حدیث قدسی

فرید احمد

محفلین
یوں تو رسول کریم کی سب ہی احادیث جو صحیح سند سےثابت ہیں، اہم ہیں؛ لیکن’ حدیث قدسی ‘کا درجہ سن سب سےبڑھ کر ہے۔
حدیث کس کو کہتےہیں؟
(١) حضور کےقول( ارشادفرمائی ہوئی بات)
(٢) آپ کےفعل (کیا ہوا کام ، جس کی روداد ہم تک پہنچی ہو)
(٣)آپکی موجودگی میں کیےگئےکسی کا م پر آپ کا خاموشی اختیار کرنا،
یہ تمام چیزیں حدیث کہلاتی ہیں۔
حدیث قدسی :اللہ تعالی کا وہ ارشاد جو آپ اپنی زبان سے، اپنےالفاظ میں ارشاد فرمائے۔یعنی اس کےالفاظ آں حضرت کی زبان سےادا ہوتےہیں ؛ لیکن وہ معنی اور مفہوم اللہ تعالی کی جانب سےہوتاہے، اس اعتبار سےیہ بھی قرآن کی طرح وحی کا ایک حصہ ہی؛ مگر قرآن اور حدیث قدسی میں بوجوہ فرق ہے۔
قرآن پاک اور احادیث قدسیہ میں فرق(١) قرآن اللہ کا وہ کلام ہے، جس کو حضرت جبرئیل امین( علیہ السلام) اللہ کےحکم سےلوح محفوظ سےنبی کریم کےپاس لائےہیں؛ برخلاف حدیث قدسی کےکہ اس کےلیےجبرئیل امین کا واسطہ ضروری نہیں ہے، کھبی تو خواب کےذریقہ اس کا القاءہوتاہےاور کبھی الہام کےذریعہ اس کو نبی تک پہنچایا جاتا ہے۔
قرآن پاک کا انکار کرنےوالا کافر ہوتا ہےاور حدیث قدسی کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا ہے۔
قرآن پاک کو نماز میں تلاوت کیا جاتا ہے، بر خلاف حدیث قدسی کہ اس کو نماز میں تلاوت نہیں کیا جاسکتا۔
قرآن قیامت تک کےانسانوں کےلئےمعجزہ ہےاور حدیث قدسی اس طرح نہیں ہے۔
قرآن کےالفاظ بھی اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں اور حدیث قدسی کے الفاظ نبی کریم کےہوتےہیں۔
حدیث قدسی کی صحت کا درجہ وہ نہیں ہےجو قرآن کا ہی، کیونکہ قرآن مجید تواتر کےساتھ ہم تک پہونچا ہے۔
قرآن کےصرف معنی کو قرآن کہہ کر روایت نہیں کر سکتےہیں اور حدیث قدسی میں صرف معنی کو بھی روایت کر سکتےہیں۔
قرآن پورا کا پورا متواتر ہے، اسمیں خطا کا احتمال نہیں ہوسکتا اور حدیث قدسی کا معاملہ اس طرح نہیں ہے۔
 

اینجل

محفلین
آپ کی ساری باتیں درست ہیں۔ سوائے اس ایک بات کے۔
"قرآن پاک کا انکار کرنےوالا کافر ہوتا ہےاور حدیث قدسی کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا ہے۔
"
کیوں کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے، اس پر فتوٰی جاری ہو چکا ہے کہ حدیث کا منکر کافر ہے
۔ کیوں کہ میری اپنی ناقص رائے میں بھی حدیث کا منکر گویا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات کو غلط ثابت کرنے کے مترادف ہے۔
اور حدیث پھر قدسی ہو یا صحیح، مشہور ہو یا متواتر یا حسن۔۔۔ حدیث ہوتی ہے،اور اسکا انکار یقیناً کفر ہونا چاہیے۔۔ کیوں کہ رسول اکرم ﷺ کی باتوں کو غلط کہنے کی جراءت کوئی کافر ہی کر سکتا ہے۔ کسی مسلمان میں یہ جراءت ہر گز نہ ہو گی۔
اور اگر میری زبان سے کوئی بات غلط نکلے تو اسکے لیے اللہ پاک سے دل سے معافی کا طلب گار ہوں۔
اے پاک پروردِگار، آپ توبہ قبول کرنے والے ہیں، میری توبہ قبول فرما، آمین۔
 
Top