حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور سرایا کا مختصر تذکرہ اور بعد کے مسلمانوں ک

بتیسواں باب
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور سرایا کا مختصر تذکرہ اور بعد کے مسلمانوں کی فتوحات کے مختصر احوال

امام ابو عبداللہ الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کی فرضیت کا حکم مختلف مراحل سے گزر کر نازل ہوا ۔
( 1) سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خود آپ کی ذات کے بارے میں احکام نازل ہوتے رہے ۔
( 2 ) پھر آپ پر کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوا :قُم فَا نذِ ر ( مدثر ۔ 2) [اٹھو اور ہدایت کردو]
( 3 ) آپ کو اس بارے میں کچھ خوف لاحق ہوا تو یہ آیات نازل ہوئیں:
[arabic]يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [/arabic]( سورہ المائدہ 67)
اے پیغمبر جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ( یعنی پیغمبری کا حق اداء نہ کیا ) اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔
( 4) جب کافروں نے دعوت سن کر مذاق اڑایا ، آپ کو جھٹلایا تو صبر کا حکم نازل ہوا :
[arabic]فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [/arabic]( الحجر ۔ 94 ۔ 95)
پس جو حکم تم کو ( اللہ تعالی کی طرف سے ) ملا ہے وہ ( لوگوں کو سنا دو اور مشرکوں کا ( ذرا ) خیال نہ کرو ہم تمھیں ان لوگوں ( کے شر ) سے بچانے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں ۔
( 5 ) پھر آپ کو ان سے اعراض کا حکم دیا گیا :
[arabic]وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلا [/arabic]( المزمل ۔ 10)
اور جو جو ( دل آزار ) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو۔
اور آپ سے فرمایا گیا !
[arabic]وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ [/arabic]( الانعام ۔ 68 )
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ۔
( 6 ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی گئی اور یہ ارشاد نازل ہوا :
[arabic]وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الأرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَ[/arabic]عَةً ( النساء ۔ 100)
اور جو شخص اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑجائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائیگا ۔
( 7 ) پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا اور اللہ تعالی نے فرمایا :
[arabic]وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ [/arabic]( بنی اسرائیل ۔ 80)
اور کہو کہ اے پروردگار مجھے ( مدینے میں ) اچھی طرح داخل کیجیئو۔
( 8 ) پھر مسلمانوں کو ان لوگوں سے قتال کی اجازت دی گئی جو خود مسلمانوں سے قتال کریں:
[arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [/arabic]( البقرہ ۔ 190 )
اور تم لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی نہ کرو بے شک اللہ تعالی حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے ۔
( 9 ) پھر خود جہاد شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی :
[arabic]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ[/arabic] ( الحج ۔ 39 )
( اب ) ان لوگوں کو لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے جن سے کافر لڑتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالی ان ( مسلمانوں ) کو غالب کرنے پر قادر ہیں ۔
( 10 ) پھر اللہ تعالی نے جہاد کو فرض کر دیا اور مکہ میں پیچھے رہ جانے والوں پر ہجرت فرض کردی اور یہ آیات نازل ہوئیں :

[arabic]كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ[/arabic] (البقرہ ۔ 216 )
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً ) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں برا ہو۔

[arabic]قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً[/arabic] ( التوبہ ۔ 123 )
اپنے قریب کے کافروں سے لڑو اور چاہئے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں۔
[arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ[/arabic] ( البقرہ ۔ 244 )
اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جان لو بے شک اللہ تعالی خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں ۔
اور اسی طرح کی دوسری آیات نازل ہوئیں ۔
( 11 ) پھر جہاد کو ایک ایسی لازمی چیز قرار دے دیا گیا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
[arabic]إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[/arabic] ( التوبہ ۔ 111 )
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ( یہ ) اللہ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے ( خرید و فروخت ) پر جو تم نے اللہ سے کیا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔
مراد اس آیت سے یہ ہے کہ جب جہاد کو فرض کر دیا گیا تو اسے ماننا اور کرنا ایمان کا جزء بن گیا اور اس کی فرضیت اس شرط پر ہوئی جو اس میں نکل کر قتل کرے گا یا قتل ہوگا تو اسے جنت ملے گی اور اس چیز کو ایک خرید و فروخت کی شکل میں پیش کیا گیا کہ مسلمان مجاہدین بیچنے والے ہیں ۔ اللہ تعالی خریدار ہے اور خریدنے والا جب قیمت پیش کردے تو بیچنے والے پر بیچی گئی چیز دینا لازم ہو جاتا ہے پس اس سے جہاد کی فرضیت اور اس کا لازم ہونا سمجھ میں آگیا ( شعب الایمان للبیہقی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی سودے کے قیمتی ہونے کا اندازہ تین چیزوں سے لگایا جاتا ہے ۔
( 1 ) خریدنے والے کی عظمت سے کیونکہ بڑے لوگ کبھی حقیر چیزیں خریدنے کے لئے نہیں نکلتے ۔
( 2 ) خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان خرید و فروخت کروانے والے کی عظمت سے کیونکہ بڑے لوگ کبھی کسی ادنی سودے کے درمیان نہیں آتے ۔
( 3 ) قیمت کی عظمت سے کیونکہ کسی گھٹیا چیز کے لئے بڑی قیمت نہیں لگائی جاتی ۔ بس اسی سے آپ مجاہدین اور شہداء کی جانوں کی قیمت کا اندازہ لگا لیں کہ ان کا خریدار خود اللہ تعالی ہے اور درمیان میں سودا کرنے والے سید الکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سودے کی قیمت اللہ کے قرب والی جنت ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ جانیں تین قسم کی ہیں ایک وہ ہیں جن کی آزادی کی وجہ سے ان کا سودا نہیں ہوا یہ انبیاء علیہم السلام کی جانیں ہیں ۔
دوسری وہ جانیں جن کا سودا ان کے گھٹیا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا یہ کافروں کی جانیں ہیں۔
تیسری وہ جانیں جن کی اعزاز کی وجہ سے ان کا سودا ہو گیا یہ ہیں ایمان والوں کی جانیں ۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان اللہ کے غلام ہیں اور غلام کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی جو وہ اپنے آقا کو بیچ سکے [ کیونکہ غلام اور اس کی تمام چیزیں اس کے آقا کی ہوتی ہیں ] تو غلام اسی وقت اپنے آپ کو آقا کو بیچ سکتا ہے جب آقا اسے آزاد کردے پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اپنے جن بندوں کی جان کو خریدتا ہے پہلے انہیں دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور اس بات کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں مجاہدین کے لئے آگ کے حرام ہونے اور آگ سے ان کے آزاد ہونے کا ذکر ہے ۔
تقریر لطیف
جب اللہ تعالی نے اطلاع دی کہ میں نے ایمان والوں کی جان و مال کو خرید لیا ہے تو ایمان والوں نے عرض کیا یا اللہ اس کی قیمت کیا ملے گی تو اللہ تعالی نے فرمایا : بِانَّ لَھُم الجَنَّۃَ تمہیں جنت ملےگی پھر انہوں نے پوچھا ہم سودا کس طرح آپ کے سپرد کریں تو جواب ملا یُقَاتِلُونَ فَی سَبِیل اللہِ فَیَقتُلُونَ وَ یُقتَلُونَ میدان جہاد میں چلے آؤ لڑو اور جانیں قربان کرو سودا ہم تک پہنچ جائے گا ۔ پھر انہوں نے عرض کیا یا اللہ آپ نے خود فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت دو گواہ بنا لیا کرو اور ضمانت لکھوا لیا کرو تو اس خرید و فروخت کے گواہ کون ہیں ؟ جواب ملا ۔ وَعداً عَلَیہِ حَقّاً فِی التَّورَا ۃِ وَالاِنجِیلِ وَالقُران ۔ کہ تم گواہوں کی بات کرتے ہو ہم نے اس خرید و فروخت پر تین کتابوں اور ان پر عمل کرنے والی تین امتوں کو گواہ بنا دیا ہے ۔ پھر انہوں نے عرض کیا کہ اللہ آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں آپ سےکوئی پوچھ بھی نہیں سکتا اگر آپ نے ہمارا اجر مٹا دیا تو ہم گھاٹے میں رہ جائیں گے جواب ملا : وَ مَن اَوفٰی بَعَھددِہِ مِنَ اللہِ کہ ہم سے بڑھ کر عہد کو پورا کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ پھر ہر خرید و فروخت کے بعد تو ندامت یا غمی پہنچتی ہے یا فرحت یا خوشی ۔ تو یہ خرید و فروخت کس قسم کی ہے ۔ ارشاد ہوا : فَاستَبشِرُو ا بِبَیعِکُم الِّذِی بَایَعتُم بِہ تم لوگ اس معاملے پر خوشیاں مناؤ اور اس کی مزید تاکید کے لئے فرمایا: وَ ذَلِلَ ھُوَ الفَو زُ العَظِیمُ ۔ اور بے شک یہی بڑی کامیابی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ایک اعرابی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے اس نے پوچھا یہ کس کا کلام ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اس نے کہا اللہ کی قسم یہ تو نفع والا سودا ہے ہم اس خرید و فروخت کو کبھی ختم نہیں کریں گے چنانچہ جہاد میں نکل کر شہید ہو گیا ۔ّّّّ
 
فصل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات مبارک [ جن میں آپ بنفس نفیس تشریف لے گئے ] ابن اسحٰق اور موسٰی بن عقبہ کے قول کے مطابق ستائیس ہیں اور باقی حضرات نے ان کی تعداد پچیس بتائی ہے جب کہ بعض روایات سے ان دونوں کے علاوہ تعداد بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ سرایا جن میں آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھیجا [ اور خود تشریف نہیں لے گئے ] ابن سعد اور حافظ و میاطی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق چھپن ہیں موسٰی بن عقبہ فرماتے ہیں کہ سرایا کی تعداد سینتالیس ہے جبکہ بعض نے اڑتالیس اور بعض نے چھتیس کی تعداد بھی بتائی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
اب ہم ابن اسحٰق کی روایت سے ترتیب وار غزوات اور سرایا کا تذکرہ کرتے ہیں۔
( 1 ) غزوہ الابواء
اسے غزوہ ودان بھی کہتے ہیں یہ صفر 1 ھ میں پیش آیا اور اس میں لڑائی نہیں ہوئی ۔
( 2 ) غزوہ بواط
یہ ربیع الاول 2 ھ میں پیش آیا ۔
( 3 ) غزوۃ العشیرہ
یہ جمادی الاولٰی 2 ھ میں پیش آیا ۔
( 4 ) غزوہ بدرالاولٰی
یہ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق غزوۃ العشیرۃ کی چند راتوں کے بعد پیش آیا آپ اس میں کرزبن جابرالفہری کے پیچھے نکلے تھے۔
غزوہ بدر الکبریٰ
یہ عظیم الشان معرکہ جس میں اللہ تعالی نے اسلام کو عزت بخشی اور کافروں کے رؤسا کو ہلاک فرمایا سترہ رمضان 2 ھ کی صبح پیش آیا۔
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ اور مشرکوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور اس لڑائی میں ہر تین مسلمان ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے ۔ ( صحیح مسلم )
صحیح بخاری شریف میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کئی صحابہ کرام سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد طالوت کے اس لشکر کے برابر تھی جنہوں نے [شرط پوری کرکے ] نہر کو عبور کر لیاتھا۔ (بخاری )
غزوہ بدر کے بعض اہم واقعات
مکہ مکرمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اس نے ابطح میں کھڑے ہوکر چیخ کر یہ اعلان کیا اے آل غدر تین دن میں اپنے قتل ہونے کی جگہ کی طرف نکلو۔ لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے پھر وہ اپنا اونٹ لے کر مسجد حرام کی طرف گیا اور وہاں پر اس نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر پھر وہی اعلان کیا پھر وہ جبل ابی قبیس پر چڑھ گیا اور وہاں سے وہی آواز لگائی اور اوپر سے اس نے ایک چٹان پھینکی جب وہ چٹان نیچے پہنچی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں اس کا کوئی ٹکڑا نہ گرا ہو۔
