اقتباسات حضرت امیر خسرو (رحمتہ اللہ علیہ) کی، حضرت نظام الدین اولياء (رحمتہ اللہ علیہ )سے محبت وعقیدت ۔

یوسف سلطان

محفلین
حضرت محبوبِ الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہِ جلال میں حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کو کیا مقام حاصل تھا، اس کا اندازہ حضرت نظام الدین اولياء رحمتہ اللہ علیہ کے اقوالِ مبارکہ سے ہوتا ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے۔
"اگر قیامت میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ نظام الدین! تو دنیا سے کیا لے کر آیا ہے، تو میں عرض کروں گا کہ ترک کے سینے کا سوز لایا ہوں" حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کو کبھی ترک اور کبھی ترک زادہ کہہ کر پکارتے تھے۔
معتبر روایت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کبھی کبھی ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے۔
"اے اللہ! اس ترک کے سوزِ دردوں کے طفیل مجھے بخش دے۔"
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ جب رات کے وقت اپنے حجرے میں تشریف لے جاتے تو پھر کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی۔۔ لیکن حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں تھی، امیر جس وقت چاہتےبلا تکلف اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضرہو جاتے۔ یہ ایک منفرد اعزاز تھا جو حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں تھا۔
ایک بار حضرت محبوبِ الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں یہ شعربرسرِ مجلس پڑھا اور اپنی بزرگانہ محبت کا اظہار اس طرح فرمایا،​
گربرائےترک تر کم آرہ برتارک نہند
ترک تارک گیرم و ہرگز نہ گیرم ترک ترک
(اگر میری پیشانی پر آرہ رکھ دیا جائے اور کہاں جائے کہ اپنے ترک(خسرو) کو چھوڑ دو تو میں اپنی پیشانی کو چھوڑ دوں گا مگر اپنے ترک کو ہرگزنہیں چھوڑوں گا)​
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی یہ بے پناہ شفقت بے سبب نہیں تھی۔ خود امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنے پیر و مرشد سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ راِہ سلوک میں اس محبت کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کےحجرہء مبارک میں حاضر ہوتے، دست بستہ خاموش بیٹھے رہتے اور جب پیرومرشد کا حکم ہوتا تو دیگر شعراء کا عارفانہ کلام سناتے یا حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے حسبِ ارشاد اپنی کوئی غزل نظر کرتے۔ پھر جب پیرومرشد فرماتے تو حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ اپنے گھر چلے جاتے۔اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ باتیں کرتے کرتے حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھ لگ جاتی تو امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ اپنےپیرومرشد کے پیروں پر سر رکھے رکھے سوجاتے۔ ایک بار کئی ماہ تک حضرت امیر خسرورحمتہ اللہ علیہ کواذنِ باریابی نہیں ملا۔ پھر جب اس سعادت سے سرفراز ہوئے اور حضرت محبوبِ الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کوحجرہء مبارک میں طلب فرمایا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ شدید جذبات میں رونے لگے۔
حضرت نظام الدین اولیاءرحمتہ اللہ علیہ نےاس گریہ وزاری کا سبب پوچھا توحضرت امیر خسرورحمتہ اللہ علیہ نے بڑی وارفتگی کے عالم میں عرض کیا،​
نخفت خسرو مسکیں ازیں ہوس شب ہا
کہ دیدہ برکف پایت نہد بخواب شود
(غریب خسرو،اس حسرت میں کئی راتوں سے جاگ رہا ہےکہ حضور کے تلوؤں پر اپنی آنکھیں رکھ کر سوئے)​
