حسنِ اخلاق کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

سیفی

محفلین
حسنِ اخلاق کے بارے نبی کریم صلی ا

سلام
منہاجین نے کہا تھا کہ حسنِ اخلاق کے بارے میں گوشہ نبوت سے کچھ احادیث پیش کی جائیں۔ اسی سلسلے میں پہلی پوسٹ کر رہا ہوں۔

بہت خوش قسمت تھیں وہ ہستیاں، جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ کو سنا، آپ کی صحبت اٹھائی، دین براہ راست آپ کی ذات گرامی سے پایا اور اس طرح ایمان کی بے پناہ قوت پائی۔ چنانچہ جب یہ ہستیاں آزمایش کے میدان میں اتریں تو اس شان سے میدان مارا کہ فرش پہ ہوتے ہوئے عرش کو چھو لیا اور دنیا ہی میں آسمان سے "رضی اللہ عنھم" (التوبہ 9:10) کی صداے دل پزیر سن لی۔

آج جب ہم قرآن مجید کی روشنی میں احادیث نبوی کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ حدیثوں کے لفظ لفظ سے علم نبوی کی روشنی پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی، ہم خود کو بارگاہ رسالت میں پاتے اور خوشبو ئے مصطفی محسوس کرتے ہیں۔

بدگمانی، بداعتمادی؛ حسد، کدورت اور عداوت ہم مسلمانوں میں عام ہو چکی ہے۔ یہ وہ منفی جذبے ہیں، جنھیں مہمیز دے کر شیطان، معاملہ جدال اور قتال تک پہنچا دیتا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کو، تین مرتبہ جنتی قرار دیا، جو (نفلی) عبادات کا تو غیر معمولی اہتمام نہیں کرتا تھا مگر کسی مسلمان کے لیے اپنے دل میں حسد، برائی اور میل نہیں رکھتا تھا۔


حسنِ اخلاق کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

"حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میرے بچے، اگر تم سے ہو سکے تو صبح و شام اس طرح گزارو کہ تمھارے دل میں کسی کی طرف سے کوئی میل اور کھوٹ نہ ہو، تو یہ ضرور کرو۔ پھر فرمایا: میرے بچے، یہ (دل صاف رکھنا) میری سنت ہے۔ جس نے میری سنت سے محبت رکھی (اور اس پر چلا) وہی میری محبت رکھتا ہے، اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"
(ترمذی شریف)


انسانی معاشرت میں بعض اوقات، اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں غفلت ہو جاتی ہے جس کی کوکھ سے پھر ناراضی جنم لیتی ہے۔ مگر اس ناراضی کو طول نہیں پکڑنا چاہیے۔ اس لیے کہ منفی رویے سے، منفی رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اس ناراضی سے رنجش، تعصب اور تکبر جیسے رویے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رویے دراصل خزاں کی ہوا ہے جو جب چلتی ہے تو معاشرت کا گلشن اجڑنے لگتا ہے۔ اس صورت حال میں ایک بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کو معاف کر دے۔ وہ تذلیل کا جواب تکریم سے، ستم کا بدلہ کرم سے اور ترک کلام کا صلہ دعاے سلام کی صورت میں دے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل کے ذریعے سے بتایا کہ ایک آدمی کو، جس کی حق تلفی کی گئی تھی، اللہ تعالی نے موتیوں سے مرصع، سونے کے شہر اور سونے کے محل دکھائے۔ اس آدمی نے پوچھا یہ کس نبی، کس صدیق اور کس شہید کے لیے ہیں؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو اس کی قیمت دے دے۔ وہ آدمی بولا کہ اس کی قیمت بھلا کون دے سکتا ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو دے سکتا ہے، اپنے حق تلفی کرنے والے بھائی کو معاف کرکے۔ وہ آمی بولا: میرے رب، میں نے اسے معاف کر دیا، تو اللہ تعالی نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اسے جنت میں لے جا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنے درمیان صلح صفائی رکھو۔