عاتکہ نے اپنے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ خواب بتایا اور کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تمھاری قوم پر کوئی بڑی بلا اور مصیبت آنے والی ہے مگر تم یہ خواب کسی کو نہ بتانا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ خواب اپنے قریبی دوست ولید بن عتبہ کو بتایا اور اسے یہ خواب خفیہ رکھنے کی ہدایت کی مگر ولید نے اپنے باپ کو بتایا اور یوں یہ خواب پورے مکہ میں پھیل گیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسجد حرام گئے تو ابو جہل نے انہیں طنزاً کہا کہ ابوالفضل تمھارے مرد تو نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اب تمھاری عورتیں بھی اس کا دعویٰ کرنے لگی ہیں ۔ حضرت عباس نے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ تو اس نے عاتکہ رضی اللہ عنہا کا خواب بیان کیا اور کہنے لگا اگر تین دن میں یہ خواب سچا نہ نکلا تو ہم لکھ کر لٹکا دیں گے کہ تمھارا گھرانہ عرب کا سب سے جھوٹا گھرانہ ہے ۔ ابوجہل نے اس خواب کو لے کر حضرت عباس اور ان کے گھرانے کو خوب بدنام کیا تو تیسرے دن حضرت عباس ابو جہل کا علاج کرنے کے لئے نکلے مگر جب آپ حرم میں پہنچے تو ابوجہل تیزی سے باہر نکل رہا تھا کیونکہ اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کی آواز سن لی تھی وہ اپنے اونٹ پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے کپڑے پھاڑ رکھے تھے اور اونٹ کی ناک کاٹ رکھی تھی اور کجاوہ الٹا پھیرا ہوا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا اے قریش والو! اپنے قافلے کی خبر لو تمھارے اموال ابوسفیان کے قافلے میں ہیں اور اس پر محمد اور ان کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا ہے ۔ بھاگو ، جلدی کرو ، مدد کو پہنچو یہ سنتے ہی لوگ جلدی جلدی تیاری کرنے لگے اور کہنے لگے کہ کیا محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] نے اسے ابن الحضرمی کا قافلہ سمجھ رکھا ہے ۔ ہر گز نہیں وہ اب کچھ اور دیکھیں گے ۔ اہل مکہ میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں بچا جو نہ خود نکلا ہو یا اس نے اپنی جگہ کسی کو نہ بھیجا ہو۔
• حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ستر اونٹوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے ہر اونٹ پر تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے راستے میں آپ کو قریش مکہ کے لشکر کی روانگی کی اطلاع ملی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع فرمائی اور انہیں مشورہ کے لئے جمع فرمایا سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جانثاری فرمایا پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جانثاری فرمایا ان کے بعد حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا اے اللہ کے رسول اللہ تعالٰی نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے آپ اس کو سرانجام دیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ ہر گز نہیں کہیں گے کہ اے موسیٰ تم اور تمھارا رب جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لیکن ہم تو یوں کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کا رب قتال کرے ہم بھی آپ کے ساتھ قتال کریں گے اگر آپ ہمیں برک الغماد [ نامی مقام ] تک لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد کی اس گفتگو کی تعریف فرمائی اور انہیں دعائے خیر سے نوازا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگوں مجھے مشورہ دو یہ جملہ آپ نے تیسری بار فرمایا تھا چنانچہ اسے سن کر انصار کے سردار حضرت سعد بن معاذ فرمانے لگے یا رسول اللہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم انصار سے پوچھ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور اس بات کی گواہی دی کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہی حق ہے۔ اطاعت اور جانثاری کے بارے میں ہم آپ سے پختہ عہد و پیمان کر چکے ہیں ، آپ جو چاہئے کر گزریئے ہم آپ کے ساتھ ہیں قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی وقت سمندر میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا ہم کل دشمنوں سے مقابلے کو برا نہیں سمجھتے ہم لڑائی میں ثابت قدم رہنے والے اور مقابلے کا حق اداء کرنے والے لوگ ہیں امید ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سے آپ کو وہ چیز دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی آپ اللہ کے نام پر ہمیں لے چلئے۔
مسلم کی روایت میں یہ تقریر حضرت سعد بن عبادہ کی طرف منسوب ہے مگر وہ درست نہیں ہے کیونکہ حضرت سعد بن عبادہ کا بدر میں شریک ہونا بالاتفاق ثابت نہیں ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں سن کر خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نام پر چلو اور تم کو بشارت ہو اللہ تعالٰی نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابوسفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر فتح و نصرت عطاء فرمائے گا اللہ کی قسم گویا کہ میں مشرکوں کے قتل ہو کر گرنے کی جگہ دیکھ رہا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بدر کے قریب آکر آپ نے پڑاؤ ڈالا۔
• حضرت حباب بن منذر بن جموع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے یہ پڑاؤ اللہ کے حکم سے ڈالا ہے تو پھر ہمارے لئے یہاں سے آگے پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں یا آپ نے جنگی حکمت عملی کے تحت اس جگہ کو منتخب فرمایا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جگی حکمت عملی کے تحت ہے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر تو ہمیں مشرکین کے سب سے قریبی پانی کے پاس پڑاؤ ڈالنا چاہئے تاکہ ہم پیچھے سے کنویں کو بند کردیں اور حوض بنا کر پانی جمع کرلیں اور یوں مشرکین کو پانی نہیں مل سکے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل فرمایا ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر حضرت حباب کے مشورے کی تائید فرمائی ۔ ( طبقات ابن سعد )
• ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق قریش نے عمیر بن وھب جمعی کو بھیجا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کا اندازہ لگا کر آؤ اس نے لشکر کے گرد گھوڑا گھمایا اور کہنے لگا تین سو سے کچھ زیادہ یا کچھ کم ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے پیچھے کوئی کمین گاہ تو نہیں بنائی ہوئی کہ جس میں انہوں نے کمک چھپا رکھی ہو چنانچہ وہ دور دور تک گھوڑا دوڑاتا رہا اور واپس آکر کہنے لگا میں نے کچھ نہیں دیکھا لیکن اے قریش والو میں نے ہر طرف مصیبتیں ہی مصیبتیں دیکھی ہیں یثرب کے اونٹ اپنے اوپر سرخ موت کو اٹھا کر لائے ہیں تمھارے مقابلے میں ایسے لوگ ہیں جن کی پناہ گاہ صرف ان کی تلواریں ہیں بخدا اگر تم ان میں سے کسی کو قتل کروگے تو تمھیں بھی قتل ہونا پڑے گا اگر تم میں سے ان کی تعداد کے برابر لوگ قتل ہوگئے تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ ہوگا اس لئے آپس میں مشورہ کرلو ۔ اسی وقت عامر بن حضرمی کھڑا ہوا اور اس نے اپنے پرانے مقتولوں کا نام لے کر لوگوں کو پھر بھڑ کا دیا ۔
• مشرکوں میں سے سب سے پہلے اسود بن عبدالاسود مخزومی نامی شخص نکلا یہ بہت برا اور بد اخلاق آدمی تھا اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ یا تو مسلمانوں کے حوض سے پانی پیوں گا یا اس حوض کو گرا دوں گا یا میں اس کی خاطر مر جاؤں گا جب وہ آگے بڑھا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسے روکنے کے لئے نکلے دونوں میں مقابلہ ہوا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے تلوار مار کر اس کا پاؤں پنڈلی کے درمیان کاٹ دیا وہ گر گیا اور پھر گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھنے لگا کیونکہ وہ اپنی ضد اور قسم پوری کرنا چاہتا تھا مگر جب وہ حوض تک پہنچا تو وہیں حضرت حمزہ نے اسے مار دیا اور وہ حوض میں گر گیا ۔
• مشرکین کی طرف سے باقاعدہ مبارزے کے لئے تین افراد نکلے عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ انہوں نے للکار کر مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی مسلمانوں کی طرف سے تین انصاری صحابی نکلے۔ یہ تھے حضرت عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنہ دونوں عفراء کے بیٹے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ۔ مشرکین نے پوچھا تم لوگ کو ن ہو ؟ انہوں نے کہا ہم انصار میں سے ہیں تو مشرکین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا اے محمد ہمارے قوم میں سے ہمارے جوڑ کے افراد نکالو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبیدہ بن حارث ، اے حمزہ ، اے علی کھڑے ہوجاؤ ، حکم کے مطابق یہ تینوں حضرات نکل کھڑے ہوئے [ چونکہ چہروں پر نقاب تھے اس لئے ] مشرکین نے ان سے بھی نام پوچھے جب انہوں نے نام بتائے تو مشرکوں نے کہا ہاں تم ہمارے برابر کے محترم لوگ ہو مقابلہ شروع ہوا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شیبہ اور ولید کو بغیر مہلت دیئے قتل کر دیا جبکہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ ( جو بڑی عمر کے تھے ) کا عتبہ کے ساتھ مقابلہ ہوتا رہا دونوں نے ایک دوسرے کو زخمی کیا حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا پاؤں کٹ گیا تھا اسی وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی مدد کو آپہنچے اور انہوں نے عتبہ کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے لے آئے۔
• حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کی صفیں سیدھی فرما کر اپنے عریش [ یعنی اپنے لئے بنائے گئے مخصوص چھپر ] پر تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق کے سوا اور کوئی نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آکر دعاء میں مشغول ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعاء کے دوران یہ بھی فرمایا اے میرے پروردگار اگر یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک کر دی گئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے آپ کی دعائیں سن لی ہیں اور وہ آپ سے اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلکی سی اونگھ آئی پھر آپ بیدار ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوشخبری لو اے ابوبکر اللہ کی مدد آچکی ہے یہ جبرئیل اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے ہانک رہے ہیں اور ان کے دانتوں پر غبار ہے ۔
• غزوہ بدر کے دن ایسی ہوا چلی کہ اس جیسی سخت ہوا انہوں کے کبھی نہیں دیکھی تھی پھر وہ ہوا چلی گئ اور دوسری بار ہوا آئی پھر وہ بھی چلی گئی اور تیسری بار ہوا آئی ۔ پہلی بار جو ہوا آئی تھی وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ، دوسری بار کی ہوا ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ حضرت میکائیل علیہ السلام تھے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اترے ، تیسری بار کی ہوا ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ حضرت اسرافیل تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اترے اس دن کئی کافروں کے سر اڑ گئے مگر معلوم نہ ہوا کہ اسے کس نے مارا ہے اور بعض لوگوں کے ہاتھ کٹ گئے مگر کاٹنے والا کوئی نظر نہ آیا ۔(طبقات ابن سعد)
٭ حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کی بدر کے دن ہم مقتول مشرکوں میں سے فرشتوں کے ہاتوں قتل ہونے والوں کو گردن اور جوڑوں پر آگ سے جلے ہوئے کالے نشانوں سے پہچانتے تھے ۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک فرشتہ ہی سب مشرکوں کے لئے کافی تھا تو پھر اتنے سارے فرشتے کیوں بیجھے گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے دلوں کو مطمئن کرنے کے لئے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز و اکرام کے اظہار کے لئے اتنی تعداد میں فرشتے بھیجے۔
بعض علماء کا یہ بھی فرمانا ہے کہ اللہ تعالی نے اتنے فرشتے اس لئے بھیجے کیونکہ اللہ تعالی نے ان فرشتوں کو قیامت کے د ن تک کے لئے جہاد کرنے والا بنا دیا ہے چنانچہ مسلمانوں کا جو لشکر ایمان اور ثابت قدمی کے ساتھ لڑ تا ہے ۔ یہ فرشتے اترتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر لڑ تے ہیں۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کے غزوہ بدر میں جن پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعے اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی وہ قیامت کے دن تک مجاہدین کے مددگار ہیں۔
٭ حضرت رفاعی بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں بدر والوں کا کیا مقام ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کیا جاتا ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا اسی طرح بدر میں شریک ہونے والے فرشتوں کا حال ہے یعنی انہیں بھی فرشتوں میں افضل سمجھا جاتا ہے ۔ (بخاری )
• حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی لیکر شاھت الوجوہ فرما کر قریش کی طرف پھینکی اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ علیہ وسلم کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا تھوڑی دیر میں مشرکین کو شکست ہوگئی اور ان کے کئی بڑے سردار مارے گئے اور کئی گرفتار ہوئے ۔
• حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کے پیچھے دوڑا اوپر سے ایک کوڑے اور ایک گڑ سوار کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا اے حیزوم آگے بڑھ اس کے بعد مسلمان نے دیکھا کہ وہ مشرک زمین پر چت پڑا ہوا ہے اور اسکی ناک اور چہرہ کوڑے کی ضرب سے پھٹ کر نیلا ہو گیا ہے اس انصاری صحابی نے یہ سارا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ چوتھے آسمان کی مدد تھی اس دن ستر مشرک مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے۔ (مسلم)
