گل زیب انجم

محفلین
حصار
ممتاز بلڈنگ سے صدر جانے والی مزدا وین سواریوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی زن و مرد کے لیے کوئی مخصوص سیٹوں کا انتظام نہ ہونے کے باعث جہاں کسی کو جگہ ملتی وہ وہی بیٹھ جاتا یا کھڑا ہو جاتا.میں مزدے کی وسطی سیٹ پربیٹھا تھا جہاں پاس ہی ایک خاتون بچہ اٹھائے ایک ہاتھ سے ستونی راڈ پکڑے کھڑی تھی.کبھی کبھار ملتجانہ نظروں سے دائیں بائیں یا آگے پیچھے دیکھتی شاید بچاری گول مٹول سے بچے کو اٹھائے اٹھائے تھک چکی تھی اور اب اُس کی متلاشی نگاہیں کسی مسافر کے اترنے کی منتظر تھیں لیکن پتہ لگ رہا تھا کہ صدر سے پہلے کسی کو نہیں اترنا.میں جو عادتا" اُس خاتون کے بغور مطالعے میں مصروف تھا اُس کی تھکن کا احساس کرتے ہوئے اپنی سیٹ اُس کے حوالے کی تو وہ مشکورانہ انداز میں گردن ہلاتے
ہوئے سیٹ پر بیٹھ گئی.
بازوں کو ریلکس دینے کی خاطر بچے کو گود میں رکھا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو دبایا پھر دوپٹے کے پلو سے چہرے پہ بہتے پسینے کو پونچھا.پسینہ پونچھتے ہوئے بیٹے پر نگاہ پڑی تو فورا" دوسرے پلو سے بیٹے کی پسینے سے شربور پیشانی صاف کی گردن کو کچھ دوپٹے سے تو کچھ منہ کی پُھو نکوں سے خشک کیا اسی دیکھ بھال کے دوران ہی ماں کی ممتا نے جوش مارا تو بچے کو تھوڑا اوپر اٹھا کر خوب چُوما پھر پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کسی انجانی سی سوچ کے تحت ہلکی سی سسکاری لی اور بچے کی نکر کو لاسٹک سے پکڑ کر دیکھا پھر بچے کے پیٹ کو ٹٹولتے ہوئے ڈرائیور سکرین پر نگاہ ڈالی اور کچھ دیرجمائے رکھی جیسے سوچ رہی ہو ابھی منزل دور ہے.بچے نے چلتی گاڑی کھلی کھڑکیوں سے اندر آنے والی ہوا سے کچھ راحت پائی تو دودھ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا.

ماں جو پہلے ہی سے پیٹ ٹٹول کر معائنہ کر چکی تھی فورا" ہی دودھ پلانے کی تیاری کرنے لگی دوپٹے کا پلو سینے پر درست کیا قمیض کا دامن ایک طرف سے سرکاتے ہوئے بچے کو دامن کےنیچے سے سینے کے ساتھ لگا لیا.بعد ثلاثہ دقائق بچے کا رخ تبدیل کرنے کے لیے دوسری طرف لگایا تھوڑی ہی دیر میں بچہ سیر ہو گیا اب دودھ پینے کے بجائے دامن کےنیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا. ماں کے چہرے پر مسرت کے آثار دیکھنے میں آئے جیسا کہ وہ اپنی اس فرض شناسی پر شکر بجا لائی ہو .بچے کا منہ آنچل کے اُسی کونے سے صاف کیا جس سے تھوڑی دیر پہلے پسینہ صاف کیا تھا .منہ صاف کرنے کے بعد بچے کو یوں اٹھایا کہ بچے کے پاؤں ماں کے سینے پر تھے اور ماں کے ہاتھ بچے کی بغلوں کے نیچے تھے ماں اپنی نرم نرم انگلیوں سے بغلوں کے نیچے گد گدی کرتی تو بچہ قہقے لگاتا ہوا اوچھلنے لگتا.ان قہقوں کی وجہ سے سب کی نظریں ان پر مرکوز تھیں .ماں کبھی .کبھی بچے کو اچھال کر اُس کے پاؤں کی انگلیوں پر زبان پھیرتی تو بچہ قہقے لگاتا.ساتھ بیٹھی ایک محمر خاتون ماں بیٹے کی حرکات کو دیکھ کر یہ کہتے ہوئے منع کرتی دیکھیے بچہ ماشاءاللہ پہلے ہی بہت خوب صورت ہے اور ان قہقوں کی وجہ سے سب کی نظروں کا محور بنا ہوا ہے . اس نے بچے کو گود میں بٹھایا ٹانگوں اور پیٹھ پر اس انداز سے ہاتھ پھیرا جیسے تھکن اتار رہی ہو بچے کی پیشانی کو چوما انگلیوں سے بال سنوارے پھر بچے کو سینے سے لگا کر آنکھیں موند لی,تھوڑی دیر میں جرجری لیتے ہوئے آنکھیں کھول دی.
گاڑی طارق روڈ کے بعد والے سٹاپ پر معمول کے مطابق رُکی سٹاپ پر دو گروپس کے مابین تصادم چل رہا تھا بات کچھ اور بڑھی تو نوبت گولیوں تک پہنچ گئی ,ڈرائیور نے گاڑی چلا دی لیکن شاید دیر ہو چکی تھی یا وہ ایک فٹ کا فاصلہ طے ہو چکا تھا کہ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ماں کی آغوش میں پناہ لیے ہوئے بچے کی کھوپڑی میں پیوست ہو گئ.

