حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت

باذوق

محفلین
اقتباسات از مضمون :
حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت
مضمون نگار : سید سلیمان ندوی
رسالہ "معارف" ، ج:2 ، شمارہ:4

حسین بن منصور حلاج ایران میں پیدا ہوئے۔ ان کا دادا پارسی تھا۔ باپ مسلمان ہوا۔ آبائی وطن شہر بیضا ہے۔ حسین نے بصرہ اور کوفہ کے درمیان واقع علاقہ "واسط" میں نشو و نما پائی۔ اس کی آمد و رفت بغداد میں بھی ثابت ہے۔ سن ولادت معلوم نہیں۔ 310ھ میں بغداد میں قتل ہوا۔

تاریخ کی کتب اس امر پر متفق ہیں کہ حلاج ، نیرنگ ، شعبدہ بازی اور ہاتھوں کے کھیل میں بہت چالاک اور مشاق تھا۔ روپے برسا دیتا تھا ، طرح طرح کے میوے منگواتا ، ہوا میں اڑاتا اور اس کے علاوہ بھی کئی عجائبات دکھلاتا تھا۔
اس کے ایک ہمسفر کا بیان ہے کہ حسین اس کے ساتھ صرف اس غرض سے ہندوستان آیا تھا کہ یہاں کی مشہور شعبدہ بازیوں کی تعلیم حاصل کرے۔ چنانچہ اس نے میرے سامنے ایک عورت سے رسی پر چڑھ کر غائب ہو جانے کا فن سیکھا۔ راہ میں گڑھے کھود کر کہیں پانی ، کہیں میوہ ، کہیں کھانا پہلے سے چھپا دیتا۔ پھر اپنے ہمراہیوں کو لے کر اسی سمت میں سفر کرتا اور بوقتِ ضرورت کرامتوں کے تماشے دکھاتا۔

سید سلیمان ندوی نے ابن سعد قرطبی ، بغداد کے مشہور سیاح ابن موقل ، مورخ ابن ندیم ، ابو علی بن مسکویہ ، مسعودی ، علامہ ابن جوزی ، ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک شعبدہ باز اور گمراہ شخص تھا۔
چنانچہ ابن ندیم کے حوالے سے ، جو صرف ایک واسطہ سے روایت کرتا ہے ، لکھتے ہیں کہ :
(اردو ترجمہ)
حسین بن منصور حلاج ایک حیلہ گر اور شعبدہ باز آدمی تھا۔ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے صوفیوں کے طریقے اختیار کر لیے تھے۔ صوفیوں کی طرح باتیں کرتا اور علم کے جاننے کا دعویدار تھا ، حالانکہ وہ اس سے خالی تھا۔ البتہ علم کیمیا میں اسے کچھ مہارت ضرور تھی۔ جب اپنے مریدوں کے پاس ہوتا ، تو خدائی کا دعویٰ کرتا اور کہتا کہ : خدا مجھ میں حلول کر گیا ہے۔
اور جب سلاطین کے پاس جاتا تو کہتا میں شیعہ مذہب کا آدمی ہوں اور عوام سے کہتا کہ میں ایک صوفی ہوں۔
البتہ یہ بات سب سے کہتا کہ خدا نے مجھ میں حلول کیا ہے اور میں بالکل خدا ہی ہوں۔

پھر سید سلیمان ندوی ابن اثیر کی عبارت درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
(اردو ترجمہ)
حسین بن منصور کے قتل کا سبب یہ ہے کہ :
حلاج جب واپس بغداد آیا ، تو کسی نے وزیر حامد بن عباس کو اطلاع دی کہ حلاج کہتا ہے کہ میں نے بہت سے لوگوں کو زندہ کیا ہے اور میں مُردوں کو زندہ کر سکتا ہوں اور بہت سے جنات میرے تابع ہیں اور میں جو چاہوں میرے پاس لا کر حاضر کر دیتے ہیں۔ نیز یہ کہ بہت سے اہل کار میرے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ نصر حاجب سرکاری دفاتر کا نگران بھی میری طرف مائل ہو گیا ہے اور اس کے علاوہ کئی بڑے بڑے لوگ حلقہ بگوش ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر وزیر حامد بن عباس نے خلیفہ سے درخواست کی کہ حلاج کا معاملہ اس کے سپرد کر دیا جائے لیکن نصر حاجب آڑے آیا۔ جب وزیر نے اصرار کیا تو خلیفہ مقتدر باللہ نے منصور اور اس کے چیلوں کا معاملہ حامد بن عباس کے سپرد کر دیا۔