• قاسم بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے جس دن قریش مکہ کا مسلمانوں سے مقابلہ ہوا اس دن جنات میں سے ایک پکارنے والے جن نے بلند آواز میں اشعار پڑھے مگر وہ خود نظر نہیں آرہا تھا [اشعار کا مفہوم یہ ہے]
حنیفی جنگ کے لئے بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں
اور ان کی یلغار کے ذریعے کسریٰ اور قیصر کی حکو متیں ٹوٹ جائیں گی
اس جنگ نے قریش کے مردوں کو ہلاک کر دیا
او ان کی عورتوں کو حسرت کے ساتھ سینہ پیٹتے ہوئے گھروں سے نکال دیا
ہلاکت ہے اس کے لئے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہوا
اور ہدایت کے راستے سے بھٹک کے گمراہیوں میں پڑ گیا
کسی نے یہ آواز سن کر پوچھا کہ حنیفی کون ہے تو دوسروں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ۔ کیونکہ ان کا گمان ہے کہ وہ حضرت ابراہیم حنیف کے دین پر ہیں ابھی یہ لوگ باتیں کررہے تھے کہ انہیں بدر میں مشرکین کی شکست کی خبر پہنچ گئی۔
(6) غزوہ بنی سلیم
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس تشریف لے آئے تو ابھی آپ نے سات راتیں بھی نہیں قیام نہیں فرمایا تھا کہ آپ خود بنی سلیم سے مقابلے کے لئے نکلے اور آپ کدر نامی چشمے تک پہنچ گئے وہاں آپ نے تین دن قیام فرمایا اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی ۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام )
( 7 ) غزوہ بنی قینقاع
2 ھ شوال کی پندرہ تاریخ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا بیسواں مہینہ شروع ہو چکا تھا یہ غزوہ پیش آیا مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں میں سے یہ سب سے پہلا قبیلہ تھا جس نے عہد شکنی کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے جواب دیا اور جنگ کے لئے قلعہ بند ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعے کا سخت محاصرہ کر لیا اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ یہ معاہدہ کرکے قلعہ سے اتر آئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہونگے اور ان کی عورتیں اور بچے خود ان کے رہیں گے قلعے سے اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشکیں باندھ دیں اور اس کام پر حضرت منذر بن قدامہ کو مقرر فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کی منت سماجت کرنے پر انہیں قتل کرنے کے بجائے اپنے مال و اسباب سمیت جلاوطن ہونے کا حکم صادر فرمایا چنانچہ وہ اذرعات کی طرف چلے گئے ۔ ( طبقات ابن سعد )
( 8 ) غزوہ سویق
5 ذی الحجہ 2 ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم [ دو سو سواروں کو لے کر ] ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے کے لئے نکلے مگر مشرکین بھاگ گئے اور جاتے وقت خود کو ہلکا کرنے کے لئے ستو کی تھیلیاں پھینکتے گئے اسی مناسبت سے اس غزوہ کا نام سویق پڑ گیا [ سویق عرب میں ستو کو کہتے ہیں ]
( 9 ) غزوہ غطفان
اسی کو غزوہ انمار اور غزوہ ذی اَمر بھی کہتے ہیں یہ ربیع الاول 3ھ میں پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا اور خود چار سو پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ روانہ ہوئے مگر اس غزوے میں بھی لڑائی نہیں ہوئی۔
( 10 ) غزوہ بنی سلیم
اس کو غزوہ نجران یا بجران بھی کہتے ہیں یہ جگہ حجاز کا معدن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کچھ دن قیام فرمایا [ دشمن بھاگ چکے تھے اس لئے] جمادی الاولٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی فرمائی۔ [ یہ پہلے والے غزوہ بنی سلیم کے علاوہ ہے اور سیرت کی کتابوں میں غزوہ بجران کے نام سے مشہور ہے ]
(11) غزوہ احد
یہ غزوہ 7 شوال 3ھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بتیسویں مہینے کے آ غاز میں پیش آیا اس لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد سو تھی جبکے مشرکین کا لشکر تین ہزار افراد پر مشتمل تھا ۔ ان کے پاس سات سو زرہیں دو سو گھوڑے تین ہزار اونٹ تھے جبکہ مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے ابتداء میں جتنے مشرک بھی مقابلے کے لئے نکلے مسلمانوں نے انہیں خاک و خون میں تڑپا دیا یہاں تک کہ جب مشرکوں کا جھنڈا اٹھانے والا کوئی نہیں رہا تو ایک عورت نے یہ جھنڈا اٹھا لیا یہ دیکھ کے پھر مشرک لڑنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن جب آخری جھڈا بردار بھی قتل ہو گیا تو مشرک بھاگ کر بے تحاشہ دوڑنے لگے اور ان میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا اور ان کی عورتیں ہلاکت ہلاکت پکار رہی تھی مسلمان ان کا پیچھا کر رہے تھے ۔ اسی اثنا میں پیچھے درے پر مقرر مسلمان تیر اندازوں میں سے اکثر نے اپنی وہ جگہ چھوڑ دی جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مقرر فرمایا تھا ۔ چنانچہ خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل [جو دونوں اس وقت مشرکین کے ساتھ تھے ] نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا ۔ جس سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا۔ اسی اثنا میں شیطان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ اڑا دی جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکڑ گئے مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ڈٹ کر لڑتے رہے اس غزوے کے متفرق واقعات پہلے گزر چکے ہیں۔
(12)غزوہ حمراء الاسد
اتوار کی صبح 16 شوال 3ھ میں یہ غزوہ پیش آیا قریش مکہ جب غزوہ احد سے واپس مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں راستے میں خیال آیا کہ ہم نے اپنا کام مکمل نہیں کیا چنانچہ ہمیں واپس جاکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ خود مقابلے کے لئے نکل پڑے اور آپ کے زخمی صحابہ نے بھی بھر پورساتھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسم نے مدینہ منورہ سے نکل کر آٹھ میل دور حمراء الاسد نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا مشرکین کو جب اسکی اطلاع ملی تو وہ خوف زدہ ہوکر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے اور انہوں نے مدینہ منورہ پر حملے کا ارادہ منسوخ کر دیا۔
(13)غزوہ بنی نضیر
یہ غزوہ ربیع اول 4ھ میں پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا چھتیسواں مہینہ شروع ہو ا تھا یہودیوں کے قبیلے بنی نضیر نے عہد شکنی اور شرارت کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ عسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا کئی دن کے محاصرے اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے با غات کی تباہی کے بعد ان کے دلوں پر اللہ تعالی نے رعب طاری کر دیا اور انہوں نے صلح کی درخواست کی چنانچہ انہیں اسلحےکے سوا باقی اتنا سامان جو ان کے اونٹ اٹھا سکیں لے کر جلا وطن ہونے کی اجازت دے دی گئی ان میں سے اکثر نے خیبر کا رخ کیاجبکہ بعض شام جاکر آباد ہوگئے اس واقعے کے بیان میں قرآن مجید کی سورہ حشر نازل ہوئی۔
( 14 ) غزوہ ذات الرقاع
یہ غزوہ جمادی الاولٰی 4ھ میں پیش آیا رقاع کپڑے کے چیتھڑوں کو کہتے ہیں حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوہ میں چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے تھے اور ہم نے ان پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے اسی مناسبت سے اس غزوے کا نام ذات الرقاع پڑ گیا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رقاع ا س جگہ کے ایک درخت یا پہاڑ کا نام تھا اس کی طرف یہ غزوہ منسوب ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ بنی محارب بنی ثعلبہ اور بنی غطفان کے مقابلے کے لئے نکلے تھے اس غزوے میں آپ نے صحابہ کرام کو صلٰوۃ الخوف بھی پڑھائی ۔
( 15 ) غزوہ بدر صغریٰ
اس غزوے کو غزوہ بدر موعد بھی کہتے ہیں ۔ یہ غزوہ شعبان 4ھ میں پیش آیا گذشتہ سال احد کے موقع پر ابوسفیان سے آئندہ سال بدر کے مقام پر جنگ کا وعدہ تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف لائے اور آٹھ دن تک قیام فرمایا ۔ ابوسفیان بھی مکہ سے نکلا مگر اسے ہمت نہ ہوئی اور راستے سے لوٹ گیا ۔
( 16 ) غزوہ دومۃالجندل
ربیع الاول 5ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومۃالجندل [نامی مقام ]کی طرف سے بہت بڑے لشکر کے مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے کا علم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے لشکر کے ساتھ چلتے تھے اور دن کو چھپ جاتے تھے جب دومۃ الجندل والوں کو اس لشکر کی اطلاع ملی تو وہ بھاگ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیس ربیع الثانی 5ھ میں واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔
( 17 ) غزوہ خندق یا احزاب
یہ غزوہ شوال 5ھ میں پیش آیا جب مشرکین نے مدینہ منورہ پر مشترکہ چڑھائی کی اور ابوسفیان کی قیادت میں قریش ، عینیہ بن حصن کی قیادت میں غطفان کے مشرک بنوفزارہ بنومرہ اور اشجع قبائل کے مشرکین کے ساتھ مل کر دس ہزار کی تعداد میں مدینہ منورہ کی طرف بڑھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تین ہزار مسلمانوں کو جمع فرمایا اور ان کے مشورے سے مدینہ کے باہر خندق کھودی ، مشرکین کا لشکر اس خندق کے پاس آکر رک گیا ۔ خندق کے دوسری طرف مسلمانوں کا لشکر تھا ۔ بیس دن سے زائد دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے پڑے رہے اور تیروں اور پتھروں کا تبادلہ ہوتا رہا ۔ مشرکین کی طرف سے عمرو بن عبدود خندق پار کرنے میں کامیاب ہوا مگر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ مسلمانوں کو اس لڑائی میں سخت خوف ، سردی ، اور بھوک پیاس کا سامنا کرنا پڑا ۔ پھر حضرت نعیم بن مسعود اشجعی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی قوم سے چھپ کر مسلمان ہو چکا ہوں آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم ایک تجربہ کار آدمی ہو تم سے جو ہو سکے مشرکین کے خلاف تدبیر کرو کیونکہ جنگ نام ہی اصل میں حیلہ اور تدبیر کا ہے ۔ حضرت نعیم بن مسعود پہلے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کے پاس آئے جاہلیت کے زمانےمیں آپ کےان سے قریبی تعلقات تھے آپ نے ان سے آکر پہلے خوب اپنی محبت جتائی اور پھر انہیں سمجھایا کہ قریش اور غطفان تو باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں جبکہ تم تو مدینہ کے رہنے والے ہو ۔ آج قریش اور غطفان محمد اور ان کے ساتھیوں پر حملے کے لئے آئے ہیں اور تم بلا شرط ان کی مدد کر رہے ہو حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ اگر قریش کو فتح ہو گئی تو ٹھیک ہے لیکن اگر انہیں شکست ہوئی تو وہ اپنے علاقوں میں چلے جائیں گے اور تم یہاں مسلمانوں کے سامنے اکیلے رہ جاؤ گے اور پھر جو کچھ تمھارے ساتھ ہو گا وہ تمھیں معلوم ہے اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم قریش اور غطفان کی اس وقت تک مدد نہ کرو جب تک وہ اپنے چند بڑے معزز لوگ تمھارے ہاتھوں میں رہن نہ رکھ دیں یہودیوں نے کہا یہ تو بہت اچھا مشورہ ہے اور ہم اسی کے مطابق کریں گے ۔ اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ قریش کے پاس آئے اور ان سے اپنی محبت اور دوستی جتائی جس کا قریش نے اقرار کیا پھر انہیں فرمایا کہ مجھے ایک اہم بات پتا چلی ہے جو میں تمہیں بتانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ تم دھوکہ نہ کھا جاؤ لیکن میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ تم میرا نام نہیں لو گے۔ قریش نے یہ شرط مان لی تو حضرت نعیم نے فرمایا کہ یہوودی محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے مل چکے ہیں اور انہوں نے ماضی کی ندامت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی دور کرنے کے لئے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ قریش اور غطفان کے چند بڑے معزز لوگ محمد کے حوالے کریں گے تاکہ انہیں قتل کر دیں اور پھر یہودی اور محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] مل کر باقی قریش والوں کو ختم کردیں اس لئے اگر یہودی تم سے کچھ معزز لوگ بطور ضمانت کے مانگیں تو تم نہ دینا اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ غطفان قبیلے والوں کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنے تعلق اور محبت کو جتلا کر انہیں بھی وہی باتیں بتائیں جو قریش کو بتائی تھیں۔ شوال 5ھ ہفتے کی رات اللہ کی کرنا یہ ہوا کہ ابو سفیان اور غطفان کے رؤسا نے اپنا ایک وفد بنو قریظہ کے پاس بھیجا کہ ہم اس طرح پڑے پڑے تباہ ہو رہے ہیں تم لوگ لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ تاکہ ہم صبح حملہ کرکے مسلمانوں کو ختم کر دیں ۔ یہودیوں نے جواب دیا کہ آج ہفتے کا دن ہے ماضی میں بھی اسی دن میں تجاوز کی وجہ سے ہماری قوم پر عذاب آیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ جب تک تم اپنے کچھ افراد ہمارے پاس رہن نہیں رکھواؤ گے ہم لڑائی کے لئے نہیں نکلیں گے مشرکین کو جب یہ پیغام پہنچا تو انہوں نے کہا ۔ واقعی نعیم بن مسعود نے سچ کہا تھا چنانچہ انہوں نے یہودیوں کو جواب بھیجا کہ ہم کسی کو تمھارے پاس رہن نہیں رکھیں گے اگر تم لڑائی کے لئے نہیں نکلتے ہو تو پھر ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے ۔ یہودیو ں نے جب یہ پیغام سنا تو کہنے لگے بے شک نعیم بن مسعود نے سچ کہا تھا اس طرح ان میں پھوٹ پڑ گئی اور اللہ تعالٰی نے سخت طوفانی ہوا بھیج دی جس نے ان کے پورے لشکر کو الٹ کر رکھ دیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے درمیان انتشار کی خبر ملی تو آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی خبر لینے کے لئے بھیجا اور ان کے لئے گرفتاری سے حفاظت کی دعاء فرمائی حضرت حذیفہ ان کے مجمع میں گھس گئے اس وقت ابوسفیان نے اعلان کیا کہ ہر شخص اپنے ساتھ والے کو پہچان لے [ تاکہ ہم میں کوئی مخبر نہ گھسا ہوا ہو ] حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ یہ اعلان سنتے ہی میں نے اپنے ساتھ والے کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ تم کون ہو اس نے اپنا نام بتا دیا [ اور مجھ سے کچھ نہیں پوچھا] اس کے بعد ابوسفیان نے کہا اے قریشیو ! یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے ہمارے جانور ہلاک ہو چکے ہیں بنو قریظہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور اس نے ہمیں سخت پریشان کر دیا ہے اور ہمارا چلنا پھرنا اور بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے اس لئے تم واپس لوٹ چلو میں تو جار ہا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے اونٹ پر بیٹھ گیا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں تیر مار کر ابوسفیان کو ہلاک کر دوں مگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آگیا کہ اے حذیفہ کوئی نئی بات نہ کرنا چنانچہ میں واپس آگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے میں نے آپ کو خوشخبری سنائی تو آپ نے اللہ کا شکر اداء کیا جب غطفان والوں کو قریشیوں کی واپسی کا پتہ چلا تو وہ بھی فوراً واپس لوٹ گئے ۔
( 18 ) غزوہ بنی قریظہ
غزوہ خندق سے واپسی پر صبح کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے اور سب نے اپنا اسلحہ رکھ دیا ظہر کے وقت جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا فرشتوں نے تو ابھی تک اسلحہ نہیں اتارا ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی نے آپ کو بنو قریظہ کی طرف کوچ کا حکم دیا ہے میں ان کی طرف جا کر انہیں لرزاتا ہوں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ جو مسلمان بھی فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے ۔ یہ 23 ذی القعدہ 5ھ بدھ کے دن کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین ہزار صحابہ کرام تھے اور لشکر میں چھتیس گھوڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ فرما لیا اور یہ محاصرہ پچیس راتوں تک جاری رہا بنو قریظہ والے سخت تنگی میں پڑ گئے اور اللہ تعالٰی نے ان کے قلوب میں رعب ڈال دیا چنانچہ وہ قلعوں سے اتر آئے اور ان کی خواہش پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو باندیاں اور غلام بنا لیا جائے۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو فرمایا کہ آپ نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو جاری فرما دیا اور بنو قریظہ کے چھ سو یا سات سو اسلام دشمن یہودیوں کو قتل کر دیا گیا ۔
 
( 19 ) غزوہ بنی لحیان
یہ غزوہ ربیع الاول 6ھ میں پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سو سواروں کے ہمراہ حضرت حبیب بن عدی رضی اللہ عنہ ، حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداء رجیع کا بدلہ لینے کے لئے تشریف لے گئے مگر بنولحیان بھاگ کر پہاڑوں میں چھپ گئے۔
( 20 ) غزوہ ذی قرد
یہ غزوہ 6ھ میں حدیبیہ سے پہلے ہوا ذی قرد نامی مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کی چراگاہ تھی ۔ عیینہ بن حصن فزاری نے اس پر حملہ کر دیا حضرت سلمہ بن اکوع نے کمال بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ان سب کا اکیلے مقابلہ کیا اور تمام اونٹنیاں بھی چھڑا لیں اور مال غنیمت بھی حاصل فرمایا ۔ ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سو یا سات سو افراد کو لے کر نکلے [ اس کا تفصیلی واقعہ پیچھے گزر چکا ہے ]
( 21 ) غزوہ بنی مصطلق
اس کو غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق یہ شعبان 6ھ میں پیش آیا جبکہ ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ غزوہ خندق سے پہلے شعبان 5ھ میں پیش آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ حارث بن ابو ضرار نے مسلمانوں پر حملے کے لئے بہت ساری فوج جمع کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تیز رفتاری سے ان کی طرف کوچ فرمایا اور ان کے مویشیوں کے پانی پلانے کی ایک جگہ پر انہیں پایا اور فوراً ان پر حملہ کر دیا وہ لوگ اس حملے کی تاب نہ لا سکے ان میں سے دس آدمی مارے گئے اور باقی سب مرد عورت بچے بوڑھے گرفتار ہوگئے ۔ مسلمانوں کے ہاتھوں دو ہزار اونٹ پانچ ہزار بکریاں اور دو سو گھرانے آئے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ کو اپنے نکاح میں لے لیا تو مسلمانوں نے تمام قیدی رہا کر دیئے۔
( 22 ) غزوہ حدیبیہ​
یہ غزوہ ذی قعدہ 6 ھ میں پیش آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ عمرے کے لئے نکلے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ستر اونٹ بھی تھے ۔ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کے لئے جنگ کا ارادہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو روک لیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام سے موت پر اور میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت لی مگر پھر لڑائی کی بجائے صلح ہو گئی۔ تفصیلی واقعات کے لئے سیرت کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔
( 23 ) غزوہ خیبر​
خیبر قلعوں والے ایک شہر کا نام ہے ۔ غزوہ حدیبیہ سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم 7 ھ میں خیبر کے لئے روانہ ہوئے ۔
حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو میرے چچا حضرت عامر بن اکوع نے اشعار پڑھے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]
اے اللہ تو ہدایت نہ فرماتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے
اور نہ صدقہ خیرات کر سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے
اے پروردگار ہم تیرے فضل و کرم سے بے نیاز نہیں ہیں
پس دشمنوں سے لڑائی کے وقت ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما
اور خاص سکینہ ہم پر نازل فرما۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار سن کر پوچھا یہ کون ہیں انہوں نے فرمایا میں عامر ہوں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالٰی تمھاری مغفرت فرمائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کو مغفرت کی دعاء دیتے تھے تو وہ شخص ضرور شہید ہوتا تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ کاش آپ عامر کی شجاعت سے ہمیں چند روز اور نفع عطاء فرماتے ۔ ( مسلم شریف )
اس جنگ کے دوران اہل خیبر کا مشہور سردار مرحب مقابلے کے لئے نکلا اور اس نے یہ شعر پڑھا [ مفہوم ]
اہل خیبر اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں
سلاح پوش ، بہادر اور تجربہ کار ہوں
حضرت عامر بن اکوع اس کے مقابلے میں نکلے تو آپ نے یہ شعر پڑھا [ مفہوم ]
اہل خیبر جانتے ہیں کہ میں عامر ہوں
سلاح پوش ، بہادر اور جنگوں میں گھسنے والا ہوں
مقابلے کے دوران حضرت عامر کی تلوار پلٹ کر ان کے اپنے گھٹنے پر لگی جس سے وہ شہید ہوگئے ان کے اس طرح شہید ہونے پر بعض لوگوں نے کہا کہ عامر کے سارے اعمال ضائع ہوگئے حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے لوگوں کی یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ جھوٹ بولتے ہیں عامر رضی اللہ عنہ کے دو اجر ہیں [ ایک شہید کا اور دوسرا لوگوں کی ان باتیں بنانے کا ] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس قلعے کی فتح کے لئے اب ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں میں ان کو ہاتھ سے پکڑ کر لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر لعاب مبارک لگایا تو وہ ٹھیک ہو گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا تو آپ مرحب کے مقابلے میں نکلے مرحب نے میدان میں نکل کر وہی اشعار پڑھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ رجز پڑھے [ مفہوم ]
میں وہی ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر یعنی شیر رکھا ہے
اور جنگل کے شیر کی طرح دیکھنے والوں کو ہیبت میں ڈالنے والا ہوں
مقابلہ شروع ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وار میں مرحب کے سر کو دو ٹکڑے کر دیا پھر اس کا بھائی یاسر مقابلے میں نکلا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی بات زیادہ درست ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کو قتل کیا جبکہ بعض لوگ حضرت محمد بن مسلم رضی اللہ عنہ کو مرحب کا قاتل بتاتے ہیں ۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خیبر کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ اکبر خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین ۔
[ اللہ سب سے بڑا ہے خیبر تباہ ہو گیا بے شک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے ]
یہود آپ کے لشکر کو دیکھ کر گلیوں میں بھاگنے لگے آپ نے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقی کو قیدی بنایا ۔
( 24 ) عمرۃ القضاء
اس کا نام قصاص بھی ہے علامہ سہیلی نے اسی نام کو ترجیح دی ہے بعض اہل سیر نے اسے غزوات میں شمار نہیں کیا محمد بن اسحٰق کی روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال تک مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور آپ مختلف سرایا کو روانہ فرماتے رہے ۔ پھر ذی قعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے سال کے عمرے کو قضا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے جب آپ عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پکڑ رکھی تھی اور وہ اشعار پڑھ رہے تھے ۔ [ مفہوم ]
او کافروں کے بچو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ چھوڑ دو
آگے سے ہٹ جاؤ اور ساری خیریں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں
اے میرے پروردگار ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانوں پر ایمان رکھتا ہوں
اور ان کے قبول کرنے کو اللہ کا حق جانتا ہوں
ہم تم سے جہاد اور قتال اس کا حکم مانتے ہوئے کرتے ہیں
جیسا کہ قرآن کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم تم سے لڑتے ہیں
ہم تمھیں ایسی مار ماریں گے کہ تمھاری کھوپڑیاں سر سے الک ہو جائیں گی
اور دوست کو دوست بھول جائے گا
( سیرت ابن ہشام )
( 25 ) فتح مکہ
مسلمانوں کا دس ہزار کا لشکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت مبارکہ میں رمضان 8 ھ میں مکہ میں داخل ہوا اور بعض حضرات نے مجاہدین کی تعداد بارہ ہزار بتائی ہے ۔
( 26 ) غزوہ حنین
اسے غزوہ ہوازن بھی کہتے ہیں یہ غزوہ 6 شوال 8ھ میں پیش آیا ۔ مسلمانوں نے جب مکہ مکرمہ فتح کر لیا تو حنین میں مقیم ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کو بھی خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں مسلمان ان پر حملہ نہ کردیں چنانچہ یہ سارے قبائل اور ان کی تمام شاخیں اپنے سردار مالک بن عوف نضری کی قیادت میں جمع ہو گئیں ان کی تعداد بیس ہزار تھی یہ لشکر مسلمانوں کی طرف سے روانہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بارہ ہزار کا لشکر لے کر نکلے ان میں دس ہزار کا مدنی لشکر اور دو ہزار اہل مکہ تھے ابتداء میں مسلمانوں کو ہوازن اور ثقیف کے تیر اندازوں نے پیچھے دھکیل دیا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہزاروں تیروں کے درمیان ڈٹے رہے اور مسلمانوں کو آوازیں دیتے رہے بالآخر مسلمان جمع ہوگئے اور دشمنوں کو شکست ہوئی اور ان کے چھ ہزار افراد مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہو گئے جبکہ ان کے علاوہ چوبیش ہزار اونٹ چالیس ہزار سے زائد بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔
( 27 ) غزوہ طائف​