اسی سلسلے میں ایک اور حدیث بھی ہے:

"حضرت ابولاحوص الجشمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی آدمی کے ہاں جاؤں اور وہ نہ میری مہمان داری کرے اور نہ میری ضیافت، پھر وہ آدمی میرے پاس آئے، تو آپ فرمائیے کہ میں اس کی مہمان داری کروں یا اس سے بدلہ لوں؟ آپ نے فرمایا نہیں، تم اس کی مہمان داری کرو۔"
(ترمذی شریف)


ہم لوگ اپنے حقوق کا تو خوب خیال رکھتے ہیں مگر اپنے فرائض نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم دوسروں کے حقوق اور جذبات کے معاملے میں زیادہ حساس رہیں۔ اگر ہمارے کسی فعل سے کسی کی حق تلفی ہو جائے، کسی سے زیادتی ہو جائے یا کسی کا دل ٹوٹ جائے تو لازمی ہے کہ ہم فوراً توبہ کریں۔ ظلم کی تلافی کریں اور مظلوم سے معذرت طلب کریں۔ ورنہ قیامت کے روز، اس معاملے میں، مظلوم کی تلافی، ہماری نیکیاں اسے دے کر یا اس کے گناہ ہم پر لاد کر کی جائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:

"میری امت میں تو مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز ڈھیر ساری نمازیں، روزے اور زکوتیں لے کر آئے گا مگر ساتھ ہی اس حال میں آئےگا کہ کسی کو گالی دی، کسی پہ تہمت لگائی، کسی کا مال کھایا، کسی کا خون بہایا، کسی کو مارا۔ پس (ان مظالم کے قصاص میں) اس دعوے دار کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، یہاں تک کہ اگر حساب پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، تو ان (دعوے داروں) کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر وہ سر کے بل آگ میں ڈال دیا جائےگا۔"

"جس نے اپنے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہو۔ عزت کے معاملہ میں یا کسی بھی چیز کے بارے میں۔ وہ آج کے دن ہی اس سے معاف کرا لے، اس سے پہلے کہ اس کے پاس نہ دینار ہوں نہ درہم (کیونکہ اس دن) جتنا ظلم اس نے کیا، اتنی اس کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر لاد دی جائیں گی۔"

(بخاری و مسلم )


والسلام علیٰ منِ التبع الھدٰی

اس مضمون کا ماخذ
 

پردیسی

محفلین
السلام علیکم،
جذاک اللہ خیر
بہت اہم اور پیاری پوسٹ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے آمین
 

جاسمن

لائبریرین
جزاک اللہ۔ کام مشکل تو ہیں لیکن اگر کرنے لگیں تو دل کو اطمینان بہت ملتا ہے۔اور اللہ کی رضا تو ہے ہی سب سے بڑا انعام!
 
حسنِ اخلاق کے بارے نبی کریم صلی ا


حسنِ اخلاق کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

"حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
میرے بچے، اگر تم سے ہو سکے تو صبح و شام اس طرح گزارو کہ تمھارے دل میں کسی کی طرف سے کوئی میل اور کھوٹ نہ ہو، تو یہ ضرور کرو۔ پھر فرمایا: میرے بچے، یہ (دل صاف رکھنا) میری سنت ہے۔ جس نے میری سنت سے محبت رکھی (اور اس پر چلا) وہی میری محبت رکھتا ہے، اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"
(ترمذی شریف)

اس مضمون کا ماخذ
الحمدللہ اپنی سی کوشش تو پہلے سے ہے اس بات پر عمل کرنے کی - ،لیکن ان الفاظ سے میں یہ حدیث مبارک پہلی دفعہ پڑہنے کا شرف حاصل ہوا ہے اللہ آپ کو بہترین جزا دے
دشمنی اور نفرت ہے بس اسلام ،رسول اللہ اور دیگر برگزیدہ ہستیوں کے دشمنوں کے خلاف
 
Top