اس محبت و عقیدت کی زندہ مثال وہ تاریخی واقعہ ہے جو سلطان علاءالدین کے دورحکومت میں پیش آیا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ دہلی سے دور رہنے والے ایک مفلس شخص نے حضرت نظام الدین اولياءرحمتہ اللہ علیہ کی غریب نوازی اور لطف وعنایات کے بارے میں بے شمار واقعات سنے تھے ۔ کہنے والے کہا کرتے تھے کہ بظاہرتاجِ شاہی، سلطان علاء الدین کے سر پر سایہ فگن ہے مگر حقیقت میں ہندوستان کے بادشاہ تو صرف حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ان کے آستانے پر حاضر ہونے والا کوئی بھی ضرورت مند خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ اس مفلس ونادار شخص نے جب حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی کرم نوازیوں کے قصے سنے تو وہ بے چارہ کئی دن کا پیدل سفر طے کرکے دہلی پہنچا اور حضرت محبوبِ الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہِ جلال میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو حدیث پاک کا درس دے رہے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بدحال شخص کو خانقاہ کے دروازے پر حیران و پریشان کھڑا دیکھا تو ہاتھ کے اشارے سے اندر آکر بیٹھ جانے کے لئے کہا۔
پھر جب حدیث پاک کا درس ختم ہوگیا اور حاضرین مجلس اپنے گھروں کو چلے گئے تو حضرت محبوبِ الہٰی نےاس مفلوک الحال شخص کو اپنے قریب بلایا اور نہایت شفقت آمیزلہجے میں آمد کا سبب دریافت کرنے لگے۔
" میں نے اپنی زندگی بہت بدحالی میں بسرکی ہے لیکن آج تک کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہیں کیا۔ شاید میں آخری سانس تک بھی اپنا دامن نہ پھیلاتا مگر میری زندگی کی سب سے بڑی ضرورت نے مجھے آپ کے آستانہء عالیہ تک آنے کے لئے مجبور کر دیا ہے"۔ وہ مفلس و نادار شخص اب بھی اپنے دل کی بات کہتے ہوئے جھجگ رہا تھا۔ شرم دامن گیرتھی، اس لیےاس کی گفتگو کا انداز بہت پیچیدہ تھا۔
حضرت محبوبِ الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنےبعض خدام کی طرف دیکھا جواس وقت وہاں موجود تھے۔ خدام اُٹھ کر چلے گئے۔ اب وہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کےاوراس ضرورت مند شخص کے سوا کوئی تیسرا فرد موجود نہیں تھا۔ "برادرمن!تمہیں جو کچھ کہنا ہےبلا تکلف کہہ ڈالو۔ اب یہاں کوئی غیرنہیں ہے میں تو خود تمہاراعزیز ہوں مجھے اپنا سمجھ کر وہ بات کہہ دو جو تمہاری زبان تک آتے آتے اچانک رُک جاتی ہے "
پُرسش حال کےاس انداز پر وہ شخص زاروقطاررونے لگا۔ 'شیخ'! میں ایک سید زادہ ہوں ساری عمر محنت مزدوری میں گزری مگر اب تین بیٹیاں جوان ہو چکی ہیں ۔ کوئی اہل غیرت نہیں آتا کہ میری خاندانی شرافت کو معیار بنا کر مجھ سے رشتہ جوڑے۔ سب لوگ قیمتی جہیز طلب کرتے ہیں اور پرتکلف دعوتوں کا اہتمام چاہتے ہیں۔ میں کیا کروں کہ مجھے تو دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ اتفاق سے میرے ایک رفیق نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ ہندوستان کے بے تاج بادشاہ ہیں اور آپ کے دروازے سے کوئی ضرورت مند نامراد واپس نہیں جاتا یہی سوچ کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔
" میرے بھائی ! تمہیں یہ کسی نے غلط بتایا کہ میں ہند کا بے تاج بادشاہ ہوں۔ درویشی میں تو تاج کا تصور ہی حرام ہے اور شہنشاہ بھی صرف اللہ تعالی ہی کی ذات ہے ۔ میں تو اس کی عظیم الشان سلطنت میں رہنے والا ایک ادنٰی انسان ہوں جسے اس نے اپنی رحمتِ لازاوال کے سائبان میں چھپا رکھا ہے۔ نہ میں یہاں کچھ لے کر آیا تھا اور نہ اپنے ساتھ کچھ لے کر جاؤں گا۔ جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور وہ اپنے لامحدود خزانوں میں سے جس بندے کو جتنا چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔" یہ کہہ کر حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خادم خاص خواجہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو طلب فرمایا اور پھر سرگوشی کے انداز میں فرمایا۔" اقبال! تمہارے پاس جو کچھ زر نقد ہے وہ لے آؤ۔"
خانقاہ میں آنے والے تمام تحائف اور نذرات خواجہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی تحویل میں رہتے تھے۔ اس رقم سے لنگر خانے کے اخراجات پورے ہوتے تھے اور حاجت مندوں کی خالی جھولياں بھری جاتی تھیں۔ خواجہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیرو مرشد کا حکم سن کر واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو بہت اداس تھے خواجہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے جھکے ہوئے سر کے ساتھ کہا کہ آج اتفاق سے ایک تنکہ(سکہ) بھی موجود نہیں ہے جس قدر بھی رقم تھی اس سے مطبخ کا سامان خرید لیا گیا ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے خواجہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا "اب جو بھی نذر یا تحفہ آئے اسےمیرے پاس لے آؤ."