شوال 8 ھ ہی میں غزوہ طائف پیش آیا حنین میں شکست کے بعد ثقیف کے لوگ طائف واپس آکر قلعہ بند ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر سمیت تشریف لاکر ان کا محاصرہ کر لیا اہل طائف نے خوفناک تیر اندازی کی جس سے بارہ مسلمان شہید ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دبابہ اور منجنیق بھی استعمال فرمائی کئی صحابہ کرام دبابہ میں بیٹھ کر قلعہ کی دیوار میں نقب لگانے کے لئے آگے بڑھے تو اہل قلعہ نے اوپر سے لوہے کی گرم سلاخیں برسانا شروع کر دیں جس کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے باغات کاٹنے کا حکم دیا تو انہوں نے آپ کو اللہ اور قرابتوں کے واسطے دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ اور قرابتوں کے لئے ان کو چھوڑ دیتا ہوں پھر آپ نے قلعے کے پاس یہ آواز لگوائی کہ جو غلام بھی قلعے سے اتر کر آجائے گا وہ آزاد ہے چنانچہ بارہ تیرہ غلام نیچے اتر آئے ان میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوفل بن معاویہ دیلمی رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا کہ تمھاری کیا رائے ہے نوفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ لومڑی اپنے بھٹ میں ہے اگر آپ یہاں ٹھہرے رہے تو اسے پکڑ لیں گے اور اگر آپ چھوڑ دینگے تو وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو واپسی کے اعلان کا حکم دے دیا ۔ کچھ دنوں بعد اہل طائف خود مسلمان ہوگئے اور ان کے سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بااسلام ہوگئے ۔
( 28 ) غزوہ تبوک
رجب 9ھ بروز جمعرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار جانثاروں کے ساتھ تبوک کی طرف روانہ ہوئے ۔ روم کے بادشاہ ہرقل نے نصارائے عرب کے بلانے پر اپنا لشکر جرار مسلمانوں کے مقابلے کے لئے روانہ کر دیا تھا اور انہیں ایک سال کی تنخواہ پیشگی دے دی تھی اور اس لشکر کا اگلا حصہ بلقاء تک پہنچ چکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت گرمی ، قحط اور مشکل کے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نکلنے کا حکم دیا چنانچہ مخلص اہل ایمان اس حالت میں بھی نکل کھڑے ہوئے جبکہ منافق بہانے بنانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیب دینے پر مالدار مسلمانوں نے خوب اپنا مال خرچ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں حاصل کیں جبکہ بعض غریب مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور جہاد میں نکلنے کے لئے سواری مانگنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس تو سواریاں نہیں ہیں اس پر وہ روتے روتے واپس ہوگئے اور ان کے اس رونے کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی کیا۔
حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک روانہ ہوئے اور میں مدینہ منورہ میں رہ گیا میری دو بیویاں تھیں ایک دن سخت گرم دوپہر کے وقت ان دونوں بیویوں نے میرے لئے چھپر پر چھڑکاؤ کیا اور ٹھنڈا پانی اور کھانا لاکر رکھا تو یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا ابو خیثمہ تو تو ٹھنڈے سائے میں حسین بیویوں کے ساتھ عیش کر رہا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت گرمی اور لو میں ہیں یہ تو انصاف کی بات نہیں ہے پھر میں نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اللہ کی قسم میں تم میں سے کسی کے چھپر کے نیچے نہیں آؤں گا جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جاؤں تم دونوں میرا توشہ تیار کرو انہوں نے توشہ تیار کیا میں اپنی سواری لے کر نکل پڑا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آملا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سے زائد راتیں تبوک میں قیام فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
یہ وہ غزوات تھے جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس تشریف لے گئے ۔
[ سبحان اللہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تو آٹھ سال کے عرصے میں ستائیس یا اٹھائیس بار ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا کر میدانوں میں نکلیں جبکہ آپ صلی للہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے کرنے والے کچھ لوگ زندگی بھر جہاد کا نام تک نہ لیں کیا آج ہماری زندگیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے زیادہ قیمتی ہیں ؟ کیا ہمارے اوقات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قیمتی ہیں ؟ یا نعوذباللہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مصروف ہیں ؟ یا ہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ذمے داریاں ہیں ؟ کچھ بھی نہیں بلکہ بات تو صرف ایمان کی ہے بے شک جس میں ایمان ہو گا وہ یہ سن کر کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بار جہاد کے لئے نکلے تھے کبھی چین سے گھر نہیں بیٹھے گا بلکہ وہ بھی جنت اور نجات کے ان میدانوں کی طرف دیوانہ وار دوڑے گا ]
 
فصل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غزوات کے علاوہ کئی سرایا بھی روانہ فرمائے ان میں سے ایک سریہ سب سے زیادہ مشہور ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ توجہات کی وجہ سے وہ سریہ نہیں بلکہ غزوہ موتہ کہلاتا ہے اور اس کے اکثر واقعات متفرق طور پر پیچھے گزر چکے ہیں ۔
[ ذیل میں ہم سرایا کی مختصر فہرست پیش کر رہے ہیں اگر تفصیلی واقعات دیکھنے ہوں تو سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے اس فہرست کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آٹھ دس سال کے مختصر عرصے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جہاد کے لئے جو محنت فرمائی ہے وہ ہمارے سامنے رہے ممکن ہے یہی ہماری بیداری کا ذریعہ بن جائے ]


نمبر شمار سرایا سنہ مسلمانوں کی تعداد روانگی بطرف
( 1) موتہ جمادی الاولٰی 8 ھ تین ہزار موتہ
( 2 ) سریہ عبیدہ رضی اللہ عنہ شوال 1ھ ساٹھ یا اسی رابغ
( 3 ) سریہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ذی القعدہ 1 ھ بیس خرار
( 4 ) سریہ عبداللہ بن جحش رجب 2 ھ گیارہ نخلہ
( 5 ) سریہ عمرو بن عدی رضی اللہ عنہ رمضان 2 ھ ایک برائے قتل عصمأ یہودیہ
(6 ) سریہ سالم بن عمیر شوال 2 ھ ایک برائے قتل ابو عفک یہودی
( 7 ) سریہ کعب بن اشرف ربیع الاول 3 ھ ایک مع رفیق برائے قتل کعب بن اشرف
( 8 ) سریہ زید بن حارث جمادی الآخرۃ 3 ھ ایک سو برائے قافلہ قریش
( 9 ) سریہ ابو سلمہ بن عبدالاسد محرم 4 ھ ڈیرھ سو ابنائے خویلد
( 10 ) سریہ عبداللہ بن انیس محرم 4 ھ ایک برائے قتل خالد بن سفیان ہذلی
( 11 ) سریہ محمد بن مسلمہ محرم 6ھ تیس بطرف قرطاء
( 12 ) سریہ عبداللہ بن عتیک جمادی الآخرۃ 3 ھ پانچ برائے قتل ابو رافع یہودی
( 13 ) سریہ سعید بن زید ۔ ۔ ۔
( 14 ) سریہ عکاشہ بن محصن ربیع الاول 6 ھ چالیس عمر
( 15 ) سریہ محمد بن مسلمہ ربیع الثانی 6 ھ دس ذی القصہ
( 16 ) سریہ ابو عبیدہ بن جراح ربیع الثانی 6ھ چالیس ذی القصہ
( 17 ) سریہ زید بن حارثہ ربیع الثانی 6 ھ ایک مع رفقاء جموم
( 18 ) سریہ زید بن حارثہ جمادی الاولٰی 6ھ ایک سو ستر عیص
( 19 ) سریہ زید بن حارثہ جمادی الاولٰی 6ھ پندرہ طرف
( 20 ) سریہ زید بن حارثہ جمادی الاخریٰ 6ھ پانچ سو چشمی
( 21 ) سریہ زید بن حارثہ رجب 6 ھ ۔ وادی القریٰ
( 22 ) سریہ عبدالرحمٰن بن عوف شعبان 6ھ سات سو دومۃ الجندل
( 23 ) سریہ زید بن حارثہ ۔ ۔ مدین
( 24 ) سریہ علی بن ابی طالب شعبان 6ھ ایک سو فدک
( 25 ) سریہ زید بن حارثہ رمضان 6ھ ۔ ام قرفہ
( 26 ) سریہ عبداللہ بن رواحہ شوال 6ھ تیس سیر بن رزام یہودی
( 27 ) سریہ عمرو بن ابی امیہ الضمری 6ھ دو قتل ابو سفیان
( 28 ) سریہ عمر بن خطاب ۔ ۔ تربہ
( 29 ) سریہ ابو بکر ۔ ۔ ابن کلاب نجد
( 30 ) سریہ بشیر بن سعد ۔ ۔ فدک
( 31 ) سریہ غالب بن عبداللہ اللیثی ۔ ۔ میفعہ
( 32 ) سریہ بشر بن سعد انصاری ۔ ۔ یمن و جبار
( 33 ) سریہ ابن ابی العوجاء ذی الحجہ 7 ھ پچاس بنو سلیم
( 34 ) سریہ غالب بن عبداللہ لیثی صفر 8ھ ۔ کدیر
( 35 ) سریہ غالب بن عبداللہ لیثی ۔ ۔ فدک
( 36 ) سریہ شجاع بن وھب اسدی ۔ ۔ بنو غالب
( 37 ) سریہ کعب بن عمیر غفاری ۔ ۔ ذات اطلاع
( 38 ) غزوہ موتہ ۔ ۔ موتہ
( 39 ) سریہ عمرو بن العاص جمادی الاخری 8ھ تین سو تیس ذات السلاسل
( 40 ) سریہ خبط [غنبر] رجب 8ھ تین سو سیف البحر
( 41 ) سریہ ابو قتادہ ۔ ۔ نجد
( 42 ) سریہ ابو قتادہ ۔ ۔ اضم
( 43 ) سریہ ابوحدرد اسلمی ۔ دو قتل رفاعہ بن قیس
( 44 ) سریہ خالد بن ولید رمضان 8ھ تیس انہدام عزیٰ
( 45 ) سریہ اوطاس ۸ ھ ۔ اوطاس
( 46 ) سریہ عمرو بن عاص ۔ ۔ سواغ
( 47 ) سریہ سعد بن زید رمضان 8ھ بیس انہدام مناۃ
( 48 ) سریہ خالد بن ولید شوال 8ھ ساڑھے تین سو بنو جزیمہ
( 49 ) سریہ طفیل بن عمروالدوسی ۔ ۔ انہدام ذی لکفین [بت]
( 50 ) سریہ عیینہ بن حصن الفزاری محرم 9ھ پچاس سفیاء
( 51 ) سریہ قطبہ بن عامر ۔ ۔ خثعم
( 52 ) سریہ ضحاک بن سفیان کلابی ۔ ۔ بنوکلاب
( 53 ) سریہ علقمہ بن مجز زمدلجی ربیع الثانی 9ھ تین سو حبشہ
( 54 ) سریہ علی ابن طالب ربیع الثانی 9ھ ڈیڑھ سو انہدام بت فلس
( 55 ) سریہ عکاشہ بن محصن ۔ ۔ عذرہ
( 56) سریہ خالد بن ولید ربیع الثانی 2ھ چار سو بیس اکیدر

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے چھپن سرایا کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض میں اختلاف بھی ہے ہم نے طوالت سے بچنے کے لئے اسے ذکر نہیں کیا۔
 
ویسے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور حضرات صحابہ کرام کے سرایا کا تذکرہ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کے لئے کافی ہے لیکن چونکہ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے حالات سے زیادہ سبق لیتی ہے اور اس میں اپنے جیسے لوگوں کے مقابلہ میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے اس لئے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد کے بعض جہادی واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مزید ترغیب ہو اور وہ بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر جہاد کی شمعیں روشن کریں یہ تمام واقعات علامہ زہبی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ سے مختصرا نقل کئے جا رہے ہیں۔
واقعہ نمبر (1)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو کئی قبائل مرتد ہو گئے اور بعض لوگوں نے نبوت کا دعوٰی کر دیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان سب کے خلاف جہاد کے لئے کھڑے ہو ئے اور ہر جگہ اللہ تعالی نے آپ کو فتح عطاء فرمائی آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک فوجی دستہ طلیحہ اسدی کی طرف بھیجا حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے فتح عطا فرمائی ۔ طلیحہ کے کئی ساتھی مارے گئے اور کئی گرفتار ہوئے خود طلیحہ مسلمان ہو گیا ۔
واقعہ نمبر ( 2 )
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کا رخ فرمایا یمامہ میں دونوں لشکروں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی مسیلمہ کا لشکر چالیس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا خونریز لڑائی کے بعد مسیلمہ قتل ہو گیا اور اس کے لشکر کو شکست فاش ہوئی اور اس لڑائی میں کئی مسلمان بھی شہید ہوئے جن میں بڑی تعداد حفاظ قرآن کی تھی ۔ یہ جنگ یمامہ 12ھ میں پیش آئی ۔
واقعہ نمبر ( 3 ) :
13ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو فلسطین کی طرف بھیجا اور حضرت یزید بن ابو سفیان ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت شرجیل بن حسنہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لشکر دے کر بلقاء کی طرف روانہ فرمایا ۔ یہ سارے حضرات بصریٰ [ شام ] میں جاکر اترے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اہل بصریٰ جزیہ دے کر صلح کرنے پر آمادہ ہوگئے یہ ملک شام میں فتح ہونے والا پہلا شہر تھا اسی سال جنگ اجنادین بھی ہوئی جس میں مشرکوں کو سخت شکست ہوئی اسی سال جنگ صفر ہوئی اس میں بے شمار کافر مارے گئے اور انہیں عبرتناک شکست ہوئی رومیوں کے خون سے اس دن نہر کا پانی سرخ ہو گیا حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے اس نے اس دن خیمے کے ستون سے سات رومیوں کو قتل کیا اسی سال جنگ فخیل بھی پیش آئی جس میں مسلمانوں کی تعداد بیس ہزار تھی اور اسی سال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا وصال ہوگیا ۔
واقعہ نمبر ( 4) :
14ھ میں دمشق فتح ہوا حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے عمومی سپہ سالار تھے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ ان کے ہمراہ تھے دمشق کے باہر مسلمانوں اور رومیوں کا سخت مقابلہ ہوا رومیوں کو شکست ہوئی اور وہ دمشق میں قلعہ بند ہوگئے مسلمانوں نے چاروں طرف سے دمشق کا محاصرہ کر لیا ۔ انہی دنوں میں سے ایک دن رومیوں کے سردار باہان کا بچہ پیدا ہوگیا تو رومی اس کے جشن میں لگ گئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہ خود سوتے تھے اور نہ کسی اور کو سونے دیتے تھے انہوں نے رسی کی سیڑھی تیار کی اور رات کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی اور ان جیسے دیگر حضرات کو اپنے ساتھ لے لیا اور لشکر والوں سے کہا کہ جب تم لوگ دیوار کے اوپر سے ہماری تکبیر کی آواز سنو تو حملہ کر دینا حضرت قعقاع اور حضرت مذعور کمال بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے دیوار پر چڑھ گئے اور انہوں نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حملہ کر دیا اس اچانک حملے نے اہل دمشق کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا ۔ حضرت خالد بن ولید لڑتے ہوئے شہر میں داخل ہوگئے جبکہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح مصالحت کے ذریعے دوسری طرف سے شہر میں داخل ہوئے اور ان دونوں حضرات کی ملاقات شہر کے وسط میں ہوئی ۔
