمی سے مشروط نہیں ہے۔ محمد یعقوب آسیؔ نے سوال اٹھایا کہ یہ افسانہ ہے کہانی ہے یا کیا ہے۔لیاقت خان نے کہا یہ افسانہ بن سکتا ہے۔ محمد حفیظ اللہ بادل نے کہا ضخامت سے قطع نظر، یہ تحریر ناولٹ کے قریب ہے۔ظفری پاشا نے کہا یہ ایک کومنٹری ہے، میں اس کو افسانہ ماننے میں متامل ہوں۔ موضوع بڑا ہے، یہ ایک خواب ہے اور اسے بہتر طریقے پر لکھا جا سکتا تھا۔ اس تحریر میں تحیر پیدا نہیں ہو سکا جو افسانے کا خاصہ ہے۔ محمد یعقوب آسیؔ کے اس سوال پر کہ کیا خواب میں ایسا تسلسل ہوتا ہے ؟ امجد اقبال نے کہا کہ خواب پر پابندی نہیں لگ سکتی۔ ظفری پاشا نے کہا یہ دیکھا گیا خواب نہیں، بنا گیا خواب ہے۔ رانا سعید دوشی نے امجد اقبال سے اتفاق کیا اور ملکہ زبیدہ کے ایک خواب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا: تعبیر بتانے والے نے کہا کوئی لونڈی ایسا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ یعقوب آسیؔ نے کہا: رانا صاحب نے اپنی بات کی خود نفی کر دی ہے۔ ظفری پاشا نے کہا: فاضل تخلیق کار نے تحیر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ محمد حفیظ اللہ بادل نے جزئیات میں عدم تعلق کی نشان دہی کی۔لیاقت خان نے کہا: جدید ادب میں افسانے کا موضوع اہم ہوتا ہے، اس افسانے میں یہ المیہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک عالم آدمی کو ڈانگری پہنا دی گئی ہے۔ شہزاد عادلؔ نے کہا افسانے کی بنت میں کچھ زوائد شامل ہیں۔ ظفری پاشا نے اتفاق کیا اور کہا غیر ملکی کرداروں کی وجہ سے اس میں تصنع در آیا ہے، بیرونی کردار نکال دیں تو یہ اپنی زمین کا افسانہ بنتا ہے۔ راجا طاہر نے تنقید پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا یہاں غلطیاں نکالی جا رہی ہیں، ان کی درستی کی بات نہیں کی جا رہی۔ لیاقت خان نے کہا: یہ گفتگو تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتی ہے، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھا گیا تنقیدی نوٹ یقیناًمختلف ہو گا، غلطیوں کی نشان دہی اصلاح ہی کا حصہ ہے۔ صدرِ محفل نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا:مناسب ہو گا کہ تنولی صاحب اس افسانے کی بنت پر نظرِ ثانی کر لیں۔ انہوں نے بھرپور گفتگو کو سراہا۔اور تنقیدی نشست کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے، کاوش کے مدیر مسؤل کو دعوت دی کہ وہ تازہ شمارا پیش کریں۔ مدیرِ کاوش شہزاد عادل نے کاوش کی کاپیاں حاضرین میں تقسیم کیں۔ مدیر مسؤل نے کاوش کے دوسرے دور تک کا مختصر جائزہ اور مستقبل کے لائحۂ عمل کا نہایت خاکہ پیش کیا،اور کہا کہ زیرِ نظر پرچے میں صفحہ نمبر ۱۱ پر ’’منزلوں کے خواب‘‘ کا فرصت کے وقت مطالعہ کر لیں۔ مدیر مسؤل نے شہزاد عادل کی مدیرانہ اور پیشہ ورانہ محنت کو سراہا، طارق بصیر کی عرق ریزی اور وحید ناشاد کے انتظامی تعاون کی تعریف کی، اور کہا: اس سارے عمل میں صدرِ حلقہ جناب ظفری پاشا کی محرک حکمتِ عملی سب سے بڑا عنصر رہی ہے۔ مشمولات کے حوالے سے مدیر مسؤل نے کہا کہ نگارشات تو آپ سب کی ہیں، میں نے تو صرف ان کو یک جا کیا ہے۔ صدرِ حلقہ جناب ظفری پاشا نے محمد یعقوب آسیؔ کی مدیرانہ صلاحیتوں اور مجلس ادارت کی مستعدی اور شبانہ روز محنت پر تہنیت کا اظہار کیا۔ صدرِ اجلاس جناب اسد محمود خان نے گرد و پیش کے ادبی منظرنامے میں کاوش کی اہمیت بیان کی اور مدیران کو مبارکباد پیش کی۔
 
حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا بدھ ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء شعری اور تنقیدی اجلاس
صدارت: رانا سعید دوشی نظامت: طارق بصیرؔ غزل: الیاس بابر اعوان
دیگر شرکائے اجلاس: شکیل شاکیؔ ، رئیس قاسم، احمد ابرار، محمد حفیظ اللہ بادلؔ ، شہزاد عادلؔ ، وحید ناشادؔ ، ظفری پاشا،
محمد یعقوب آسیؔ ، الیاس بابر اعوان، اور آصف ملک

جناب الیاس بابر اعوان کو راولپنڈی سے آنا تھا، خاصی دیر تک ان کا انتظار کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس کو شعری نشست تک محدود کر دیا جائے۔ معمول کی کاروائی سے پہلے احمد ابرار کے ہاں بیٹے کی اور محمد حفیظ اللہ بادلؔ کے چھوٹے بھائی سعید اللہ قریشی کے ہاں بیٹی کی پیدائش کی خبر دی گئی۔ ہر دو احباب کو مبارک باد پیش کی گئی اور دعا کی گئی کہ اللہ کریم نومولودگان کو صاحب نصیب اور نیک بنائے اور والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ دوسری خبر نامور شاعرہ پروین فنا سید کی تھی۔ مرحومہ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ محفلِ شعر کا آغاز کرتے ہوئے، ناظمِ اجلاس نے اپنی پنجابی نظم ’’پیار دی مہندی‘‘ پیش کی، نظم کو سراہا گیا۔ شکیل شاکیؔ اور رئیس قاسم نے اپنے تازہ اشعار سنائے، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ دیگر شعراء کے پیش کردہ کلام سے انتخاب:
احمد ابرار:
ہم ان کے راستے سے ہٹ گئے ہیں
کئی ٹکڑوں میں لیکن بٹ گئے ہیں
تجھے اب یاد بھی کرتے نہیں ہیں
خود اپنے سامنے ہم ڈٹ گئے ہیں
تمہاری یاد کے اوراق سارے
کتابِ زندگی سے پھٹ گئے ہیں

محمد حفیظ اللہ بادلؔ نے دو نظمیں اور ایک غزل پیش کی۔ غزل کا ایک شعر:
چراغِ شب پہ ہوا نے زوال پھینک دیا
مگر لبوں نے دعا کا کمال پھینک دیا

شہزاد عادلؔ :
عقل، اے راز دانِ جنوں
کھول مجھ پر جہانِ جنوں
تیرے کوچے کے اہلِ ہوس
بولتے ہیں زبانِ جنوں
داغِ سجدہ نہیں، واعظو!
ہے جبیں پر نشانِ جنوں

وحید ناشادؔ نے نظم پیش کی ’’ناممکن‘‘۔ ان کی پیش کردہ غزل کا ایک شعر:
مل گئی بے شک مجھے شہرت تمہارے عشق میں
اپنی ہستی کی مگر پہچان کھو بیٹھا ہوں میں