پھر جب خواجہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ واپس چلے گئے تو حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مہمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔" تم پریشان نہ ہو اللہ کارسازِاعلٰی ہے۔ اور وہی دستگیر و مشکل کشا ہے۔ مجھے اس ذات پاک پر یقینِ کامل ہے کہ وہ عنقریب تمہاری حاجت روائی کرے گا۔ ان شاء اللہ! تمہاری بچیوں کی شادی حسبِ منشاء ہو جائے گی۔ آج خانقاہ میں جس قدر تحائف یا نذریں آئیں گی ان سب پر تمہارا حق ہوگا۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے اس فرمان کے بعد اجنبی مہمان مسرور و مطمعئن ہو گیا اور بڑے ولہانہ انداز میں کہنے لگا۔" شیخ! دونوں جہاں میں آپ کا مرتبہ بلند ہو۔ میں نے جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔"
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے مہمان کی زبان سے اپنی تعریف سنی تو موضوع بدل دیا کہ دہلی کا کوئی امیر نذر بھیجے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ اس مجبور باپ کی حاجت روائی کرسکیں۔ اب اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس دن ایک شخص بھی کوئی تحفہ یا نذر لے کر حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوا۔ یہ بڑی تعجب خیز بات تھی۔ جب سے حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ پر فتوحات کا دروازہ کھلا تھا اس روز سے لے کر آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا کہ حانقاہ میں ہزاروں کی رقم نہ آئی ہو۔ آخر جب رات ہو گئی اورحضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ عشاء کی نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اجنبی مہمان سے معذرت خواہانہ لہجے میں فرمایا.
"سید! میں بہت شرمندہ ہوں کہ تمہارا نہایت قیمتی وقت حالتِ انتظار میں گزر گیا۔ پھر بھی انسان کو صبر کرنا چاہئے کہ صبر ہی سلامتی کا راستہ ہے اور صبر ہی انسان کی نجات ہے۔ تم کل بھی اس فقیر کے مہمان رہو گے دیکھیں کل پردہءغیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ " ۔اس کے بعد حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ نے خواجہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو حکم دیا کہ مہمان کے لئے بطورِخاص شب بسری کا اہتمام کیا جائے۔
دوسرے دن وہی ضرورت مند انسان صبح سے شام تک حضرت محبوب الہٰی رحمتہ علیہ کی خدمت میں حاضررہا مگراتفاق سے اس روز بھی کوئی عقیدت مند نزر لے کر نہیں آیا. یہ بڑی عجیب صورت حال تھی جسے خانقاہ میں رہنے والے ہر شخص نے پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ حسبِ معمول عشاء کی نماز کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مہمان سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا
" میرے بھائی! آج کا دن بھی یوں ہی گزر گیا۔۔ مگر تم آزردہ خاطر نہ ہو۔ایک دن اورانتظارکرلو ان شاءاللہ کل کوئی نہ کوئی سبیل ضرور پیدا ہو جائے گی"
مہمان ادب و احترام کے سبب خاموشی سے اٹھ گیا لیکن اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ اندرونی کرب میں مبتلا ہے. حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ ہر طرح اس کی پذیرائی کر رہے تھے۔خانقاہ میں قیام کرنے والا ہر شخص سنگی فرش پر سوتا تھا مگر حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے مہمان کے لئے پلنگ اورنرم بستر کا انتظام کیا تھا تاکہ ایک عالی نسب سید کی خاطرمدارت میں کوئی کمی نہ رہ جائے.. مگر وہ شخص اس ظاہری تواضع سے مطمئن نہیں تھا۔ایک کثیر رقم اس کی ضرورت تھی اور رقم کے حصول کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے تھے. پھر جب وہ سید زادہ اپنے بستر پر دراز ہوا تو اس کی نظروں کے سامنے تین جوان بیٹیوں کے چہرے اُبھر آئے. سید کے دل میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی.. اور پھر یہ لہر اس کے پورے وجود پر مسلط ہو گئی.