واقعہ نمبر ( 5 ) :
15ھ میں جنگ یرموک کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا اس جنگ میں رومیوں کا تعداد ایک لاکھ اور ایک قول کے مطابق تین لاکھ تھی ۔ مسلمانوں کا لشکر تیس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا اور لشکر کے امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے ۔ رومیوں نے مضبوطی کے ساتھ لڑنے کے لئے خود کو زنجیروں میں باندھ رکھا تھا لیکن جب انہیں شکست ہوئی تو پھر یہی زنجیر ان کے لئے مصیبت بن گئی اور ان میں سے جو کوئی دریا میں گرتا تھا وہ اپنے ساتھ پانچ چھ کو لے ڈوبتا تھا اس لڑائی میں بے شمار رومی مارے گئے اور مسلمان امراء میں سے بھی کئی حضرات نے جام شہادت نوش فرمایا ۔ اسی سال جنگ قادسیہ بھی ہوئی جس میں مسلمانوں کے امیر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے جبکہ مشرکین کی کمان رستم کے ہاتھ میں تھی اوران کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اور ان کے ساتھ ستر ہاتھی بھی تھے اللہ تعالٰی نے کافروں کو شکست دی حالانکہ مسلمانوں کی تعداد سات سے آٹھ ہزار کے مابین تھی ۔ اس لڑائی میں رستم مارا گیا اور مسلمانوں کو بے شمار غنائم ہاتھ آئے ۔
حبیب بن صہبان فرماتے ہیں کہ اس دن ہمیں اتنا سونا اور چاندی ملا کہ بعض لوگ سونے کو چاندی کے بدلے بیچ رہے تھے ہر گھڑ سوار کو مال غنیمت میں بارہ ہزار درہم آئے مال غنیمت میں ایک ساٹھ در ساٹھ گز لمبی چوڑی چادر بھی تھی جس میں ریشم سونے اور چاندی کا کام ہوا تھا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مجاہدین سے درخواست کی کہ اگر وہ خوش دلی سے اس قالین کے چار حصے چھوڑ دے تو یہ سارا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا جائے ۔ تمام مجاہدین نے خوشی سے اجازت دے دی تو یہ قالین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت مین بھیج دیا گیا۔ آپ نے اسے کاٹ کر اس کے ٹکڑے لوگوں میں تقسیم کر دئیے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا ایک ٹکڑا ملا جو بیس ہزار درہم میں فروخت ہوا۔
واقعہ نمبر ( 6 ) :
16ھ میں جنگ جلولاء ہوئی اس میں ایک لاکھ آتش پرست مارے گئے مسلمانوں کو اس جنگ میں بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا غنائم کی تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ کے لگ بھگ تھی جبکہ علامہ شعبی نے یہ تعداد تین کروڑ بتائی ہے ۔
تین سال کے عرصے ہی میں مسلمانوں نے قیصر روم اور کسریٰ فارس کی کرسیوں پر قبضہ کر لیا اور اتنی غنیمت حاصل کی جس کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس تشریف لے گئے اور آپ کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جابیہ [ شام ] میں اپنا مشہور خطبہ دیا اور یہ خطبہ آپ نے اس شان سے دیا کہ آپ کے کپڑوں پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے اور آپ اونٹ پر سوار تھے اور چمڑے اور کھجور کی چھال سے بنا ہوا بستر آپ کے پاس تھا۔
واقعہ نمبر ( 7 ) :
20ھ میں مصر جنگ کے زور پر فتح ہوا اور اسی سال جنگ تستر ہوئی او ر ایک سال تک مسلمانوں کو فتح نہیں ہوئی انہیں دنوں کافروں میں سے ایک شخص حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا اگر آپ مجھے میرے خاندان والوں سمیت امان دے دیں تو میں آپ کو تستر میں داخلے کا راستہ بتا سکتا ہوں ۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہوگئے تو اس نے کہا آپ مجھے ایک تیراکی جاننے والا عقلمند آدمی دے دیجئے۔
حضرت ابو موسیٰ نے اس کے ساتھ حضرت مجزأۃ بن ثور رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا وہ آدمی حضرت مجزأۃ بن ثور کو پانی کے راستے سے لے کر گیا دونوں کبھی تیرتے اور کبھی گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے وہاں حضرت مجزأۃ نے ہرمزان کو بھی دیکھا اور اسے قتل کرنے کا اردہ کیا مگر انہیں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا حکم یاد آ گیا کہ اپنی طرف سے کوئی کام نہ کرنا جب وہ راستہ دیکھ کر واپس آگئے تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے پینتیس ( 35) آدمی ان کے ساتھ بھیج دیئے یہ لوگ بطخوں کی طرح تیرتے ہوئے کسی طرح شہر میں داخل ہوکر دیواروں پر چڑھ گئے اور نعرہ تکبیر بلند کرکے لڑائی شروع کردی اس لڑائی میں حضرت مجزأۃ شہید ہو گئے اور یہ شہر فتح ہو گیا ۔
حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اس دن لڑائی کی وجہ سے ہم نے فجر کی نماز دوپہر کو پڑھی اور مجھے یہ نماز پوری دنیا مل جانے سے زیادہ محبوب ہے ۔
حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ تستر کا محاصرہ دو سال جاری رہا پھر ہرمزان حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے شہر سے نکل آیا اور مسلمان ہو کر مدینہ منورہ میں مقیم ہوا۔
واقعہ نمبر ( 8 ) :
21ھ میں اسکندریہ فتح ہوا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے قبطیوں سے جنگ کرکے انہیں شکست دی اسی سال جنگ نہاوند بھی ہوئی اس میں کافروں نے خود کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا مسلمانوں نے ان پر ایسا خوفناک اور جرأت مندانہ حملہ کیا جس کی نظیر نہیں ملتی اس لڑائی میں کافروں کا اتنا خون بہا کہ میدان جنگ میں گھوڑے پھسل کر گرنے لگے ۔ حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کاگھوڑا بھی پھسل کر گر گیا اور انہیں ایک تیر لگا جس سے وہ شہید ہو گئے ۔ کافر شکست کھا کر بھاگے تو ایک تنگ جگہ پر پھنس گئے اور وہاں پر ایک لاکھ کی تعداد میں مارے گئے ۔ جبکہ مقابلے کے دوران مارے جانے والوں کی تعداد الگ ہے ۔
واقعہ نمبر ( 9) :
27ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے قبرص پر سمندر کے راستے حملہ کیا حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے اہل قبرص نے جزیہ دیکر صلح کر لی اسی سال حضرت عبداللہ بن سعد بن ابو سرح نے افریقہ پر حملہ کیا ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے ۔ مسلمانوں کی تعداد بیس ہزار تھی جبکہ ان کے مد مقابل برجیر کا لشکر دو لاکھ جنگجوؤں پر مشتمل تھا ۔ سبیطلہ نامی جگہ پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا برجیر اپنے لشکر کے پیچھے اپنے تیز رفتار ترکی گھوڑے پر بیٹھا ہے اور دو لڑکیوں نے اس پر مور کے پروں سے سایہ کر رکھاہے اور اس کے اور اس کے لشکر کے درمیان خالی زمین ہے یہ دیکھ کر وہ واپس آئے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن ابو سرح سے بات چیت کی اور ان کی اجازت سے تیس گھڑ سواروں کو لے کر برجیر کی طرف بڑھے۔ ایک ہی حملے میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے گرد دفاعی حصار کو توڑ ڈالا اور برجیر کے قریب پہنچے تو وہ اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر بھاگنے لگا حضرت عبداللہ بن زبیر نے اسے نیزہ مار کر گرا دیا اور اس کا سر کاٹ نیزے پر بلند کیا اور مسلمانوں نے زور دار حملہ بھی شروع کر دیا کافروں کو عبرتناک شکست ہوئی اور وہ پسپا ہوگئے مسلمانوں کو بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا او ر ہر گھڑ سوار کو تین ہزار دینار مال غنیمت میں ملے۔
اسی سال حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے اصطخر فتح فرمایا ۔ ان کے لشکر کے اگلے حصے کے سپہ سالار حضرت عبیداللہ بن معمر تیمی رضی اللہ عنہ تھے یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اصطخر پہنچ کر شدید لڑائی ہوئی جس میں حضرت عبیداللہ بن معمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اگر انہوں نے شہر پر قبضہ کر لیا تو اتنے کافر قتل کریں گے کہ شہر کے دروازے سے خون بہنے لگے ۔ جب مسلمان نقب لگا کر شہر میں داخل ہو گئے اور اندر مقابلہ شروع ہوا تو حضرت عبداللہ بن عامر نے کافروں کو خوب قتل کیا مگر دروازے سے خون نہیں بہہ رہا تھا کسی نے ان سے کہا آپ نے تو آج مخلوق کو تباہ کر دیا یہ سن کر انہوں نے خون پر پانی بہانے کا حکم دیا تب خون پانی کے ساتھ مل کر دروازے سے بہنے لگا۔
واقعہ نمبر ( 10 ) :
33ھ میں فارن نے باد غیس اور ہرات میں سے چالیس ہزار کا لشکر جرار مسلمانوں کے خلاف جمع کیا ۔ حضرت عبداللہ بن حازم رضی اللہ عنہ نے چار ہزار مجاہدین کے ساتھ مقابلہ فرمایا اور اسے سخت شکست سے دوچار کر دیا اور بہت سارے افراد کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو قیدی بنالیا۔
واقعہ نمبر ( 11) :
37ھ میں حارث بن مرّہ فہری رحمہ اللہ نے ہندوستان کی طرف حملہ کیا اور مکران کے آگے تک پہنچ گئے اسی طرح انہوں نے سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے فتح کئے لیکن ایک تنگ جگہ پر ان کے خلاف حملہ ہوا اور وہ اپنے رفقاء سمیت شہید ہوگئے ۔
واقعہ نمبر ( 12) :
44ھ میں مہلب بن ابو صفرہ نے ہندوستان کی طرف حملہ کیا اور قندابیل تک پہنچے۔ دشمنوں کو نقصان پہنچایا اور غنیمت لے کر صحیح سالم واپس لوٹے یہ ان کی پہلی لڑائی تھی۔
واقعہ نمبر ( 13) :
45ھ میں عبداللہ بن سوار رحمہ اللہ نے طبرستا ن کے علاقے قیقان کو فتح کیا اور خوب مال غنیمت حاصل کیا۔
واقعہ نمبر ( 14) :
50ھ میں سنان بن سلمہ رحمہ اللہ نے بھی قیقان پر حملہ کیا ان کے مقابلے میں دشمن کا بہت بڑا لشکر آگیا حضرت سنان نے فرمایا مسلمانو ! تمھارے لئے خوشخبری ہے یا تو جنت کی یا مال غنیمت کی ۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کو اللہ تعالٰی نے فتح عطاء فرمائی اور صرف ایک مسلمان شہید ہوا۔
واقعہ نمبر ( 15 ) :
63ھ میں عقبہ بن نافع رحمہ اللہ نے قیروان کی طرف سے سوس اقصی [ جنوب مراکش] پر حملہ کیا اور فتح پائی واپسی پر ان کا مقابلہ افریقی سردار کسیلہ کے لشکر سے ہوا جس میں عقبہ رحمہ اللہ شہید ہوگئے اس کے بعد حضرت عقبہ کے جانشین زبیر بن قیس نے کسیلہ کا مقابلہ کیا اس مقابلے میں اللہ تعالٰی نے کسیلہ کو شکست دی اور وہ خود اپنے لشکر کے بڑے حصے سمیت مارا گیا ۔
واقعہ نمبر ( 16 ) :
84ھ میں موسٰی بن نصیر رحمہ اللہ نے اوریہ نامی شہر فتح کیا اور کافی تعداد میں کافر قتل کئے اور پچاس ہزار افراد کو قید کیا ۔ اسی سال محمد بن مروان نے آرمینیا پر حملہ کیا اور ان کے چرچوں اور جائداد وں کو جلا ڈالا ۔ یہ سال سنۃ الحریق [ آگ والے سال ] کے نام سے مشہور ہے ۔
واقعہ نمبر ( 17 ) :
87ھ میں حضرت قتیبہ بن مسلم نے بخارا کے گرد و نواح پر حملہ کیا اور ایک خوفناک جنگ کے بعد کافروں کو شکست دی اور مسلمانوں کے ہاتھ بے شمار مال غنیمت آیا ۔ اسی سال موسٰی بن نصیر اور ان کے بیٹے عبداللہ نے سردانیہ پر قبضہ کر لیا اور اسی سال ان کے بھتیجے ایوب بن حبیب نے ممطورہ کو فتح کیا اور مال غنیمت میں دیگر اشیاء کے علاوہ تیس ہزار قیدی بھی حاصل کئے اسی سال مسلمہ بن عبدالملک نے قمیقم اور بحیرۃ الفرسان کو کامیاب جنگوں کے بعد فتح فرمایا ۔ یہ سال مسلمانوں کے لئے بڑی فتوحات کا سال رہا۔
واقعہ نمبر ( 18 ) :
88ھ میں رومیوں نے ایک بہت بڑا لشکر جمع کیا اور مسلمانوں کی طرف بڑھے مسلمہ بن عبدالملک نے اس لشکر کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالٰی نے انہیں فتح عطاء فرمائی اور بے شمار کافر مارے گئے اور مسلمانوں نے جرثومہ اور طوانہ کے علاقے بھی فتح کر لئے ۔ اسی سال قتیبہ بن مسلم جہاد کے لئے نکلے ان کے مقابلے میں ترکوں کے علاوہ فرغانہ اور صغد کے لوگ بھی نکلے اور اس دو لاکھ کے لشکر کی قیادت چین کے بادشاہ کا بھانجا کر رہا تھا ۔ حضرت قتیبہ نے اللہ کی مدد سے اس لشکر کو کاٹ کر رکھ دیا ۔
واقعہ نمبر (19) :
90ھ میں حضرت قتیبہ بن مسلم نے درذان خداہ سے دوسری جنگ لڑی اس نے حضرت قتیبہ کے خلاف ترکوں کو جمع کرلیا مگر اللہ تعالٰی نے انہیں شکست دی اور وہ بکھر گئے۔ اسی سال حضرت قتیبہ نے طالقان اور خراسان والوں سے بھی جنگیں فرمائیں اور ان میں بے شمار کفار کو قتل کیا کیونکہ انہوں نے عہد توڑا تھا۔
واقعہ نمبر (20 ) :
