حصولِ توانائی میں خود کفالت ممکن ہے !!!

الف نظامی

لائبریرین
2 Oct 2010


یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے جن عظیم سائنس دانوں نے خطے کی انتہائی جارحانہ فضا میں ہماری قومی سلامتی کو نئی جہت عطا کی ‘ انہیں ہم نے غیروں کے اشارے پر انکے عظیم مقصدسے روک دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے بھارت کے مقابلے میں انتہائی نامساعد حالات کا پامردی سے مقابلہ کیا اور یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی تکنیک حاصل کر کے پاکستان کی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ یہ اتنی عظیم قومی خدمت تھی جس کیلئے قوم کو ان کا تاحیات شکرگزار ہونا چاہئے تھا لیکن ہم نے ناشکری کی انتہا کرتے ہوئے انہیں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاو کا مرتکب ہونے کے تمغے سے نوازا۔حالانکہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹم بم بنانے سے متعلق ہر چیز عالمی بلیک مارکیٹ سے بآسانی خریدی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ‘ جنہیں حکومت وقت نے اس بات کا اختیار دیا تھا کہ وہ عالمی ایٹمی مارکیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے ہر قیمت پر ایٹمی طاقت کے حصول کو یقینی بنائیں کیونکہ پاکستان کیلئے جائز طریقے سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے تمام راستے بند کر دئے گئے تھے۔ جب پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تو پوری دنیا حیران رہ گئی لیکن ہم نے اپنے اس محسن کو رسوائی و عبرت کا نشان بنا دیا !!
پاکستان کی ایٹمی حیثیت کو بھارت اور اسرائیل کے مفادات کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہی وہ وجہ ہے کہ جس سے خطے میں ایٹمی توازن قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ایٹمی صلاحیت نہ صرف دفاعی نقطہ نظر سے سلامتی کو یقینی بناتی ہے بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتی ہے جسے ہم اپنی توانائی کی مختلف ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی استعمال کر تے ہیں۔ہمیں اپنی قومی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں کم از کم بیس تا پچیس ایٹمی توانائی کے پلانٹس لگانا ہوں گے کیونکہ ایٹمی توانائی نہ صرف پیداواری لاگت کے حوالے سے سستی پڑتی ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں ہوتی۔
ہماری توانائی پیدا کرنے کی پالیسی میں بہت سی خامیاں ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے میں تھرمل پاور کے طریقے پر زور دیا جس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے کیونکہ اس کا انحصار درآمدی تیل پر ہوتا ہے اس طرح جو بجلی اس ذریعے سے پیدا کی جاتی ہے وہ بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے جس سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور قوم سرکلر ڈیبٹ (Circular Debt)کی لعنت سے دوچار ہے لہذا ہمیں چاہیئے کہ اس طریق کار کو فوری طور پرخیرباد کہہ کر ہائیڈرو پاوراور کوئلہ کی گیس سے چلنے والے توانائی کے حصول پر توجہ دیں۔ ملک میں توانائی کی کمی اور بڑھتی ہوئی ضروریا ت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ ڈیم بناناہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے جوکہ ہر لحاظ سے بہتر اور توانائی پیدا کرنے کا سستا ترین اور آزمودہ ذریعہ ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کافی اعتراضات ہیں لیکن ملک میں اور بھی متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں پر ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں‘پانی کے ذخائر تعمیر کرنے سے ہم سیلابوں کی تباہی سے بھی بچ سکتے ہیں جن کی وجہ سے حال ہی میں ہمارے ملک کا نہ صرف زرعی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں‘ اسلئے ہم ہائیڈرو ذرائع کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے‘ اگر ہمیں مستقبل میں ایسے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپکومحفوظ بنانا ہے تو ہمیں ہائیڈل ذرائع سے توانائی کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اس ذریعہ سے ہم آئندہ دس برسوں میں اپنی قومی توانائی کی کم ازکم پچیس تا تیس فیصد ضرورت پوری کرنے کے اہل ہو سکیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں زیر زمین کوئلے کے ذخائر وافر مقدار میں عطا کئے ہیں جسے صحیح طور پر استعمال میں لانے کیلئے مربوط حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زیر قیادت سائنسدانوں کی ایک ٹیم ”تھر کول گورننگ باڈی” کے نام سے تشکیل دی گئی تھی جس کی ذمہ داری زیر زمین موجود کوئلے کو جلا کر اس سے توانائی حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرنا تھا۔ اس ذریعے سے تجرباتی طور پر 100میگا واٹ بجلی کی پیداوار آخری مراحل میں ہے جبکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت آئندہ تین برسوں میں حاصل ہو جائیگی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے پچاس ہزار میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل سے بھی مبرا ہوگی اور ایک مدت تک ملک کی توانائی کی ضروریات بھی پوری کر سکے گی لیکن بدقسمتی سے کچھ مفاد پرست عناصر اس کیخلاف کالاباغ ڈیم کی طرح کا مزموم پروپیگنڈا کر کے اسے بھی متنازع بنا نے کی کوشش میں ہیں اور اسی سبب عالمی بینک چند غیر ملکی طاقتوں کے دباو میں آکر اس منصوبے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کے وعدے سے منحرف ہوگیا ہے حالانکہ اس نے جنوبی افریقہ اور دیگر کئی ممالک میں اسی طرح کے منصوبوں کیلئے رقوم فراہم کی ہیں۔ تھر کول منصوبہ پاکستان کی معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا دفاع کرنا ہے اور تمام تر مخالفت کے باوجود اپنے منصوبے پائیہ تکمیل تک پہنچانے ہیں۔تھر کول منصوبے کے ذریعے سے جو بجلی پیدا ہو گی وہ انتہائی سستی ہوگی اور عام پاکستانی کی پہنچ میں ہوگی۔ حکومت سندھ کے تخمینے کیمطابق شروع شروع میں اسکی قیمت 3.9 روپے فی یونٹ تک ہوگی لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں اورپالیسی بھی ناکام ہے جس کے ذریعے کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کیلئے 223.5 بلین روپے ادا کئے جا چکے ہیں جن کی کل پیداواری صلاحیت 1206 میگاواٹ ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ان میں سے اکثر پیداوار شروع نہیں کر سکے ہیں۔ یہ بات بالکل طے ہے کہ نہ تو تھرمل منصوبے ہمارے قومی مفادات کیلئے افادیت کے حامل ہیں اور نہ ہی کرائے کے بجلی گھر۔
وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تھر کول منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور فنڈز فراہم کرے اور ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تھر کول منصوبے جلد از جلد مکمل کرے۔ اگرمختلف ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے توتھر کول منصوبے سے حاصل کی جانیوالی بجلی 3.9 روپے فی یونٹ ہے: تھرمل ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی 7.9 روپے فی یونٹ اور کرائے کے تھرمل پاور پلانٹس کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی بجلی کی قیمت 11.9 روپے فی یونٹ بنتی ہے اگر حکومت اس منصوبے کیلئے فنڈز اوروسائل فراہم کرنے سے معذور ہے تو اسے چاہئے کہ اسے مکمل کرنے کیلئے عوام کو سرمایہ کاری کی دعوت دے لیکن خدارا قومی معیشت کیلئے اس انتہائی اہم منصوبے کو سرخ فیتہ کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔
قدرت نے ہمیں بہت سی فیاضیوں سے نوازا ہے جن میں ہائیڈل ‘ کوئلہ اور ایٹمی ذرائع شامل ہیں۔ ان کواستعمال میں لانے کیلئے قومی سوچ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں پائے جانیوالے یورینیم کے خزانے دنیا کے مجموعی خزانوں کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہائیڈل ‘ کوئلے اور ایٹمی ذرائع کو استعمال کرنے کیساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ سورج (Solar) اور ہوا (Wind) کے استعمال سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کریں تاکہ غیروں پر انحصار کم سے کم ہو۔ مختلف ذرائع سے توانائی کے حصول کا بنیادی مقصد عوام کی ضروریات کو پورا کرنا ہے‘ ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی ساز ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پرفوقیت دیتے ہوئے ملک کو درپیش توانائی کے بحران پر قابو پاکر توانائی کے حوالے سے ملک کو خود کفالت کی راہ پر ڈال سکیں گے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جوقومی سلامتی اور تعمیر و ترقی کے ماہرین پر مشتمل ایک ”قومی ادارے“ کے قیام کی اہمیت کا تقاضا کرتاہے۔ بھارت اور دیگر متعدد ممالک میں ایسے ادارے موجود ہیں جوملکی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دار حکام کو بروقت اقدامات اٹھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔اسکے برعکس ہمارے ہاں سارا کام عارضی طریقوں سے چلایا جا رہا ہے اور ایک دن جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ دوسرے دن واپس لے لیا جاتا ہے لیکن ہم اس سلسلے کو جاری رکھنے کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت ملک کو وزیر اعظم کی زیر نگرانی ایک مشاورتی بورڈ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جو مستقل طور پر کام کرتے ہوئے اہم نوعیت کے فیصلوںکے حوالے سے حکمت عملی مرتب کر سکے یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہمارے قومی مفادات مکمل طور پر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ عظیم تر قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیں ہر قسم کے دباو کا جوانمری سے مقابلہ کرنا ہوگا اور اندرونی و بیرونی دباو کے آگے جھکنے کی روایت کو خیر باد کہنا ہوگا۔آپ نے دیکھا کہ بار بار کے معذرت خواہانہ رد عمل کے بعد ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی پر صرف ایک بار جرات مندانہ جواب دیا گیا تو امریکہ نے معافی مانگ لی۔ خوددار اور باوقار قوموں کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔

فرینکلن روزویلٹ نے کیا خوب کہا تھا: ”گھٹنے ٹیک کر جینے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے پاوں پر کھڑا رہ کر موت کو گلے لگا لے۔“
٭٭٭
 

الف نظامی

لائبریرین
2 Jul 2010
ہمارے سائنسدان ایسی ایسی مہارتیں حاصل کر چکے ہیں‘ جنہیں ہم صنعت و زراعت کے شعبوں میں استعمال کریں تو ترقی کا عمل تیز کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال تھر میں کوئلے کے استعمال کی نئی ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند بنیادی طور پر ایٹمی سائنسدان ہیں اور ان کی زندگی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں صرف ہوئی ہے۔ اب وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن ریسرچ کا عادی ذہن فارغ نہیں رہ سکتا۔ موجودہ حکومت نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ملک و قوم کے لئے خدمات کا سلسلہ جاری رکھیں۔ بہت جلد ہمیں ان کی طرف سے بڑی خوشخبری ملنے والی ہے۔ تھر میں کوئلے کے جو ذخائر موجود ہیں‘ ان سے فائدہ اٹھانے کے طریقے نہیں مل رہے تھے۔ بہت سی بیرونی کمپنیوں نے قسمت آزمائی کی لیکن اس کوئلے کو نکالنے کا کام نفع بخش نہ ہو سکا۔ یہ ذخائر آج کے نہیں‘ مدتوں پہلے کی دریافت ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ کوئلہ پانی کے نیچے ہے۔ کان کنی کا روایتی طریقہ اختیار کیا جائے‘ تو جہاں بھی کوئلے تک پہنچنے کے لئے راستہ نکالا جائے گا‘ وہاں جھیل بن جائے گی۔ اس کا علاج نہیں مل رہا تھا۔ دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے‘ جس کے ذریعے کوئلے کو زمین کے اندر ہی گیس میں بدلا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے ملاقات ہوئی‘ تو انہوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد تھر میں ایک منصوبہ شروع کر رہے ہیں۔ انہوں نے وہ ٹیکنالوجی پاکستان میں تیار کر لی ہے‘ جو دنیا میں محض چند مقامات پر زیراستعمال ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین میں سوراخ کر کے ایک پائپ کوئلے تک پہنچایا جائے گا اور کچھ فاصلے پر اسی طرح ایک دوسرا پائپ ڈالا جائے گا۔ ایک پائپ کے ذریعے ایسے مرکبات کوئلے تک پہنچیں گے جن سے وہ گرم ہو کر 400 سینٹی گریڈ کی حدت تک پہنچ جائے گا۔ اس حالت میں کوئلہ گیس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ گیس دوسرے پائپ سے باہر نکلے گی اور وہاں اسے پلانٹ تک منتقل کر کے حسب ضرورت مختلف صورتوں میں تبدیل کیا جا سکے گا۔ یہ ٹیکنالوجی بھی پاکستان نے مقامی طور پر تیار کر لی ہے۔حاصل شدہ گیس سے ہم براہ راست توانائی کا کام لے سکتے ہیں۔ اسے ڈیزل میں بدل سکتے ہیں۔ اس سے کھاد بنا سکتے ہیں۔ اس سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تھر کے ذخیروں کی مقدار کے حوالے سے بتایا کہ ہم 800سال تک 50 ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ آج یہ بات محض ایک تصور یا خواب لگتی ہے‘ مگر صرف 4 سال میں حقیقت بن کر سامنے آنے لگے گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تھرکول سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ منظور، پہلے سال 50 اور 2020ء تک 10ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی
سندھ : کوئلے سے 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ، مفاہمتی یادداشت پر دستخط
9 Nov 2010
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کوئلہ سے گیس اور ڈیزل پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور 50 میگاواٹ کا پائلٹ پراجیکٹ فروری یا مارچ میں کام شروع کریگا۔