تیسرے دن سید زادے نے فجر کی نماز حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ادا کی۔ پھر آنے والےعقیدت مندوں کے ہجوم میں اضافہ ہوتا گیا مگر ان میں کوئی ایک شخص بھی نزر یاہدیہ لے کر نہیں آیا تھا. سید زادے کی مایوسی بڑھنے لگی۔آنکھوں میں کئی بارعکسِ شکایت ابھرا مگر احترامِ شیخ کے پیش نظر ہونٹوں کو جنبش نہ ہو سکی۔ دن آہستہ آہستہ گزرتا رہا۔ خانقاہ میں حاضری دینے والے عقیدت مندوں کی تعداد بلا مبالغہ ہزاروں تک پہنچ گئی مگر اسے اتفاق ہی کہا جائے گا کہ نزریا تحفے کے نام پر مسلسل تین روز سے ایک درہم یا دینار یا تنکہ، حضرت محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش نہیں کیا گیا یہ صورت حال سید زادے کے لئے بہت فکرانگیز تھی اور خود حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ بھی افسردہ نظر آ رہے تھے۔ یہاں تک کے شام ہو گئی۔
پھر مغرب کی نماز کے بعد حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے سید زادے کو اپنے حجرہء مبارک میں طلب کیا اجنبی مہمان کاخیال تھا کہ شاید دہلی کا کوئی امیر قیمتی نزر لے کر آیا ہوگا اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ وہی نزر اسے تنہائی میں پیش کرنا چاہتے ہوں گے۔ ان ہی خوش کن خیالات میں گھرا وہ شخص حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کی خلوت میں حاضرہوا اور دست بستہ بیٹھ گیا۔
"معزز و محترم مہمان! تمہیں اس فقیر کے گھر آئے ہوئے تین دن گزر گئے۔ اب تم نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ یہ درویش جس کے بارے میں بے تاج بادشاہ جیسے کئی خطابات شہرت پا گئے ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے. میں تو وہی ہوں جو نظر آتا ہوں مگر لوگ اپنی عقیدت کی آنکھ سے مجھ میں نہ جانے کیا کیا صفات دیکھ لیتے ہیں۔ میں تمہاری ضروریات کی نزاکت اور شدت سے بھی واقف ہوں مگر کیا کروں کہ آج میرے ہاتھوں میں اتنی فراخی نہیں ہے کہ تمہیں پورے سکون واطمینان کے ساتھ تمہارے گھر کی جانب روانہ کر سکوں۔"
سید زیادہ بھی بڑے لوگوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اہلِ علم کی صحبتیں اٹھائی تھیں، آدابِ مجلس سے آشنا تھا، اس لیے حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ کی گفتگو سن کر مضطرب ہو گیا"شیخ !آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ یہ تو میری گردشِ وقت ہے کہ جس نے آپ جیسے مردِ سخی کے ہاتھ کو مجھ پر تنگ کر دیا ہے"۔
" سید! اس فقیر کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اوراللہ بہترین کارسازہے انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ کب بابِ رحمت کھلے اور کب انسان اس کے الطاف وکرم کی بارش میں نہا جائے گا"
سید زادہ خاموش بیٹھا رہا۔ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس تو نہیں تھامگر اپنی شدید ترين ضروریات کے پیش نظر فوری طور پر رحمتوں کا نزول چاہتا تھا۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کچھ دیر کے لئے سکوت کیا پھرسید زادے کو مخاطب کرکے فرمایا۔
" درویش کے پاس اپنے مہمان کو نزرکرنے کے لئے جوتوں کے سوا کچھ نہیں ہے"
حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے نعلین کی طرف اشارہ کیا جو ظاہری طور پرزیادہ شکستہ تو نہیں تھے مگر قیمتاً ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