محمد یعقو ب آسیؔ نے ایک طبع زاد غزل سنائی اور اور شیخ فخرالدین عراقی کی فارسی غزل کا پنجابی اشعار میں ترجمہ پیش کیا، منتخب اشعار (طبع زاد غزل سے):
کشتی دیکھ کے لڑنا مشکل لگتا ہے
طارق! رستہ بند کرو پسپائی کا
پتے اک اک کر کے گرتے جاتے ہیں
پیڑ پہ اگلا موسم ہے رسوائی کا
(ترجمہ سے):
در راہِ عشق بازاں زیں حرف ہا چہ خیزد
در محفلِ خموشاں منبر چہ کار دارد
عشق والیاں تئیں کیہ دِسدا ایں، دِس کیہ سمجھاویں گا جھلیاں نوں
دَڑ وَٹ کے بیٹھ جا اوئے میاں، ایتھے واعظاں دا بھلا کم کیہ اے
دائم تو اے عراقیؔ می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی عنبر چہ کار دارد
جیوندا رہ عراقیاؔ بولدا رہ، گلاں تیریاں پھل گلرزار، جیویں
تیریاں سوچاں دی مہک دے لگ بیبا، عطراں عنبراں دا بھلا کم کیہ اے

رانا سعید دوشیؔ (صدر محفل):
قدم قدم پہ سوکھے پتے بکھرے ہیں
دھیان سے چلنا، لوگ ہمارے پیچھے ہیں
آنکھیں موند کے چلنا مشکل ہوتا ہے
آ جا دونوں ہاتھ پکڑ کر چلتے ہیں
ہم ایسے لوگ جو پل پل غموں کا زہر پیتے ہیں
تو جانِ من ہمارے جسم کیا نیلے نہیں ہوں گے
یہ ریگستان کا طوفاں بڑا منہ زور ہوتا ہے
اگر تاخیر سے لوٹے تو یہ ٹیلے نہیں ہوں گے

جب جناب الیاس بابر اعوان تشریف لائے، صدرِ محفل جناب رانا سعید دوشی اپنا کلام سنا رہے تھے۔ چند منٹ کا وقفہ دے کرالیاس بابر اعوان کو غزل بحث کے لئے پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ غزل ملاحظہ ہو:
(۱)
اک خوابِ دگر تھا مری تصویر سے پہلے
یہ عالمِ امکاں مری تعمیر سے پہلے
(۲)
اب تو درِ حیرت پہ بھی دستک نہیں تھمتی
اک بند مکاں تھا تری تسخیر سے پہلے
(۳)
کچھ دن سے یہ عالم ہے توازن میں نہیں ہوں
اک سنگِ تغافل تھا میں تعبیر سے پہلے
(۴)
اب گھر میں فصیلیں ہیں مراسم کی زمیں پر
اک باپ تھا سانجھا یہاں جاگیر سے پہلے
(۵)
پھر یوں ہوا کچھ درد بھی در آئے ہیں مجھ میں
اک تُو تھا فقط وسعتِ تنویر سے پہلے
(۶)
اس شہرِ ستم گر کا ہے اتنا سا حوالہ
کٹتی ہے زباں حلقۂ زنجیر سے پہلے
(۷)
لے آئی انا کوچۂ تہمت کی ہوا میں
ہم صاحبِ کردار تھے تقصیر سے پہلے