ہم نے تھرکول اینڈ انرجی بورڈ بنایا جو کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے ورلڈ بینک کے بعض معاملات کا جواب نہیں دیا اور یہ معاملہ ورلڈ بینک میں سرد خانے میں پڑا رہا۔ اب ہماری کوششوں سے ورلڈ بینک دوبارہ راضی ہوگیا ہے۔ ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند 18 ماہ میں کول گیسی فیکیشن سے 100 میگا واٹ کا پاور پلانٹ 18 ماہ میں چلا کر دیں گے۔ دیگر سرمایہ کاروں سے بھی معاہدے ہوئے ہیں۔ ہمارے دور میں تھر کے کوئلے سے 500سے 1000 میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔


کوئلہ سے بجلی بنانے کیلئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو پائلٹ پراجیکٹ دیا ہے جو کوئلہ باہر نکالے بغیر ہی بجلی پیدا، آئل اور کھاد فراہم کریں گے جبکہ 32 چھوٹے بڑے ڈیمز بھی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند آپ کو پہلے ہی متوجہ کرچکے ہیں کہ قدرتی وسائل کی صورت میں ہماری دھرتی پر اتنا کوئلہ موجود ہے کہ اسکے ذریعے ہم اگلی سات آٹھ صدیوں تک اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرسکتے ہیں اور اب تو سورج کی حدت بھی آپ کیلئے سوچ بچار کے دروازے کھولے بیٹھی ہے۔ سولر انرجی کے شعبہ میں کام کرنیوالے ایک ماہر شرجیل احمد سلہری کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے گرم مرطوب موسم میں شمسی توانائی کا استعمال بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ آپ ان کی بات پر تھوڑا متوجہ ہوجائیں۔ وہ آپ کو آگاہ کررہے ہیں‘ اپنی لکھی پڑھی رپورٹ کے ذریعے کہ پاکستان کے موسم سے پچاس ہزار میگا واٹ تک شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آپ کو اس توانائی کے حصول کیلئے صرف بیرون ملک سے ٹیکنالوجی درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے جو دو ارب روپے کا فنڈ انرجی کی مد میں مختص کیا ہے‘ اسے شمسی توانائی کے حصول کی خاطر ٹیکنالوجی کی درآمد کیلئے بروئے کار لے آئیں‘ پھر آپ کو اگلے 26 سال تک مزید اخراجات کی ضرورت ہی نہیں پڑےگی اور شمسی توانائی بلاامتیاز ہر طبقے کے ہر فرد کی بجلی کی ضرورت پوری کرتی رہے گی۔