"سید زادہ چند لمحوں کے لئے دم بخود رہ گیا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس بے تاج بادشاہ کے در سے پرانے جوتوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اجنبی مہمان کو حیران وپریشان دیکھ کر حضرت محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا "میزبان پر لازم ہے کہ وہ مہمان کی خدمت میں اپنا بہترین اثاثہ اور سب سے زیادہ قیمتی تحفہ پیش کرے۔ میرے ذاتی مال ومتاع میں یہ جوتے ہی سب سے زیادہ قیمتی ہیں لباس اس قابل نہیں کہ وہ تمہاری نزر کیا جا سکے بس یہی نعلین ہیں کہ جن کے بغیر بھی درویش کا کاروبارِحیات جاری رہے گا"۔
سیدزادہ کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اس نے حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ کے جوتوں کو اپنے رومال میں لپیٹ لیا۔ اس کے بعد اجازت طلب کی اور انتہائی بے دلی کے عالم میں خانقاہ سے نکل کر اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔
سید زیادہ راستہ چلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اگر اہلِ خانہ اس سے پوچھیں گے تو دہلی سے کیا لایا تو وہ صاف صاف کہہ دے گا کہ ہند کے بے تاج بادشاہ نے یہ پرانے جوتے اسے تحفے میں دیے ہیں اور یہی جوتے بیٹیوں کی شادی کے معاملات میں اس کی کفالت کریں گے۔
اس شخص کی فکر کا انداز استہزایہ تھا۔ سید زادے نے یہ سوچ کر جوتے قبول نہیں کئے تھے کہ چمڑے کے ان دو ٹکڑوں سے حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں کی خوشبو آتی ہے۔ اگر وہ اس حقیقت کوسمجھ لیتا تو اتنی بے دلی کے ساتھ خانقاہ سے نہ اٹھتا۔۔۔ اور اسی بے دلی نے اس شخص کو عدم آگہی کی منزل تک پہنچا دیا تھا۔ آگہی تو اس وقت پیدا ہوتی جب وہ دینے والے کی ذات سے مکمل طور پر متعارف ہوتا۔ تعارف ہی نہیں تھا تو کیسے پہنچانتا کہ دینے والا کون ہے اور اس نے کیا دیا ہے؟ غرض اسی کشمکش میں سید زادہ اپنا سفرطے کرتا رہا۔ وہ دن بھر پیدل چلتا اوررات کو کسی سرائے میں قیام کر لیتا۔ ناکامی و نامرادی کا سفرتھا اسلیے ہر قدم پر شدید گرانی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے بارہا سوچا کہ اگر معلوم ہوتا تو وہ کبھی دہلی کا رخ نہ کرتا۔ سید زادہ ایک عجیب سے احساسِ ندامت وکرب میں مبتلا تھا کہ وقت بھی برباد ہوا اور راستے کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ یہی سوچتے سوچتے اس رات بھی وہ کسی سرائے کے ایک گوشے میں سو گیا۔
جب سیدزادہ اپنا سوال لے کر حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے آستانہء سخاوت و کرم پر حاضر ہوا تھا، اس وقت حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ سلطان علاء الدین خلجی کے ہمراہ دہلی سے باہر گئے ہوئے تھے۔ بعض مورخین کی روایت ہے کہ بنگال کے سفر میں حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ سلطان کے ہمراہ تھے. روایات میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ امرطے شدہ ہے کہ حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کسی جنگی مہم کے موقع پرسلطان علاء الدین کے ساتھ تھے۔ اس جنگ میں علاءالدین نے شاندار فتح حاصل کی تھی اور اسی فتح سے متاثر ہوکر حضرت امیرخسرورحمتہ اللہ علیہ نے علاءالدین کی شان میں ایک پُرجوش قصیدہ کہا تھا جس کے جواب میں سلطان نے پانچ لاکھ نقرئی سکے بطورانعام دئیے تھے۔ یہ بڑا عجیب اتفاق تھا کہ وہ ضرورت مند شخص حضرت محبوب الہٰی رحمتہ علیہ کی بارگاہ سے ناکام ہو کراپنے گھرواپس جا رہا تھا اور حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ گھوڑوں پر لدی ہوئی ایک کثیررقم لے کر دہلی کی طرف آ رہے تھے.