حامد بن عباس نے علماء سے اس کے قتل کا فتویٰ طلب کیا تو علماء اور فقہاء نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ثبوت کافی نہیں۔
پھر حامد نے علماء کے سامنے حلاج کی ایک کتاب پیش کی ، جس میں لکھا تھا کہ :
"اگر کوئی شخص حج نہ کر سکے تو ایک صاف ستھری کوٹھی کو لیپ پوت کر حج کے ارکان اس کے سامنے ادا کرے۔ پھر تین یتیموں کو بلوا کر انہیں عمدہ کھانا کھلائے ، عمدہ کپڑے پہنائے اور سات سات درہم ان کے حوالے کر دے ، تو اس کو حج کا ثواب مل جائے گا۔"
حامد بن عباس نے جب یہ فقرے قاضی القضاة کو سنائے تو اس نے حلاج سے پوچھا کہ : اس کا ماخذ کیا ہے؟
حلاج نے حسن بصری رحمة اللہ علیہ کی کتاب "الاخلاص ، کتاب السنة" کا حوالہ دیا۔
حلاج کی یہ کذب بیانی سن کر قاضی القضاة غضب ناک ہو گیا کیونکہ مذکورہ کتاب وہ پڑھ چکا تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔
بالاخر قاضی القضاة نے لکھ دیا کہ ایسے شخص کا خون حلال ہے۔
اس تحریر پر اور بھی کئی علماء نے دستخط کر دئے۔
چنانچہ حلاج ارتداد اور زندقہ کی سزا میں پہلے قتل کیا گیا ، پھر جلایا گیا اور اس کی راکھ کر دریا بُرد کر دیا گیا۔
اس کے مرنے کے بعد اس کے پیروؤں نے وہی بات مشہور کر دی جو ہر ناکام مدعی کے پیروکار کرتے ہیں ۔۔۔ یعنی : وہ مرا نہیں بلکہ زندہ ہے اور پھر لوٹ کر آئے گا۔
مگر افسوس کہ وہ آج تک واپس نہ آ سکا !!

مزید یہاں :
عقیدۂ حلول اور حسین بن منصور حلاج
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
*** علمِ تصوف ***
 

جیہ

لائبریرین
منصور ابن حلاج کی شخصیت بہت متنازعہ ہے، کوئی اسے ولی ، قطب ابدال ثابت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اسے گمراہ اور شیطان۔ اصل حقیقت اللہ ہی جانتا ہے مگر وہ جس مکتبہ فکر کا داعی تھا یعنی "وحدت الوجود" تو میں جہاں تک یہ سمجھ سکی ہوں اس وحدت الوجود کے عقیدے نے اسلامی تصؤف کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ابن عربی اور حلاج کا وحدت الوجود نو فلاطونیت ہی کا چربہ ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر سلیم چشتی کی کتاب"اسلامی تصؤف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش" کا مطالعہ بہتر رہے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ باذوق صاحب، شیئر کرنے کیلیئے۔

جیہ صاحبہ آپ نے صحیح کہا، مجھے واقعی حیرت ہوئی کہ پروفیسر یوسف سلیم جشتی صاحب وحدت الوجود کے خلاف تھے، کیونکہ وہ نہ صرف خود 'وجودی' تھے بلکہ بڑی شد و مد سے، نو فلاطونیت بلکہ اسے سے بھی قبل کے ہندو ویدانت کے فلسفے کو اور وحدت الوجود کو ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں۔

انکی کتاب 'تاریخ تصوف' اسی موضوع پر ہے، اور اس میں انہوں نے یونانی، نوفلاطونیت، ویدانت اور اسلامی تصوف کی تاریخ پر سیر حاصل بحث کی ہے بلکہ 'شرح دیوانِ غالب' اور اقبال کی سبھی کتب کی شروح میں بھی انہوں نے نہ صرف وحدت الوجود کی کھل کر حمایت کی ہے بلکہ ان دونوں شعرا کو بھی 'وجودی' ثابت کردیا ہے۔
 

جیہ

لائبریرین
شکریہ وارث صآحب، اچھی معلومات دی ہیں آپ نے۔
میں نے جس کتاب بلکہ کتابچے کا ذکر کیا ہے وہ در اصل پروفیسر صاحب کے کتاب "اسلامی تصوف" کا ایک باب ہے جسے علی حدہ شایع کیا گیا تھا، میں نے مکمل کتاب نہیں پڑھی اس وجہ سے پروفیسر صاحب کے خیالات لے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتی
 