پاکستان میں 1 لاکھ85 ہزار بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں ۔ ممتاز سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے اسے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر لینے کا مطالبہ کرکے حکومت کوحیران کردیاجس کے تحت ان کا پروگرام تھا کہ کوئلہ باہرنکالے بغیر پائپ لگا کر او رکوئلے کو حدت دے کر نہ صرف بجلی پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ اس سے دیگر مختلف ضروریات کے لیے بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے ۔ پاکستان میں 32 نئے ڈیم بنائے جا رہے ہیں جن میں 3 کا افتتاح ہو چکا ہے ۔ ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر بھی جلد کام کا آغاز کیاجائے گا جس کے ساتھ شمسی توانائی کے منصوبے بھی ز یر غور ہیں ۔

معروف ایٹمی سائنسدان اور پلاننگ کمیشن کے ممبر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس تھر کوئلے سے 800 سال تک 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ آئندہ 15سے 18 ماہ کے دوران تھر کوئلہ سے 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے تیزی سے کوششیں جاری ہیں۔

ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ تھر کے کوئلے کے ذخائر توانائی کے حصول کے لیے 800 سال تک کے لیے کافی ہیں -ہم نے ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے اس ذخیرے سے توانائی حاصل کرنے کا منصوبہ 2004 میں بنایا تھا جس پر اگلے ماہ سے عملدرآمد ہوگا - اس ٹیکنالوجی کے تحت زمین سے کوئلہ نکالنے کی ضرورت نہیں بلکہ ٹیوب ویل کی طرح ایک بڑا سا سوراخ تہ تک کرکے اس کے ذریعے کمپریسڈ ائیرداخل کی جائے گی جو کوئلے کو جلائے گی اور اس میں کول گیس سے بجلی بنائی جاسکتی ہے جس کی قیمت 5 روپے فی یونٹ ہوگی - اس طرح بجلی کی ضرورت پورے ملک کے لیے پوری ہوسکتی ہے - انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جو کوئلے کے ذخائر ہیں وہ پورے مشرق وسطی بشمول عراق و ایران کے ذخائر سے زیادہ ہیں

ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے بعد اب ہم سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی طرف گامزن ہیں۔ ملتان میں بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا کوئلے کا ذخیرہ پاکستان میں موجود ہے جسکے 600 فٹ گہرائی میں موجود کوئلہ کو مائنز کے بغیر بور کر کے جو گیس حاصل ہو گی اس سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ کوئلہ کے ذخائر 8 سو سال تک ختم نہیں ہونگے۔
 

dehelvi

محفلین
کاش ہمارے ارباب اقتدار جو ملکی سرمایہ لوٹنے کے بعد اب عوام کے خون سے ریوینیو جنریٹ کررہے ہیں، تھوڑی دیر کے ہی سہی اس پر غور کرلیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کاش ہمارے ارباب اقتدار جو ملکی سرمایہ لوٹنے کے بعد اب عوام کے خون سے ریوینیو جنریٹ کررہے ہیں، تھوڑی دیر کے ہی سہی اس پر غور کرلیں۔
دہلوی صاحب: ڈاکٹر ثمر مبارک مند کوئلہ سے گیس اور ڈیزل پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور 50 میگاواٹ کا پائلٹ پراجیکٹ فروری یا مارچ میں کام شروع کریگا۔
 

arifkarim

معطل
بجلی پیدا کرنے کا سب سے بہترین اور پاک ذریعہ پانی، ہوا اور شمسی توانائی ہے۔ پانی اور ہوا درحقیقت شمسی توانائی ہی کی پیچیدہ نسلیں ہیں۔ اگر ان تینوں ذرائع بجلی کو کسی زمانہ میں سستا اور عام پبلک کی پہنچ کے قریب کر دیا گیا تو بڑی بڑی تیل، کوئلہ ، گیس اور جوہری توانائی سے چلانے والے شیر اپنے آپ گیدڑ بن جائیں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
1101115963-1.gif
 

میم نون

محفلین
انشاءاللہ پاکستان اگلے چند برسوں میں توانائی کے لحاظ سے خود کفیل ہو جائے گا،
اسوقت ملک میں جن منصوباں پر کام ہو رہا ہے انمیں سے چند اہم اور بڑے درج ذیل ہیں۔

دیامیر بھاشا ڈیم (4500 میگاواٹ)
الائی ڈیم (121 میگاواٹ)
ڈبر خوار ڈیم (130 میگاواٹ)
جناح ڈیم (96 میگاواٹ)
نیلم جہلم ڈیم (969 میگاواٹ)
گولن گل ڈیم (106 میگاواٹ)

