حقیقت میں حقیقت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ ( میرا ذاتی نظریہ، چند بے ہنگم خیالات!)

سید فصیح احمد

لائبریرین
" جانے دو یار! ایسا افسانوی خیال؟ یہ تو محض فلمایا ہی جا سکتا ہے، حقیقی زندگی کا اس سے دور دور تک کوئی میل نہیں۔ حقیقت پسند بنو! حقیقت پسند! "

یہ وہ الفاظ ہیں جو اکثر ایک یا دوسری شکل میں ہمیں سننے کو ملتے ہیں۔ جب بھی ہمارے اندر کا بچہ رواج اور رائج سے ہٹ کر کچھ کہہ دے، یا کرنا چاہے۔ محبت میں، رشتے نبھاتے یا نفرت کرتے ۔۔۔۔ غرض کہ کوئی بھی دائرۂِ زندگی! مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اکثر مذکور ٹکڑے کی شکل میں "چور سلطنت" کا ڈھکے الفاظ میں ذکر کیا کرتے ہیں۔ چور سلطنت؟ ارے بھئی وہی جسے دنیا حقیقت مانتی ہے اور اسی کی جانب راغب ہوتی ہے۔ وہ سلطنت جسے ہم اپنی ہی ذات سے کسی چور کی طرح بھاگ بھاگ کر تعمیر کرتے ہیں۔ یوں تو مثالوں کی حد نہیں مگر اپنی بات کی وضاحت ایک مثال سے کرنا چاہوں گا۔

کھیلنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے اصل کی روش ہے۔ کھیلنا انسان کے بے خوف ہونے کی نشانی ہے۔ اصل اس لیئے کہ اپنی پیدائش پر ہم اپنی اصل ترین حالت میں ہوتے ہیں۔ اور کھیلنا اکثر چور سلطنت کے روا اور رائج کی وجہ سے اولیں سالوں میں ہی ہوتا ہے اس کے بعد ہم خوف پہن لیتے ہیں۔ اور پھر ہم بھی سب کی طرح اپنے اصل سے بھاگنے لگتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ضدی ہوتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں تو زیادہ ہی باغی ہوتی ہیں۔ کئی کئی سال گزر جاتے ہیں مگر کھیلنے سے باز نہیں رہتیں۔ یعنی اتنے سال وہ خوف سے ہار نہیں مانتیں۔ مردوں کے ساتھ بھاگتے وہ اکثر پیچھے مڑ مڑ کے اپنے اصل کو دھندلا ہوتے دیکھتی ہیں۔ کچھ مرد بھی ایسے ہوتے ہیں، جن کے بارے ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں ۔۔۔۔ "اس میں تو مردوں والی کوئی بات ہی نہیں (یا پھر چوروں والی بات ہی نہیں؟) " ۔۔۔۔۔۔ تو میں بات کر رہا تھا کھیلنے کی، اگر کوئی لڑکی کئی سال بیت جانے کے بعد کھیلنا چاہے باہر گلی میں جا کر، مٹی میں ۔۔۔۔ کوکلا چھپاکی، کانچے یا آنکھ مچولی تو کیا ہو؟ چور سلطنت کے کچھ تھانیدار اٹھ کھڑے ہوں گے اور لاٹھی لہراتے بولیں گے " عزت عزت عزت عزت ۔۔۔۔۔۔ !! " بڑا خوف ناک سائرن ہوتا ہے اس پولیس کا! ۔۔۔۔۔ سچ ہے آخر چوروں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے آخر! ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو صاحب حقیقت آخر ہے کیا شے؟ تو جناب میری تحقیق کے مطابق حقیقت میں حقیقت احساسات کی خام شکل ہے! ۔۔۔۔۔ ایک دوست کہنے لگے بھئی اگر احساسات خام شکل میں ہوں یعنی کوئی بندش نہ ہو تو انسان بہت تباہی کرے۔ ارے بھئی میں ایک چور کے رواج اور رائج شدہ احساسات کی بات نہیں کر رہا، اپنے اصل کے خام کی بات کر رہا ہوں۔ سنا ہے اس وقت ہم گناہ سے آگاہ نہیں ہوتے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس بے ہنگم تمہید کے آخر میں ایک اور خام خیالی کا ذکر کر کے بات کو تمام کروں گا۔ کتنا اچھا ہو اگر ہم اپنے بچوں کو اصل اور حقیقت کی ممنوع شکل سے آگاہ کریں، ہم تو چوری کرتے ادھیڑ عمر ہو چکے مگر کتنا اچھا ہو اگر ہم چور سلطنت سے بغاوت کر کے اپنے بچوں کو اس چوری اور سینہ زوری سے محفوظ کر لیں؟

جزاکم اللہ خیرا
فصیح احمد
۴ جون،۲۰۱۵
 

arifkarim

معطل
تو میں بات کر رہا تھا کھیلنے کی، اگر کوئی لڑکی کئی سال بیت جانے کے بعد کھیلنا چاہے باہر گلی میں جا کر، مٹی میں ۔۔۔۔ کوکلا چھپاکی، کانچے یا آنکھ مچولی تو کیا ہو؟
پنجاب کے مختلف گاؤں میں آج بھی خواتین بچوں کیساتھ کبھی کبھار دیسی کھیل کھیلتی نظر آتی ہیں۔ میرا خیال ہے یہ کلچرل معاملہ ہے وگرنہ بڑی عمر میں بچوں والے کھیل کھیلنا ہر جگہ معیوب تو نہیں سمجھا جاتا :)

تو آپ ایک بغاوت کی تحریک شروع کرنے کے درپے ہیں :)
کیا بے ضرر کھیل کھیلنا بغاوت ہے؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک استعاراتی تحریر ہے اس کے باوجود یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم تو اب بھی جو کھیل کھیلنا چاہیں کھیلتے ہیں۔ نہ کبھی کسی نے روکا اور نہ کبھی کسی کو ہم نے روکا۔۔۔۔ باقی رہی بات گلی میں کھیلنے کی یعنی سرعام وہ کھیل کھیلنے کی جس کے بارے میں کوئی یہ کہے کہ دیکھو ابھی تک بچگانہ حرکات نہیں گئیں۔۔۔ تو بھائی ہم نے تو ابھی بھی بزرگوں کو چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلتے دیکھا ہے۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ زمانے کی کروٹوں کے سبب وہ کھیل ہی معدوم ہوگئے ہیں جو گلی محلوں میں مل جل کر کھیلے جاتے تھے۔
باقی رہی بات دنیا و زمانے کی میاں۔۔۔ تو ہر دور کے اپنے قاعدے و قانون رہے ہیں۔ ان قاعدے رواجوں سے ہٹ کر جب بھی چلو گے لوگ کچھ تو کہیں گے کہ لوگوں کا کام ہے کہنا۔ اب اگر اتنی پرواہ ہے دنیا کی اور دنیاوی باتوں کی تو یہ الگ بات ہے۔۔۔
 
آپ دنیا میں کچھ بھی کریں اور جو بھی کہیں ، آپ کو خود اتفاق کرنے والے اور اختلاف رکھنے والے لوگ مل ہی جاتے ہیں۔ سو ٹینشن ناٹ ;)
 
Top