باذوق

محفلین
پروفیسر سلیم چشتی کا مضمون "اسلامی تصؤف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش" مکمل تو نہیں پڑھا ہے میں نے لیکن اس کے خلاصہ سے واقف ہوں۔
یہ بالکل صحیح ہے کہ انہوں نے ہندو ویدانت کے فلسفے کو وحدت الوجود کے سلسلے کی اصل کڑی قرار دیا ہے۔ کبھی موقع ملے تو اس مضمون سے وہ اقتباس بھی شئر کروں گا۔
ویسے میرے لئے تو یہ شدید حیرت کی بات ہے کہ پروفیسر صاحب بڑی شد و مد کے ساتھ "وجودی" تھے اور انہوں نے وحدت الوجود کی کھل کر حمایت کی تھی۔ کوئی مضمون یا اقتباسِ مضمون اگر اس ضمن میں پیش کیا جائے تو مہربانی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی میں نے انکی کتاب "تاریخ تصوف"، شرح دیوانِ غالب اور اقبال کی تمام شروح کا ذکر کیا ہے اور یہ کتب میرے مطالعے میں رہی ہیں، چشتی صاحب خود بھی سلسلۂ چشتیہ سے بیعت تھے جو کہ برصغیر میں موجود تمام سلسلوں میں 'وحدت الوجود' کے شاید سب سے بڑی حامی ہیں، انشاءاللہ اقتباسات پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔
 

باذوق

محفلین
ذاتی طور پر اقبال کو میں توحید پسند شاعر مانتا ہوں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اقبالیات کے بعض ماہرین نے اقبال کے وحدت الوجودی ہونے کے دلائل دئے ہیں۔
خود محفل پر کسی جگہ محترم شاکر القادری صاحب نے غالباَ ایسا کچھ لکھا تھا کہ اقبال اپنی وفات تک تصوف اور وحدت الوجود کے قائل رہے۔ حالانکہ اقبال کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ : تصوف اسلام کی سرزمین پر اجنبی پودا ہے !
ویسے اقبال کوئی معصوم نہیں تھے کہ غلطی سے مبرا رہے ہوں۔ جب وہ مدح رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کرنے لگتے ہیں تو آپ کی نوک قلم پر یہ اشعار بھی آجاتے ہیں۔۔۔
وہ دانائے سبل مولائے کل فخر رُسل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی یاسین وہی طہٰ

یہاں (نگاہ عشق و مستی) سے مراد اگر تصوف اور اہل تصوف نہیں ہیں تو پھر اور کیا ہے؟؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
مزے کی بات یہ ہے کہ پروفیسر چشتی صاحب نے (جو کہ اقبال کہ نہ صرف دوست تھے بلکہ انکی شاعری کے مطالب خود اقبال سے مل کر سمجھتے تھے) وہی بات لکھی ہے جو کہ شاکر القادری صاحب کا حوالہ آپ نے دیا۔ چشتی صاحب نے تاریخ تصوف میں جا بجا اقبال کے کلام کے حوالے دیے ہیں۔

دراصل اقبال کی شاعری (یا زندگی) کو بھی تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، اولین بانگِ درا وغیرہ کا دور جب کہ اقبال تصوف اور وحدت الوجود کے حامی تھے، دوم انکا یورپ میں قیام اور اسرارِ خودی و رموزِ بے خودی کا زمانہ، اس دور میں وہ تصوف کے بالکل خلاف ہو گئے تھے بلکہ اسرارِ خودی میں انہوں نے مشہور صوفی شاعر خواجہ حافظ شیرازی پر بہت سخت تنقید کی تھی جس پر پورے ہندوستان میں علمی سطح پر ایک آگ بھڑک اٹھی تھی، خواجہ حسن نظامی چشتی اس تحریک کے روحِ رواں تھے اور اکبر الہ آبادی نے انکا ساتھ دیا تھا، اور اسکی تحریک سے مجبور ہو کر اقبال نے نہ صرف اسرارِ خودی سے اپنا دیباچہ اور تقریباً اٹھائیس اشعار جن میں حافظ پر بہت سخت تنقید تھی وہ نکال دیے تھے بلکہ تالیفِ قلب کیلیئے رموزِ بے خودی بھی تحریر فرمائی۔

آخری دور اقبال کا انکی وفات سے آٹھ دس سال پہلے کا گنا جاتا ہے جس میں اقبال نے اپنی شاہکار جاوید نامہ تخلیق کی اور کہا جاتا ہے کہ انکی پھر 'کایا پلٹ' ہو گئی تھی (یوسف سلیم چشتی صاحب کے الفاظ میں منصور حلاج کو کافر سمجھنے والا اقبال اپنے خطوط میں اسکی تعریف فرمانے لگے تھے، خطوط کے اقتباس بھی دیئے ہیں چشتی صاحب بحوالہ شرح جاوید نامہ)۔
 

جیہ

لائبریرین
اقبال اور وحدت الوجود پر عباس جلالپوری کی کتاب" اقبال کا علم کلام" کا مطالعہ مفید رہے گا
 