چشمہ نیوکلیئر پلانٹ 2 (300 میگاواٹ)
کراچی نیوکلیئر پلانٹ 2 (1000 میگاواٹ)

تھرکول بلاک 5 (100 میگا واٹ اپریل تک اور بعد میں 2500 میگاواٹ)
تھرکول بلاک 2 (1000 میگاواٹ)

جھمپر ونڈ پلانٹ (پہلے 50 اور بعد میں 250 میگاواٹ)

انمیں سے چند ایک منصوبے 2011-2012 میں مکمل ہو جائیں گے اور بہت سارے چھوٹے منصوبے (30میگا واٹ سے کم جنکا میں نے زکر نہیں کیا) یہ سب بھی 1-2 سالوں میں پورے ہو جائیں گے۔
جبکہ یہ تمام منصوبے 2016-2018 تک مکمل ہو جائیں گے (انشاءاللہ)

انکےعلاوہ جن منصوبوں پر جلد کام شروع ہونے کی امید ہے انمیں سے چند درج زیل ہیں:
ہوا سے بجلی پنجاب میں کہیں (1000 میگاواٹ)
ہوا سے بجلی سندھ میں کہیں (1000 میگاواٹ)
سورج سے بجلی پنجاب میں کہیں (200 میگاواٹ)
سورج سے بجلی سندھ میں کہیں (100 میگاواٹ)
ان چاروں منصوبوں کیلیئے چائنی کمپنیاں پاکستان کو ٹکنالوجی فراہم کریں گی

چشمہ نیوکلیئر پلانٹ 3 اور 4 (300-300 میگاواٹ کے)

ایران-پاکستان گیس پائپ لائن (مکمل 2014-2015 تک)
ترکمانستان۔افغانستان-پاکستان-انڈیا گیس پائپ لائن (مکمل 2014 تک)

تھرکول مختلف بلاک (10000 میگاواٹ 2025 تک)
مختلف ڈیم جنکے نام یاد نہیں ( کم از کم 5000 میگا واٹ 2025 تک)
بنجی ڈیم (7500 میگاواٹ 2025-2030 تک)

یہ چند اہم اور بڑے منصوبے ہیں جنکے نام مجھے یاد تھے باقی بہت سے ایسے منصوبوں پر کام چل رہا ہے جو اسوقت ذہن میں نہیں آرہے (اگر کسی کو پتہ ہو تو برائے مہربانی یہاں لکھ دے)۔

چند گرین انرجی کے ایسے منصوبے بھی ہیں جنکے اوپر کام مختلف انٹرنیشنل کمپنیوں کی مدد سے چل رہا ہے، جنمیں ترکی، جرمن، امریکن اور دیگر کمپنیاں شامل ہیں، ان منصوبوں کی زیادہ اہمیت یہ ہے کہ اس سے پاکستان کو ان فیلڈز میں تجربہ حاصل ہوگا۔

چونکہ یہ زیادہ تر معلومات میری یاداشت پر مبنی ہے اسلیئے اگر کسی جگہ کوئی تعداد غلط ہو تو اسکی ذمہ داری میرے سرہو گی۔

اللہ کرے ان تمام منصوبوں پر صحیع طریقے سے عمل ہو اور پاکستان میں عوام امن اور سکون سے رہ سکیں۔ آمین
 
یہ سب خوش آئند منصوبے جن کا تذکرہ 2010 کے دھاگے میں کیا گیا تھا، سب پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں اور ملک میں ان سے لگائے گئے سبز باغوں میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔۔۔
 
توانائی کا حصول توانائی کے منصوبے بنانے سے نہیں ہوگا۔ یہ منصوبے تو جب بن سکیں گے اور چل سکیں گے جب قوم اس قابل ہو۔ ابھی وقت ہے کہ قوم کے اہم ریسورس یعنی ہیومن ریسورس کو ڈیلوپ کیا جاوے۔ توانائی کا مسئلہ تو نواز حکومت جیسے تیسے حل کرہی لے گی۔ مگر پائدار ترقی ہیومن ریورس ڈیلوپمنٹ میں ہے
 
Top