93ھ میں قتیبہ بن مسلم باھلی رحمہ اللہ نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ اچانک ثمر قند پر حملہ کیا اور اہل ثمر قند نے شاش [ تاشقند ] اور فرغانہ کے حکام سے مدد مانگی۔ ان دونوں علاقوں کے حکام اہل ثمر قند کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے جب حضرت قتیبہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے صالح بن مسلم کی قیادت میں اپنے منتخب گھڑ سواروں کو راستے میں چھپا دیا جب یہ لشکر والے ان گھڑ سواروں کی کمین گاہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان پر شدید حملہ کر دیا اور سوائے چند بچ جانے والوں کے باقی پورے لشکر کو کاٹ کر رکھ دیا ان میں سے جو چند قیدی ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں مارے جانے والے اکثر لوگ ہمارے شہزادے ، سردار اور مشہور بہادر تھے ۔ مسلمانوں نے ان کے سر جمع کر لئے اور ان کا سامان لیکر حضرت قتیبہ کے پاس پہنچ گئے پھر حضرت قتیبہ نے اہل سغد پر منجنیقوں اور لشکروں سے حملہ کردیا ۔ اہل شہر نے صلح کر لی اور اس صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ وہ اپنے بتوں کے زیور بھی دیں گے جب ان بتوں کو جمع کیا گیا تو وہ ایک بڑے محل کی طرح تھے حضرت قتیبہ نے انہیں جلانے کا حکم دیا تو اہل شہر کہنے لگے جو ان بتوں کو جلائے گا ہلاک ہو جائے گا حضرت قتیبہ رحمہ اللہ نے کہا میں انہیں اپنے ہاتھوں سے جلاؤں گا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آگ لے کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور ان بتوں کو آگ لکا دی ان بتوں کے جلنے کے بعد ان سے پچاس ہزار مثقال سونا چاندی نکلا اس کے بعد حضرت قتیبہ نے اپنے بھائی عبداللہ کو وہاں کا حاکم بنایا اور انہیں کہا کہ جو مشرک بھی شہر کے دروازے سے داخل ہو اس کے ہاتھوں پر مہر لگی ہونی چاہئے اور جس کے پاس بھی تم کوئی لوہا یا چھری پاؤ تو اسے قتل کردو اور کسی مشرک کو یہاں رات گزارنے کی اجازت نہ دو یہ ہدایات دیکر حضرت قتیبہ مرو کی طرف روانہ ہوگئے۔
واقعہ نمبر ( 21) :
94ھ میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتوحات نصیب ہوئیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے جیسا جہاد دیکھنے کو ملا۔
واقعہ نمبر ( 22) :
95ھ میں مغرب کے حاکم حضرت موسٰی بن نصیر رحمہ اللہ مصر تشریف لائے اور اپنے ساتھ اندلس کی فتح سے حاصل ہونے والے قیدی اور غنائم لے کر ولید کے پا س پہنچے۔ ان لڑائیوں میں عجیب و غریب واقعات پیش آئے تھے ۔ اندلس کے ایک قلعے پر جب کافی کوشش کے باوجود فتح حاصل نہ ہوئی تو موسٰی بن نصیر رحمہ اللہ عورتوں اور مجاہدین کے سامنے میدان میں اترے اور انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اس قدر آہ وزاری کے ساتھ دعاء کی کہ مسلمانوں نے اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالے اور ایسا زبردست حملہ کیا کہ اندلس فتح ہو گیا اندلس کی فتح کے بعد ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے ساتھ کسی کو بھیج دیں میں آپ کو خزانہ دکھاتا ہوں اس کے ساتھ آدمی بھیج دیئے گئے اس نے ایک جگہ کھود نے کے لیے کہا جب وہاں کھودا گیا تو اس قدر یاقوت اور زمرد کے ڈھیر نکلے کہ دیکھنے والے مبہوت رہ گئے تاریخ کی کتابوں میں اندلس سے ملنے والے خزانوں کے عجیب و غریب واقعات مذکور ہیں ۔
واقعہ نمبر ( 23) :
98ھ میں یزید بن مہلب رحمہ اللہ نے طبرستان کی طرف خروج کیا۔ وہاں کے لوگو ں نے صلح کی درخواست کی مگر یزید نے انکار کر دیا اور سخت لڑائی کے بعد انہیں اللہ کی نصرت سے شکست دی اور ہر سال سات ہزار دینار اور دیگر سامان اور غلام بطور جزیئے پر صلح کی مگر طبرستان والوں نے دھوکہ دیا تو یزید نے پھر ان پر حملہ کیا اور مہینوں تک ان سے لڑائی کی اور پھر وہ خود سپردگی پر راضی ہوئے جس کے بعد ان کے تمام لڑنے والوں کو قتل کر دیا گیا۔ یزید نے ان میں سے بارہ ہزار لڑنے والوں کو جرجان کے دریا پر لا کر قتل کیا تو وادی میں ان کا خون بہنے لگا یزید نے اس خون میں پن چکی لگا کر آٹا پیسا اور اس کی روٹی پکا کر کھائی اور اپنی قسم کو پورا کیا ۔ اسی سال سلیمان بن عبدالملک نے قسطنطنیہ پر بھی بہت بڑا حملہ کیا جس کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس لشکر کو واپسی کی اجازت دے دی۔
واقعہ نمبر ( 24 ) :
121ھ میں مروان بن محمد نے روم کے علاقے بیت السریر پر حملہ کیا اور رومیوں کو قتل کیا اور قیدی بنایا ۔ اسی طرح دوسرے قلعے پر بھی فتح حاصل کی پھر آپ غومشک نامی قلعے میں داخل ہوئے جس میں بادشاہ کا تخت تھا بادشاہ تو بھاگ گیا مگر قلعے والوں نے مروان کے ساتھ کافی جزیہ دے کر صلح کرلی اس کے بعد انہوں نے ارز، بطران اور تومان کے علاقے بھی فتح کئے اور مسدار کا علاقہ بھی فتح کرلیا۔
واقعہ نمبر ( 25 ):
142ھ میں طبرستان کے بادشاہ نے مسلمانوں کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑ دیا اور اپنے علاقے میں موجود مسلمانوں کو قتل کر دیا اس کی سرکوبی کے لیے حازم بن خزیمہ اور ابوالخصیب مرزوق روانہ ہوئے ۔ انہوں نے قلعے کا محاصرہ کر لیا مگر طویل محاصرے کے باوجود کوئی کامیابی نہیں ملی۔ مرزوق نے کافی غور کے بعد ایک جنگی تدبیر کی اور اپنے ساتھیوں کو کہا کہ تم مجھے مارو میرا سر اور داڑھی مونڈدو ۔ انہوں نے ایسا کیا تو مرزوق بھاگ کر کافر بادشاہ کے پاس پہنچ گئے اور اسے کہا کہ مسلمانوں کو یہ شبہہ تھا کہ میری ہمدردیاں اور محبت آپ کے ساتھ ہے اس لیے انہوں نے میرے ساتھ یہ کیا ہے اب میں واقعی آپ کے ساتھ ہوں اور آپ کو مسلمانوں کے لشکر کی کمزوریاں اور راز بتاؤں گا ۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے انہیں اپنا مقرب بنالیا اور آہستہ آہستہ ان کی باتوں میں آکر دھوکے میں آگیا اور انہیں اپنے قلعے کے ایک دروازے کا نگران بنادیا ۔ اس کے بعد مرزوق چپکے سے اپنے لشکر میں آئے اور انہیں ایک معین رات حملے کا حکم دے دیا ۔ مسلمانون نے اسی رات حملہ کیا تو مرزوق نے اندر سے دروازہ کھول دیا اور مسلمان شہر میں داخل ہوگئے ۔ طبرستان کے بادشاہ نے زہر نگل کر خود کشی کر لی اور اسکے سارے جنگجو مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔
اسی سال عبدالرحمٰن الداخل رحمہ اللہ حاکم اندلس نے عیسائیوں کے امان نامہ لکھ کر دیا ۔ اس کا مضمون یہ ہے ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جانوں اور عزتوں کی حفاظت کے لیے ہمدردی اور رحمدلی کی بنیاد پر یہ امان نامہ ہے جو معزز امیر اور عظیم حکمران عبدالرحمٰن بن معاویہ صاحب شرافت اور صاحب خیر کی طرف سے رومی سرداروں ، ان کے راہبوں اور تمام علاقوں میں ان کے سروکاروں اور اہل قشتالہ کے لیے ہے ۔ امیر المؤمنین یہ عہد اپنی طرف سے ناقابل تنسیخ طور پر دے رہے ہیں کہ جب تک یہ لوگ اطاعت پر قائم رہیں گے اور جزیے میں یہ چیزیں ہر سال اداء کرتے رہیں گے ان کے لیے امان ہوگی
( 1 ) دس ہزار اوقیہ سونا ( 2 ) دس ہزار طل چاندی ( 3) دس ہزار بہترین گھوڑے ( 4 ) دس ہزار بہترین خچر ( 5 ) ایک ہزار زرہیں ( 6 ) ایک ہزار خود ( 7 ) ایک ہزار نیزے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر انہوں نے کسی مسلمان کو قید کیا یا کسی مسلمان کو دھوکہ دیا تو یہ معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔
امیرالمؤمنین اپنے ہاتھ سے ان کے لیے پانچ سال کی امان لکھ کر دے رہے ہیں جس کا آغاز صفر 142ھ سے ہو گا ۔
رومی اس معاہدے پر قائم رہے لیکن جب امیر عبدالرحمٰن الداخل کے پوتے حکم بن ہشام کی حکومت آئی تو انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی امیر حکم بن ہشام نے ان پر حملہ کیا رومیوں کو طلیطہ سے بھی پیچھے دھکیل دیا اس کے بعد رومی سمورہ [ نامی شہر ] میں جمع ہوگئے وہاں ان کا مسلمانوں سے سخت مقابلہ ہوا جس میں رومیوں کو شکست ہوئی مسلمان لشکر جب غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوئے تو رومی شہر کے ایک طرف جمع ہونے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے حملہ کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ادھر سردیوں کی وجہ سے بارش کا بھی خطرہ تھا چنانچہ امیر حکم کو اس سال واپس آنا پڑا اگلے سال امیر حکم نے بہت زیادہ تیاری کے ساتھ حملہ کیا اور سمورہ کے راستے میں رومیوں کے کئی لشکر کاٹ ڈالے اور دو مہینے کی مسلسل لڑائیوں کے بعد سمورہ شہر فتح کر لیا اور اس میں تین لاکھ رومیوں کو قتل کیا جب اس لڑائی کی خبر روم کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے پھر صلحہ کی درخواست کی تو امیر نے اپنے دادا کی شرائط پر صلح کو قبول فرمایا اور مزید یہ شرط بھی رکھی کہ وہ اپنے پایہ تخت رومیہ کی مٹی دیں گے جس سے قرطبہ کے کناروں میں اونچے ٹیلے بنائے جائیں گے جو رومیوں کی ذلت اور اسلام کی عظمت کے مینار ہوں گے۔
انہی امیر حکم بن ہشام کی اولاد میں عبدالرحمٰن ناصر تھے جنہو ں نے 325ھ میں رومیوں کے خلاف بڑی فتوحات حاصل کیں اور ساڑھے پچاس سال کا پورا دور حکومت جہاد اور لشکروں کی تیاری میں گزرا علامہ ابوالفیاض رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب امیر عبدالرحمٰن الناصر کے دور حکومت میں ان کے آرام کے دن گنے گئے تو وہ صرف چودہ دن نکلے۔
واقعہ نمبر ( 26 ) :
150ھ میں اسناد سیس نامی سردار نے ہراۃ اور سجستان میں سے تین لاکھ جنگجو جمع کرکے خراسان کے اکثر علاقے پر قبضہ کر لیا حازم بن خزیمہ رحمہ اللہ اس کے مقابلے پر نکلے دونوں کے درمیان جم کر لڑائی ہوئی اور پھر اللہ تعالٰی کی نصرت نازل ہوئی اور مسلمانوں نے ایک جنگی چال کے ذریعے کافروں کو شکست دے دی ۔ ستر ہزار افراد کو قیدی بنا لیا اور دس ہزار سے زیادہ قتل کر دیئے گئے ۔ اسناد سیس بھاگ کر قلعہ بند ہوگیا مگر مسلمانوں نے اس کا گھیراؤ کرکے اسے پکڑ لیا۔
واقعہ نمبر ( 27 ) :
165ھ میں ہارون الرشید نے رومیوں کے خلاف لشکر کشی کی اور ان کے شہروں میں گھستے چلے گئے یہاں تک کہ خلیج قسطنطنیہ تک جاپہنچے پھر رومیوں کی ملکہ نے ستر ہزار دینار دیکر تین سال کے لیے صلح کرلی اس سے پہلے مسلمانوں کو بے شمار مال غنیمت اور قیدی ملے تھے ۔ جانور اور مویشی تو اس قدر ہاتھ آئے کہ عمدہ ترکی گھوڑا ایک درہم میں بیچا گیا ایک اچھی زرہ ایک درہم میں اور بیس تلواریں ایک درہم میں فروخت کی گئیں اور دشمن کے پچاس ہزار افراد مارے گئے ۔
واقعہ نمبر ( 28 ) :
239ھ میں یحییٰ بن علی ارمنی نے روم پر حملے کئے اور قسطنطنیہ کے قریب جا پہنچے۔
واقعہ نمبر ( 29 ) :
270ھ میں ایک لاکھ رومیوں کا لشکر طرسوس میں اترا تویازمان خادم رحمہ اللہ نے ان پر شب خون مارا اور ان میں سے ستر ہزار افراد کو ان کے بادشاہ سمیت قتل کر ڈالا اور ان کی صلیب الصلبوت [ سب سے بڑی صلیب ] بھی حاصل کرلی ۔ ( سیر اعلام النبلاء )
واقعہ نمبر ( 30 ) :
291ھ میں غلام زرافہ رحمہ اللہ نے طرسوس کی طرف حملہ کیا اور انطاکیہ تک جا پہنچے ۔ انہوں نے چار ہزار مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کروایا لیا اور اتنا مال غنیمت حاصل کیا کہ ہر ایک گھڑ سوار کو ہزار دینار ہاتھ آئے۔
واقعہ نمبر ( 31 ) :
505ھ میں صلیبیوں کے متحدہ لشکروں نے صور نامی علاقے کا محاصرہ کر لیا اور ستر ہاتھ اونچے لکڑی کے تین برج بنائے اور ہر برج میں ایک ہزار جنگجو بٹھا کر ان برجوں کو شہر کی حفاظتی دیوار کے ساتھ لگا دیا ۔ مسلمانوں نے ان برجوں کے محافظوں کو منتشر کرکے ان برجوں کے اردگرد لکڑیوں کے گھٹے ڈال کر ان میں آگ لگا دی اور تیر مار کر صلیبیوں کو نیچے اترنے پر مجبور کیا چنانچہ برج میں موجود تقریباً سارے صلیبی جل مرے ۔ پھر مسلمانوں نے دوسرے دو برجوں پر آگ کی ہانڈیاں پھینک کر انہیں بھی آگ لگا دی یہ جنگ کافی عرصہ چلتی رہی۔
واقعہ نمبر ( 32 ) :
543ھ میں تین عیسائی بادشاہوں نے بیت المقدس میں موت کا عہد کیا اور عکاء واپس جاکر اپنے لشکروں میں سات لاکھ دینار تقسیم کئے اور انہیں ساتھ لے کر مسلمانوں کے علاقوں کا رخ کیا اس لشکر نے سب سے پہلے اچانک دمشق پر دس ہزار گھڑ سواروں اور ساٹھ ہزار پیادوں کے ساتھ حملہ کردیا۔ مسلمان بھی مقابلے کے لیے نکلے ان میں سے دو سو شہید ہو گئے دوسرے دن بھی مقابلہ جاری رہا اور بے شمار صلیبی مارے گئے اور کچھ مسلمان بھی شہید ہوئے ۔ پانچویں دن غازی اتابک زنگی رحمہ اللہ بیس ہزار گھڑ سواروں کے ہمراہ مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچ گئے اور ان کے پیچھے ان کے بھائی نورالدین زنگی رحمہ اللہ بھی پہنچ گئے ان دنوں دمشق میں ہر طرف آہ و پکار مچی ہوئی تھی مصحف عثمان رضی اللہ عنہ جامع مسجد کے درمیان میں رکھ دیا گیا تھا ۔ عورتیں اور بچے ننگے سر اللہ کے حضور آہ وزاری کر رہے تھے چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کے لیے مدد بھیج دی ۔ صلیبیوں کے ساتھ ایک سفید داڑھی والا پادری تھا وہ گدھے پر سوار ہوا اس نے ایک صلیب گلے میں لٹکائی اور دو صلیبیں ہاتھ میں لیکر صلیبیوں سے کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے مجھ سے دمشق کی فتح کا وعدہ کیا ہے صلیبی اس کے گرد جمع ہو گئے اور وہ شہر کی طرف بڑھا مسلمانوں نے جب اسے دیکھا تو پورے اخلاص اور جرأت کے ساتھ آگے بڑھے اورحملہ کرکے اسے اور اس کے گدھے کو مار گرایا اور صلیبیں جلا ڈالیں۔ اسی دوران پیچھے سے زنگی برادران کا لشکر تشریف لے آیا اور صلیبیوں کو سخت شکست ہوئی۔
 
واقعہ نمبر (33 ):