جی میں نے انکی کتاب "تاریخ تصوف"، شرح دیوانِ غالب اور اقبال کی تمام شروح کا ذکر کیا ہے اور یہ کتب میرے مطالعے میں رہی ہیں، چشتی صاحب خود بھی سلسلۂ چشتیہ سے بیعت تھے جو کہ برصغیر میں موجود تمام سلسلوں میں 'وحدت الوجود' کے شاید سب سے بڑی حامی ہیں، انشاءاللہ اقتباسات پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔

السلام علیکم محترم محمد وارث بھائی ،

جیسا کہ جیہ بہن نے کہا : اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش میں تو پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی آراء پڑھ کر نہیں لگا کہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔
اگر آپ وقت نکال کر کچھ علمی رہ نمائی فرمائیں تو ہم بھی استفادہ کر سکیں گے۔

اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کی ابتداء میں لکھتے ہیں :

لیکن اس میں شک نہیں کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف بھی راہ پا گیا اور یہ تصوف چوں کہ عجمی یا غیر اسلامی تھا ، اس لیے اس کے اجزائے ترکیبی اسلامی تصوف کی ضد تھے یعنی :
1۔ شرک ( حلول واتحاد و انسان پرستی و تجسم و تناسخ ارواح (
2۔ رہبانیت
3۔ تخریب دین
4۔ اباحت مطلقہ
5۔ نفاق ومداہنت
یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم سے لے کر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب تک ملت اسلامیہ کے تمام مجددین اور اولیائے ملت نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف علم جہاد بلند کیا ، اور مسلمانوں کو اس کے مفاسد سے آگاہ کر کے بلا خوف لومت لائم اپنا فرض منصبی انجام دیا ۔ صفحہ 13

اس اقتباس میں پہلے نمبر پر شرک کے ساتھ قوسین میں حلول و اتحاد کا بھی ذکر ہے ؟

امید ہے طفل مکتب سمجھ کر رہ نمائی فرمائیں گے ۔
 
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی شرح بالِ جبریل، ضربِ کلیم، ارمغانِ حجاز، جاوید نامہ میرے پاس رہی ہیں اور جہاں تک میرا مطالعہ ہے پروفیسر صاحب وحدت الوجود کے حامی تھے انکے نزدیک صاحبانِ وحدت الوجود کے دو گروہ ہیں اور دونوں مقبول ہیں :
1- وجودیہ عینیہ (شیخِ اکبر رحمہ اللہ اور انکے متبعین جو اکثریت رکھتے ہیں)۔
2- وجودیہ ورائیہ (مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اور انکے سلسلے نقشبندی مجددی کے بزرگان)۔
جہاں تک حسین احمد مدنی کا تعلق ہے تو وہ بھی وحدت الوجودی تھے۔ آپ تصورِ شیخ کے موضوع پر انکا مقالہ پڑھ لیجئے۔ یا پھر انکے بزرگوار جناب اشرف علی تھانوی کا مطالعہ کرلیجئے جنہوں نے باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے جس میں شیخِ اکبر محی الدین اپن عربی کا زبردست دفاع کیا گیا ہے۔
تعجب ہے کہ لوگ سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
رقابتِ علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلّاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا​
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم محترم محمد وارث بھائی ،

جیسا کہ جیہ بہن نے کہا : اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش میں تو پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی آراء پڑھ کر نہیں لگا کہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔
اگر آپ وقت نکال کر کچھ علمی رہ نمائی فرمائیں تو ہم بھی استفادہ کر سکیں گے۔

اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کی ابتداء میں لکھتے ہیں :

لیکن اس میں شک نہیں کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف بھی راہ پا گیا اور یہ تصوف چوں کہ عجمی یا غیر اسلامی تھا ، اس لیے اس کے اجزائے ترکیبی اسلامی تصوف کی ضد تھے یعنی :
1۔ شرک ( حلول واتحاد و انسان پرستی و تجسم و تناسخ ارواح (
2۔ رہبانیت
3۔ تخریب دین
4۔ اباحت مطلقہ
5۔ نفاق ومداہنت
یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم سے لے کر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب تک ملت اسلامیہ کے تمام مجددین اور اولیائے ملت نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف علم جہاد بلند کیا ، اور مسلمانوں کو اس کے مفاسد سے آگاہ کر کے بلا خوف لومت لائم اپنا فرض منصبی انجام دیا ۔ صفحہ 13

اس اقتباس میں پہلے نمبر پر شرک کے ساتھ قوسین میں حلول و اتحاد کا بھی ذکر ہے ؟

امید ہے طفل مکتب سمجھ کر رہ نمائی فرمائیں گے ۔

میرے خیال میں اسکا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ آپ پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کی کتاب 'تاریخِ تصوف' کا مطالعہ فرما لیں وگرنہ ظاہر ہے کہ ہم انکے متعلق قیاس آرائیاں ہی کرتے رہیں گے!
 
Top