گولیاں چلنے کی وجہ سے گاڑی کے اندر باہر شور و غوغا مچا ہوا تھا ہر کوئی سیٹوں کی اوٹ میں سر چھپا رہا تھا گولی کہاں سے آ کر کہاں جا رہی تھیں کسی کو کچھ پتہ نہ تھا.ماں کی رانوں پر بہتے لہو نے ماں کے دماغ کو جھنجوڑا تو اس نے بچے کی طرف دھیان دیا.لہو کھوپڑی سے فوارےکی مانند نکل رہا تھا ماں نے خون بند کرنے کی خاطر بچے کو تھوڑا سیدھا کر کے سینے کے ساتھ لگایا اور ہاتھ کی ہتھیلی زخم کے اوپر رکھی لیکن چند ہی ثانیے میں ماں کا سینہ خون سے تر ہو چکا تھا.خون گاڑی کے فرش پر ندی کی طرح بہہ رہا تھا بچے کی گردن لڑھک چکی تھی جسے دیکھتے ہی ماں نے میرا منا کہتے ہوئے ایک دلسوز چیخ ماری.چیخ کیا تھی صوراسرافیل تھی کہ جس کے کانوں میں پڑی وہی سن ہو گیا.
ڈرائیور گاڑی نو پارکنگ میں ہی پارک کر چکا تھا سب لوگوں کی نظریں ماں کے خون الودہ سینے کو دیکھ رہی تھیں معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ گولی ماں کے سینے میں لگی ہے یا منے کی کھوپڑی میں(حقیقت میں گولی سینے میں ہی لگی تھی) .وہی معمر خاتون منے کی ادھ کھلی آنکھیں بند کر رہی تھی اور ماں سے کہہ رہی تھی صبرکیجیئے اور خود کو سنمبھالیے.خدا کو منظور یہی تھا.سب لوگ ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ پُوچھ رہے ہوں کہ ماں کی گود سے بڑھ کر اور مضبوط حصار کون سا ہو سکتا ہے .
پشاور آرمی پبلک سکول کی خبر پڑھتے ہوئے یہ سوچ میرے ذہین میں ایک بار ضرور آئی کہ اگر آرمی پبلک سکولز محفوظ نہیں جہاں آنے جانے والے راستوں پر ملٹری پولیس کی چوکیاں گرد و نواح میں سول کپڑوں میں ملبوس خفیہ ادارے ہمہ وقت گشت کر رہے ہوتے ہیں جہاں ہر آنے جانے والے کی شناختی پریڈ ضروری سمجھی جاتی ہے.انہی حفاظتی تدبیرات کی وجہ سے ہائی لیول کے سویلین بھی اپنے بچے ایسے سکولوں میں داخل کراتے ہیں جو آرمی کی زیرنگرانی چل رہے ہوتے ہیں .کل کی یہ دلسوز خبر انتیس سال پرانے منے کی یاد یہ کہہ کر دلا گئی کہہ ہر حفاظتی تدبیر حصار نہیں ہو سکتی.
 
Top