552ھ میں نورالدین زنگی رحمہ اللہ نے جہاد کا اعلان فرمایا جب یہ اعلان دمشق میں ہوا تو فقہاء ، صلحاء اور نوجوان سبھی تیار ہوگئے نورالدین زنگی رحمہ اللہ نے انیاس پر حملہ کیا اور اس کا محاصرہ کر کے سخت حملے کئے اور تلوار کے زور پر اسے فتح فرما لیا ۔ صلیبیوں نے انیاس کے حاکم ہنری کی مدد کے لیے لشکر بھیجے مگر جب وہ وہاں پہنچے تو شہر تباہ و برباد ہو چکا تھا جب نورالدین زنگی رحمہ اللہ کو صلیبیوں کے طبریہ پہنچنے کی اطلاع ملی تو وہ اپنے لشکر لے کر ان کی طرف تیزی سے روانہ ہوئے جب یہ لشکر صلیبیوں کے قریب پہنچا تو صلیبی اپنے گھوڑوں پر بیٹھ کر چار جماعتوں میں تقسیم ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا ۔ نورالدین زنگی رحمہ اللہ فوراً گھوڑے سے اتر پڑے اور ان کے لشکر کے بہادر بھی اتر پڑے اور انہوں نے دشمنوں پر تیر مارنے شروع کئے۔ بس اللہ تعالٰی کی نصرت نازل ہوئی اور کافروں کا لشکر مرداروں اور قیدیوں میں بدل گیا۔ اور ان میں سے صرف دس آدمی بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے مسلمانوں میں صرف دو آدمی شہید ہوئے ۔ ان میں سے ایک ایسا بہادر تھا جو چار صلیبی بہادروں کو قتل کرکے شہید ہوا۔ مسلمان جب صلیبیوں کے سر اور مال غنیمت کے ڈھیر اٹھا کر جھنڈے لہراتے ہوئے دمشق پہنچے تو اہل دمشق نے رو رو کر نورالدین زنگی رحمہ اللہ کے لیے دعائیں کیں۔
واقعہ نمبر ( 34) :
553ھ میں عبدالمؤمن بن علی امیر المؤمنین نے ایک لاکھ لشکر کے ساتھ مہدیہ کا رخ کیا اور اس محفوظ ترین شہر کو خشکی اور سمندر ہر طرف سے محاصرے میں لے لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی حفاظتی دیوار پر چھ گھوڑے گزر سکتے تھے اور اس کا اکثر حصہ سمندر میں تھا پھر اہل شہر جزیئے پر راضی ہوگئے۔ صلیبی لشکر سمندر کے ذریعے سردیوں میں ثقلیہ کی طرف روانہ ہوا تو ان میں سے اکثر ڈوب مرے ۔
واقعہ نمبر ( 35 ) :
554ھ میں امیرالمؤمنین عبدالمؤمن کی قیادت میں ایک لاکھ کا لشکر افریقہ کی طرف روانہ ہوا ان سب کے نام ان کے دیوان میں لکھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کاریگر، تاجر اور غلاموں کی بہت بڑی تعداد بھی تھی ۔ لشکر کے نظم وضبط کا یہ عالم تھا کہ پورا لشکر کھیتوں کے درمیان تنگ راستوں سے گزرتا تھا اور کوئی شخص کھیت میں سے ایک بالی بھی نہیں توڑتا تھا اور نہ امیر کی رعب کی وجہ سے اسے قدموں کے نیچے روندتا تھا۔ ان کے خیمے اور بازار دو فرسخ کے علاقے میں لگتے تھے ۔ اور پورا لشکر ایک امام کے پیچھے ایک ہی تکبیر کے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور کوئی شخص نماز سے پیچھے نہیں رہتا تھا یہ لشکر افریقہ پہنچا اور فتح کر لیا۔
واقعہ نمبر ( 36) :
559ھ میں نورالدین زنگی شہید رحمہ اللہ اور صلیبیوں کے درمیان سخت معرکہ ہوا جس میں صلیبیوں کے دس ہزار جنگجو مارے گئے اور انطاکیہ اور طرابلیس کے حکمرانوں سمیت بہت بڑی تعداد میں صلیبی گرفتار ہوئے۔
واقعہ نمبر ( 37) :
569ھ میں صلیبی جنگجو اچانک اسکندریہ کی طرف حملہ آور ہوگئے اور ان کے ساتھ تیس ہزار گھڑ سوار اور پیادہ لشکر تھا ان کے ساتھ ان کا بحری بیڑہ بھی تھا سرحد پر موجود مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا مگر صلیبیوں کا حملہ سخت تھا چنانچہ سرحدی محافظوں میں سے دو سو شہید ہوگئے اور باقی کو بھی شہر کی دیوار پناہ تک پسپائی اختیار کرنی پڑی ۔ صبح کے وقت انہوں نے اسکندریہ پر حملہ شروع کر دیا اور انہوں نے تین بڑے دبابے اور کالے پتھر پھینکنے کے لیے تین منجنیقیں بھی نصب کردیں اور وہ حملہ کرتے ہوئے اسکندریہ کی دیوار پناہ تک پہنچ گئے۔ اہل اسکندریہ نے اس فوج کا ایسا جانبازی سے مقابلہ کیا جس نے صلیبی لشکر کو خوف زدہ کر دیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ اس وقت فاقوس میں تھے انہیں اس حملے کی اطلاع بھیج دی گئی انہوں نے لشکر کو روانگی کا حکم دے دیا ادھر لڑائی جاری تھی کہ مسلمانوں نے تیسرے دن اچانک اسکندریہ کا دروازہ کھول دیا اور صلیبیوں کو غفلت میں آ لیا اور ان کے دبابے جلا ڈالے اور عصر تک دو بدو لڑائی ہوتی رہی اور اللہ تعالٰی کی نصرت سے صلیبیوں کو خوب قتل کیاگیا پھر مسلمان نماز کے لیے دوبارہ شہر میں چلے گئے پھر مغرب کے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا اور صلیبیوں کے خیموں پر حملہ کر دیا اور بے شمار صلیبیوں کو تہہ تیغ کیا اور پھر سمندر میں موجود ان کے بیڑے پر حملہ کر دیا اور بعض کشتیوں کو غرق اور بعض کو نذر آتش کر دیا اور کچھ کشتیاں بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں ۔ صلیبیوں کے اس لشکر میں سے چند افراد ہی بچ سکے باقی سارا لشکر یا تو مارا گیا یا گرفتار ہوا اور مسلمانوں کے ہاتھ بہت بڑی غنیمت لگی۔
واقعہ نمبر ( 38 ) :
583ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے ہر طرف جہاد میں بھرتی کا اعلان فرما دیا پھر آپ لشکر لے کے طبریہ کی طرف بڑھے اور بزور جنگ اسے فتح کر لیا یہ صورت حال دیکھ کر صلیبیوں نے بھی لڑائی کی تیاری کی اور ہر دوردراز اور قریب کے علاقوں کے صلیبی ان کے لشکر میں شامل ہونے لگے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے لشکر میں بارہ ہزار گھڑ سوار تھے اور پیادہ لشکر اس کے علاوہ تھا۔ صلیبیوں کی تعداد اسی ہزار کے لگ بھگ تھی ۔ کئی دن دونوں لشکر آمنے سامنے رہے بالآخر جبل حطین لڑائی کا مرکز بنا اس لڑائی میں صلیبیوں کی بدقسمتی عروج پر رہی اور ان کے بڑے بڑے سردار اور حکام پکڑے گئے جن میں ان کا بادشاہ یروشلم گائی بھی شامل تھا ۔ عماد الکاتب کا کہنا ہے کہ اس دن جنگ میں اتنے صلیبی قتل اور گرفتار ہوئے کہ مقتولین کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ پوری فوج قتل ہو چکی ہے جبکہ قیدیوں کے ڈھیر دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پوری فوج زندہ گرفتار کر لی گئی ہے ۔ ایک مسلمان سپاہی تیس تیس صلیبیوں کو خیمہ کی ایک رسی میں باندھ کر ہنکاتا پھر رہا تھا اس لڑائی نے صلیبیوں کی قوت کو پارہ پارہ کر دیا ان کی بڑی مقدس صلیب مسلمانوں کے ہاتھ آگئی تھی اور ان کا مشہور جنگجو بادشاہ ریجی نالڈ [ جس نے ایک بار مسلمانوں کے ایک قافلے کو گرفتار کر لیا تھا اور جب انہیں قتل کرنے لگا تو ان سے کہا اب تم محمد کو اپنی مدد کے لئے کیوں نہیں بلاتے ہو] ملعون بھی مسلمانوں کے قید میں تھا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسے کہا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدد آچکی ہے ۔ پھر اسے قتل کر دیا [قتل سے پہلے اس کے سامنے اسلام پیش کرنے کی بھی ایک روایت ہے] اس جنگ سے حاصل ہونے والے قیدی دمشق کے بازاروں میں ایک ایک جوتے کے بدلے فروخت ہوئے۔ جب قاضی ابن ابی عصرون دمشق میں داخل ہوئے تو عیسائیوں کی بڑی صلیب ان کے سامنے سر نگوں پڑی ہوئی تھی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اپنے یلغار کو جاری رکھا اور آپ کے بھائی کے لشکر نے ناصریہ، قیساریہ، عسکا، صفوریہ، شقیف ، فلہ ، تبنین ، صیدا، بیروت ، صور ، عسقلان ،کے علاقے فتح کئے اور رملہ وغیرہ مضافاتی علاقے فتح کرنے کے بعد سلطان نے اپنی اصل منزل مقصود بیت المقدس کا رخ کیا۔ فلسطین کے وہ تمام علاقے جن پر سلطان نے قبضہ کر لیاتھا وہاں کے صلیبی اور عسقلان کے شکست خوردہ لشکروں نے بھی بیت المقدس میں پناہ لے لی تھی اور ساٹھ ہزار صلیبی جنگجو بیت المقدس پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے جمع تھے مسلمانوں نے پورے عزم اور ولولے کے ساتھ صلیبیوں پر حملہ کر دیا اور بالآخر صلیبیوں نے امان مانگی۔ سلطان نے ان کی درخواست قبول کرلی اور یہ قرار پایا کہ بیت المقدس کے تمام مسیحی فی مرد دس دینار ، فی عورت پانچ دینار اور فی بچہ دو دینار فدیہ اداء کریں چالیس دن تک جو فدیہ نہیں دے گا وہ غلام شمار کیا جائے گا ۔ اس قرار داد کے بعد جمعہ 27 رجب 583ھ [ مطابق ستمبر 1187ء ] صلیبیوں نے بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور اکانوے سال سے جاری ظلم و بربریت کا وہ دور ختم ہو گیا جس نے پوری امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا رکھے تھے اور اللہ کا یہ پاک گھر پھر اپنے حقیقی باسبانوں کے ہاتھ میں آگیا اور مسجد اقصیٰ نے سکون کا سانس لیا ۔ جب سلطان ایوبی مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تو اس کے ایک حصے میں خنزیر بندھے ہوئے تھے اور اسکے غربی حصے میں فوج کے لیے بیت الخلاء تھے اور محراب کو بند کر دیا گیا تھا ۔ مسلمانوں نے فوراً اس کی پاکی و صفائی کا اہتمام کیا اور مسجد میں قیمتی قالین بچھا دیئے گئے اور خوبصورت اور قیمتی قندیلوں سے اسے منور کیاگیا شعبان کے پہلے جمعے میں اکانوے سال بعد مسجد اقصیٰ سے دوبارہ اذان گونجی اور اس کے منبر سے خطبہ دیا گیا اورسلطان نے اظہار تشکر کے لیے گنبد صخریٰ میں نماز اداء فرمائی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اللہ تعالٰی نے انہیں بیت المقدس کی فتح کا اعزاز بخشا تھا ۔ صلیبیوں نے گنبد صخریٰ میں جو تبدیلیاں کر دی تھی وہ ختم کر دی گئیں اور سلطان تقی الدین نے خود مسجد اقصیٰ میں حاضری دی اور گلاب کے پانی سے اسے غسل دیا اور اپنے ہاتھوں سے جھاڑو دینے کی سعادت حاصل کی اور ہر طرف خوشبوئیں بھکیر دیں۔
[ آج جبکہ پچاس سال ہونے کو ہیں اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ناجائز قبضے میں ہے ۔ ہم ان واقعات کو مسجد اقصیٰ کی فتح کے واقعے پر ختم کر رہے ہیں تاکہ اس باب کو پڑھنے والا ہر شخص غزوہ بدر سے لے کر مسجد اقصیٰ کی دوبارہ فتح تک کی تاریخ کو بار بار پڑھے اور اپنے دل میں اس نیت اور عزم کو پختہ کرے جو نیت اور عزم سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اپنے دل میں پختہ کیا تھا اور بالآخر وہ مسجد اقصیٰ کو خنزیروں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ بات صرف عزم کی ہے بات صرف سچی نیت کی ہے پھر یہ عزم اور نیت انسان کو گھر نہیں بیٹھنے دیتے اور منزل پر پہنچے بغیر چین نہیں کرنے دیتے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ بھی ہماری طرح ایک انسان تھے لیکن ان کے دل میں یہ بے چینی تھی کہ مسجد اقصیٰ کافروں کے قبضے میں کیوں ہے ؟ ان کے دل میں یہ خلش تھی کہ اگر ہم اپنے مقدس مقامات کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے تو پھر زندہ رہنے کا کیا فائدہ ہے ؟ اس زمانے میں بھی مسلمان انتشار کا شکار تھے ۔ اس زمانے میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد جہاد سے غافل ہو کر عیش پرستی میں پڑ چکی تھی اس زمانے میں بھی سفید چہرے والا کالا یورپ اسلام کو مٹانے کے لیے اور اس کے سینے میں صلیب گھونپنے کے لیے متحد ہو چکا تھا مگر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اپنے اوپر آرام کو حرام کرلیا اور گھوڑے کی پشت کو اپنا تخت اور رات کے وقت مصلے کو اپنا بستر بنایا انہوں نے ایک طرف پکار پکار کر مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی اور بڑے بڑے علماء کرام سے جہاد پر کتابیں لکھوا کر پوری اسلامی دنیا میں پھیلائیں اور منبر و محراب کے جمود کو برق صفت شعلہ عزم خطباء کے ولولہ انگیز خطبات سے توڑ ڈالا اور دوسری طرف سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اللہ تعالٰی کے سامنے حد درجے کی آہ وزاری کی اور راتوں کی تاریکیوں میں اس نے بیت المقدس واپس لینے کی توفیق مانگی چنانچہ مسلمان بھی متحد ہوگئے اور آسمان سے مدد کے دروازے بھی کھل گئے اور لاکھوں نفوس پر مشتمل صلیبیوں کی آہنی لشکر جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے سامنے مکڑی کے جالے ثابت ہوئے ۔ آج پھر وہی ماحول ہے ۔ آج پھر کفر نے خود کو نا قابل تسخیر سمجھ رکھا ہے آج پھر مسلمانوں میں انتشار اور جمود کی کیفیت ہے مگر اس خاک کے اندر بہت سارے شرارے چھپے ہوئے ہیں اور امت مسلمہ آج بھی سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتی ہے مگر ضرورت ہے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ جیسے ایک قائد کی جو خود عمل کا پیکر ہو جو خود بے چینی اور خلش میں مبتلا ہو جس کی عزم میں آہن کی سختی اور جس کی نیت میں حوض کوثر کی پاکیزگی ہو جو درد سے بولتا ہو اور اپنا درد بانٹنے کی طاقت رکھتا ہو جس کا دل امت کی حالت دیکھ کر زخمی ہو مگر وہ ان زخموں کو کافروں کی طرف منتقل کرنے کا عزم رکھتا ہوں، جو اپنی ذات کے چکر اور ہر طرح کے رعب سے آزاد ہو جو صرف موت کے آئینے میں رخ یار کو تلاش کرتا ہو اور فقر سے محبت کرتا ہو۔ آج افغانستان کی طرف سے ایک خوبصورت جھلک تو نظر آئی کیا معلوم یہی وہ بدر منیر ہو جو امت مسلمہ کی تاریک رات کو روشن کرسکے لیکن اچھا قائد اچھے لوگوں کو ہی ملتا ہے اور ماہر کسان اچھی زمین ہی سے فصل نکال سکتا ہے آج ہر مسلمان کو جہاد کے لیے تیار ہونا ہوگا ۔ آج ہر مسلمان کو اپنی ذات کے خول سے نکلنا ہوگا آج ہرمسلمان کو اپنے اندر آہنی عزم اور سچی نیت پیدا کرنی ہوگی۔
آج ہر مسلمان کو اسلامی ممالک کی ایک ایک چپہ زمین آزاد کرانے کا عزم کرنا ہوگا ۔ آج ہر مسلمان کو خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لینے کی نیت کرنی ہوگی ۔ آج مسلمانوں کو اسلام کی عظمت کی خاطر خاک اور خون میں تڑپنے کا شوق اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔ تب ان شاء اللہ خود انہی مسلمانوں میں سے کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ بھی پیدا ہو جائے گا ۔ اور کسی ماں کا بیٹا نورالدین زنگی رحمہ اللہ جیسا بھی کہلائے گا۔
اللہ تعالٰی ہمیں اپنے انہی اکابر جیسا عزم ، حوصلہ اور نیت عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین ]
 
Top