صدر محفل کی دعوت پر محمد یعقوب آسیؔ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: اس غزل کا چوتھا، چھٹا اور ساتواں شعر، تینوں بہت خوبصورت ہیں۔ چوتھے شعر میں باپ محض ایک رشتہ نہیں ایک تہذیبی ورثے کا استعارہ بھی ہے، باپ کی جگہ جاگیر کا اہمیت اختیار کر جانا آج کا المیہ ہے۔ چھٹے شعر میں حلقۂ زنجیر اور زبان کا کٹنا موجودہ جبر کو ظاہر کرتا ہے۔ ساتواں شعر اندرونی کشمکش اور بیرونی عناصر کی چشمک کی طرف اشارہ کرتا ہے، یوں یہ سارے اشعار روایت کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور اپنے اندر جدت بھی رکھتے ہیں۔ باقی اشعار مجھ پر فوری طور پر نہیں کھلے۔ شہزاد عادلؔ نے بھی انہیں تین شعروں کو پسند کیا اور کہا یہ شاید میری اور آسیؔ صاحب کی فکری سانجھ ہے۔ بقیہ غزل کے بارے میں شہزاد عادلؔ نے کہا مصرعے بہت خوبصورت ہیں، دوسرے شعر میں تسخیر اور تیسرے میں تعبیر کا حوالہ نہیں بنتا۔
ظفری پاشا نے کہا یہ ایک منجھے ہوئے شاعر کی تخلیق ہے جس میں بھرپور شاعری موجود ہے۔ اس میں تخلیقی ابہام ہے ابہامِ محض نہیں ہے۔ صدرِ محفل نے کہا: مطلع میں کوئی کڑی غائب نہیں۔ ظفر اقبال اپنے اشعار میں حسن پیدا کرنے کے لئے کچھ کڑیاں نکال بھی دیتے ہیں۔ یہ غزل نئے معانی نکالتی ہوئی غزل ہے۔جس شعر میں بات فوری طور پر سمجھ آ جائے اس میں شعریت کی کمی ہوتی ہے۔ شہزاد عادلؔ نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا: ابلاغ بہر حال بہت ضروری ہے۔ یعقوب آسیؔ نے پانچویں شعر اور مطلع کو ملا کر مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کی، شہزاد عادلؔ نے کہا: یہ کوشش مجھے اپیل نہیں کرتی۔ صدرِ محفل نے کہا ناقدین کو چاہئے کہ اپنی ذاتی پسند ناپسند سے اوپر اٹھ کر بات کریں۔ محمد حفیظ اللہ بادلؔ نے کہا مجھے یہ غزل پسند آئی، میں اپنے حوالے سے بات کروں گا، مصرعوں کے درمیان فاصلہ جتنا زیادہ ہو قاری ان پر اتنا ہی زیادہ غور کرے گا۔ یہ ایک موڈ کی غزل ہے اس میں تصنع نہیں پایا جاتا۔
صدر محفل رانا سعید دوشی نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا: ہر شخص نے اپنے اپنے راویۂ نظر سے بات کی ہے، مضامین کے حوالے سے جیسی گفتگو ہونی چاہئے تھی نہیں ہوئی۔ الیاس بابر اعوان بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں، ان کے ہاں کفایتِ لفظی پائی جاتی ہے۔ تمام اشعار اپنی مکمل تفہیم کر رہے ہیں۔ گنجائشیں بہر حال موجود ہیں اور احباب نے اُن کی طرف اشارہ بھی کر دیا ہے۔ صدرِ محفل نے صاحبِ غزل کا اس امر پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس حلقہ میں اپنی غزل بحث کے لئے پیش کی۔
صاحبِ غزل جناب الیاس بابر اعوان نے کہا یہ آپ لوگوں کی محبتوں کا اثر ہے، انہوں نے جملہ ناقدین کا شکریہ ادا کیا۔ طے کیا گیا کہ آئندہ بدھ کو محمد حفیظ اللہ بادلؔ اپنی کوئی تخلیق تنقید کے لئے پیش کریں گے۔

اجلاس کے اختتام سے پہلے حلقہ کے خبرنامہ ’’کاوش‘‘ کے مدیر مسؤل محمد یعقوب آسیؔ نے ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم کے حوالے سے ادبی تعریتی ریفرنس (منعقدہ ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء) کا حوالہ دیا اور کہا: میں رؤف امیر نمبر کی تجویز پیش کرچکا ہوں۔ اس ضمن میں حتمی فیصلہ مجلسِ عاملہ کرے گی، تاہم احباب سے درخواست ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے حوالے سے اپنے مضامین، مقالات، تاثرات مجلس ادارت کو پہنچا دیں۔ تاکہ مجلس عاملہ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی مجلس ادارت اپنا کام تیزی سے کر سکے۔ یعقوب آسیؔ نے بتایا کہ فیس بک پر پہلے ہی اس ضمن میں ایک مشروط اعلان جاری کیا جا چکا ہے۔

روداد نگار: محمد یعقوب آسیؔ (معتمد نشریات)
 
Top