معتبرتاریخ نويسوں کی روایت ہے کہ رات کے وقت جب حضرت امیر خسرورحمتہ اللہ علیہ شاہی لشکر لے کرسرائے کے قریب سے گزرے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اچانک دوسرے لوگوں کو ٹھہرجانے کا حکم دیا۔
"بوئے شیخ می آید.... "بوئے شیخ می آید.. (مجھے اپنے شیخ کی خوشبو آرہی ہے) حضرت امیرخسرو رحمتہ اللہ علیہ بارباراسی ایک جملے کو دہرا رہےتھے اورپریشان ہوکراپنے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے.
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کی یہ کیفیت دیکھ بڑے فوجی افسر اپنے گھوڑوں سے اترآئے اور عرض کرنے لگے" امیر آپ کیا محسوس کر رہے ہیں"؟
"میں نے اس مقام پر اپنے پیرومرشد کی خوشبو محسوس کررہا ہوں" حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے لہجے میں شدید اضطراب پنہاں تھا۔
"حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ تو غیاث پورمیں قیام فرما ہیں اورغیاث پوریہاں سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے۔" شاہی سپہ سالار نہ کہا۔
میں جانتا ہوں ابھی غیاث پوربہت دور ہے مگرمیں اس خوشبو کوکیسے نظرانداز کروں جس نے میرے مشامِ جاں کو معطرکر دیا ہے. یہ تمام فضا میرے شیخ کی خوشبو سے لبریز ہے. ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پیرومرشد یہیں کہیں جلوہ افروز ہیں یا پھر اس مقام سے گزر رہے ہیں. "حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کی وارفتگی بڑھتی جا رہی تھی.
آخر حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ محبوب مرید اور دوسرے فوجی افسر خوشبو کے تعاقب میں آگے بڑھے اور پھر ایک سرائے تک پہنچ گئے... یہاں خوشبو کا احساس تیز تر ہو گیا تھا. رات زیادہ گزر جانے کے سبب سرائے کا دروازہ بند ہو چکا تھا. مالک کو طلب کرکے سرائے کا دروازہ کھلوایا گیا خوشبو کچھ اور نمایاں ہو گئی تھی. حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ بےقرار ہو کرسرائے کے ایک گوشے کی طرف بڑھے. یہاں ایک مسافر سویا ہوا تھا اور وہ خوشبو اسی کے قریب سے آ رہی تھی. حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے اس خوابیدہ مسافر کو اٹھایا. وہ آنکھیں ملتا ہوا ناگواری کے عالم میں اٹھا۔ حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے معذرت طلب کرتے ہوئے کہا. "میں صرف ایک بات جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ بوئے شیخ کیوں آ رہی ہے؟"
"بوئے شیخ اور میرے پاس سے؟" وہ شخص حیران و پریشان تھا. "نہ میں آپ سے واقف ہوں اور نہ بوئے شیخ کا مطلب سمجھتا ہوں".
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کا مرید ہوں اور اسی ذات گرامی کے جسم کی خوشبو تیرے پاس سے آ رہی ہے "۔
"ہاں میں شیخ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ سے مل کر آ رہا ہوں" اب وہ شخص کسی قدر صورت حال کو سمجھ گیا تھا.
"کیسے ہیں میرے شیخ ؟"حضرت امیر خسرو (رحمتہ اللہ علیہ) وارفتہ سے ہو گئے.
" تمہارے شیخ تو اچھے ہیں مگرانہوں نے میرے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا"۔ مسافر کا لہجہ طنز آمیز تھا. "ان کی سخاوت کے بہت سے قصے سنے تھے مگر جب میں نے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے دستِ طلب دراز کیا تو تمہارے شیخ نے اپنے پرانے جوتے میرے حوالے کر دئیے اور کہہ دیا کہ یہی جوتے تمہاری ضرورتوں کی کفالت کریں گے "
"کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین مبارک؟" حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ بےقکرار ہو گئے.
"میرے پاس موجود ہیں" مسافر نے ایک طرف اشارہ کیا۔ حضرت نظام الدین اوليا رحمتہ اللہ علیہ کے جوتے ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے اس کے قریب ہی رکھے تھے۔
" اے شخص! کیا تو ان جوتوں کو فروخت کرے گا؟ "حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے چہرے پر عجیب سی روشنی تھی جیسے وہ دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی شے خرید رہے ہوں.
" ایک وہ مذاق اور ایک یہ مذاق ہے۔ امیر!کیا تمہیں میری حالت پررحم نہیں آتا؟ "سید زادہ بےزار نظر آ رہا تھا.
" نہ وہ مذاق تھا اور نہ یہ مذاق ہے" اچانک امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے لہجے میں جلال روحانی جھلک رہا تھا. "تو نے میرے شیخ کو پہچانا نہیں."
سید زادہ سنبھل چکا تھا پھر بھی اس نےازراہ تمسخر کہا۔" امیر! تم ان جوتوں کی کیا قیمت دوگئے؟"
"اس وقت میرے پاس پانچ لاکھ نقرئی سکے ہیں" حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے انتہائی عاجزی کے ساتھ فرمایا۔
سید زادے کو سکتہ سا ہو گیا۔
"اگر یہ رقم نہ کافی ہے تو میرے ساتھ دہلی واپس چلو" حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا "میں اتنی ہی رقم کا اور انتظام کر دوں گا"
سیدزادہ بدحواس ہو کر کھڑا ہو گیا اور اس نے جوتے اٹھا کر امیر خسرورحمتہ اللہ علیہ کے حوالے کر دیے اورالتجا کرنے لگا۔
"میرے لئے تو ایک ہزار سکے بھی کافی ہیں خدا کے لئے اپنے وعدے سے پھر نہ جانا"
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ، سید زادے کو اپنے ہمراہ لے کرسرائے سے باہر آئے اور اس جگہ پہنچے جہاں نقرئی سکوں سے لدے ہوئے گھوڑے کھڑے تھے." صرف ایک ہزار نہیں یہ تمام سکے اب تمہاری ملکیت ہیں "حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے گھوڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،
سید زادے پر ایک بار پھرسکتہ طاری ہو گیا اسے اپنی بصارت و سماعت پر اعتبار نہیں آ رہا تھا. پھر جب کچھ دیر بعد وہ شخص ورطہء حیرت سے باہر نکلا تو حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ سے کہنے لگا "مگر یہ مال و متاع لے کر اپنے گھر تک کس طرح جاؤں گا"؟
"یہی گھوڑے اس بوجھ کو اٹھائیں گے" حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے جوابا فرمایا
" گھوڑے تو اپنا کام کریں گے مگر میں اپنے شہر کے لوگوں کو کیا جواب دوں گا"؟ مسافر یکایک بہت زیادہ پریشان نظر آنے لگا تھا،"کون مجھ غریب کی باتوں پر یقین کرے گا کہ یہ ساری دولت میری ملکیت ہے۔ گھر سے نکلا تھا تو سارے شناسا میرے افلاس سےواقف تھے۔ اب واپس جاؤں گا تو انہیں کس طرح مطمئن کروں گا کہ ایک رات میں سب کچھ بدل گیا کوئی شخص بھی میرے دلائل کو تسلیم نہیں کرے گا۔سب ہی مجھے قزاکی یا رہزنی کا الزام دیں گے"
" پھر تم کس طرح اطمینان حاصل کر سکتے ہو؟"خضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا۔
"آپ مجھے ایک دستاویز لکھ کر دے دیں کہ میں آج سے اس دولت کا مالک ہوں" مسافر نے تجویز پیش کی .
خضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے کسی تاخیر کے بغیر ایک کاغذ پر یہ تحریر لکھ دی :
"میں امیر خسرو ، سلطان علاءالدین خلجی کے دئیے ہوئے انعام کی رقم شخص مذکورہ کو بطور نزر پیش کر رہا ہوں"
کاغذ پر تحریرشدہ الفاظ نے سید زادے کو مطمئن کر دیا۔ پھر اس شخص نے حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ سے آخری التجا کی کہ لشکر کے چند سپاہیوں کی نگرانی میں یہ گھوڑے اس کے گھر تک پہنچا دیے جائیں کیونکہ راستے میں لٹ جانے کاخطرہ درپیش ہے۔
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ نے چند سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ مسافر کو بحفاظت اس کی منزل تک پہنچا دیں اور خود بہت تیز رفتاری کے ساتھ اس طرح دہلی کی طرف بڑھے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دستارمیں حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے جوتے لپٹے ہوئے تھے۔
پھر جب حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہِ جلال میں حاضر ہوئے تو اہلِ مجلس نے دیکھا کہ آپ رحمتہ رحمتہ اللہ علیہ کے دونوں ہاتھ اس طرح بلند ہیں جیسے کوئی مزدور اپنے سر پر بارِگراں اٹھائے ہوئے آ رہا ہو،۔ بزمِ عرفاں پر سناٹا طاری تھا ۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا ہر خادم اورعقیدت مند حیران تھا کہ آج خسرو کو کیا ہو گیا ہے؟ اپنے اپنے ذہن کی رسائی کے مطابق تمام اہلِ مجلس اس مریدِ جاں سوختہ کی کیفیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ حضرت محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔
"خسرو کامیابی کا یہ سفرمبارک ہو تم اپنے شیخ کے لئے کیا تحفہ لائے ہو؟"
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ گھٹنوں کے بل جھک گئے اور اپنی دستار میں لپٹے ہوئے مرشد کے نعلین مبارک فرش پر رکھ دیئے."شیخ کے حضور میں شیخ ہی کی نشانی لایا ہوں۔دنیا کی اور کوئی شے اس قابل ہی نہیں تھی."یہ کہہ کر حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ حضرت محبوب الہیٰ رحمۃاللہ علیہ کے قدموں سے لپٹ گئے۔
"کتنے میں خریدی"؟ حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ تبسم دل نواز کے ساتھ دریافت فرمایا.
پانچ لاکھ نقرئی سکوں میں"​
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ شدت جذبات میں رونے لگے۔
"خسرو! بسیار ارزاں خریدی؟"
(بہت سستے داموں خریدی )
"سیدی!یہ غلام اور کیا کرتا اس شخص نے اسی پر قناعت کی ورنہ اگر وہ ان جوتوں کے بدلے میں مجھ سے میرا تمام مال و متاع بھی طلب کرتا تو خسرواپنا سب کچھ اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا "۔
"خسرو اگر ایسا کرتے تب بھی یہ سودا بہت سستا ہوتا" حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا.
"بے شک سیدی!" حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ زارو قطار روتے جا رہے تھے اور عرض کر رہے تھے۔" سیدی!یہ غلام کس قابل تھا؟ بس آقا کی نگاہِ کرم تھی جو اپنے ایک حقیر نام لیوا کو سربلند کر گئی۔"
یہ تھا حضرت امیر خسرورحمتہ اللہ علیہ کے جذبۂ عقیدت کا ایک ہلکا سا عکس .....
کتاب کا نام :اللہ کے سفیر
مصنف :خان آصف​
 
آخری تدوین:
Top